Episode 8 - Awaz E Nafs By Qalab Hussain Warraich

قسط نمبر 8 - آوازِ نفس - قلب حسین وڑائچ

مادرِ وطن
جس وطن کی کوئی ماں نہ ہو وہ یتیم و مسکین ہوتا ہے ۔ مادر وطن وہ ہوتی ہے جس ماں کے دل میں وطن ہو ‘ ہر وطن کی ایک ماں ہوتی ہے جس نے اُسے جنم دیا ہوتا ہے اور اُس کے کچھ زندہ سپوت ہوتے ہیں جو اُس کی حفاظت کرتے ہیں ۔
جب مادر وطن مر جاتی ہے تو اُس کی قبر کی کوئی نشانی ہوتی ہے جس پر قوم جا کر یہ عہد کرتی ہے کہ اے مادر وطن میں وطن کی حفاظت کروں گی جب قوم ہی مر جائے تو وطن زندہ نہیں رہتا پھر مادر وطن کی آنکھوں میں صرف آنسو رہ جاتے ہیں ۔
مادر وطن کی ذمہ داری وطن کو جنم دینا ہے ‘ وطن کی حفاظت کرنا مادروطن کی اولاد کی ذمہ داری ہے۔ مادر وطن تو وطن کی حفاظت کے لئے اپنے جذبات قربان کر دیتی ہے مگر جب وطن کی اولاد ہی وطن کی عزت اور ناموس کو لوٹ لے تو مادر وطن کیا کرے ۔

(جاری ہے)

مادر وطن کے سینہ میں جو دل ہے وہ تو صرف خون کے آنسو بہانے کے لئے رہ جاتا ہے ۔

مادر وطن تو حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے جب اولاد ایک دوسرے کا خون بہانے اور گلہ کاٹنے لگے تو وہ کس کا ساتھ دے ظالم بھی اُس کی اولاد اور مظلوم بھی اُس کی اولاد… !
اے مادر وطن ! مت رو کوئی نہیں جو تیرے دُکھ کا احساس رکھتا ہو ‘ اے مادر وطن ! تیری عظمت کو سلام ‘ تیرے اُن گم نام شہیدوں کو سلام جن کا خون تیری روح وجان ہے ‘ اُن بیوگان کو سلام جنہوں نے اپنے سہاگ تجھ پر قربان کر دیئے ‘ اُن ندیوں کو سلام جن میں تیرے شہیدوں کا خون ہے ‘ اُن ریگزاروں کو سلام جہاں اُن شہیدوں کی بے گوروکفن لاشیں تیری عظمت کی گواہی دیتی ہیں ۔
اے مادر وطن ! تو وطن کی ساری ماؤں کی ماں ہے تیری عظمت اور عصمت جہانوں سے پاک ہے تیرے وجود میں میری محبت کی خوشبو ہے ‘ کوئی نہیں جو تیری ناموس پر قربان ہونے کی تمنا رکھتا ہو ہر کوئی خواہش نفس کی گرفت میں ہے ہر کوئی تیری ردا کو بے آبرو کرنے پر لگا ہوا ہے ہر کوئی تیرے نام کو بدعنوانی کا نام دے رہا ہے ۔
اے مادر وطن ! تو نے ہمیں سب سے بڑا تحفہ آزادی دی ہے ہم نے آزادی کا مفہوم غلط لیا ہے۔
اپنے ہی گھر کو برباد کرنے کا نام آزادی نہیں ‘ اپنے ہی ضمیر کو شکست دینا انسانیت نہیں ‘ اپنے ہی وطن میں خون کی ندیاں بہانا کہاں کا قانون ہے کہاں کا انصاف ہے کہاں کی آزادی ہے ۔
اے مادر وطن ! تیری اولاد بدعنوانی اور بددیانتی میں جب مساوات کا نعرہ لگائے گی تو دوسرا کون ہے جو تیری عزت کی حفاظت کرے گا ۔
اے مادر وطن ! تیرے چہرے پر تو اب چاند کی روشنی بھی مدہم پڑ گئی ہے ‘ تیرے وطن میں تو اب سورج کی موجودگی میں اندھیرا چھا گیا ہے ‘ پورا سورج گرہن لگ گیا ہے ‘ تیرے دل کا آتش فشاں پھٹ گیا ہے ۔
اے مادر وطن ! ہاتھ بلند کر کے دُعا کر خدایا میرے وطن کو اپنی اماں میں رکھنا اِسے امن کی بھیک دے دے … میرا وطن غریب الوطن ہو گیا ہے جو بے وطن ہو گئے تھے انہوں نے پھر وطن میں آ کر اِسے لوٹ رہے ہیں اِس کی عزت و ناموس سے کھیل رہے ہیں ۔ 
اے مادر وطن ! تم بھی اِن جلاوطنوں کے ساتھ ہو جو وطن کو جلا رہے ہیں تم بھی اِن کا ہاتھ نہیں روک رہے بلکہ اِن جلا وطنوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہو یہ پھر آپ کی جیبوں پر ڈاکے ڈال کر وطن کو خیر آباد کہہ دیں گے … !
اے جلا وطنو ! اب تو رحم کرو اتنا مت جلاؤ وطن راکھ ہو جائے اور تمہیں اِس راکھ پر بیٹھ کر رونے کا بھی وقت نہ ملے ۔
اے مادر وطن ! تیرے اُن سپوتوں کو سلام جو اب خون سے تیری آبیاری کر رہے ہیں جو تیری ناموس کی حفاظت کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں جو جگر لالہ کو ٹھنڈا کر رہے ہیں جو اپنی ماؤں کی گودیں اجاڑ کر تیری مانگ میں سندور بھر رہے ہیں تیری آبرو کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں جو تیری عزت پر قربان ہو کر شہیدوں کے درجات بلند کر رہے ہیں ۔ اے مادر وطن ! تیرے اِن سپوتوں کو سلام جو تیری ناموس کی خاطر اپنی جوان بیوگان کے سہاگ کو تجھ پر قربان کر رہے ہیں ۔
اے خدایا ! میرے وطن کی حفاظت کرنا اور جمہوری قذاقوں سے اِسے محفوظ فرمانا … جب گھر کے افراد ڈاکو بن کر گھر کو لوٹ لیں تو اِس ظلم کی اطلاع کس کو دیں کسے کہیں کہ ہمارا گھر لٹ گیا ہے ۔
اے مادر وطن ! میری آنکھوں میں تو تعزیت والے آنسو بھی خشک ہو گئے ہیں‘ اے مادروطن ! تیری آزاد فضاؤں میں ‘ میں ایک قیدی کی طرح ہوں … تیرے ہر سنگ میل پہ انقلاب لکھا ہے … تیرے وطن میں زرگرو ں کی جنگ ہے چاروں طرف تحفظات کے جھکڑ چل رہے ہیں ہر چیخ میں ایک سرد آہ ہے … ” میرے وطن کا کیا بنے گا “ دل اور دماغ بنجر اور ویران ہو رہے ہیں چاروں طرف اندھیرے کی حکمرانی ہے … مفادات کی جنگ لڑی جا رہی ہے ۔
ہر طرف خبروں کے انبار ہیں کسی کو معلوم نہیں سچ کتنا ہے ایسے معلوم ہو رہا ہے وطن کے خلاف سازشوں کے انبار لگ گئے ہیں ۔
وطن کا ماحول غیر آباد اور غیر محفوظ ہے ۔ وطن کا ہر باسی وسوسوں کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے ” اب کیا ہو گا “ … دل بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے … ذہن میں شیطان نے گھر بنا لیا ہے ‘ نفس پر خوف نے قبضہ جما لیا ہے ” اب کیا ہو گا “ … محلات میں سازشی ٹولے براجمان ہیں … وطن کے سارے مسافر بے منزل سفر کے راستہ پر چل رہے ہیں مادر وطن نے ہاتھ بلند کئے خدا کے حضور دعا فرمائی ہے اے خدایا ! میرے وطن پر اپنی رحمت کا سایہ رکھنا اِسے اپنے حفظ و امان میں رکھنا اِسے نظر بد سے بچانا اِسے انتہا پسندی اور بنیاد پرستی سے محفوظ رکھ اِسے مافیاؤں سے بچانا ۔
خدا کی آواز …اے مادر وطن تو تسلی رکھ تیرے وطن کو کچھ نہیں ہو گا جو وطن سے محبت نہیں رکھتے وہ نیست و نابود ہو جائیں گے نام نہاد شہید پھانسی کے پھندے پر لٹک جائیں گے جل کر مر جائیں گے بے وطن ہو جائیں گے اِن کے خون پکی سڑکوں پر ریت کے صحراؤں میں ضائع ہو جائیں گے ۔ 
اے مادر وطن ! میری ساری طاقتیں تیرے ساتھ ہیں … اے مادر وطن ! تیری آنکھ سے بہنے والے آنسو آسمان سے برسنے والی بارش سے زیادہ پرُاثر ہیں وہ خدائی رحمت ہوتی ہے اور یہ حکمرانی کے زوال کے اسباب ہوتے ہیں ‘ جب کسی ماں کے آنسو دُکھ سے نکلیں تو اولاد کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ۔
وطن تو ہوتا ہی محبت کے لئے ہے اِس کی مٹی میں جو خوشبو ہوتی ہے وہ سب سے پیاری ہوتی ہے جن کو وطن کی خوشبو میسر نہیں وہ کہیں ہوں انہیں سکون نصیب نہیں ہو گا ۔ وطن ایمان ہے اور مادر وطن ایمان کی ماں ہے ۔
وطن سے جو پیار کرتے ہیں مادر وطن اُن سے پیار کرتی ہے مادر وطن کا نام وطن کی پاک سرزمین ہے جو اِس پر خون بہائے گا اُس کا ستیا ناس ہو جائے گا جو اِسے لوٹے گا وہ برباد ہو جائے گا جو اِس سے پیار کرے گا وہ آباد اور شاد ہو جائے گا یہی وطن اور مادروطن کا پیغام ہے … !
آؤ مادر وطن کو وہ پیار دیں اور اتنا دیں جتنا اُس نے دیا ہے یہی وطن سے محبت کی نشانی ہے یہی مادر وطن کی کہانی ہے یہی ایمان کی نشانی ہے 
آؤ ! مل کر وطن کے گیت گائیں اِس نے ہمیں پہچان دی ہے 
” یہ وطن ہمارا ہے … ہم ہیں پاسبان اِس کے “
###
زندگی کا مزہ
زندگی کا منظر نامہ بڑا عجیب ہوتا ہے مناظر میں تسلسل مگر ہر منظر دوسرے سے مختلف … ہر منظر جدید اور جدا ہوتا ہے ۔
جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی ہیں وہاں غم ڈیرہ ڈال لیتے ہیں … جہاں خوشحالی ہوتی ہے وہاں بدحالی آ جاتی ہے جہاں امارت ہوتی ہے وہاں غربت جگہ بنا لیتی ہے جہاں شب عروسی ہوتی ہے وہاں ایک دن شب وحشت ہوتی ہے جہاں ایک دن ڈھولک بجتی ہے وہاں ایک دن آہ و بکا ہوتی ہے ‘ زندگی کی آنکھوں میں کبھی خوشی کی چمک کبھی غم کے آنسو …!
لوگو ! زندگی کی معرفت سے آگاہی حاصل کرو یہ بھی عبادت کا ایک رخ ہے… یہ محض اک حجاب ہے اِس کا فاصلہ قدموں کی بجائے اگر ذہن سے ماپو تو سفر آسان رہے گا ۔
مسلسل قدم درازی اِسے بوجھ بنا دیتی ہے زندگی شہرت کی طلب گار ہے مگر زوال کو نظر میں نہیں رکھتی … !
انسان زندگی کا سفر اکیلے شروع کرتا ہے پھر کوئی دوسرا شریک سفر بن جاتا ہے اور پھر انسان ایک دن اکیلا ہو جاتا ہے یہ منظر نامہ یادوں میں باقی رہ جاتا ہے اور ڈھلتا رہتا ہے ۔
فطرت مگن رہنا چاہتی ہے مگر انسان اِس میں تبدیلی کا تمنائی ہے یہی گمراہی انسان کو منظر سے بے منظر کر دیتی ہے جب تقاضہ ہار جاتا ہے اور مطلب جیت جاتا ہے … حرص اور ہوس انسان کو اندر سے کھا جاتی ہے یہی زندگی کے منظر نامہ کو فطرت سے دور لے جاتا ہے ۔
زندگی کا مزہ دھوپ اور چھاؤں میں ہے طبیعت اور مزاج کا یہی تقاضہ ہے منظر نامہ تبدیل ہوتا رہے اور انسان زندگی کا مزہ لیتے لیتے ایک دن قبر میں اتر جاتا ہے کسی کی یادوں میں وہ رہتا اور کچھ یادیں چھوڑ کر وہ چلا جاتا ہے صدا زندگی کی بہار انسان کو زیب نہیں دیتی ۔

Chapters / Baab of Awaz E Nafs By Qalab Hussain Warraich