Episode37 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر37 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

خود سپردگی کے احساس سے مزین، رضا کی سرشاری میں کیف میں بھیگا مشام جاں سا معطر احساس لیئے احساس۔محبت میں صبر وہ بھٹی ہے جس میں جب انسان کندن بنتا ہے تو جِلا پاتا ہے، اور اللہ کے رب ہونے کو راضی ہونا اسی بھٹی میں جل کر جامِ صبر پی کر ہی کندن بنا جاتا ہے، شکر وہ کیفیت ہے جو صرف بظاہر نعمتوں پر ہی نہیں اللہ کی آزمائشوں پر محسوس کیا جائے کہ اللہ میں راضی میں تیری آزمائش سے بھی راضی، میں نے تجھ کو خود پر اپنی ہر چاہ اپنی ہر آہ اپنے ہر فیصلے پر غالب کیا۔
لے میرے پروردگار، الحمدللہ تیری ہی عطائے محبت سے میں نے اپنی انا کا ہر کس پل کھول کر... اپنی ہی ہر گرہ توڑ کر اپنے ہاتھ پاوٴں توڑ اپنا آپ تجھے حوالے کیا، اب جو تو دکھانا چاہے وہ دیکھوں گی، جہاں تو چلانا چاہے وہ میرا راستہ، میں تجھ سے تیری ہر ادا سے راضی ہوں اللہ۔

(جاری ہے)

مجھے وہ ادا عطا کر دے کہ میں تجھے بھاجاوٴں، میں تجھ سے دعا بھی اس لیئے مانگتی ہوں کہ یہ تیری رضا ہے یہ تجھے پسند ہے ورنہ میرا مقصد تیرے کسی فیصلے کے آڑے آنا نہیں، تو جو کر رہا ہے وہ سب سے بہترین ہے، تو نے جو کیا وہی خیر ہے، تو خیر ہے ہمیشہ خیر ہی کرتا ہے، یہ تو میں نادان اپنی سمجھ کو جب جب بیچ میں لے آتی ہوں تب تب خواری کا راستہ چنتی ہوں اور حیران ہوں تیری محبت پر کہ تو پھر جیسے انگلی تھامے واپس مجھے راہِ محبت پر ڈال دیتا ہے، یہ تیرا مجھ ناچیز پر کرم ہی تو ہے، جہاں دنیا کیسی ہی نگاہ سے دیکھے وہاں مجھے تیرا کرم دکھتا ہے جو میں کسی کو نہیں دکھا سکتی وہ تو مجھے دکھاتا ہے، یہ تیرا ہی کرم ہے مالک...! جہاں دنیا نے چھوڑ دیا وہاں تو نے آ کر بڑھ کر تھام لیا، تو مالک یہ تیری رضا تھی کہ دنیا چھوڑ دے کہ دنیا نہ چھوڑتی تو تو کیسے جلوہ گر ہوتا، تو یہ رضا بھی تیری رضا سموئے ہے تو مخلوق سے کیسا شکوہ مالک۔

تو نے ہم پر پر خیر صبر و شکر و حمد کی وہ نگاہ کھول دی نہیں تو یہ دنیا دھوکے کی نگاہ مجھے میری 'میں' سے نکلنے ہی نہ دیتی، اور میں تو یونہی مر جاتی۔ یہ تیرا احسان ہے یا رب العالمین الحمدللہ رب العالمین!
راضی ہوں میں اسکی ذات و صفات، اسکی بے نیازی، اسکی محبت اسکی ہر ادا سے راضی ہوں، وہ ویسا ہی ہے جیسا میں چاہتی ہوں، سب سے زیادہ محبت کرنے والا، بن کہے بھی خیال رکھنے والا ہے، میں سو بھی جاوٴں تو وہ میرا نگہبان، میرا محافظ مجھے سننے سمجھنے جاننے والا،نہیں تھکتا نہیں سوتا، یہ تو کچھ بھی بیان نہیں اس معزز کی شان و خیر میں۔
وہ کیسا ہے یہ تو میرے ادراک سے بھی ماورا ہے، مگر وہ جیسا ہے اس جیسا کوئی اور کہیں نہیں، یہ اسی کی عطا ہے کہ اس نے زندگی کی یہ سانسیں دیں، پھر یہ توفیق دی کہ میں اسکو یاد، اسکا شکر کر سکوں، وہ جتنا مجھے اپنا آپ دکھانا چاہے اتنا اسکو دیکھ سکوں میں اس سے مزید عافیت مانگوں تو وہ احساس دلاتا ہے کتنی عافیت عطا کر رکھی ہے اس نے مجھے، میں اسکا شکر ادا کروں تو احساس دیتا ہے کہ کتنا دے رکھا ہے اس نے مجھے، میں اسکی حمد کروں تو ہر ہر رنگ میں نہاں اپنا جلوہ اپنی محبت اپنی عطا دکھاتا ہے، کیا ہی کوئی محبوب ایسا ہو گا، کہ بس جس کو ذرا یاد کرو، اور وہ اپنی محبت لیئے اپنا جلوہ لیئے آن موجود ہو، وہ ایسا محبوب ہے کہ بس ایک قدم آگے آوٴ وہ دس قدم آ گے آکر اپنے ساتھ کا یقین دکھاتا ہے، آپ صرف چل کر جاوٴ وہ بھاگ کر گلے لگاتا ہے، اس سے بڑھ کر تو میں نے کسی کو صابر و باوفا نہیں دیکھا، اسے پسند ہے بار بار بندے کا اقرارِ محبت ، میں راضی ہوں اللہ.. تجھ سے تیرے رب ہونے سے... تیرے ہر فیصلے سے، رب کے فیصلوں سے نبھاہ رب سے وفا ہے۔
تو جودے رہا ہے اچھا دے رہا ہے جو نہیں دے رہا بہت اچھا ہے کہ نہیں دے رہا، جو رب جب دے وہ تب اچھا، سعی بھی اسی کے حکم کا فیصلہ ہو ،رب کی حکمت میں وہ خیر مخفی ہے جو محبت والے اس ادا سے مانتے ہیں کہ رب کو پیار آ جاتا ہے، جو رب سے راضی ہے وہ خود سے راضی ہے جو خود سے ناراض رہے وہ رب سے ناراض۔ اللہ نے بندے کو جس محبت سے سینچا جس مان سے تخلیق کیا، اتنے اعتراض اتنے سوالات سننے کے بعد جس محبت سے بنایا بندے کو بس ذرا حقیقتاً احساس ہو جاے تو بندہ رب کے مان کو سرخرو کرنے کے لیئے اپنی جان دینے سے بھی گریز نہ کرے۔
اگر ہم اللہ کے فیصلوں سے راضی نہیں تو ہم اللہ سے کیسے راضی ہوں گے، اور اگر ہم اللہ سے راضی نہیں تو ہم اللہ کی رضاکیسے مانگتے ہیں؟
۴۔اسلا م کے دین ہونے پرراضی ہوں!
اسلام ... محبت کا مذہب،سلامتی کا مذہب، اخوت بھائی چارے کا مذہب، رواداری، اخلاص بردباری کا مذہب، توازن کا ، نظام کا مذہب ہے، جو اسلام میں داخل ہو گیا وہ سلامتی میں داخل ہو گیا، جو اسلام کو سمجھ گیا وہ رضا کو سمجھ گیا، وہ میں سے آزاد ہو گیا، یہ اسلام اس بنیاد پر قائم ہے کہ اس میں کسی عربی کو کسی عجمی پر کسی عجمی کو کسی عربی پرفوقیت حاصل نہیں ، الا تقوی کے۔
یہ وہ مذہب ہے جس کی اساس اس محبت بھرے اظہار میں ہے کہ جو تم اپنے لیئے پسند کرو وہی تم اپنے بھائی کے لیئے پسند کرو۔ اسلام سے راضی ہونا، اسلام کے اصول اسکے ستون اسکے ارکان سے راضی ہونا ہے، اسکی شریعت کو اپنانا اسکے فیصلوں سے راضی ہونا ہے، اسلام سے راضی ہونا ایک طرح اسلام عطا کرنے والے،اسلام لانے والے، اسلام پھیلانے والے سے راضی ہونا ہے! اسلام ایک ایسا لباس ہے ایک ایسا اوڑھنا بچھونا ہے کہ اگر کوئی واقعی خلوص نیت سے اسکو اوڑھنا بچھونا کر لے تو اللہ پاک اس کو سلامتی کے اس احاطے میں داخل کر لیتے ہیں جہاں وہ باعث سلامتی ہو جاتا ہے اپنے لیئے بھی اور دوسروں کے لیئے بھی!
۵۔
اورمیں راضی ہوں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وازواجہ واصحابہ وبارک وسلم کے نبی و رسول ہونے پر۔
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وازواجہ واصحابہ وبارک وسلم
وہ محبت، وفا، کرم ہی کرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ہم عاصی ہیں وہ ہمارا بھرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تحویلِ قبلہ ہوا درونِ حرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
وہ رحم، رحیم شفیع الامم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مسیحا وہ ہر زخم پر مرہم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اللہ ان سے راضی، اللہ ان پر نرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
ایک بشر، امی یتیم کو اللہ پاک نے بقدر ظرف رحمت للعالمین ہونے کا خوبصورت تحفہ عطا فرمایا۔
اُن کا ذکر بلند کر دیا، ان پر درود کو نماز کا لازم حصہ قرار دیا، دعا کے اول آخر ان پر درود کو لازم کر دیا، اُن کو اپنا محبوب چنا، نبی آخر الزماں ، شریعت کا تاج انکے سر ہے، نبوت کے بادشاہ وہ ہیں، جس طرح اللہ پاک تمام جہانوں کے پروردگا ر ہیں، نبی کریم ﷺ تمام عالمین کے لئے رحمت ہیں، نبی کریم ﷺ سے راضی ہونا کیا ہے؟ نبی کریم ﷺ سے راضی ہونا ان کے آخری نبی ہونے سے راضی ہونا ہے یہ ہمارے ایمان کا لازم حصہ ہے، انکے فیصلوں، انکی لائی گئی شریعت سے رضامندی ہے، جو وہ کہہ دیں وہ تھام لیا جاے جو وہ کہہ دیں چھوڑ دیں وہ چھوڑ دینا ان سے راضی ہونا ہے، اللہ پاک نے قرآن میں واضح فرما دیا کہ اللہ کے قرب کا وسیلہ تلاش کرو، وہ وسیلہ نبی کریم ﷺ کا راستہ اختیار کرنا ہے،ان کی پاک محبت کو پانا اسکو تھامنا اسے اختیار کرنا ہے۔
عجب لفظ ہے ناں اختیار... ہاں! محبت شعور سے متعلق بھی ہے، طبعی محبت تو بلا شبہ محبت ہے مگر جب الحمدللہ انسان اسکو شعور کے دائرے میں لے آتا ہے تو جیسے اسکو سکون مل جاتا ہے! 
نبی کریم ﷺ سے راضی ہونا ان کے پیغام سے راضی ہونا اس پر عمل کرنا ہے، مگر کبھی کبھی لگتا ہے ہم نبی کریم ﷺکے پیغام کو بھلا کر، محض ان کی شخصیت کی بت پرستی میں الجھ گئے، ہم پیغامِ محمد ﷺاسوہ حسنہ پر عمل تو دور اسکی خاک بھی نہ پا سکے... سچ میں ہم لوگ بھی عجب ہیں ناموسِ رسالتﷺ پر ہر شے کو جلا ڈالیں گے، مگر نبی کریم ﷺکی امت کو جلا کر بھی مار دیا جائے، انہیں گھر سے بے گھر کر دیا جاے، زندہ بچوں کو بم مار مار کر ہلاک پر ہلاک کیا جاتا رہے، تب بھی ہماری نظر فقط یو این نیشنز جیسے اداروں کی جانب ٹکی رہتی ہے، انکی بے بسی کو کوستی رہتی ہے، اور ہاں اپنی امت کی تنزلی کے شکوے کرتی رہتی ہے۔
نبی کریم ﷺاپنے اوپر کئی دنوں تک کوڑا کرکٹ اچھالنے والی بوڑھی عورت کی تیمارداری تک نبھا گئے اور اللہ کے اسلام کے دشمنوں کا سر مشعل کی روشنی میں بھی قلم کیا۔ سو انہوں نے کبھی اپنی ذات کے لیئے انتقام نہیں لیا، ہاں مگر جب اللہ کی حدود کی پامالی ہوتی تو وہ اللہ کے لیئے ضرور اس پرلائحہ عمل اختیار کرتے لیتے۔ ہم بس اُن کے نام کے متوالے ہیں اُن کے پیغام کے نہیں، جانے محبت کے کیسے دعوے ہیں۔
جگر گوشہَ رسولﷺ نیاسلام کی خاطر جامِ شہادت نوش کی صرف اس لیئے کہ حق کو حق اور باطل کو باطل کر کے دکھایا جائے،مگر ہم نے آپﷺ کی قربانیاں آپ کے پیاروں کی قربانیاں صرف اپنی انا اور نفس کے جال میں رائیگاں کیں۔سچ کہوں تومجھے اس جملے پر حیرت ہوتی ہے، ہم بے حس ہو گئے، ہم کبھی حساس تھے ہی نہیں۔ ہمیں احساس پیدا کرنا ہے۔ ہمیں اب لفاظی سے نکل آنا چاہیے۔
کافی آئینے نظر آ گئے ہیں ہمیں مگرجانے کیوں ہم خود کو اپنی حقیقت کو دیکھنا اور سدھارنا ہی نہیں چاہتے!
تیری عظمت کے آگے ہے دل سرنگوں میرا
تیرا درد مناوٴں، درد کی ہمّت نہیں اتنی
شہادت تھی معراجِ جگر گوشہء رسول 
لفظ اس پر لکھ پاوٴں، جرّات نہیں اتنی 
دکھ ہے فقط اتنا، سیکھا کچھ نہیں تجھ سے
تیرے اسوہ پہ چل پاوٴں کیوں قوت نہیں اتنی
سر سجدے میں قلم، نیزے پر پڑھا کلمہ 
دل ہے میرا مردہ، کیوں رغبت نہیں اتنی
کہنے کو امتی، پر نہ سوز ہے نہ عشق
مانگوں سبھی کچھ میں، مگر خدمت نہیں اتنی 
شکوے لئے بھاگیں بارگاہ الہی میں
پیکر ہوں صبر وفا کا ہم، محبت نہیں اتنی
ہر بار عہد یہ ہو، چلیں گے تیرے نقش پا،پر ہم
ان قدموں میں لیکن کیوں صلاحیت نہیں اتنی
دیکھ اخوتِ مسلماں سر شرم سے جھکتا ہے میرا 
آج نفس ہے درپیش، خدا کو فوقیت نہیں اتنی
مہر بلب، ہیں شامل ظالموں میں ہم
بہانہ خوب بناتے ہیں حیثیت نہیں اتنی 
علم کون کرے بلند، پیے جامِ شہادت کون؟ 
سہتی ہے دکھ کیوں عافیہ اب حیرت نہیں اتنی!
دعوے ہیں محبت کے بڑا ہم حق جتاتے ہیں
بنیں اُن کے عمل کا پیکر؟ حقیقت نہیں اتنی 
اندر حسین روتے ہیں، وقتِ نماز یزید سوتا ہے 
دیں نفس کو شکست، ہوتی زحمت نہیں اتنی
دس دن افسوس، بیٹھ شیعہ سنی کرتے ہیں 
ہو،انا ان کے عشق میں فنا، رقّت نہیں اتنی
وہی تھے جو دے گئے جان اسلام کے نام
ضمیر کوڑیوں میں بکتا ہے قیمت نہیں اتنی
ہم نے آہیں سمیٹی ہیں ہم نے ظلم ڈھائے ہیں 
بن گئے ہیں فرعون، طلبِ مغفرت نہیں اتنی
ہر غلطی پر تراشا ہے ہم نے الزام اِک نیا
کریں خود سے آنکھیں چار، سکت نہیں اتنی
اخلاص ، علم و عمل سے ہم ہیں کوسوں دور
تباہی کے دہانے کھڑے کہیں، بدعت نہیں اتنی
بحث میں الجھ، ایک دوجے کو نیچا دکھائیں گے 
انا اپنی منوانی ہے باقی شدّت نہیں اتنی
کربلا آج بھی ہے جاری یہاں پر ظلم ہوتا ہے
یزیدیت سر اٹھاے ہے،حسینیت نہیں اتنی 
ہم نے احسان گنوایا ہے ہم نے اسلام بھلایا ہے 
غفلت پر اپنی شرمندہ؟ ضمیریت نہیں اتنی!
 ہمارا کام ہے اتنا ہم اب 'دن' مناتے ہیں
احتساب کریں اپنا .. ہمیں فرصت نہیں اتنی
دعا ایمان سے خالی، عمل اخلاص سے مردہ 
اللہ پر حرف اٹھاتے ہیں اب قبولیت نہیں اتنی
اللہ ہے دعا تجھ سے، عطا ہو عشقِ اسلام 
اپنی نگاہ میں اب ہماری رہی عزت نہیں اتنی

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham