Episode 15 - Awaz E Nafs By Qalab Hussain Warraich

قسط نمبر 15 - آوازِ نفس - قلب حسین وڑائچ

قبر کی تنہائی
انسان خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہو اُس کا انجام محض قبر کی تنہائی اور تاریکی ہو گا … جس دماغ میں تکبر اور غرور ہوتا ہے ایک وقت آتا ہے اُس میں یادداشت بھی نہیں رہتی طاقتور ہاتھ کمزور ہو جاتا ہے جوانی کو بڑھاپا کھا جاتا ہے زندگی کا آخری اصول یہی ہے خواہ کیسی ہی کیوں نہ گزرے انجام ایک جیسا ہے ۔
قدرت کا سارا نظام اصولوں کے تابع ہے یہ گردش لیل و نہار ‘ یہ نظام روز و شب ‘ یہ لمحہ لمحہ کا سفر بڑا عجیب ہے یہ سانس سانس زندگی ہے یہ ایک سانس ہے رکا تو انسان قبر کی تنہائی اور تاریکی میں اتر گیا ۔
دنیا سے رابط کٹا اور آخرت سے جڑ گیا نہ جانے انسان یقین سے اتنا دور کیوں ہوتا جا رہا ہے اپنے ہی ایمان سے دھوکا دیہی کا مرتکب ہو رہا ہے اپنے ہی عقیدہ اور عقیدت کو فریب دے رہا ہے اپنے رب کے روبرو جھوٹ بول رہا ہے ‘ کسی ایسی کوشش میں مبتلا ہے کہ وہ اپنے رب سے چھپا کر کوئی وہ فائدہ حاصل کر ے جس کی خبر اِس کے رب کو نہ ہو خواہ سارے لوگ اِس کی اِس ناپاک حرکت پر گواہی دیں مگر خدا کے حضور خدا کی قسمیں اٹھا اٹھا کر لوگوں پر ظاہر کرے وہ خدا کا بندہ ہے اِس سے آگے مردہ نفسی کیا ہے فرشتہ اجل آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر اُس کی طرف آ رہا ہے اور انسانی نفس اِس بے صدا آواز کو محسوس تک نہیں کر رہا حالانکہ وہ اپنے رب کے اِس وعدہ کا اقرار دل سے کرتا ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ جو لوگ زمین پر اکڑ کر چلتے تھے اور خدائی دعویٰ کرتے تھے اُس کی مخلوق پر ظلم کرتے تھے اُن کے روبرو اُن کے جسموں کو قبروں میں اتار کر منوں مٹی ڈال دی گئی اور اُن کے گلے پڑنے والے پھول اُس کی قبر پر ڈال دیئے گئے نفس کی یہ آواز اُسے سنائی نہیں دیتی ۔

(جاری ہے)

جسے منظر قبریاد نہیں ‘ جسے اپنی بے بسی کا یقین نہیں اُس کے سامنے حقیقت رکھ دو اُسے نظر نہیں آئے گی ۔
###
میری جنگ خود سے ہے
میری جنگ اُن کے ساتھ نہیں جو میرے خلاف ہیں ۔ میری جنگ میری ذات کی تنہائی اور یکسانیت کے خلاف ہے ۔ یکسانیت کے میدان میں ‘ میں اکیلا ہوں میرے سارے چاہنے والے تماشبین اور مفاد پرست ہیں ۔ مجھے میرے اعمال اور کردار سے خود لڑنا ہے میں نے خوداپنی عزت کی حفاظت کرنی ہے جو لوگ مجھے سمجھاتے ہیں وہ میرے رویوں سے آگاہ نہیں جو میں اپنے بارے میں جانتا ہوں کوئی دوسرا نہیں جو کہے میں تمہارے بارے میں تم سے زیادہ جانتا ہوں ۔
میرے باطن اور ظاہر میں زبردست جنگ ہے برُائی مجھے ظاہری طور پر اپنی طرف کھینچنا چاہتی ہے مگر میرا باطن اتنا مضبوط ہے کہ اُس پر سوائے حقیقت کے کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا ۔
میری ذات کی جنگ میرے اندر اور باہر والے انسان کے درمیان ہے ۔ دیکھنے والے میرا ظاہر دیکھ رہے ہیں کہ وہ یہ جنگ ہار رہا ہے حالانکہ یہ نظر کا دھوکا ہے ۔ میری ذات کی جنگ میرے اندر والے انسان نے جیتنی ہے اگر مجھ پر عقل اور دانش مندی کا پہرہ ہو زندگی کے چوک میں کھڑا ہوں لہذا کوئی حادثہ ہو جائے اُس کا ذمہ دار میں ہوں گا ۔
ہر انسان اپنی ذات کے ساتھ حالت جنگ میں ہے دوسرے کو اِس کے بارے میں معلوم نہیں مگر ہر دوسرا اپنے تجربے کی روشنی میں اُسے دیکھ رہا ہے اور وہ بھی حالت جنگ میں ہے کون فتح پاتا ہے کسی کو خبر نہیں … !
جو اپنی ذات کی جنگ اطمینان ‘ ایمان اور اخلاقیات کے میدان میں حوصلہ اور صبر سے لڑے گا وہی دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوگا جسے یہ معلوم ہے کہ اُس سے صرف اُس کے اعمال کا حساب لیا جائے گا دوسروں کے لئے جو مال اکٹھا کرے گا اُس کا حساب بھی وہ دے گا ۔
دنیا دُکھ اور درد کا ایک خوفناک راستہ ہے جس پر سارے مسافر اپنا سامان اٹھا کر چل رہے ہیں مگر سب تھکے ہوئے ہیں جن کے پاس دنیا کی تمام آسائشیں میسر ہیں مگر ضرورت سے زیادہ وہ بھی کسی شئے کا استعمال عمل میں نہیں لا سکتے سب کو چاہئے وہ اپنی ذات کی جنگ خود لڑیں جس نے اپنی ذات کو فتح کر لیا اُسے کوئی شکست نہیں دے سکتا خواہ دوسرے کے پاس زیادہ طاقت کیوں نہ ہو مگر وہ اپنی ذات کے سامنے کمزور ہے ۔
میری جنگ میری تنہائی اور یکسانیت کے ساتھ ہے گو میں دنیا کے میلے میں ہوں مگر میں اکیلا ہوں یہ زندگی کا سفر مجھ اکیلے نے طے کرنا ہے خواہ میرے اردگرد ہزاروں چاہنے والے اور ہم نوا ہوں ہوں … یہ ساری جنگ دنیا ‘ ذات اور زندگی کے درمیان ہے مگر اپنا مفاد ہر کسی کو عزیز ہے خواہ میں ہم اور آپ ہوں … !
آؤ ! مل کر ہم سب اِس سوال کا جواب تلاش کریں کون سچا ہے … خدا سچے انسان کی مدد ضرور کرتا ہے کیونکہ وہ خود سچوں کے ساتھ رہنے کا حکم دیتا ہے نہ جانے خدا کو سچوں سے اتنا پیار کیوں ہے جس نے ذات کو سمجھ لیا اُس کی سجھ میں یہ بات آئے گی ہر انسان ایک طرح سوچتا ہے ‘ زندگی کچھ نہیں مگر پھر بھی زندگی اور صحت داؤ پر لگائے ہوئے ہے لالچ اور مفاد کی چکی میں پس رہا ہے مگر ہر کسی کا انداز نظر دیگر ہے ہر کوئی اپنی ذات کی جنگ میں مصروف ہے پہلے اِس سے فراغت ضروری ہے ۔
میں اِس لئے اپنی ذات کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں کہ سارے فیصلے اپنے حق میں چاہتا ہوں مگر مجھے اپنے سانسوں کی خبر نہیں … مجھے یہ ہر گز خبر نہیں کہ ایک وقت مجھ پر بے بسی کا ضرور آئے گا میری فکر مفلوج ہو جائے گی اُس وقت میرے لئے توبہ کا وقت بھی نہیں ہو گا میرے سوتے خشک ہو چکے ہوں گے ‘ میری آنکھوں کا نور کھو چکا ہو گا ‘ میری زباں گنگ ہو چکی ہو گی میرے عضاء مفلوج ہو چکے ہوں گے مگر جینے کی تمنا زندہ ہو گی ۔ بس مجھے اپنی ذات سے صلح رکھنی چاہئے اور سب سے پہلے اِس کا احترام کرنا چاہئے تا کہ میں اطمینان سے مر سکوں اور یہ اُس وقت ہو گا جب میری خود سے صلح ہو گی ۔

Chapters / Baab of Awaz E Nafs By Qalab Hussain Warraich