Episode54 - Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham

قسط نمبر54 - اللہ محبت ہے - حیا ایشم

 کائنات عجب راز ہے، اُس ایک کی پہچان لیئے، اپنے اندر بہت سے راز سموئے، بہت پردے سمیٹے۔۔۔ تہہ در تہہ۔۔ ہر ذرے میں کائنات ہے اور ایک نقطے میں سما جائے تو کبھی ساری کائنات ذرہ سی لگتی ہے۔۔ کبھی جو ہوا تمہیں چھوئے۔۔ تو سوچنا کہ یہ احساس کیسے ہوا، کس نے یہ ہوا چلائی؟ کبھی جب سورج کی روشنی تم تک پہنچے تو سوچنا کہ کون ہے اسکے پیچھے؟ کس کا کرم ہے تمہاری ذات پر؟ کبھی جب تمہارا دھیان تمہاری دل کی دھڑکن پر جائے تو سوچنا کہ کون ہے جو اسکو دھڑکا رہا ہے، اچھا ابھی یہ جو لفظ پڑھ رہے ہو اسکے پیچھے کون سی ذات ہے جو مجھ سے یہ لکھوا رہی ہے اور تم سے پڑھوا رہی ہے، وہ کون سی ذات ہے جو اپنی یاد اس بہانے سے تمہیں دے رہی ہے، کبھی قدم اٹھاتے ہوئے چلتے اپنے قدموں کی جانب دیکھنا کہ کس کے کرم سے تم نے چلنا سیکھا؟ کون سہج سہج اس سفر میں تمہارے ساتھ ہے؟ یہ جو تم بول سکتے ہو کس نے تمہیں بولنا سکھایا؟ کبھی چڑیا کو سننا اسکی آواز میں کیا ہے، کس نے اس معصوم کو چْنا، اسکو اتنی خوبصورت آواز دی ، اچھا بس یہ سوچنا کس کے کرم سے ابھی تم یہ سوچ رہے ہو، کہ یہ کس کا کرم ہے کہ تم اسکو سوچ سکتے ہو، کتنا ہی کچھ ہے جو تم میں اور کائنات میں نظامِ خود بخود کے تحت ہو رہا ہے، تمہاری پلکیں جھپکنا، گرم آگ پر ہاتھ کا پیچھے کھینچ لیئے جانا ، مگر کون سی ذات ہے جس نے یہ نظامِ ہستی یہ نظام خودبخود کو اتنی سمجھ اور حکمت و محبت سے بنایا۔

(جاری ہے)

کبھی سوچا ہے وہ کیوں چاہتا ہے کہ تم خود کو جانو اسکو پہچانو، بھلا اسے کیا ضرورت، کبھی سوچنا اس میں تمہارا کیا بھلا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ تم خود کو جانو، اسے پہچانو، راز تو بس یہ ہے کہ وہ اس لیئے چاہتا ہے کہ تم اسے پہچانو کہ خود کو جان کر اسکو پہچان کر ہی تو تم خود کو پہچانو گے، خود کو پاوٴ گے۔
جو نگاہ سے ہو عیاں یہ وہ ماجرا نہیں 
جو زباں سے ہو بیاں یہ وہ تذکرہ نہیں 
رمز میں سما سکے، یہ ناز وہ نہیں 
کسی سر پر بج سکے یہ ساز وہ نہیں 
خرد پڑھ سکے جسے یہ حکایات وہ نہیں 
جو باتوں میں چل پڑے یہ بات وہ نہیں 
نہیں کچھ نہیں اگر تو کیاکچھ نہیں یہاں؟
کچھ ہے اگر یہاں تو کیا خاص وہ نہیں 
خامشی میں سن سکو ..یہ کلام وہ نہیں 
لفظوں میں سن سکو یہ روایات وہ نہیں 
ہم جنوں اگر نہیں تو سکوں بھی نہیں ہم
کیف میں سما سکے ہم وجدان وہ نہیں 
اگر بتیوں سی سلگتی مہک اسکی نہیں اگر
مشامِ جاں سے پھوٹتی عطریات وہ نہیں 
قصہ ہے یہ عجب، اور ہم اس سے بھی عجب 
جو سمجھ میں آ سکے، ہم ..راز.. وہ نہیں!
 اللہ نے اپنی پہچان کے لیئے یہ کائناتِ محبت بنائی، محبت کا بیج بو دیا، معجزہء کن فیکون کر دیا، دل پر سراسر اختیار اللہ کا ہے، پھر دل خود بخود نہ کسی پر رکتا ہے، نہ کسی سے ہٹتا ہے، نہ کسی سے بھرتا ہے نہ کسی سے خالی ہوتا ہے، بس کن فیکون ہو جاتا ہے، اسی کن فیکون کے پردوں میں جذبوں کی دنیا بسی ہے، اسی غم خوشی کے پرے اسکی قناعت اور راضی برضا رہنے کا راز پنہاں ہے، وہ کائنات جو اللہ نے اپنی تلاش کے لیئے بنائی دراصل اس میں راز اس انسان کی اپنی تلاش کا ہے ، جس نے خود کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا، جس پر خود اپنی ذات سراب میں الجھ گئی وہ اللہ سے اور اللہ اس سے اتنا باحجاب ہو گیا۔
خالق حقیقت ہے مخلوق خالق کا پردہ ہے، انسان اللہ کی تلاش کی بجائے اسکے پردوں میں محو ہو کر رہ گیا، جب نظر اس سے ہٹ جائے تبھی نگاہ مخلوق میں الجھ کر رہ جاتی ہے، جب نگاہ مرتکز ہی اس ایک پر ہو تو سلجھن بھلا کیوں نہ ہو۔مقصد یہ نہیں کہ محبت نہ ہو، مقصد فقط یہ ہے کہ حد سے گزرنے کی اذیت خود سہنی پڑتی ہے، اور محبت اذیت نہیں دیتی، وہ جھوٹ جو ہم خود سے بولتے ہیں بس وہ اذیت میں رکھتا ہے، راز تو فقط مخلوق میں رب کی پہچان میں ہے، تو مخلوق تک جاوٴ مگر رب سے نظر محو نہ ہونے پائے کہ معبود سے محو نظر 'انا/میں' کی ہوتی ہے، عبد کی نہیں۔
اور عبد کی پہچان یہی ہے کو وہ جھوٹے معبود نہ بنائے ، بلکہ حقیقی معبود کے سامنے ہر آزمائش میں دل و جان و روح سے جھک جائے۔
کیا اس نے نہیں کہا کہ: وہ ہنساتا اور رلاتا ہے(سورہ نجم، آیت43) تو ہم ناداں انسان کیسے مخلوق کو اتنا طاقتور سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ہماری خوشی غمی پر قابض ہو، یہ تو ہمارے ہی جھوٹے اختیار کا سراب ہے کہ ہم کسی اور کو یہ اختیار دے دیں کہ وہ ہمارے ہنسنے رونے کا سبب ہو جائے اور اللہ نے کیا کہا نہیں کہ اختیار تو سارے کا سارا اللہ کا ہے، ہم مخلوق کے پردوں میں اللہ کے ہجر کو روتے ہیں، ہمارے اندر اسکی اتنی شدید تڑپ ہے کہ ہم اپنے آنسووٴوں کو خود نہیں سمجھ پاتے، ورنہ جس سے عالمِ ارواح میں ہجر ملا، بقول اسی کے جب وہ اس دنیا میں ہم جہاں ہیں ہمارے ساتھ ہے، تو وہ ہمارے پیارے جب جدا ہوں تو کیا انکی محبت ہماری روح کا حصہ نہیں بن جاتی۔
دراصل مخلوق کا، خواہش کا پردہ ہی ہم پر ایسا پڑ گیا ہے، کیسی عجب بات ہے کوئی اپنا مر جائے، تو ہم نعوذ باللہ، اللہ تک سے شاکی ہو جاتے ہیں، اور یہی وہ پل ہے کہ ہمیں زبانی صبر کی ازحد تلقین ہے، کبھی سوچا جب محبوبِ حقیقی کا ہجر ملا تو ہمیں صبر کیسے آیا ہو گا، وہ جس نے بنایا محبت سے ہمیں سوچا، وہ لمحہء ایجاب و قبول جو الست بربکم اور قالوا بلٰی کی صورت ہوا، وہ ہماری روح کیسے فراموش کر سکتی ہے، یہ راز ہمارے دلوں کی اتھاہ گہرائیوں میں پنہاں ہے۔
یہ راز تبھی منکشف ہوتا ہے جب انا کو مٹایا جاتا ہے، بے بسی میں سر کو دل سے جھکایا جاتا ہے، جب سب اسے سونپ دیا جاتا ہے، جب من کو جھکایا جاتا ہے اور تب رب چاہے تو آشکار ہوتا ہے!
کائناتِ محبت میں ہزار رنگ ہیں ہر رنگ کے ہزار رنگ ہیں ، ایک رنگ دوسرے کو چھپاتا تو کبھی ایک رنگ دوسرے کو عیاں کرتا جھلکتا ہے، ہر بات کے پیچھے ایک راز، ہر پردے کے پیچھے ایک آزمائش ہے، سب اس ایک کی تلاش میں سرگرداں ہیں جسکی جستجو ازل سے ہمارے اندر رکھ دی گئی ہے، ہمارے وصل کو خواہاں وہ ایک لمحہ جو ہمارے اندر ہماری ہی حقیقت کو عیاں کر دے ہمیں اس سکون کی تلاش کبھی سلگتے جھلستے سورج کی تمازت میں من کے صحرا میں بھٹکاتی ہے تو کبھی چاندنی راتوں میں اس چاند کو اپنے راز دینے تک لے آتی ہے، راستہ کوئی صحیح یا غلط نہیں ہوتا مگر ہاں ہماری ہی اصل تک لے جاتا ہے ہمیں ہماری حقیقت سے آشنا کروا جاتا ہے۔
لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ باطل کے سہارے آپ کبھی حق تک نہیں پہنچ سکتے، حق کا راستہ محبت کا راستہ ہے اور محبت کا راستہ خود سپردگی اور قربانی کے دروں ہے۔
ساری کائنات محبت سے اللہ کے لیئے سربسجود ہے۔ چاند کی ان تاریخوں میں جب سورج کے غروب ہونے اور چاند کے آسمان پر ابھر آنے کا آمنا سامنا ہو، تو اکثر ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے چاند اور سورج آپس میں باتیں کرتے ہوں..کہتے ہوں دیکھو ناں ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وہ تخلیق ہیں جو اللہ کے ایک اشارے پر ہنستے ہنستے چلے آئے، اس وقت سے لے کر آج تک اللہ کے اشارہء کن پر ہنستے مسکراتے رواں ہیں، اسکی مخلوق کے لیئے اپنے کام میں بنا تھکے ہارے خوشی خوشی مصروف ہیں۔
دیکھنے والوں کی نگاہ میں ہمیں گرہن بھی لگتا ہے۔ مگر ہم تب بھی شکرگزار رہتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے اللہ کی رضا ہوتی ہے الحمدللہ!
سورج کہتا ہوگا، ہاں..تمہارے گھٹنے بڑھنے میں کیسی کیسی نشانیاں ہیں.. جب رات مکمل سیاہ ہوتی ہے توتم کیسے آسماں پر تنہاسارے جہاں کو روشنی دیتے ہو، ہاں تمہیں دیکھتے ہوئے سب سوچتے ہوں گے کون ہے وہ اتنا مہربان؟ جس نے رات کے ان اندھیروں میں بھی ہمیں تنہا نہیں چھوڑا..کوئی نہ کوئی راستہ دیا.. ایک دروازہ کہ اس کو کھوجتے اسکو سوچتے کوئی اُس نور کو کھوجے جسکی عطا کردہ تابانیوں سے یہ چاند اس سیاہ رات میں جگمگا رہا ہے۔
چاند کہتا ہو گا : ہاں تمہارے آنے، میرے جانے میں، میرے آنے، تمہارے جانے میں کتنی نشانیاں ہیں ان کے لیئے جو تضاد و تغیر کے پردوں کو سوچتے ہیں وہ سوچتے ہوں گے کہ اس تغیر کے پیچھے وہ کونسی مستقل ذات ہے جو ان تغیر کے پردوں میں جلوہ نما ہے جو بذاتِ خود تو مستقل اور غیر تغیر پذیر ہے مگر اسرار کے پردوں میں وہ کونسا رازِ نہاں لیئے ہوئے ہے جو عیاں ہے بھی اور نہیں بھی.. تمہارے مکمل اور میرے گھٹتے بڑھنے سامنے آنے چھپنے میں اس تضاد میں کوئی تو سوچتا ہو گا کہ ہاں کون ہے جو اس کارِ خودبخود کو چلا رہا ہے.. وہ جو متلاشی ہیں انہیں محبت کا کوئی تو استعارہ ملتا ہو گا..تم جو سارا دن خود جلتے ہوئے روشنی دیتے ہو، کتنے ہی پرندے تمہاری ہلکی ملگجی سی روشنی پاتے ہی اپنے آشیانوں سے اللہ کا نام لے کر نکل آتے ہیں جنہیں تم اور جو تمہیں اللہ کا سلام دیتے ہیں..تم انہیں دیکھ کر مسکراتے ہو اور وہ تمہیں دیکھ کر..کیا کوئی یہ مسکراہٹیں محسوس کرتا ہو گا؟
سورج کہتا ہو گا.. ہاں میں جانتا ہوں تم ہو ناں تم محسوس کرتے ہو..کیونکہ تمہاری خوبصورتی کو مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے ہم آسمان پر سجے وہ چراغ ہیں،جو اللہ کی دنیا میں روشنی پھیلانے کے لیئے مامور ہیں۔
کیا میں نہیں جانتا کتنے ہی تنہائی محسوس کرتے لوگ تم سے اپنے دل کے راز کہتے ہیں جانے کتنے ہی آنسو وہ خاموشی سے کسی تنہا گوشے میں بیٹھ کر بہاتے ہیں کتنی ہی باتیں ہیں جو وہ تمہیں تکتے تکتے کہہ جاتے ہیں۔ کتنے ہی خاموش لمحے ایسے بھی تو ہوتے ہیں جن میں کچھ نہ کہہ کر سب کہہ جاتے ہیں وہ کہتے ہیں تم سنتے ہو، تم کتنے رازوں کے امین ہو، کیا میں نہیں جانتا؟ میں دن میں بفضلِ باری تعالٰی جو روشنی پھیلاتا ہوں جس سے زمیں پر اللہ جس کو چاہے فائدہ عطا کرتا ہے توکیا رات میں جو تم تنہا جاگتے ہو کیا اس سفر سے میں آگاہ نہیں..مگر کیسی خوبصورت عطا ہے ناں ہمارے رب کی ہم پر..کہ ہم اپنے اللہ کے اپنے سے متعلق ہر فیصلے پر خوش ہیں الحمد للہ! آسمان کے پردے میں سجے، ہم دو پردے، کس کا جلوہ ہیں، کس کی ادائے کن فیکون ہیں، کیوں ہیں، کیا کیا راز لیئے ہیں اس سے ہم آشنا ہیں ناں اورجن کو رب چاہے ا ن کو اس راز کی آشنائی دے.. محبت کے لیے چنا گیا ہمیں.. اس سے بڑھ کر ہمارا خراج کیا ہو گا.. زینت کا سامان کیا گیا ہمیں اس سے بڑھ کر ہماری خوش قسمتی کیا ہے.. اللہ کی کائنات میں اللہ کے محبوب محمدﷺنے جب ہمیں دیکھا، سوچا تو ہماری خوش نصیبی اس دن سے لے کر آج تک ہر ہر لمحے سوا ہی تو ہو رہی ہے الحمدللہ رب العالمین۔
چاند کہتا ہو گا ..
ہاں جس جس پل ہم محبوب خدا ﷺ پر درود بھیجتے ہیں اس اس پل ہماری تابانی جیسے بڑھ جاتی ہے، ہمیں اپنے رب کی تعریف اسکی ثناء اسکی محبت کا احساس خود پر نظرِ کرم کا احساس جیسے خوشی سے شادماں اور سربسجود کر جاتا ہے، ان محبوبِ خدا ﷺکی نگاہِ محبت جو ہم پر مرتکز ہوئی، اسکا احساس جیسے ایک نئی زندگی عطا کر جاتا ہے اپنے ہونے کا احساس اور خوبصورت لگنے لگتا ہے!
پھر سورج کہتا ہو گا...ہممم 
اللہ کی عطا روشنی تمہیں دیئے جاتا ہوں 
سنو تم جگمگاتے رہنا اور اپنا خیال رکھنا..!
چاند کہتا ہو گا
اس عطا کی حقِ ادائیگی اللہ کروائے خوب مجھ سے
میں بھی ہوں منتظر تم انتظار میرا سنبھال رکھنا..!
دیکھا جائے توزندگی اللہ کی عطا کردہ ایک نعمت ہے، جو موت تک سراسر آزمائش ہے۔
یہ اللہ کا وہ پردہء محبت ہے، جسے صرف محبت کی نگاہ سمجھ سکتی ہے۔ کبھی یہ کسی کو نعمت لگتی ہے، کسی کو بوجھِ مسلسل لگتی ہے۔ ہر کسی کاظرف اسے اپنی اپنی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جو اسکو اللہ سے منسوب کر دے وہ راحت پا جاتا ہے، جو اسے اپنی انا سے منسوب کر لے وہ رائیگانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
زندگی ..!
کہیں آس ہے کہیں یاس ہے 
کہیں سراب کہیں پیاس سی 
کہیں سجدوں میں بلکتی توبہ 
کہیں مے میں بجھی رندا سی 
کہیں دشت سی بے آب وگیاہ 
کہیں سینے میں کرلاتی آہ سی 
کہیں خطا ہے کہیں کفّارا 
کہیں ادا ہے کہیں قضا سی 
کہیں پل میں کھلکھلاتی ہے 
کہیں پل میں یہ خفا سی 
کہیں خلوت میں رازداں ہے 
کہیں جلوت میں یہ رسوا سی 
گزارتے ہوئے ہیں لوگ مرتے 
گر جی لیں تو یہ جاوداں سی 
بیان بے پناہ، سوچیں ہیں بے شمار 
اِلا.. بقائے عشق ،ہے فقط رائیگاں سی

Chapters / Baab of Allah Mohabbat Hai By Haya Aisham