Episode 6 - Awaz E Nafs By Qalab Hussain Warraich

قسط نمبر 6 - آوازِ نفس - قلب حسین وڑائچ

ذات
اے خدایا ! میری ایک التجا ہے ‘ میری ایک دُعا ہے ‘ مجھ پر ایک بڑی سی مہربانی فرما دے ‘ تو نہایت مہربان اور بڑا رحم والا ہے جو میں نے اپنی ذات پر خود ظلم کئے ہیں مجھے میری ذات سے معافی دلوا دے۔ جب مجھے میری ذات معاف کر دے گی تو میری موت میرے لئے سکون بخش ہو گی میں آئندہ اپنی ذات کے ساتھ ظلم نہیں کروں گا ۔ دراصل میری ذات ہی میرا حقیقی سرمایہ ہے اور میں خود ہی اِس کا دشمن تھا میں خود ہی اِس کی رسوائی کا باعث بنا میں تیری عطا کی ہوئی نعمتوں سے پورا استفادہ نہ کر سکا ۔
خدایا ! مجھے ایسی معافی دلا دے کہ یوم حشر میری ذات مجھ پر گواہی نہ دے میری توبہ اِس طرح قبول فرما کہ تیری ذات کا میری ذات پر کوئی گناہ باقی نہ رہے یہ سارا معاملہ تیرے اور میرے درمیان ہے اِس کا کوئی اور گواہ نہیں میں نے اپنی ذات کے ساتھ کیا کیا اور تیری ذات سے کچھ پوشیدہ نہیں میں کتنا گنہگار ہوں ۔

(جاری ہے)

جب انسان کی ذات اُسے معاف کر دیتی ہے تو وہ آسودہ خیال ہو جاتا ہے ‘ اُس کا ضمیر ہلکا اور نفس مطمئن ہو جاتا ہے ‘ اُس کا دل اطمینان سے بھر جاتا ہے اور وہ روحانی طور پر عبادت گزار ہو جاتا ہے جب اُس کی روح باوضو ہو جاتی ہے ۔
انسان سب سے بڑا دشمن اور گناہ گار اپنی ذات کا ہے کیونکہ جتنا ظلم اُس نے اپنی ذات پر کیا ہے اُس سے زیادہ کوئی اور بڑا گناہ اور کسی دوسرے نے اُس کی ذات پر ظلم نہیں کیا ۔
###
روح اور علم
روح اللہ کے ایک ارادہ کا نام ہے ‘ جو کائنات پر قدرت رکھتا ہے وہ اللہ ہے جس کا کوئی وجود نہیں اور وہی مسجود ہے جو ہر شئے میں ہے مگر نظر نہیں آتا ‘ جس کو ہر شئے کا علم ہے اور اپنے قدرت والے جوہر کا ایک خفیف سا علم انسان میں رکھ دیا ہے ‘ انسان جسے عقل کے نام سے منسوب کرتا ہے ۔
انسان اپنی عقل کو علم کہتا ہے اور باہر سے جو تعلیم حاصل کرتا ہے اُسے علم کا نام دیتا ہے حالانکہ وہ اکتسابی ہے ۔ علم تو فطری ہے جو انسان کے باطن سے ظاہر ہوتا ہے اور فطرت سے حاصل کیا جاتا ہے ۔ علوم فطریہ انسان کے اندر نور کی ایک روشنی پیدا کرتا ہے ‘ اُن کے اندر جو معرفت الٰہیہ کو پانے کی تمنا کرتے ہیں ‘ جو کائنات کے کھلے رازوں پر غور کرتے ہیں خدا اُن کے دلوں کو اطمینان سے بھر دیتا ہے ۔
علم روح کی غذائے لذیذہ اور تعلیم انسان کی جسمانی ضرورت ہے جس سے وہ کسب میں مہارت حاصل کرتا ہے وہ محض علم ہے کامل علم آخرت کے لئے ہے اور تعلیم دنیا کے لئے … عالم زندہ رہے گا اور کسبی کو موت آئے گی ۔ خدا کا کلام نفس ایجاد ہے اُس کے ارادہ میں اور” لفظ کُن“ میں کوئی آواز نہیں ہوتی۔
روح خالق کی مخلوق عظیم ہے ‘ ہر جاندار میں موجود ہے مگر خالق نے علم روح الٰہیہ سے کسی کو آگاہ نہیں کیا ہے مگر اِس راز کو پوشیدہ نہیں رکھا ہر جاندار کو زندگی دی ہے اور پھر موت دی ہے پھر اُس کو جان بچانے کا شعور دیا ہے ۔
جن کو علم الٰہیہ کی تھوڑی سی بھی معرفت نصیب ہوتی ہے وہ انسان بنتا ہے اور وہ اہل ایمان ہے جو ہر جاندار شئے میں زندگی سے پہلے اُس کے فنا کو دیکھتا ہے ۔ جن کو خدا اپنے علم سے نوازتا ہے اُن کے درجات بلند کرتا ہے اُس کے اندر یقین کی دولت ودیعت کر دیتا ہے اور یہی یقین دراصل علم الٰہیہ ہے ۔ روح کی قوت انسانی جسم کی حرارت کا باعث ہے اور اِس جسمانی حرارت کو انسان زندگی کہتا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ جسم ٹھنڈا ہو گیا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ روح کی قوت جسم انسانی سے اخراج کر گئی ہے ۔
روح تو قوت حراری ہے روح قوت ملکوتی ہے اور روحانی علم ہی دراصل علم ملکوتیہ ہے اور وہ ہی عالم ہے جسے روح علم عطا کرتی ہے یا جس کی روح عالم ہے اُس کا علم خدائی علم ہو گا لہذا ہر ذی علم کے اوپر علیم کا سایہ ہوتا ہے … اکتسابی عالم نہیں ہوتا اُس کے پاس مہارت ہوتی ہے اور نسل در نسل پیشہ کی وجہ سے وہ اُس ماحول میں پرورش پاتا ہے تو وہ ماہر اور نیم ماہر ہوتا ہے ۔
روح اول حجت خدا ہے اور وہ محمد مصطفی ﷺ ہے جو آدم کا بھی پیشوا اور امام ہے آدم یوم حشر اُس کے ساتھ اٹھایا جائے گا ۔ علم حقیقی نور ہے اور جن قلوب میں جتنی صفائی ‘ پاکیزگی اور طہارت خیالات ہوتی ہے اُسی قدر نور اُس میں چمکتا ہے ۔ علم حقیقی اور روحانی رزق کا تعلق تزکیہ نفس ‘ ریاضات نفس اور صفائی نفس سے ہے ۔ علم حقیقی کتاب حقیقت سے حاصل ہوتا ہے اور وہ ہر انسان کے اندر موجود ہے مگر یہ کتاب اُس وقت کھلتی ہے جب روح میں پاکیزگی اور طہارت حد کمال پر ہوتی ہے ۔
حقانیت ‘ صداقت اور دیانت جب روح کا رزق ہوں گی تو علوم باطنیہ آپ کی ذات پر ظاہر ہوں گے پھر انسان مسرور کن ماحول میں چلا جائے گا۔
روحانی علم کی خوبی یہ ہے کہ انسان پھولوں کی طرح رہتا ہے زاہد خشک کی طرح نہیں … علم روح انسانی کو شاہ مزاج اور شاہ دماغ بنا دیتا ہے ۔
جس کی روح پر اہل علم ‘ ذی علم اور علیم کا سایہ ہوتا ہے وہ مومن ہوتا ہے ۔
علم حقیقی کا وارث متکلم لاثانی ہوتا ہے اور اُس کی گفتگو میں روح کی چاشنی ہوتی ہے ۔ روح کی زندگی علم حقیقی ہے ۔
آتش حسد انسان کو روحانی علم سے دور رکھتی ہے بلکہ تمام منفی قوتوں کی حکمرانی کا نام آتش بغض و حسد ہے ‘ کینہ پرور ماحول بھی انسان کو علم حقیقی اور روح کی لذتوں سے دور رکھتا ہے ۔ توفیق شکر روحانی علم کی جان ہے ۔
علم الفاظ کا محتاج نہیں مگر الفاظ ضرور علم کے محتاج ہیں لہذا جس لفظ کو روح پسند فرمائے وہی لفظ علم ہے ۔
انسان کے لئے تسکین روح ضروری ہے ورنہ کوئی علم ‘ علم نہیں محض زبان گوئی ہے ۔ 
عالم وہ ہوتے ہیں جو شکم مادر سے مخزن اسرار الٰہی لے کر پیدا ہوتے ہیں اور صرف معصومین ہیں وہی سلونی سلونی کا دعویٰ کر سکتے ہیں جو روح المقدس کے امین ہیں ۔
###
دوست
ہر ملنے والا ضروری نہیں وہ دوست ہو ‘ مزاج شناس اور مزاج نواز دوست ہوتا ہے ۔
ہر ملنے والے کو دوست سمجھنا اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ دوست ہے ۔ 
دوست وہ ہوتا ہے جو آہوں اور آنسوؤں میں ہو ‘ جو قہقہوں اور مسکراہٹوں میں ہو‘ جو تنہائی اور جدائی میں ہو جو زندگی کے میلہ اور ہجوم میں ہو جو مطلب اور مفہوم میں ہو جو مصروفیت اور فراغت میں ہو ‘ جو ناراضگی اور رضا مندی میں ہو ‘ جو دور ہو مگر نزدیک ہو ‘ جو غریب ہو مگر دل کا امیر ہو ‘ جس کی صورت گو خوب نہ ہو مگر سیرت کمال خوبصورت ہو ‘ جو ہم مزاج اور ہم شناس ہو ہم نواز ہو ‘ جو محبت اور نفر ت کا راز داں ہو ‘ جو پیار اور اخوت کا پاسبان ہو ‘ جو بولنے سے پہلے دل کی بات اور راز جانتا ہو ‘ جو جیب کا بے نیاز ہو ‘ جو گفتگو میں محبت نواز ہو ‘ جو انتظار سے پہلے مل جائے ‘ جو وعدہ میں وفا رکھتا ہو ‘ جو آنکھوں میں حیا ء رکھتا ہو ‘ جو کردار پر نظر رکھتا ہو ‘ جو روح پرور جذبات رکھتا ہو ‘ جو سچا دل نواز ہو ‘ جو چہرہ شناس ہو ‘ جو اخوت نواز ہو ‘ جو راحت جان ہو ‘ جو عزت کا پاسبان ہو ‘ جو دم دم میں آپ کو یاد رکھے ‘ جو قدم قدم پر آپ کے ساتھ ہو ‘ جو سانس سانس میں ذرہ نواز ہو ‘ جو آنکھوں میں آپ کو سمائے رکھے ‘ جو دل میں آپ کو بسائے رکھے ۔
دوست وہ ہوتا ہے جو دیوار قبر تک ساتھ دیتا ہے ‘جو دعا کے لئے آپ کے لئے ہاتھ بلند رکھتا ہے‘ جو آپ کی غیر موجودگی میں آپ کا نام احترام سے لیتا ہے ‘ جو آپ کے کردار کی گواہی دیتا ہے ‘جو خلوص دل سے آپ کا ساتھ دیتا ہے ۔
دوست ‘ دوست رہتا ہے خواہ وہ دور ہے ۔ دوست وہ ہوتا ہے جو ہر وقت تمہارے لئے دُعا کرے ‘ دوست وہ ہوتا ہے جو آپ کی اولاد کا حیاء کرے ‘ جو آپ کی عزت نفس اور ناموس کی حفاظت کرے ۔
دوست وہ ہوتا ہے جو اپنے ارادوں میں آپ کو فراموش نہ کرے ‘ جو خیالوں میں بھی آپ کو ساتھ رکھے ‘ دوستی کرتے وقت خود بھی اِن ملفوضات کا خیال رکھو گے تو آپ کبھی تنگ دستی کا شکار نہیں ہوں گے ‘ آپ کے حالات خراب نہیں ہوں گے ‘ آپ کی ذہنی مشکلات کم ہوں گی ‘ آپ کو زندگی میں آسانیاں نصیب ہوں گی … دوست جب تک دوست ہے اُس وقت تک آپ کو غم زدہ ہونے کی ضرورت نہیں … جس کا کوئی دوست نہیں وہ غریب ہے خواہ وہ دولت مند ہے یہ قول امیر علیہ سلام ہے دوست وہ دولت ہے ۔

Chapters / Baab of Awaz E Nafs By Qalab Hussain Warraich