Episode44 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر44 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

صبر ایک راز ہے الحمدللہ صبر عطا ہے، یہ وہ طاقت ہے جو اللہ ہی اپنے کمزور اور بے بس بندے کو دیتا ہے، مگر جسکو یہ دولت مل جاتی ہے اللہ اسے اپنا قرب عطا کرتا ہے۔ ان اللہ مع الصابرین! ایک خوبصورت حدیث کے مفہوم کے مطابق اگر انسان (دل سے صبر کی سچی خواہش رکھتے ہوے) صرف یہ ظاہر کرے کہ وہ صبر کر رہا ہے تو اللہ پاک اسے صبر عطا کرتے ہیں۔ کچھ جذبے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا کیف اللہ ہی دل میں ڈالتا ہے صبر بھی انہی میں سے ہے، ایک غیر مرئی طاقت.. درحقیقت یہ انسان کے اندر اس ایمان بالغیب کا حصہ ہے کہ ایک طاقت ہے جس کے آسرے پر وہ اپنی ڈوری چھوڑ رہا ہے، جس پر توکل ہی اسکے لیئے آسانی ہے!
کبھی پتنگ اڑائی ہے؟ اس میں انسان پتنگ کو ہوا کے سپرد کر کے چھوڑ نہیں دیتا اسکی سعی یہی ہے کہ وہ ڈور کو تھامے رہے، اب یہ اس پر عطا کردہ عقل اسکی سمجھ بوجھ ہے کہ وہ ہوا دیکھ کر کہاں ڈھیلی چھوڑتا ہے یا کہاں ڈور کو تن لیتا ہے! تو یہی ہے وہ سعیء مسلسل جو انسان نے کرنی ہے۔

(جاری ہے)

توحید میں لپٹے ،صبر اور شکر، اللہ کی معرفت کے دو خوبصورت پردے ہیں، ایک طاقت کے حضور سر بسجود ہونے کا احساس لیئے اللہ کی خوبصورت عطا۔جہاں انسان پر پل پل اپنی حقیقت منکشف ہے وہ کچھ نہیں کوئی ایک ہے جو اسے دے رہا ہے، اور صرف یہی نہیں کہ دے رہا ہے بلکہ اسے شکر کی توفیق بھی دے رہا ہے! صبر گلے شکوے سے بے نیاز وہ کیفیت ہے، کہ جس میں اللہ کی رضا کے لیئے دل سے سر بسجود یا تو ہوا جاتا ہے یا ہونے کی سعی کی جاتی ہے!
اور میرا خیال ہے کہ جس طرح اٹک اٹک کر قرآن پڑھنے کا اپنا ایک ثواب ہے اسطرح جس انسان کی انا اسکے سامنے سر اٹھا اٹھا کھڑی ہو مگر وہ پھر بھی اپنے نفس کے جہاد میں بار بار اپنے دل کو اللہ کی رضا میں جھکانے کی سعی کرے اللہ سے مدد مانگے اللہ کو ایسے بندے پر کچھ خاص ہی پیار آتا ہو گا! کہ جیسے ماں اپنے بچے کو اپنی جانب بانہیں پھیلاے اولین قدم بڑھاتے دیکھتی ہے اور پھر گرتے اٹھتے اور بڑھ کر محبت سے تھامنے کو بڑھتی ہے تو کیسے اسکے رخسار چوم لیتی ہے! تو اللہ جو کہ ماں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے اسکو کتنا پیار آتا ہو گا! تبھی تو اللہ صبر میں آہستہ آہستہ استقامت دیتے ہیں، صبر فقط رو دھو کر خاموش بیٹھنے کا نام نہیں یہ اسی بچے کی طرح ماں کی طرف مسلسل بڑھتے آنے کا نام ہے کہ جو گرے تب بھی اٹھنے کی سعی کرے لڑکھڑائے تب بھی سنبھلنے کی کوشش کرے! تو رب اس سے زیادہ محبت سے اپنے بندے کو بڑھ کر تھامتا ہے کہ اسکی طرف ایک قدم اٹھاوٴ تو وہ اس سے زیادہ تمہارے قریب آتا ہے۔
تو صبر کسی آزمائش کے پردے میں بھیجی جانے والی وہ عطا ہے، جو کسی حال سے گزر کر نصیب ہوتی ہے، اب بات فقط اتنی ہے کہ اس آزمائش کے ظاہری الجھاوٴ میں الجھنے کی بجائے اللہ ہمیں اس کے راز کو سمجھنے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اپنی رضا میں راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے اللھم آمین!
جب اللہ کسی کو اپنے لیئے چنتا ہے تو اسکے دل سے دنیا نکال دیتا ہے، انا خواہش، سب نکال دیتا ہے، سارا میل کچیل دور کر دیتا ہے، جیسے تاریکی اور روشنی اکٹھی نہیں رہ سکتی، ایسے ہی اللہ اور خواہشِ دنیا اکٹھے نہیں رہ سکتے! اس واحد تک کا سفر کثرت سے گزرتا، نفی ہوتا ہوتا اکائی میں ضم ہوتا ہے، ایسے میں اللہ دنیا ختم نہیں کرتا، ترک نہیں کرتا، بس اس سے ملکیت و مادیت کا خواہش کا رشتہ ختم کر دیتا ہے، ایسے میں اللہ دنیا کو بھی 'اپنے لیئے' کر لیتا ہے۔
جو بس اسکی آزمائش کے لیئے ہوتی ہے کہ بندہ اس کے پردے میں کشاں کشاں اس تک دوڑا چلا آئے!
بے بسی خواہ زندگی کی ہو یا موت کی، بے بسی بھی عجب ہوتی ہے. جو ایک بار سچے دل سے اپنے آپ کو بے بس مان کر اپنے رب کو سپرد کر دے، یعنی اپنے رب کی رضا میں بخوشی راضی رہے، اس کے لئے یہ بے بسی بھی ایک عطا ہو جاتی ہے۔اور جو بے بسی کو ماننے سے انکاری ہو پھر موت کیا زندگی بھی اس کے لئے سزا ہو جاتی ہے۔
بے بسی میں بہت گہرا راز چھپا ہے، بے بسی عطا ہے، بندہ بہت ڈرتا ہے بے بسی سے، لاچارگی سے، نادان جانتا ہی نہیں، کہ وہ کیا پانے والا ہے، جب انا کی تمام جھوٹی بیساکھیاں بیکار ہو جائیں، انسان اپنی ہی خواہش کے قدموں پر آ گرے، وہ انسان جسکو خود پر بہت مان تھا وہ جیسے کسی بے بس پُتلے سا رب کی منشا پر زمین بوس ہو جاے، جہاں ہر عمل بے اختیار ہو، ہر عضو اسکے سامنے لاچار ہو، ہر سوچ فیصلے سے عاری، جب زبان تک خاموش ہو جاے اور جب دل کہہ اٹھے اللہ... تو الحمدللہ وہ لمحہ.. لمحہ ء معجزہ.. لمحہ ء عطا ہوتا ہے..کہ یہ لمحہ انسان کے اختیار میں نہیں، نہ یہ وہ خود پر طاری کر سکتا ہے، یہ عطا ہے سراسر عطا، سو کبھی کسی کی بے بسی کا مذاق نہ اڑاوٴ، کسی کی بے بسی پر اس سے کنارہ نہ کرو، یہ تمہاری آزمائش ہے، تم پر رحمت کا بہانہ، ہاں جب اللہ کسی کو اپنی محبت کا راز دیتا ہے تو خود ہی دنیا سے اسکا کنارہ کروا دیتا ہے، ایسے میں محبت پانے والے دنیا سے شکوہ کناں نہیں رہتے بلکہ شکر گزار ہو جاتے ہیں کہ اللہ دنیا دے کر بھی آزماتا ہے اللہ دنیا لے کر بھی آزماتا ہے، اور دنیا کا پردہ نہ ہٹتا تو رب کا پردہ کیسے عیاں ہوتا.. الحمدللہ رب العالمین!
لگن نہیں تھکاتی توقع تھکا دیتی ہے، سو اللہ اپنے راستے میں ہر توقع کا سدباب کروا دیتا ہے، کہ بندہ تھکن سے بے نیاز ہو جائے، اور جب تھک بھی جائے تو رب کی آغوش کی اور شدت سے تمنا کرے، اسکے قرب کا اور اور متمنی ہو جائے، اس سے سب کہہ کر ہلکا ہو جائے، رب کی ہی چلائی ہوئی ہر چلتی ہوئی ہوا جیسے اس آتشِ شوق کو اور بھڑکا دے اس آتش کو جو اس رب نے خود جلائی، کہ جسکی آزمائش بھی وہ خود طوفان بھیج کر کرتا ہے اور پھر جسکی حفاظت بھی وہ خود کرتا ہے وہ بس بندے کا اخلاص دیکھتا ہے..بس اسکی پاک صاف نیت اسکا جذبہ ، اللہ محبت ہے اور محبت کی جستجو.. نڈھال نہیں کرتی توانا رکھتی ہے، کمزور نہیں کرتی طاقت دیتی ہے، وحشت نہیں بھرتی سکون عطا کرتی ہے الحمدللہ رب العالمین!
اللہ کا شکر اور حمد اس امر میں ہے کہ جب انسان نماز ادا کرے تو اس بات پر دل سے یقین رکھے کہ رب نے اسکو توفیق عطا کی اور اس نے نماز ادا کی۔
اور وہ اگر نماز قضاء کر دے تو مانے کہ 'اس نے' نماز قضاکر دی اس کی کسی غفلت، گناہ، کسی کوتاہی کی وجہ سے اس کو نماز کی توفیق نہیں ہوئی اور اسطرح اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا، اللہ پاک رحمن الرحیم ہیں، عطا کرنے کے بہانے عطا فرماتے ہیں اور انسان ظالم، جلدباز، ناشکرا ہے خود اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے۔ بندے کی طلب ِمغفرت اپنی جگہ، رب کی اکرامِ مغفرت اپنی جگہ،سب عطا ہے، دراصل یہ احساس بھی عطا ہے کہ بندہ یہ کہے کہ اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا الحمدللہ، اور بلا شبہ اللہ تو بے نیاز ہے۔
قرآن کریم میں سورہ فاتحہ میں آیت مبارکہ ہے : ایاک نعبد و ایاک نستعین! (سورہ فاتحہ، القرآن)
(اے اللہ) ہم تیری ''ہی'' عبادت کرتے ہیں اور تجھ ''ہی'' سے ''مدد'' مانگتے ہیں! 
ہم درحقیقت عبادت اسی کی کرتے ہیں جس سے ہم مدد مانگتے ہیں. اس آیت مبارکہ میں توحید کی حقیقت بے حدخوبصورتی سے جگمگا رہی ہے، اس میں ہماری عاجزی کا بیان، ہماری حقیقت بھی نہاں ہے. ہم اللہ کے بندے ہیں اور اللہ ''ہی'' سے مدد مانگتے ہیں. اورہمارے اللہ پاک فرماتے ہیں کہ'' نماز اور صبر سے مدد مانگو (لو)!'' 
پس'' اللہ کو ماننا اور اللہ کی ماننا '' ایمان اس میں پنہاں ہے. ۔
مگر ہم شیطان و نفس کے جال میں آکر اللہ کے ہی کہے سے ہٹ کر عمل کر جاتے ہیں، نماز اور صبر اللہ پاک کے بہت خوبصورت راز اور تحفے ہیں الحمدللہ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وازواجہ واصحابہ وبارک وسلم نے بھی بارہا اپنی حدیث و سنّت سے نماز کی اہمیت پر زور دیا. صبر راستہ بھی ہے. صبر مدد بھی ہے صبر صفت بھی ہے الغرض صبر عطا ہے ..اللہ پاک نے جس کو اپنے قریب کرنا ہوتا ہے جسے چننا ہوتا ہے اسے صبر کی دولت دے دیتے ہیں. پھر اسے آزمائش دیتے ہیں پھر اس انسان پر اس کے صبر کو عیاں کرتے ہیں. یہ نہاں سے عیاں ہونے کا راز اور سفر اسے اللہ پاک کے قریب کر دیتا ہے کہ ماننے والے جانتے ہیں کہ آزمائش میں بہانہء رجوع بہانہء صبر اور بہانہء قرب ہے الحمدللہ۔
اس راز کی اساس توحید عاجزی و اخلاص ہے۔ 
میری تنہائیاں پکاریں تجھے
مجھے اپنے تو اب کر لے قریب
میرے ہر مرض کی شفا ہے تو
تجھ سے بڑھ کر نہیں کوئی طبیب
سب سے بڑھ کر ہے سایہ تیرا
تو والی میرا تُو میرا حسیب
تیرا وصل ہے غرضِ دو جہاں
محب ہو وہ یا وہ ہو رقیب
میری زندگی کا محور بنیں
اک تُو اور تیرا پیارا حبیب ﷺ
تجھ سے دور ہوں میں جاں بلب
بتا ہجر کی ہے یہ کیسی صلیب
میرے اللہ تو قبول کر میری یہ دعا
تیری راہ میں ہو مجھے شہادت نصیب
اللھم آمین!
سچ تو یہ ہے کہ جو اللہ کو واقعی اپنا آپ سونپ دے اللہ کیسے اسے چھوڑ سکتا ہے؟؟ اللہ تو ان کو بھی نہیں چھوڑتا جو اس سے دور بھاگے پھرتے ہیں، بہانے دے دے کرانہیں بلاتا ہے، پھر جو سچ مچ سچے دل روح جسم و جان سے اپنا آپ سونپ دے تو اسے تو اللہ اور، اور، اور محبت سے تھام لیتا ہے کیونکہ اللہ خود ایک حدیث قدسی کے مفہوم کے مطابق: جب ایک بندہ اس کی طرف چل کر آتا ہے تو اللہ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے اور ایک اور روایت میں ہے کہ جب کوئی بندہ اس سے ایک قدم قریب آتا ہے تو اللہ اس سے دس قدم قریب آتا ہے۔
یہ ہم ہیں جو اپنی ناشکری، بے صبری، جلد بازی، نفس و انا کے حجابات کے دروں اللہ سے غافل ہیں اللہ تو ہم سے قطعی غافل نہیں، اللہ پاک ہمیں توفیق دیں کہ ہم اسکی رحمتوں اسکی محبتوں کو اپنی زندگی میں محسوس کر سکیں اوراس کے لیئے اس کا شکر گزار ہو سکیں اللھم آمین!

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham