Episode35 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر35 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

اور اب یہ انسان یہ نادان انسان رب کی آغوش میں اپنا آپ سونپنے کے سوا اور کہیں راحت نہ پائے گا!ہم جب جب اللہ کے سامنے نہیں جھکتے ہم تب تب شیطان کے سامنے، اپنے نفس یا اپنی خواہش کے سامنے جھکتے ہیں! ایک سجدہء آزمائشِ ایمان وہ تھا جس کو ادا کرنے سے ابلیس نے منع کیا تھا، ایک سجدہء محبت وہ تھا جس کو کرنے کی توفیق اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی محبت کو دی تھی، اور ایک سجدہء عشق وہ تھا جسکو ادا کرنے کی توفیق حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ملی۔

عجب ہے واللہ نمازِ عشق 
ہر دھڑکن پر دل سر بسجود
جب انسان اختیار کے سراب میں وہ سب کر رہا ہوتا ہے جو وہ کرنا 'چاہتا' ہے تو اللہ سب دیکھ رہا ہوتا ہے، اپنے بندے کے پلٹ آنے کا صبر سے انتظار کرتے ہوئے، پھر چونکہ اللہ اپنے بندے سے بہت محبت کرتا ہے تو اللہ بندے کو اپنی ''چاہت'' دکھاتا ہے کہ بندے کو اپنی چاہ کی حقیقت ایک آہ کی صورت میں نظر آ جاتی ہے!
جہاں 'میں' ہوتی ہے وہاں سکوں نہیں ہوتا
جہاں سکون ہوتا ہے وہاں 'میں' نہیں ہوتی
'میں' اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتی
جو اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں
وہ اللہ سے کیسے 'راضی' ہو گی؟
جو اللہ سے راضی نہیں، اللہ اس سے راضی کیسے ہو گا؟
سو قصہ مختصر جہاں جتنی 'میں' ہو گی ویاں اللہ اتنا حجاب میں ہو گا
جہاں جتنی 'میں/انا' فنا ہو گی وہاں اللہ اتنا آشکار ہو گا!
اگر 'میں' کو وجہ بنا دیا جائے تو جھگڑا ہو جاتا ہے، کسی دوسرے سے تو بعد میں، سب سے پہلے جھگڑا اپنے آپ سے ہوتاہے، اور اگر 'میں' کو اللہ کے لیئے قربان کر دیا جائے، تو کسی اور کو تو سکون ملتا ہے ہے۔

(جاری ہے)

سب سے پہلا سکون ہمیں خود نصیب ہوتا ہے۔ صرف اسکے لیئے جھگڑنا، جسے قبر میں ساتھ لے جاوٴ گے، ورنہ 'میں' کے حصول کا جھگڑا قبروں میں پہنچا دیتا ہے، مگر سکون نہیں دیتا۔ اور یہ 'میں' کا سراب مرتے وقت تو یقینی طور پر نکل جائے گا، اصل زندگی تو تب جی جاتی ہے جب زندہ رہتے ہوئے اس 'میں' کو اللہ کے لیئے مار دیا جائے اللہ پاک ہمیں توفیق دے کہ ہم اللہ کے لیئے انا کو مار کر محبت کے لیئے جی، مر، اٹھ سکیں اھدناالصراط المستقیم اللھم آمین!
انا قابلِ نفرت نہیں قابلِ رحم ہوتی ہے، اور اس پر اور خود پر رحم کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے اللہ کے لیئے جھکا دیا جائے، کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
میرے نزدیک 'میں' انا ہے! اور 'خودی' عزت نفس ہے۔ 'میں' آپکو اللہ تک لے کر جانے میں حجاب ایک رکاوٹ ہوتی ہے، اس پر پاوٴں رکھ کر اللہ تک جایا جاتا ہے. جبکہ عزت نفس کا احساس اللّہ سے جڑا ہے، یہ بہت بڑی عطا ہے الحمدللہ!! پہلے 'میں' کو نفی کیا جاتا ہے۔ کہہ لیجیے ہر باطل الہ کو لا کیا جاتا ہے! پھر اللہ نظر آتا ہے! دراصل لا الہ الا اللہ میں خودی ہے، اور باطل الہ میں 'میں'!
محبت کی اپنی عزت نفس ہوتی ہے، جو محبت کو بے حد عزیز ہوتی ہے۔
یہاں میں پامال کر کے خودی کا کندن عطا ہوتا ہے، خودی وہ نگاہ ہے جو اللہ کی مدد سے جس کو عطا ہو جائے وہ الحمدللہ، قلبِ بینا کی مدد سے حدِ نگاہ سے پرے دیکھنے کی صلاحیّت سے مالامال ہو جاتا ہے. وہ زمیں پر اپنے نائب ہونے کی حقیقت سے آشنا ہو جاتا ہے. اسے احساس ہو جاتا ہے وہ حق کا امین ہے، اسے احساس ہو جاتا ہے وہ جوابدہ ہے! خودی کا احساس خدا کا احساس ہے! 'میں' اسکو خود ترسی گلے شکووں، خود ساختہ اذیتوں میں مقید رکھتی ہے. خودی اسکو اپنی 'میں' سے آزاد کر کے، اللہ کی کائنات، اس کے دل کو اس پر عیاں کر دیتی ہے الحمد للہ!! خودی مومن کا زیور ہے! اللہ پاک ہم سب کوہماری حقیقت، احساس خودی عطا فرمائیں اللھم آمین!
 نفس برائی پر اکساتا ضرور ہے مگر بذات خود برا نہیں ہوتا، یہ تو اللہ پاک کی عطا ہوتا ہے اور ہر عطا آزمائش ہوتی ہے . ہماری منزل و فلاح اللہ کی معرفت میں ہے،اس میں ہمارا نفس سب سے بڑی رکاوٹ بھی بن سکتا ہے. اور اگر ہم اللہ کے فضل سے نفس کی حقیقت کو سمجھ لیں تو نفس سب سے بڑی سیڑھی بھی بن سکتا ہے. منزل کی جستجو بھی سب کو دی گئی ہے اور سیڑھی بھی سب کو دی گئی ہے۔
کہہ لیجیے نفس ایک سیڑھی ہے کہ الحمدللہ، 'اس پر چڑھتے' ہوئے ہم منزل پر پہنچ سکتے ہیں اور استغفراللہ، اس سے کوئی کوتاہی ہمیں زمین بوس بھی کر سکتی ہے۔ اللہ پاک ہمیں توفیق دیں کہ ہم اللہ کے لیئے مردہ ہو کر اللہ کے لیئے زندہ ہوں اور پھر اپنے نفس کی حفاظت کریں اللھم آمین!
جہاں ایمان ہوتا ہے وہاں حجت نہیں ہوتی
جہاں اللہ ہوتا ہے وہاں لیکن نہیں ہوتا
توحید و عشق ہے بیشک ہر شرک سے مبرّا 
یہاں وہ ایک ہوتا ہے یہاں دوجا نہیں ہوتا
عطا ہو جن کوایک بار''کچھ نہ ہونے'' کی عطا
وہ اسکے ہوتے ہیں، جسکے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا
اللہ کے ہیں وہ! 'رضا بہ قضا' ہے رضا جن کی 
جواپنی مرضی کے ہوتے ہیں، اللہ اُن کا نہیں ہوتا!
سچ کہوں تو بے شک حاصل کی ہوس لوگوں کو قبر میں لے پہنچی، حاصل کی ہوس، لاحاصل کا ملال اتنا ہی بے جا ہے،جتنا زندگی کی نعمت میسر ہوتے ہوئے مر مر کر جینا، جب جو لکھا ہے وہ تب مل کر رہے گا، جو نہ ملے اس میں رب کی طرف سے خیر ہے، جو وہ دے رہا ہے وہ اچھا ہے، جو اس نے لے لیا وہ اچھا کیا، جو اس نے نہیں دیا وہ بہت بہتر کیا، تو اس کی رضا سے کیسی لڑائی؟ اور لڑنا ہی چاہتے ہو تو لڑ لو، حیرت سی حیرت ہے لوگ اللہ سے خواہشیں مانگتے ہیں، نہ جانتے ہوئے وہ خواہش انکے لئے کیا سموئے ہے، ہاں سب پردے ہیں، اس سے مانگنا بھی اس سے رجوع کا بہانہ ہے، مگر سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اسے اس سے مانگو، تو اسکی رضا اس پر چھوڑ دو، وہ دے بہتر وہ جب دے بہتر، وہ دے کے لے، بہتر، وہ گر نہ دے وہ بھی بہتر، دراصل تو اس کا نہ دینا بھی دینا ہی ہے۔
جب انسان اللہ سے راضی ہو جائے تب ہی تو اللہ اسے اپنی رضا دے گا.. 
پس جو ہوا، اچھا ہو 
جو نہیں ہوا وہ بھی اچھا ہوا
جو ہو رہا ہے وہ بھی اچھا ہے
جو نہیں ہو گا وہ اچھا ہو گا
خالی ہاتھ آئے، خالی یاتھ جانا ہے
خواہش کا گورکھ دھندہ اسی جہاں کا فسانہ ہے
اسی پردے میں خالقِ کائنات نے اپنی مخلوق کو آزمانا ہے
گر سمجھو تو ہر ہر پردہ فقط اسکی رضا کا بہانہ ہے! 
اور ہر ہر پردے میں اس کی رضا کو ہی تو پانا ہے!
حقارت بھی باطل انا کا پردہ ہے، اللہ کے بندوں کی نگاہ میں مخلوق کے لیئے حقارت نہیں ہوتی، یہ شیطان کا خاصہ ہے، شیطان نے آدم علیہ السلام کی جب بھی تحقیر کی تھی جب وہ فقط ایک خاکی جسم تھے، اللہ نے سب اعتراضات کے باوجود انسان کی تکریم کی اسکو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا، اپنے محسن کے احسان کو نہ ماننا احسان فراموشی نہیں تو اور کیا ہے، فبای اٰلآء ِربکما تکذبان۔
( اور یہاں ہم ہیں کہ اللہ کو یاد بھی اللہ پر احسان سمجھ کر کرتے ہیں استغفرللہ۔ آج جہاں جہاں انسان کی تحقیر ہے اسکے پیچھے نگاہِ شیطانی ہے اور جہاں جہاں انسان کی تکریم ہے اسکے پیچھے نگاہِ رحمانی ہے۔ جو خالق کی، اللہ کی عزت کرے وہ مخلوق کو حقارت سے کیسے دیکھ سکتا ہے۔ جو یہ جانتا اور مانتا ہے کہ نیکی کی توفیق اللہ کی جانب سے ہے اور گناہ سے بچنے کی توفیق بھی اللہ ہی کی جانب سے ہے، وہ شخص کبھی نیکی کے غرور میں مبتلا نہیں ہو گا، اور عاجزی کی یہ سطح فقط محبت نوازتی ہے جہاں گناہ و ثواب انسان کا خاصہ نہیں بنتے بلکہ عاجزی اسکی نگاہ میں عفو و درگزر عطا کرواتی ہے یہ الگ بات ہے عاجزی بھی عطا ہے۔
جسے اللہ اسکو عطا کرتا ہے جسکے دل میں اللہ اخلاص دیکھتا ہے ،اھدناالصراط المستقیم اللھم آمین!
یہ جو تیرا میرا ہے معاملہ، ہے سود و زیاں سے ماورا
مجھے چاہیے بس تیری رضا، جو تیری رضا، وہ قبول ہے!
ہے تو ہی مجھ میں بسا ہوا، میں کچھ بھی نہیں تیرے سوا
گر گلستاں ملے تیرے بنا، وہ ہے کانٹا،وہ ببول ہے!
دعا میں ہے بس تیری رضا، تیری خوشی اور تیری وفا
کیا خوب ہے محبت کی عطا، کیا شان ہے،کیا نزول ہے
نہ یہ خار نہ یہ پھول سا، نہ حاصل نہ یہ وصول سا
یہ خود سپردگی و قرارِ جاں، قصہ یہ ماورائے حصول ہے
ہے اعتکاف خیالِ یار کا، عشق مکمل دو جہاں کا
چشمہ پھوٹا اسکا جس ذات سے ، وہ اللہ اس کا رسولﷺ ہے
صلی اللہ علیہ و آلہ وازواجہ و اصحابہ وبارک وسلم!
جب اللہ پاک نے پہلی بار مجھے یہ آیت پڑھوائی اور اسکے معنوں پر غور کروایا.. کہ ''اولیا اللہ کو خوف اور حزن و غم/ملال نہیں ہوتا '' .. تو میں حیران ہوئی تھی یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا وہ انسان نہیں ہوتے کیا انکے سینوں میں دل نہیں ہوتے؟ کیا انکی خواہشیں نہیں ہوتیں، ان میں بھی تو اللہ نے نفس رکھا وہ فرشتے تو نہیں، تو پھر ایسا کیسے؟بیشک اللہ کی عطا ہے.. مگر.. اور پھر میں نے ہمیشہ کی طرح یہ سوال اپنے اللہ کے سپرد کر دیا الحمدللہ.. اور میرے اللہ پر بھروسہ کر کے میں کبھی ناکام نہیں رہی الحمدللہ رب العالمین ۔
سو الحمدللہ آج مجھے لگتا ہے کہ خوف اور ملال وہاں ہوتا ہے جہاں انا ہوتی ہے، جہاں 'نفس' یا 'میں' کی خواہش، اللہ کی یعنی حقیقی دوست، محسن کی رضا سے بڑھ جاتی ہے۔ خواہش آزمائش ہے، نفس کی خواہش وہی آزمائش ہے جو ظلم یا رحم کے پردے کو آر یا پار کر دیتی ہے، محبت ''تم'' کی رضا میں مدغم ''میں'' کی خواہش سے آزاد ہوتی ہے، محبت فقط رحم کرتی ہے، رضائے یار میں راضی رہتی ہے سو اگر دوست کی رضا کے سامنے دل و روح سر بسجود ہے تو نفس کی خواہش مغلوب ہو جائے گی، اللہ کی رضا غالب آ جائے گی، الحمدللہ بندہ خود پر مخلوق پر رحم کی جانب آ جائے گا، اگر خواہش غالب آ جائے تو نفس خود پر مخلوق پر ظلم کی جانب لے جائے گا۔
اللہ سے محبت اس بات کی غمازی ہے کہ انسان فقط اللہ سے منسلک احساسات میں رہے، وہ محبت جو اللہ کی ہو وہ احساس جو اللہ کا ہو وہ معاملہ جو اللہ سے منسلک ہو خوف فقط اسکا ہو، فکر فقط اس کی، اسکے لیئے ہو، جیسے اللہ کی ناراضگی کے احساس کی فکر اللہ کی محبت میں ہوتی ہے۔اللہ کے نیک بندوں کو دنیاوی معاملات میں کوئی غم کوئی خوف کوئی حزن کوئی ملال نہیں ہو گا۔
چونکہ ان میں 'میں' ہی نہیں ہوتی سو وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں کہ ہم اللہ کے ہیں سب اللہ کا ہے۔ سو وہ کسی بھی احساسِ ملکیت و جھوٹی خدائی کے سراب میں نہیں ہوتے۔
اب ہر خواہش، ہر خیال تمام شد
ہجر اپنی جگہ مگر ملال تمام شد
فقیر سے آ پڑے ہیں درِجاناناں پر
ہم میں انا کا اب جاہ و جلال تمام شد
لیجیے! عشق نے بنا ڈالی اپنی ہی شریعت
رضائے محبوب لاحق، فکرِجزا سزا تمام شد
حیرانی ہے دنیا کے آئینے میں دیکھیے
تصاویر ہیں بہت، اشکال تمام شد
مصروفیت؟ مصلحت؟ یا پھر نیا کوئی بہانہ؟ 
جواب تو بہت ہیں … پر، سوال تمام شد
تپتاجھلستا صحرا، اور تنہا جاں بلب مسافر
 والی واحد عرش والا، باقی ہر ڈھال تمام شد! 
اللہ کے دوست جانتے اور مانتے ہیں کہ اللہ ان کے لیئے ہر معاملے میں خیر ہی چاہتا ہے، وہ مانتے ہیں کہ اللہ کی مصلحت اسکی محبت ہے، وہ عطا ہر تو اللہ کا شکر کرتے ہی ہیں مگر قضاء پر بھی کسی شکوے رنج و ملال سے پرے دل سے الحمدللہ کہتے وہ اللہ کی رضا میں خوشی سے سربسجود رہتے ہیں۔

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham