Episode 7 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر 7 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

میں نے استقبالیہ پر بتایا کہ ہم لوگ سوشل انشورنس کارڈ کے لئے آئے ہیں۔ استقبالیہ والوں نے میرا نام نوٹ کیا اور کہا "تھوڑی دیر میں آپ کا نام اور کاؤنٹر نمبر پکارا جائے گا۔ جب تک آپ لوگ انتظار گاہ میں سیٹوں پر تشریف رکھیں "
تقریباً دس منٹ بعد میرا نام پکار اگیا اور آفس نمبر تین میں جانے کو کہا گیا۔ وہاں ایک خاتون نے ہمارے کاغذات دیکھے۔
کمپیوٹر میں ساری معلومات ٹائپ کیں
"یہ ہیں آپ لوگوں کے سوشل انشورنس نمبر" انہوں نے کچھ کاغذات پرنٹ کر کے ہماری طرف بڑھادئیے ۔
"آپ یہ نمبر آج ہی سے استعمال کر سکتے ہیں۔ سوشل انشورنس کے کارڈ آپ لوگوں کو اگلے دو سے تین ہفتوں میں ڈاک سے مل جائیں گے۔

(جاری ہے)

اگر تین ہفتے میں کارڈنہ ملیں تو ہم ان سے دوبارہ رجوع کریں"

لیجئے صاحب ساری کاغذی کارروائی فقط آدھے گھنٹے میں ہوگئی۔
کوئی فالتو بکھیڑا نہیں
  اب کے بعد بچوں کے سکول میں داخلہ کا مرحلہ تھا۔ یہ اتفاق تھا کہ ایک پرائمری اور ایک سیکنڈری سکول بالکل ہمارے گھر کے پیچھے تھا ۔
میں اور بیگم پہلے پرائمری سکول گئے۔ کافی بڑا سکول تھا۔ کشادہ کلاس روم، عمدہ فرنیچر، مہذب اساتذہ اور فیس کچھ نہیں کہ یہاں پبلک سکول میں تعلیم مفت ہے اور یہ سرکار کی ذمہ داری ہے ۔
پتہ یہ چلا کہ گریڈ ۸ تک کے بچوں کا داخلہ ان کی عمر کے حساب سے ہوتا ہے۔مثلاً ۶ سال کا بچہ گریڈ ۲ میں داخل ہوگا، ۷ سال کا گریڈ ۳ میں اور اسی طرح ہر ایک سال کے اضافہ کے ساتھ ایک گریڈ اوپر ملے گا۔ گریڈ ۹ سے اوپر کے بچوں کا ٹیسٹ ہو گا۔ اس لحاظ سے چھوٹے کا داخلہ تو ایسے ہی ہو جائے گا، دونوں بڑوں کو ٹیسٹ کے مرحلے سے گزرنا ہو گا۔
کلاس ٹیچر نے سب سے پہلے اپنا تعارف کرایا اور پھر ہمیں سکول اور تعلیم کے بارے میں بتایا۔
یہاں قانوناً۵ سے 16 سال کی عمر تک سکول کی تعلیم لازمی ہے۔ بچہ سکول میں تعلیم اس وقت تک شروع نہیں کر سکتا جب تک وہ سکول کی بتائی ہوئی بیماریوں ( ایسی بیماریاں جو ایک دوسرے کو لگ سکتی ہیں) کے ٹیکے نہیں لگوا لیتا۔ چونکہ ہم سب لوگ پاکستان سے چلنے سے پہلے تمام ٹیکے لگوا چکے تھے اور اس کے سرٹیفیکٹ بھی ہمار ے پاس موجود تھے اس لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوا اور چھوٹے صاحب زادے کوپہلی کلاس میں داخلہ مل گیا۔
وہ بچے جو انگلش میں کمزور ہوتے ہیں ان کے لئے انگلش کی علیحدہ ٹریننگ ہے جسے ای سی ایل یعنی انگلش بطور سیکنڈ لینگویج بھی کہتے ہیں۔ ہمارے صاحبزادے ذرا کم گو ہیں، انگلش تو کیا ان کو اردو گفتگو میں اچھا خاصہ وقت لگ جاتاہے۔ چنانچہ ان کو ای سی ایل میں بھی داخلہ دے دیا گیا۔
سکول نو بجے سے تین بجے تک اور پیر سے جمعہ تک ہے۔
جس دن بچہ بیمار ہو یا سکول نہ آ سکے سکول کو ضرور اطلا ع دیں۔ غیر نصابی سرگرمیاں یعنی کھیل وغیرہ سکول ختم ہونے کے بعد ہیں۔کبھی کبھار بچے کو سکول کے باہر والدین کی اجازت سے تعلیمی دورے پر لے جائیں گے اور اس کی اطلاع والدین کو بہت پہلے دے دیں گے۔ اس کے کچھ اخراجات والدین کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
  خاتون نے اس بات پر بہت زیادہ زور دیا کہ ہم والدین کی میٹنگ میں ضرور آیا کریں اور اساتذہ سے بچے کے بارے میں مکمل تبادلہ خیال کیا کریں۔
اسکے علاوہ جب بھی ضرورت ہو یا مسئلہ ہو ضرور فون کریں۔سکول کی میٹنگ اورمختلف تقریبات میں والدین کی شرکت بہت مستحسن سمجھی جاتی ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کیونکہ اس طرح سے والدین کو اپنے بچوں کے بارے میں اساتذہ سے بات چیت کا موقع ملتا ہے اور اس کی روشنی میں بچوں کی تعلیم و تربیت کو زیادہ بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
  سکول میں جمنازیم،لائیبریری،آڈیٹوریم، کینٹین ، کھیل کا میدان، لاکرز، اور پانی کے کولرز وغیرہ کی سہولیات تھیں۔
طلباء کے لئے بسوں کا خصوصی انتظام تھا۔ جو بچے سکول سے دور رہتے ہیں ( تقریباً دو کلو میٹر) ان کو بسوں کی مفت سہولت تھی۔ ہم تو چونکہ سکول کے پیچھے ہی رہ رہے تھے اس لئے بس کا مسئلہ ہی نہیں تھا۔
ہمیں اُس خاتون کا تلفظ اور لہجہ سمجھنے میں خاصی دشواری ہو رہی تھی لیکن جس خلوص اور دل جمعی کے ساتھ وہ ایک ایک بات بتا رہی تھیں ، ہم اس سے بہت متاثر ہوئے اور ہمیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ ہمارا بچہ یہاں عمدہ تعلیم حاصل کر ے گا اوریہی ہمارا کینیڈا آنے کا سب سے بڑا مقصد تھا ۔
پرائمری سکول سے کام ختم کرنے کے بعد ہم لوگ گھر آ گئے۔ کھانا کھایا چائے پی اور بچوں کو لے کر سیکنڈری سکول کا رخ کیا۔ یہ سکول پرائمری سکول سے کہیں بڑا تھا اور بچوں کی تعدا دبھی اسی نسبت سے زیادہ تھی۔ سکول کی لائبریری بہت اعلیٰ تھی۔
سکول کونسلر کی بات چیت سے یہ بات سامنے آئی کہ ہمارے دونوں بچوں کو یہاں داخلہ تو مل جائے گا لیکن اس کے لئے داخلہ ٹیسٹ ہو گا جو کسی اور جگہ جا کردینا پڑے گا۔
ٹیسٹ کا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن ا س سردی میں بس سے کسی دوسرے جگہ جانا مسئلہ لگ رہا تھا۔ ہم لوگ ابھی تک یہاں کے محلِ وقوع سے بھی زیادہ واقف نہیں تھے۔ بہرحال ہم نے دوسرے سکول کا فون نمبر اور پتہ لے لیا۔ لیکن یہ طے تھا کہ بات دوسرے دن پر چلی گئی۔ 
دوسرے دن یہ اہم مسئلہ بھی مکان مالکن کی مدد سے حل ہو گیا اور دونوں بڑے بچے بھیسکول میں داخل ہو گئے۔
وہ بیچاری تو گھر واپس چلی گئیں کہ ان کو نوکری پرجاناتھا،ہم لوگ نزدیک کے شاپنگ مال میں ٹیلیفون کی دکان پر چلے گئے ۔
ان لوگوں نے ہم سے ایک فارم بھروایا۔( یہاں ہر جگہ کاغذی کارروائی خوب ہوتی ہے) د و سو ڈالرزرِ زضمانت کے لئے ، چار ڈالر ماہانہ کرایہ کا نیاٹیلیفون سیٹ بھی پکڑا دیا اورساتھ ہی ٹیلیفون نمبر بھی الاٹ کر دیا ۔
ہم ٹیلیفون سیٹ لے جا کرلائن میں لگا دیں، اگلے چوبیس گھنٹے میں لائن کھل جائے گی۔ ہم حیران ہوئے کہ ماشاللہ وطنِ عزیز میں فون کی درخواست باپ دیتا ہے تو بچوں کے وقت میں نمبرآتا ہے۔ یہاں یہ کام کتنی تیزی سے ہو گیا۔ مان گئے کینیڈا کینیڈا ہے۔
آج کا دن بہت طویل اور تھکا دینے والا ثابت ہوا، لیکن ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ بہت سے اہم کام نبٹ گئے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem