Episode 6 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر 6 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

گھرپہنچ کر میں نے ساراسامان رکھتے ہی چائے بنانے کی تیاری شروع کردی۔ میرا مقصدچائے کی پتی کو ٹیسٹ کرنا تھا جو میں نے ابھی ابھی سٹور سے بصد شوق خریدی تھی۔ جب سے آئے تھے چائے میں مزا ہی نہیں آ رہا تھا میرا خیال تھا کہ یہ سب یہاں کی مقامی چائے کی پتی کا فسادہے۔ یوں تو میں چائے کا کوئی بہت بڑا رسیا نہیں ہوں لیکن پتہ نہیں کیوں کینیڈا آ کر اُسی چائے کی طلب ہو رہی تھی جو وطنِ عزیز میں پیا کرتا تھا۔
ہو سکتا ہے وطن کے حوالے سے اس کی کوئی نفسیاتی وجہ ہو۔
ابھی چولہے پر چائے کا پانی رکھا ہی تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ یا اللہ اس پردیس میں نئے امیگرینٹ کو پوچھنے والا کون ہے؟ 
کہیں ٹیکسی ڈرائیور ہی تو نہیں واپس آگیا، ہم نے تو اسے پورے پیسے دیئے تھے۔

(جاری ہے)

 

کہیں کچھ سامان تو گاڑی میں نہیں رہ گیا ہے؟
بیگم نے دروازہ کھولا تو ایک مہذب دیسی خاتون دو بچوں اور ہاتھ میں کھانے پینے کے سامان سے بھری ٹرے لئے کھڑی تھیں۔
غالباً مالک مکان کی بیگم تھیں
"معاف کیجئے گا میں چند روز سے اپنے رشتہ داروں سے ملنے دوسرے شہر گئی ہوئی تھی، اس لئے پہلے دن آپ لوگوں سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ یہ کچھ سنیک وغیرہ ہیں بچوں کے لئے"
میں نے مزید سننے کی زحمت گوارہ نہیں کی ، اس وقت میرا پورادھیان چائے میں تھا۔ ہا ں مہمانداری کے تقاضے کے پیشِ نظر میں نے ایک پیالی پانی اور بڑھا دیا۔
چائے تیار ہوئی، ویسی ہی بد مزہ چائے جیسی اب تک بن رہی تھی۔گویا یہ چائے کی پتی بھی بے کار نکلی۔ مجھے اس پتی سے بہت توقعات تھیں۔ میر ا موڈبالکل خراب ہو گیا۔بہرحال اب جیسی بھی تھی ،مہمان کو وہی چائے پیش کر دی۔
"ابھی تک کوئی ڈھنگ کی پتی نہیں مل سکی ہے۔ بس ایسے ہی گذراہ چل رہا ہے"میں نے اپنی طرف سے پہلے ہی صفائی پیش کر دی۔
انہوں نے چائے کا ایک گھونٹ لیا اور کہنے لگیں
" آپ لوگ کون سا دودھ استعمال کر رہے ہیں"
" پڑوس والے دیسی سٹور سے تازہ دودھ کاایک بڑا پیکٹ لائے تھے "
"یہ دودھ پینے کے لئے تو اچھا ہے، لیکن ہم لوگ چائے میں دوسرا دودھ ڈالتے ہیں۔پُتر اوپر فرج سے آنٹی واسطے کھلا والا دودھ د ا ڈبا لے آئیں" انہوں نے مڑ کر اپنے لڑکے سے پنجابی میں کہا ۔
پتر کودتا ہوا گیا اورفوراً ہی دودھ کا ڈبا لے آیا
"آپ لو گ استعمال کر کے دیکھ لیں۔ میں اوپر سے ایک دو اور بھجوا دیتی ہوں انہوں نے ڈبا بیگم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔" ہم لو گوں کو جب بھی سیل ملتی ہے، بہت سارے ڈبے ایک ساتھ اٹھا لیتے ہیں۔ پیسوں کی اچھی خاصی بچت ہو جاتی ہے"
مہمان کے جاتیہی میں نے فوراً دوبارہ چائے بنائی ، ڈبے والا دودھ ڈالا۔
ایک لمبا گھونٹ لیا تو چائے کا مزہ آ گیا۔ منہ جلنے کی کسے پرواہ تھی۔ تو گویا یہ چائے کا نہیں دودھ کا فسادتھا۔ دل سے دعا نکلی۔ اللہ ایسے پڑوسی سب کو دے۔
چائیکے مزے کو دوبالا کرنے کے لئے میں نے اردو اخبار بھی اٹھا لیا ۔کہنے کو تو یہ کینیڈین اخبار تھا لیکن لگ رہا تھا کوئی پاکستانی اخبار پڑھ رہا ہوں۔ ساری پاکستانی خبریں، کینیڈا سے متعلق ایک آدھ ہی خبر تھی ۔
سارے کالم اور کالم نگاربھی وہی۔ اندازہ ہوا کہ مقامی طور پر چھپنے والے زیادہ تر اردو اخبار، پاکستانی اخباروں کی خبریں ہو بہو چھاپ دیتے ہیں بلکہ شائد فوٹو کاپی کر دیتے ہیں کیونکہ کالم نگاروں کی تصویروں کے خدو خال پہچانے ہی نہیں جا رہے تھے۔ صرف اشتہار مقامی تھے۔
زیادہ تر اشتہاروں میں صاحبِ اشتہار خود بھی موجود تھے۔ چاہے وہ رئیل اسٹیٹ ایجنٹ ہوں، انشورنس ایجنٹ ہو ں، ہوٹل یا مٹھائی کی دکان کا اشتہا ر ہو، صاحب اشتہار کی دل ربا تصویر بھی موجودے ہے۔
 
کچھ اشتہار ایسے بھی تھے کہ لگتا نہیں تھا کہ ہم کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بیٹھے ہیں۔ سنیاسی بابا سے لے کر جادوٹونے تک کے اشتہارات۔ یہ بات صحیح ہے کہ اپنی قوم میں وضع داری بہت ہے۔ کسی ملک میں بھی رہیں عادت وا طوارنہیں بدلتے۔ یہاں آکر بھی اگر انداز وہی ہیں تو پھر یہاں آنے کا کیا فائدہ۔دل کچھ بجھ سا گیا۔
لیکن خود کو یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کی کہ بھئی مفت کے اخبار میں اور کیا لوگے۔ وسائل کم ہیں اس لئے ایسا ہو رہا ہے۔ یہی کیا کم ہے کہ کمیونٹی میں کسی نے یہ کام تو شروع کیا۔ کل کو انشاللہ منفرد اخبار بھی نکلیں گے۔
اوپر والی آنٹی ( ہمارے بچوں نے مکان مالکن کے رخصت ہونے کے بعد انہیں یہی نام دیا) نے جاتے جاتے ہمیں پیش کش کی کہ وہ ہمیں دوسری صبح سوشل انشورنس کارڈ کے لئے سرکاری دفتر لے جاسکتی ہیں۔
خود انہیں دوپہر میں کام پر جانا ہوتا ہے، اس لئے صبح سویرے ہمیں لے کر جانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، ہم لوگوں نے فوراً حامی بھر لی۔ حامی تو بھر لی لیکنصبح سویرے تیاری مسئلہ تھا۔ ایک انار سو بیمار۔ واش روم کے لئے ہی امیدواروں کی قطاربندھ گئی۔ گھر سے باہر نکلنے کے لئے بھی کافی تیاری کرنی پڑی۔
اب یہ وطنِ عزیز تو تھا نہیں کہ جوتے پہنے اورروانہ۔ یہاں سردی سے بچاؤ کے لئے مفلر ، سوئٹر، جیکٹ، دستانے، اونی موزے اور بہت کچھ پہننا اوڑھنا پڑتا ہے ۔ باہر نکلے تو آنٹی اپنی وین اچھی طرح گرم کر چکی تھیں۔ ا بھی اس سردی میں ٹیکسیوں سے جانا پڑتا تو آٹے دال کا بھاؤ پتہ چل جاتا۔
"آپ سب لوگ سیٹ بیلٹ لگا لیں، بچو ں تم لوگ بھی۔
پولیس چیک کرتی رہتی ہے۔ اس علاقہ میں دو سکول بھی ہیں ، اس لئے اور زیادہ سختی ہے" آنٹی نے مڑ کر بچوں کو ہدایت دی۔
ہم لوگ سوشل انشورنس کارڈ کے دفترپہنچے ۔ سامنے ہی بورڈ پر لکھا تھا 
․ ہیومین ریسورس ڈیولپمنٹ سنٹر․ 
ہیومین ریسورس کے الفاظ پڑھتے ہی مجھے ایک چینی کہاوت یاد آ گئی۔ کہتے ہیں کہ سال بھر کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو فصلیں اُگا ؤ، دس سال کی منصوبہ بندی ہے تو پھل دار درخت لگاؤ اور اگر سو سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو پھر ہیومین ریسورسز یعنی انسانی وسائل کو ترقی دیئے بغیر کام نہیں چلے گا۔
یہ تو ہے چینی کہاوت، چلیں اب دیکھتے ہیں کہ کینیڈین حکومت نے انسانی وسائل کی ترقی کے لئے کیا کام کیا ہے؟
میں تو سمجھ رہا تھا کہ یہاں صرف سوشل انشورنس کارڈ بنانے کا کام ہو گا جیسا کہ ہمارے یہاں شناختی کارڈ کے دفتر میں صرف شناختی کارڈ ہوتے ہیں۔یہ دفتر ایک بہت بڑے ہال پر مشتمل تھا، جس میں استقبالیہ کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے آفس نما کیبن تھے جن پر نمبرلکھے ہوئے تھے۔ آس پاس بہت سارے کمپیوٹر، پرنٹر اور ایک فیکس مشین بھی لگی ہوئی تھی۔ پتہ یہ چلا کہ آپ یہاں سے نوکری کی تلاش میں بھی مدد حاصل کر سکتے ہیں۔ کمپیوٹر، ٹیلی فون، فوٹو کاپی اور فیکس وغیرہ کی سہولت بھی مفت میں۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem