Episode51 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر51 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

اللہ محبت ہے! 
ہماری ارواح نے اللہ کی محبت کا ذائقہ چکھ رکھا ہے ۔اب ہماری ارواح محبت کی، سکون کی، اسی شیرینی کی خواہاں ہیں،جواُس''باقی''کی اِس فانی دنیا میں ہمیں اپنی تلاش میں کبھی کسی پردے ، توکبھی کسی پردے میں بھٹکائے پھرتی ہے۔اللہ پاک توہم سے ہمارے نفس کے پردے میں ہیں۔اور ہم انا کے حجابات کی وجہ سے اپنی، اپنے نفس کی حقیقت، اللہ کی حقیقت، اس کی محبت سے دور، نتیجتاً اذیت و بے سکونی کا شکار ہیں۔
اللہ محبت ہے،اللہ حقیقت ہے، اور حقیقت ایک تلاش ہے، جو ازل سے ہم میں رکھ دی گئی ہے۔ اس تلاش کا راستہ سرابوں سے گزر کر، محبت سے طے ہوتا ہے۔ ہم جب اپنے ہی نفس و اناو خواہش کی گردمیں اٹ جاتے ہیں، تواللہ سے کیا، ہم خود سے بھی غافل ہو جاتے ہیں۔ اور حقیقت تو یہی ہے کہ جس نے ان حجابات سے پرے اپنے نفس کو پہچانا اس نے گویا خالقِ نفس کو پہچان لیا۔

(جاری ہے)

اللہ محبت ہے۔محبت مختلف پردوں میں نوازنے کے لیئے آزماتی ہے، اور نکھارتی ہے۔اسی آزمائش کے دروں انا رکاوٹ بن کر آتی ہے۔انا محبت کے راستے میں سانپ بن کر بیٹھی ہوتی ہے، جو اس کھلے دشمن کے منہ میں آ جائے وہ نگل لیا جاتا ہے، اور جو اس پراللہ کے فضل سے فتح پا جائے وہ پار لگا دیا جاتا ہے۔ کہہ لیجیے انامحبت کے راستے میں بظاہر تو رکاوٹ ہے مگر، وہ جوالحمدللہ، اس کو پار کر جائے وہی وفا نبھاتا بقاء پا جاتا ہے۔
جب اللہ پاک نے ابلیس کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام، یعنی اللہ کی رضا کوسجدہ کرے، تو وہ اللہ کی رضا سے وفا نبھانے کی بجائے اپنی انا کو سجدہ کر بیٹھا۔حالانکہ اس حکم کی بجاآوری، اس کا اللہ کی پناہ میں آ جانے کا خوبصورت موقع تھا مگر اس کو اس کی انا کے تکبر کے جال نے سجدہ کرنے سے باز رکھا۔ اور بازپرسی پر بھی اس نے جواز استعمال کیا اورہٹ دھرمی اختیار کی۔
یہی وہ لمحہ تھا کہ وہ رجوع کرنے والی خاص مخلوق ہونے کے شرف سے محروم ہوا، اور ملعون قرار دے دیا گیا۔اب جب اس سے یہ نہیں سہا گیا تو اُس نے اللہ کو چیلنج کیا کہ وہ تا قیامت اللہ کے بندوں کو بھٹکائے گا۔ ان کی سیدھی راہ میں بیٹھے گا، راہ سے گمراہ کرے گا، ان کے خون میں رگوں میں لہو بن کر دوڑے گا، ان پر دائیں بائیں آگے پیچھے سے حملہ کرے گا۔
اس کے لیئے اس نے انسان کا نفس، اس کی انا و خواہش کا جال استعمال کیا۔ اللہ نے واضح فرما دیا کہ مگر تیرا بس میرے خاص بندوں پر نہیں چلے گا۔ اب یہ خاص بندے کون ہیں؟ یہ خاص بندے وہ نہیں جو غلطی ہی نہ کریں، گناہ ہی نہ کریں، یہ خاص بندے وہ ہیں جو پلٹ آئیں، تائب ہو جائیں، رجوع کر لیں، اپنی اصل پہچان لیں! 
اور یہی ہے وہ لمحہ جہاں انسان رب کے فضل سے جتنا خالص ہو، اتنا اپنی حقیقت سے آشنا ہوتاہے، اس پر اسکے کچھ نہ ہونے ، رب کے سب کچھ ہونے اور پھر، اس پر اس کے رب کے عطا کردہ مقام، نائبِ خداوند کریم ہونے کا شرف واضح ہوتا ہے۔
تب وہ اللہ سے محبت کے کیف کو پاتا ہے، اسے کائنات کے ذرے ذرے میں اس کا محبت بھرا کُن جھلکتا ہے۔جس کورب کی عطا کردہ لگن ہی اصل ضیاء بخشتی ہے، اور وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے۔۔
اللہ محبت ہے!
میرے ابو جی کی باتیں بھی تھیں اُن کی طرح عجب
جھنجھلا کبھی جاتے تو دیتے تھے دُعا مجھے
گر خاموش ہو جاتی کوئی سمجھ نہیں پاتا
وہ اک نظر تکتے، پڑھتے تھے بجا مجھے
اُس پل میں ہے آج بھی میری زندگی سمٹی
گھر آتے ہی وہ جب دیتے تھے صدا مجھے
وہ تھے ابرِ رحمت یا مثلِ سایہء دار نخل
خود دھوپ میں جل کر دیتے سایہ گھنا مجھے
کسی دھوپ کی تلخی کبھی مجھ تک نہیں پہنچی
تپش پہنچنے سے قبل دیتے تھے پناہ مجھے
بعد ان کے کسی شخص نے مجھے، میری بیٹی نہیں کہا
اللہ تُو اُن کو ڈھانپے رکھ جیسے وہ دیتے تھے رِدا مجھے
ہے ایمان ان کا آج بھی میری روح میں زندہ
'اللہ وارث ہے بیٹی! وہ کہتے تھے سدا مجھے
وہ اب تیری آغوشِ رحمت میں ہیں میرے اللہ
تْو اْن کو ہنستا رکھ، جیسے وہ دیتے تھے ہنسا مجھے!
اللھم آمین یا ارحم الراحمین یا رب العالمین!
کائنات پردہٴ محبت
کائنات پردہٴ رب … بذریعہٴ عطائے غوروفکر !
#کچھ پردے ڈھانپتے ہیں اور کچھ برہنہ کر دیتے ہیں۔
اللہ کی رحمت کے پردے ڈھانپنے والے پردے ہیں. یہ جن پر عیاں ہوں ان کو اپنی رحمت کی چادر میں چھپا لینے والے پردے ہوتے ہیں۔ اللہ سے حجاب کے پردے دل، عقل و بصارت پر پڑ جائیں تو لاکھ پردہ پوشی کرو .ایک دن برہنہ کر ہی جاتے ہیں۔ اللہ کی حد میں ہاتھ ڈالنے سے اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا، ہاں ہم اپنے لئے اذیت، آگ خرید لیتے ہیں. یہ ایسی اذیت ہوتی ہے جسکی نادیدہ آگ ہمیں اندر باہر سے جلاتی ہے، ہم پر ایسا پردہ پڑ جاتا ہے کہ ہم اس آگ کو مول لینے کی ذمّہ داری تک قبول نہیں کر پاتے. جھٹلاتے ہیں جواز تراشتے ہیں، الزام لگاتے ہیں اور اس آگ میں جلتے جاتے ہیں تا آنکہ، اس اذیت پر ندامت کی سسکیاں، اس آگ پر توبہ کے اشک اور اللہ کی مغفرت کی رحمت نہ چھا جائے! 
#خلوص اور جذبوں کو دل میں اترنے کے لئے لفظوں کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی. لیکن لفظوں کو دل میں اترنے کے لئے خلوص اور جذبوں کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ لفظ سراسر کھوکھلے، اثر سے محروم ہوتے ہیں، دل کی مقناطیسی لہریں بہت گہری حساسیت رکھتی ہیں، انھیں جس شدّت سے بے رخی تکلیف دیتی ہے اسی شدّت سے خلوص زندہ کر دیتا ہے۔
 
#بے شک ہر خوبصورت شے پردے میں ہوتی ہے، اور اس کے تو پردے بھی اتنے خوبصورت ہیں، سوچیے وہ خود کتنا خوبصورت ہو گا۔ وہ تو اپنا آپ سب کو دکھاتا ہے، مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہر کوئی اس کو دیکھ نہیں سکتا مگر جسے وہ چاہے۔۔ الحمد للہ رب العالمین! 
#کیا بھوک صرف کھانے یا خوراک کی ہوتی ہے؟ میں نے ایسے غریب بھی دیکھے ہیں جو الحمدللّہ دل کے 
 امیر ہیں اور ایسے امیر بھی دیکھے جو دل کے غریب ہیں . بیشک ہم generalize نہیں کر سکتے ، غربت 
 ہو یا امیری ..اصل دولت تو قناعت ہے۔
 
#زاویہء نگاہ کی بات ہے کچھ لوگ دھوپ میں سائے کو خود سے جدا تصور کرتے ہیں، اور سفر کو شکایت آمیز اور مشکل پاتے ہیں، اور کچھ لوگ دھوپ میں سائے کو اپنا ہمسفر سمجھتے ہیں، اور سفر آسان پاتے ہیں، آزمائش میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے کچھ لوگ آزمائش کو مصیبت تصور کر کے اسے سزا تصور کرتے ہیں اور کچھ لوگ صبر ضبط و تحمل سعی ء مسلسل سے آزمائش میں الحمدللہ سرخروئی پاتے ہیں۔
جب ہم اللہ کا معاملہ اپنے ساتھ اپنے گمان کے مطابق پاتے ہیں، تو زندگی میں معاملات میں بھی تو ہمارا گمان ہی ہمیں کسی راہ پر چلا رہا ہے ناں۔ اللہ پاک ہمیں توفیق دے کہ ہماری نگاہ حق و خیر پر کھول دے اور ہمیں خارجی اور داخلی ہر شر سے محفوظ اپنی پناہِ محبت میں ڈھانپے رکھے اللھم آمین! 
کائنات پردہٴ رب … بذریعہٴ عطائے غوروفکر !
ہیروں سے دمکتے ستارے دیکھے
درخشاں وفا کے استعارے دیکھے
جب دیکھا آسماں دلکش سا کبھی
کھلکھلاتے وہاں سہارے دیکھے
معطر ہوا.. چاند، ٹہلتے بادل 
کن فیکون سے مزین اشارے دیکھے
وہ جو مسکرائے ہے وہاں میرا پردہ نشیں
جدا اس سے سارے، خسارے دیکھے
ٹھنڈک کبھی، کبھی مسکراتا سماں
کبھی ستاروں سے ٹوٹے شرارے دیکھے
سات پردوں میں گوشہ نشیں ہے کوئی
حجاب اپنے، حجاب ہم نے تمہارے دیکھے
ورد دیکھا فلک پر جب رقصاں کسی کا
اللہ! انداز، بے خود ہم نے ہمارے دیکھے!!
”بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لیے جو اللہ کی یاد کرتے ہیں، کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں (اور کہتے ہیں): (اے) ’ہمارے رب! تْو نے یہ سب بے کار پیدا نہیں کیے ہیں۔
پاکی ہے تجھے۔ ہمیں آگ (جہنم) کے عذاب سے بچا لے۔“(پارہ: 4، سور ة اٰلِ عمران: 190 تا 191)
کائنات اپنے سارے راز سمیٹے اس پاک معصوم اور خوبصورت سے رب کی پہچان لیئے ہماری نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے، مگر ہماری ہی ذات کی الجھنیں ہمیں ان نرمی سے آنکھیں کھولے ہمیں تکتے رازوں کو دیکھنے انہیں سراہنے تک نہیں دیتیں، وہ جیسے آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں، کہ یہ نادان انسان جس فانی کے عوض لافانی کو نظر انداز کر رہا ہے اسے کیسے بتائیں کہ اسکا سکون کس میں ہے، اپنی گنجلیں سلجھاتے سلجھاتے وہ نئی الجھنیں مول لے لیتا ہے، اس کی سوچ ایک محور سے، اس کے نفس کے حجابات سے نہیں ہٹتی، اس نفس میں اٹی جابجا گرد سے نہیں ہٹتی، ہٹ جائے تو جانے کہ ہم کیسے اسکے محوِ انتظار ہیں، رب نے ہمیں اس کے لیئے خدمت پر مامور کر دیا اور ہم خوشی خوشی رب کا پیغامِ محبت لیئے، اس کی توجہ کی آس لیئے جابجا بکھرے ہیں، کبھی خاک میں ذرات کی مانند، کبھی آبشاروں کا جھرنا بنے، کبھی ستاروں کی کہکشاں بنے، کبھی حبس میں اچانک چل اٹھنے والی ہوا بادِ نسیم کے جھونکوں کی ٹھنڈک کا احساس لیئے، کبھی چاند کی روشنی اسکے گھٹنے بڑھنے میں، کبھی آفتاب کی تمازت لیئے، کبھی چڑیا کی چہکار میں اس کے سارے غموں کو فراموش کیئے، کبھی کسی شرارتی سے بچے کی مسکان میں ہم کیسے اسکے منتظر ہیں، افسوس تو یہ ہے یہ اپنے نفس کے جالوں سے پرے،اپنے نفس پر بھی متوجہ نہیں۔
پھر جیسے ایک ذرہ دوسرے ذرے سے سرگوشی کرتا ہے آوٴ اس کے لیئے اپنے لیئے دعا کریں کہ یہ ہمیں پا جائے، یہ خود کو، یہ رب کو پا جائے، آوٴ دعا کرو اسکی نگاہ اسکے نفس پر کھل جائے۔ اگر اسی کو دیکھ لے تو سب دیکھ لے، یہ اپنے نفس کے اس پردے میں ہے جس سے اس سے سب پردے میں ہے۔ جس دن اسکے نفس کا حجاب اس سے ہٹ گیا اس دن یہ خود کو بھی دیکھ لے گا ہمیں بھی، اور سب سے بڑھ کر رب کو دیکھ لے گا۔
 
کائنات اپنے وجود میں ایمان کی کیفیت کا راز رکھتی ہے۔اکثر اوقات ہم اللہ سے اپنے تعلق، ایمان کی بڑھتی گھٹتی کیفیت سے فکرمند ہوتے ہیں، تو کبھی آسمان میں اڑتے پرندوں کو غور سے دیکھا ہے، انکے پر کبھی پھیلتے ہیں کبھی سمٹتے ہیں، اوپر نیچے کی جانب حرکت کرتے انکی اڑان بھرنے میں آسانی کرتے ہیں الحمدللہ، تو انسان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے اکثر اس کو لگتا ہے وہ بنا کسی جدوجہد کے اللہ کی یاد میں مگن ہے اور ایک سکون سا دل و جان میں ہے مگر کبھی کبھی اچانک جیسے دل بے کیف سا ہونے لگتا ہے۔
بوجھل سا، تو یہ وہی پل ہوتے ہیں جہاں اس نے ہمت نہیں ہارنی، اب اللہ یہ دیکھتا ہے کہ میرا بندہ کیا کرتا ہے، جیسے پرندے کے اوپر نیچے جاتے پر، اس کو اڑان بھرنے میں مدد دیتے ہیں ،ایسے ہی بندے کو ایمان کے درجے میں بڑھنے کے لیئے ان دونوں کیفیات سے گزرنا لازم ہے،دوسرا یہ کیفیات بندے کو اس احساس سے آشنا رکھتی ہیں کہ وہ درحقیقت کچھ نہیں، رب کی توفیق کے بنا وہ کچھ نہیں کر سکتا! اور ایسے میں بندہ رب سے توفیق مانگتا ہے۔
اللہ کو فار گرانٹڈ نہیں لیتا، کہہ لیجیے ،پہلے اللہ بندے کو یاد کر رہا تھا اب بندے کو صحیح معنوں میں اللہ یاد آ جاتا ہے۔ تو اس طرح یہ کیفیت بھی درپردہ عطا ہے۔ مزید، جیسے ماں بچے کو چلانا سکھا رہی ہوتی ہے تو اکثر اس کو اس کے اپنے وجود پر چھوڑتی ہے کہ اس کے چلنے میں استقامت آئے، مگر کیا ماں غافل ہو جاتی ہے؟ نہیں ناں! تو اللہ تو ماں سے زیادہ بندے سے پیار کرتا ہے وہ بھی دیکھ رہا ہوتا ہے، مگر اب بس وہ یہ دیکھتا ہے کہ میرا پیارا سا ڈگمگاتا بندہ ،اڑان بھرتا بندہ اپنی جدوجہد کو میرے لیئے کس طرح کامل کیئے جا رہا ہے، خدا سے خودی کا یہ خوبصورت سفر رب کی عطا کے بنا نا ممکن ہے، بندے کی ریاضت مجاہدہ سب کچھ بھی نہیں اگر بندہ اسکو اپنی ذات سے منسوب کرے کہ درحقیقت یہ سب اللہ کی عطا ہے الحمدللہ رب العالمین، کیونکہ جو ذات پرندے کو فضا میں تھامے ہوئے ہے، وہی ذات بندے کو اس کیفیت میں بھی تھامے ہوئے ہے جہاں وہ اپنے ایمان کے حوالے سے فکرمند ہے، اور اس کی سعیء مسلسل ہی اسکا راستہ اسکی اڑان آسان کر دے گی ان شا اللہ، تو کہو کوئی فکر بھلا کیوں ہو، گر ہمارے ساتھ اللہ ہے! الحمدللہ رب العالمین!
الحمدللہ اس کی خواہش دل روح جان میں اتر آ ئے تو کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے ہونے کا پتہ دیتا ہے، ذرے ذرے میں اس کی ذات کا جلوہء حق دِ کھنے لگتا ہے، ہجر کی سلگتی بھٹی میں ذرہ ذرہ باعثِ وصل ہو جاتے ہیں، واقعات معاملات، حادثات، سب سب اس کی جانب ہی رخ موڑ دیتے ہیں۔
۔ واقعی کائنات۔۔ اپنے واقعات لیئے درونِ صبر شکر و حمد۔۔محبت کی اس خوبصورت سازش میں شریک ہو جاتی ہے، قدم وہاں اٹھ پڑتے ہیں جہاں کے لیئے منزل مکتوب ہوتی ہے، جو سفر مکتوب ہوتا ہے، درپیش ہو جاتا ہے، آسان کر دیا جاتا ہے، جو راہ منزل کو نہیں لے جاتی وہاں سے قدم ہی اکھیڑ لیئے جاتے ہیں، پاوٴں کے نیچے سے زمین اٹھا لی جاتی ہے ایسا نہیں ہوتا کہ منہ کے بل آ پڑے تو زمین ختم ہو گئی، اس سارے وقفے میں پاوٴں وہاں دھر دینے کا سفر شروع ہوتا ہے جہاں سے منزل کا سفر شروع ہوتا ہے الحمدللہ رب العالمین!
غور کیا جائے تو محبت اور خدمت بڑا گہرا تعلق رکھتی ہے، جس کو جس سے محبت ہوتی ہے اس کو اسکی خدمت کرنے سے محبت ہوتی ہے، اللہ کو ہم سے محبت ہے، اللہ نے ہماری خدمت کے لیئے ساری کائنات کو خدمت پر لگا دیا ہے، جسے اللہ سے محبت ہو گی وہ اللہ کی، اسکی خلق کی خدمت میں محو ہو گا۔
خدمت کے بہت روپ ہیں، اصل خدمت وہ خدمت ہے جس سے رب راضی ہو، کہ رب کی رضا ہی اسی میں ہے کہ جب اسکا بندہ اسکے اور اپنے سچ کو پا جائے گا، رب کی مخلوق کو رب سے محبت سے ملانا، دعا سے رب کو بندوں سے ملانا، اللہ کی، اللہ کی مخلوق کی خدمت ہے،جو بندہ اپنے لیئے پسند کرتا ہے وہ دوسروں کے لیئے بھی پسند کرے تو یہ اسکے ایمان کی اصل کسوٹی ہے، جواپنے لیئے بھی خیر اور وہی خیر دوسروں کے لیئے بھی مانگے، اسے خیر ملنے سے پہلے خیر عطا ہو چکی ہوتی ہے الحمدللہ۔ 
کوئی وقت ہو میرے بخت کا
تیرے سائے میں .. میں چل سکوں
کوئی لمحہ تیرے قرب کا
تیرے رنگ میں.. میں ڈھل سکوں
کوئی بارش برستی عشق کی
تیری برسات میں.. میں جل سکوں

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham