Episode43 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر43 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

الحمدللہ یہ ہے شکر کا کیف۔سچ کہوں توقارون کے خزانے نہ مانگنا۔ مانگنا تو شکر کی توفیق مانگنا۔ اصل امیر وہ ہے جس کو شکر کی دولت میسر ہے، شکر کی دولت وہ دولت ہے جو عرش والے تک لے جائے، اِلا سب زمین میں دھنسنے کے لیئے ہے۔ شکر کا متضاد کفرو تکبر ہے جو شکر نہیں کرتا وہ کفر کرتا ہے تکبر کرتا ہے، شکر اگر محبت کا پردہ ہے تو کفر و تکبر انا کا۔ مگر شیطان آپکو شکر کرتا نہیں دیکھ سکتا، آپکا شکر اسکی اذیت بن جاتا ہے اور آپکی ناشکری بھری اذیت اسکا سکون۔
ناشکری میں نفسانی لذت ہے، یہ شیطان و نفس کا وہ جال ہے جو ہمیں وقتی روحانی عریانیت کی طرف لاتا ہے..جی ہاں.. جب ہم ناشکری کرتے ہیں تو دراصل یہ کسی شکوے کی صورت ہوتا ہے۔ 
اگر ہم ناشکری کی طرف آئیں تو ہم ڈپریسڈ محسوس کرنے لگتے ہیں، یہ بھی نہیں ہے وہ بھی نہیں ہے ایسا کیوں نہیں ہو ویسا کیوں نہیں ہے، مجھے یہ بھی کم لگتا ہے اس میں بھی کچھ کمی ہے، ناشکری شیطان کا وہ جال ہے۔

(جاری ہے)

جو آپکو کسی بھی طرح ''میں '' میں الجھا کراور ''فلاں سے موازنہ' کی جانب نگاہ کروا کر سکون سے دور اللہ کے شکر سے دور کروا دے گا۔ ناشکری میں انسان گلے شکوے میں الجھا رہتا ہے، میرے نزدیک ناشکری اللہ سے ناراضگی کا اظہار ہے، کیونکہ ایسا کر کے ایک تو آپکی اس کے دئیے گئے پر راضی نہیں اور دوسرا جو اس نے نہیں دیا اسکی ہوس میں اذیت میں ہیں، اللہ ان سے راضی نہیں جو اللہ کا شکر نہیں کرتے۔
اللہ کے شکر کی ایک ادا یہ بھی ہے کہ اس کے فیصلوں سے راضی رہا جائے،جو آپکی قسمت میں متعین ہے آپ کو اتنا ہی ملے گا، اور جس نے قسمت لکھی کیا آپ اس سے راضی نہیں جو اس کے لکھے سے راضی نہیں؟ شکر ڈپریشن کے امراض کا علاج ہے۔ ناشکری روحانی کثافت کی جڑ ہے۔
قرآن کی پہلی آیت مبارکہ ہے الحمد للہ رب العالمین! الحمدللہ اس ایک آیت میں سب سمٹا ہے! تعریف میں شکر کا آئینہ ہے، آپ کسی کی عظمت و بڑائی کا ذکر کرتے ہو تو درپردہ آپ اسکی حمد کر رہے ہوتے ہیں۔
شکر ان 3 خوبصورت یاد دہانیوں میں سے ایک ہے جس کی وصیت نبی کریم ﷺ نے اپنے پیاروں کو کی۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وازواجہ واصحابہ وبارک وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا معاذ اللہ کی قسم مجھے تم سے محبت ہے~ پھرفرمایا میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ کسی بھی نمازکے بعد یہ پڑھنا نہ چھوڑنا.
اللھم اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک!
”اللہ مجھے توفیق دے کہ میں تجھے یاد کروں، میں تیرا شکر کرتا رہوں اور تیری بندگی میں اک حسن پیدا کروں“ 
اللہ کا شکر کرنے میں ہمارا ہی سکون پنہاں ہے اللہ ہمارے کسی بھی عمل سے بے احتیاج ہے وہ ہمارا ہی بھلا چاہتا ہے اس لیئے چاہتا ہے ہم اسکا شکر ادا کریں، اللہ ہمیں اپنا، اپنی مخلوق کا شکر ادا کرنے کی توفیق دے اللھم آمین۔
آج جن بچھڑے ہوؤں کو روتے ہوئے ہم اللہ کے احکامات کو بھول جاتے ہیں، اللہ پاک رحم کریں اس روز ہم سب پر، کہ جس دن اس کے سامنے پیشی پر ہم صرف اس بات کو نہ رو رہے ہوں کہ کاش اس پل ہم نے اللہ کے احکامات کو مان لیا ہوتا، جس سے رسول ﷺ نے منع کیا ہوتا اس سے باز رہے ہوتے جسے تھامنے کو کہا ہوتا اسے تھام لیا ہوتا۔ اس دن سکون میں وہی ہوں گے کہ جنہوں نے زندگی کی خوشی غمی کی آزمائش میں اللہ کو خدا مانا اپنی خوشی یا غمی کو خدا نہیں بنایا۔
ہر خوشی غمی کو اللہ کی جانب سے آزمائش مانا، اور اس میں اللہ سے سرخروئی کی دعا کی۔ اللہ نے تو رسول ﷺ کے زریعے اپنا علم دے دیا ہے، ہماری ہی خیر کے لیئے اب یہ ہم پر ہے کہ ہم کیا قبول کرتے ہیں کیا نہیں۔ اور ہم اپنے نفس پر خود ظلم کرتے ہیں اللہ نہیں کرتا۔ اللہ تو بس ہمارا اپنا آپ ہم پر عیاں کرنے کے لیئے ہمیں آزماتا ہے، کبھی جانوں سے کبھی مال اولاد خوف خاندان زندگی موت خوشی غمی سے۔
 
بھڑکتی ہوئی آگ ایک چھوٹے ناسمجھ بچے کو بہت اٹریکٹ کرتی ہے، وہ اسکے جلا دینے کی ماہیت سے ناآشنا ہوتا ہے، مگر یہ ماں جانتی ہے کہ اسکو پکڑ کر وہ کسطرح اذیت میں مبتلا ہو گا، تو وہ اسکی خواہش پر نہیں جھنجھلاتی بلکہ اسکو تکلیف سے بچانے ہر ممکنہ حد تک کی تگ ودو کرتی ہے۔ اسی طرح جو احکامات اللہ اور اللہ کے رسول ﷺنے ہمیں بتاے وہ ہماری ہی بہتری کے لیئے ہیں نہ صرف آخرت کی آگ سے بچنے کے لیئے، بلکہ نادانی یا ضد میں آ کر کی گئی غفلتوں کے لیئے ایک اذیت کی آگ کے کرب سے تو ہمیں اس دنیا میں بھی گزرنا پڑتا ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو علمِ نافع عطا فرمائے، اس پر عمل کی توفیق دے، ہمارے جذبے بلا شبہ ہمارا اثاثہ ہیں، مگر اگر ہم انہیں اللہ رسول ﷺ کی مرضی کے تابع کر دیں تو اسی میں ہمارے لیئے اور ہمارے پیاروں کے لیئے آسانی ہے۔ اللہ پاک ہمیں تھامے رکھے اور ہر آزمائش میں سرخروی نصیب فرمائے اور اپنی ذاتِ رحیمی کے لیئے صبر شکر حمد اعمالِ صالح کی توفیق دیں اللھم آمین!
اللہ کو ماننا اور اللہ ہی کی نہ ماننا
یہ تو بتاوٴ کہاں کا ہے یہ ایمان صاحب
اللہ نے حق دیا اور تم نے اس پر شک کیا
کیسا یہ معاملہ کیا تم نے سنگ رحمان صاحب؟
وہ ستار العیوب تمہارا اور تم مبتلائے پردہ دری
بتاوٴ کہاں ہے اس درد کا درمان صاحب
زندگی کے دھوکے نے کس سے کتنی وفا کی
اور تم کیئے جائے ہو صدیوں کا سامان صاحب
اقتدار کو ترستے، فرقوں پر تم لڑتے مرتے
ایک رسی مومن کا زیور اور کیا کہوں نادان صاحب
عیش و نشاط و عشرت، غفلتِ بادہ و حق تلفی 
نکال لو تم سے جتناہو سکے یاں ہر ارمان صاحب
یاری شیطان سے، اعمال بدعتوں سے بھرے
اور پھرکہتے ہو ہمارا اللہ نگہبان صاحب
سچ دراصل طلبِ مغفرت، موت اور محبت ہے 
ہوجا دل سے سر بسجود،ہے اللہ مہربان صاحب
وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِین (سورہ آل عمران، آیت نمبر57 القرآن)
''اور اللہ ظالمین سے محبت نہیں رکھتا''۔
اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم نہ خود پر ظلم کریں نہ دوسروں پر۔ کیونکہ اللہ اس پر رحم نہیں کرتا جو رحم نہیں کرتا، اللہ نے اپنی صفات میں ایک بہت خوب صفت رحمٰن بتائی۔ قرآن کریم میں 113 مرتبہ اپنا حوالہ بہت رحمٰن کہتے ہوے دیا۔ اللہ ہمیں ویسا بنا دے جیسا وہ چاہتا ہے۔ ظلم، صبر اور رحم میں جو نازک مگر بہت واضح سا فرق ہے وہ بندے کے دل میں اللہ کے ہونے کا احساس ہے، ظلم میں اللہ کے احساس سے محرومی ہوتی ہے۔
صبر میں سعیء مسلسل رکھتے ہوئے، امید کے احساس سے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ رحم میں بندہ اللہ کا ہو جاتا ہے، اللہ کو اپنا لیا جاتا ہے مطلب بندہ اللہ کے رنگ میں رنگ چکا ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺروٴف رحیم و رحمة للعالمین ہیں۔ رحم صبر و خودی کی یکجائی کا وہ مظہر ہے جہاں انسان بندگی کے اس درجے میں ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی محبت کے بحرِ وحدت میں ضم اپنے آپکو اللہ کی ادائے کن فیکون مانتا اور جانتا، اْس سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے ارحم الراحمین کی صفتِ رحم کی عطا سے اللہ کی کائنات کو جگمگاتا ہے الحمدللہ! رحم اس واحد الاحد کی صفت ہے جو یگانہ ویکتا ہے۔
اور تم رحم کرتے ہو ے صرف ان کو پاوٴ گے جو دوئی سے اکائی میں ضم ہو گئے۔ اور نبی کریم ﷺ سے بڑھ کر اللہ کا رنگ کس پر چڑھا؟ اللہ پاک ہمیں اپنے اپنے محبوبﷺ کے رنگ میں رنگ لیں اللھم آمین!
انسان کا اور اذیت کا عجب رشتہ ہے، انسان انجانے میں جان بوجھ کر خود کو اذیت میں رکھنے کے بہانے تلاشتا ہے۔ جب تلاش اذیت ہو تو نظر خدا پر کیسے جائے۔اذیت ایک پُر لذت دلدل کی طرح ہوتی ہے جس سے انسان نکلنا تو چاہتا ہے مگر خود ہی خود کو اسکے حوالے بھی کیے جاتا ہے۔
اور پھر نہیں نکل پاتا، ہاں مگر شکوہ برابر جاری رھتا ہے۔ اذیت بیماری ہے، محبت، اذیت کی شفا ہے۔ محبت والوں کو اذیت بھی ملے تو وہ شکر و صبر کے بہانے تلاش لیتے ہیں اور اذیت کی دلدل میں رہنے والوں کو کچھ بھی مل جاے وہ ناشکری کی وجوہات تلاش کر لیتے ہیں۔ناشکری اذیت ہے اور محبت شکرگزاری!
استغفار..درپردہ، رب کا شکر ہے بلکہ الحمدللہ صرف شکر ہی نہیں یہ اللہ کی حمد بھی ہے کہ اس میں اللہ کے غفور الرحیم ہونے اور اس کے عفو و درگزر کرنے کی حمد بھی بیان ہے، مزید برآں سچی استغفار صرف وہی کر سکتا ہے جسکو اللہ اسکی توفیق دے سو تمام تعریفیں واقعی اللہ سبحانہ و تبارک و تعالٰی عزوجل ہی کے لیئے ہیں۔
استغفار بندے کی عاجزی، امید و بیم بھری عبودیت اور اللہ کی محبت بھری ربوبیت کے تعلق کا خوبصورت اقرار ہے۔استغفراللہ العظیم الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ۔
ہماری خواہش اور اللہ کی خواہش میں فرق ہم پر ایک حجاب کی طرح ہے، اسی میں دروں صبر کا بہانہ ہے، حضرت عیسٰی علیہ السلام سے جب ایک ماں نے کہا کہ میں اپنی مدت تک اپنی اکلوتی بیٹی کی قبر پر قیام کروں گی یا پھر اللہ تعالٰی اسکو زندہ کر دے اور میں اسے دیکھ لوں، بحکمِ اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس یہ معجزہ تھا کہ وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے،تو جب انھوں نے اسکو حکم دیا کہ اے فلانہ! رحمٰن کے حکم سے کھڑی ہو اور قبر سے باہر آ، تو وہ لڑکی قبر سے باہر آ کر ماں سے بولی کہ اے ماں! تو نے ایسا کیوں کیا کہ مجھے موت کی تکلیف دوبارہ چکھنا پڑی؟ اے ماں صبر کر اور ثواب حاصل کر مجھے دنیا میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پھر حضرت عیسٰی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہنے لگی: اے اللہ کی روح اور اس کے کلمہ! میرے رب سے سوال کر کہ وہ مجھے آخرت کی طرف لوٹا دے اور موت کی مصیبت مجھ پر آسان کر دے!
جنہیں اللہ نے اپنی مشیت سے اپنے پاس بلا لیا۔ وہ اللہ کے 'کُن' سے اللہ کے پاس ہیں الحمدللہ! اور جہاں ہمارا جانا بھی یقینی ہے، اللہ نے بجا فرمایا کہ تمہیں زندگی اور موت سے آزمایا جائیگا، یہ زندگی اور موت کئی قسم کی ہیں، کبھی یہ زندگی ہماری ہے تو کبھی کسی کی ہے، کبھی یہ موت ہماری ہے تو کبھی کسی کی ہے، تو ہماری کم فہم نادان خواہش اگر ہمارے ہی کسی پیارے کے لیئے کسی اذیت کی طرح سامنے آئے تو اس سے بہتر یہی ہے کہ رب کی رضا کے سامنے سر جھکا دیا جائے یہ واقعہ بلا وجہ اللہ نے ہم تک نہیں پہنچایا..کتنے صاف آسان الفاظ میں اس لڑکی نے اپنی ماں سے وہ کرنے کو کہا جو اس لڑکی اور خود اس ماں کے حق میں بہتر ہے! 
صبر کر! صبر کیا ہوتا ہے؟
کچھ لوگوں کے نزدیک صبر بس خاموشی سے رونے اور چھوڑ دینے کا نام ہے، نہیں..میرے نزدیک صبر کا مطلب ڈٹے رہنا ہے، منتظر رہنا ہے، قائم رہنا ہے، اللہ سے اچھے کی امید کرتے ہوئے اللہ کے راستے میں بہترین سعی کرنا ہے، جیسے روزہ صبر کا نام ہے مگر ظاہری سطح تک دیکھنے والوں کے لیئے یہ فقط کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام ہے جبکہ درحقیقت یہ اپنے نفس کو جھکانے میں ایک سعی مسلسل کا نام ہے، اب یہاں اس معاملے میں صبر کی تلقین ایک گہرا راز رکھتی ہے، یہ بات یقینی ہے کہ اللہ کے بندے جنت میں ملیں گے بلکہ جو اللہ کے بہت خاص بندے ہوں گے، انہیں روزِ حشر بھی کوئی خوف نہیں ہو گا، وہ بندے وہی ہیں جو اللہ کی رضا کے متمنی ہیں، اور یہ دنیا جسکو قرآن نے لعو و لہب کی دنیا دھوکے تماشے کی دنیا کہا ہے یہ چند روزہ دنیا اپنے اندر فقط آزمائش رکھتی ہے، تو اس دنیا میں صبر کا پھل اللہ کی طرف سے سکون کا احساس ہے اور اس جہاں میں تو ویسے ہی ہم اسکے ساتھ ہیں جس کے ساتھ ہمیں محبت ہو۔
 
تو ہم سب اللہ کی طرف سے ہیں اللہ کی طرف پلٹ جانے کے لیئے، اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم نادان اپنی خواہشوں کی وجہ سے اپنے پیاروں کے لیئے اذیت و تکلیف کا باعث بننے کی بجائے انکے اور اپنے لیئے آسانیوں کا باعث بنیں کیونکہ موت کی آزمائش انسان کو جس صدمے کی کیفیت سے دوچار کرتی ہے وہاں نادان انسان نادانی کی حدوں کو چھونے لگتا ہے، اور آزمائش تو آتی ہی آر یا پار کرنے کے لیئے ہے۔
اللہ ہمارا خاتمہ بالخیر کرے اور ہمارے لیئے زندگی موت اور آخرت اپنے اسلام کی روشنی سے آسان اور کامیاب کردے اللھم آمین! 
 صبر کرنے والے کبھی ٹوٹنے، بکھرنے یا خود پر ناز کرنے پر آئیں تو انہیں چاہیے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ کا صبر دیکھیں۔ تشنہ لبی کی آزمائش پر سیرابی سامنے ہوتے ہوئے بھی فقط حق کی خاطر ڈٹے رہنے اور باطل کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنے کا ظرف لیے ایسا مجاہد ہی سچے اسلام کے لیئے اپنی بھوک، پیاس، مال، اولاد، احباب، خاندان، یہاں تک کہ اپنی گردن تک دے سکتا ہے۔
اللہ پاک حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور اور بھی راضی ہو جائیں انہیں اور بھی اپنی محبت بھری آغوش میں اور محبت سے سمیٹ لیں اللھم آمین۔ 
تشنگیء صحراے دل میں سیرابی۔۔۔۔۔ کس ابتلائے ابر سے ہے؟
بروئے رب سچا اشکِ صبر جاناں۔۔ جو دل سے تیری آنکھوں میں آ جائے!

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham