Episode 14 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر 14 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

 ایک دو بلاک چلنے کے بعد، کچھ دکانیں نظر تو آئیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی پاکستانی ہوٹل نہیں تھا۔ اب بوندا باندی بھی شرو ع ہو چکی تھی، اور سردی میں بھی بتدریج اضافہ ہو رہا تھا۔ اسی چکر میں ہم لوگ تین چار بلاک اور آگے آ چکے لیکن منزلِ مقصود دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ میری ہمت بھی جواب دے رہی تھی، لیکن بچوں کی مایوسی کو سامنے رکھتے ہوئے میں سب کی ہمت باندھ رہا تھاکہ سامنے ایک نوجوان شلوار قمیض میں جاتا ہو انظر آیا ۔
میں نے وقت ضائع کئے بغیر اسے بڑھ کرسلام کیا اور عید مبارک کہا۔
پہلے تو وہ نوجوان ذرا سٹپٹالیکن پوری امیگرینٹ فیملی دیکھ کر ذرا سنبھلا۔ ہم نے اسے اپنا مقصد بتا یا اور کسی حلال ہوٹل کا پتہ پوچھا۔ جب اسنے کہا کہ ہم سیدھے چلتے چلے جائیں اور تقریباً دو بلاک کے بعد کئی حلال گوشت والے ہوٹل مل جائیں گے، تو ہماری جان میں جان آئی اور ارادے دوبارہ جوان ہونے لگے۔

(جاری ہے)

ہم نے اسے خدا حافظ کہا اورآگے روانہ ہو گئے۔
واقعی دو بلاک کے بعد وہ جگہ آ گئی جس کے تصور میں ہم لوگ یہاں تک آئے تھے۔ آس پاس دیسی کھانوں کی کئی دکانیں اور ہوٹل تھے، جن میں زیادہ بڑی تعداد انڈین ہوٹلوں کی تھی۔ سامنے کے ایک ہوٹل پر حلال لکھا دیکھ کر ہم اندر جانے والے ہی تھے کہ کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے پگڑی باندھے سردا ر جی نظر آ گئے۔
اب تو ہمیں شبہ ہو گیا کہ ضروری نہیں ہے کہ جہاں حلال لکھا ہو وہاں واقعی ذبیحہ کا گوشت ملے۔ بیگم سے مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے۔ ہم لوگوں نے یہ طے کیا کہ ہوٹل ڈھونڈنے کے بجائے، حلال گوشت کی دکان ڈھونڈتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ صحیح جگہ کونسی ہے؟
ا ب تک ہم لوگ بارش سے پوری طرح بھیگ چکے تھے اور سردی سے دانت بج رہے تھے۔
اتفاق سے سامنے ہی ایک حلا ل گوشت کی دکان تھی۔ میں اندر چلا گیا اور یہی سوال دکان والے سے کیا۔ اس نے کہا 
" یہاں کئی پاکستانی ہوٹل ہیں ، آپ ان میں سے کسی بھی ہوٹل میں چلے جائیں، انشاللہ آپ کو حلال گوشت سے تیار کی ہوئی ڈشیں ملیں گی" 
اس نے ہمیں تین چار ہوٹلوں کے نام بتا دیئے۔ ہم اس کا شکریہ اداکیے باہر نکل آئے۔
اور اس کے بتائے ہوئے ناموں میں سے جو پہلا نام سامنے آیا اس ریسٹورانٹ میں گھس گئے۔
گھس تو گئے لیکن اندر سناٹا پڑا تھا، آدم نہ آدم زاد۔ کاوئنٹر تک خالی تھا، جب کہ ہمارا خیال تھا کہ عید کا دن ہے، ہوٹل کو کھچا کھچ بھرا ہونا چاہئے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ عید کی چھٹی ہو، کیا پتہ یہ کینیڈا ہے بھئی۔ لیکنروشنیاں سب جل رہی تھیں، اور ہال بھی گرم تھا۔
خیر ہماری کھٹ پٹ سن کراندر سے ایک صاحب برآمد ہوئے۔ سلام دعا اور عید مبارک کے بعد کہنے لگے
" عید کی وجہ سے ہمارا سٹاف تو چھٹی پر ہے۔ اسلئے اپنے گاہکوں کی خاطر آج میں اور میری بیگم کچن کا کام سنبھا ل رہے ہیں۔ آپ تشریف رکھیں، دیر سویر تو ہو جائے گی لیکن انشااللہ آپ کو کھانا اچھا ملے گا"
یہ سب کچھ سن کر ہم لوگوں کی جان میں جان آئی۔
سب سے پہلے ہم لو گوں نے اپنی گیلی جیکٹیں،مفلر اور ٹوپیاں کھونٹی پرلٹکائیں۔ جب سب باری باری واش روم سے منہ ہاتھ دھو کر اورتازہ دم ہو کر نکلے تو ہمیں احساس ہوا کہ ہم سب کتنے بھوکے اور تھکے ہوئے ہیں۔
  ہوٹل والے نے ہمارے سامنے مینیو رکھتے ہوئے پوچھا 
"آپ پہلیچائے لیں گے یا کھانا ہی کھائیں گے۔
عید کی خوشی میں اس وقت کی چائے ہوٹل کی جانب سے مفت ہے"
  ہم نے مینیوکارڈ توایک طرف رکھ دیا اور پوچھا کہ کیا چیز تیار ہے؟ 
ہوٹل والے نے کہا "بریانی اور قورمہ تیار ہے۔ اگر آپ چکن تکہ، اور سیخ کبا ب لیں گے تو اس میں تھوڑی دیر لگے گی۔ نان میں بھی تھوڑی دیر لگے گی ۔ تنور گرم ہونے میں بھی ذرا دیر ہے، اور پھر کام کرنے والے ہم دو ہی لوگ ہیں" 
کھانے کے نام سن کر تو ہم لوگوں کی بھوک بھڑک اٹھی۔
میں نے سب لوگوں کی طرف دیکھ کر کہا 
"بریانی تو ابھی لے آئیں اور ساتھ میں دو چائے۔ بعد میں چکن تکے، کباب اورنان وغیرہ" 
منہ میں پانی بھر آیا۔یہ سب کچھ کھائے ہوئے بھی کافی عرصہ ہو گیا تھا۔
  ہم لوگ اپنا آردڑ دے ہی رہے تھے کہ دو تین لوگ اور بھی آ گئے، لیکن وہ لوگ روزانہ کے گاہک لگ رہے تھے کیونکہ انہوں نے ہوٹل کے مالک سے دور سے سلام دعا کی، عیدکی مبارک باد دی، وہاں پڑے ہوئے اردو کے اخبار اٹھائے اور آپس میں گپ شپ میں لگ گئے۔
پانچ منٹ کے اندر بھاپ اٹھتی ہوئی بریانی، رائتہ، سلاد اور ساتھ میں گرم چائے کی کیتلی ہماری میز پر موجود تھی۔ وطن سے دور ، عید کے دن اور سردی اور بارش میں بھیگنے کے بعد اللہ کی یہ نعمتیں، جی چاہ رہا تھا وہیں سجدہ شکر بجا لائیں۔ ہم سب لوگوں نے جلدی جلدی اپنی پلیٹیں سیدھی کی اور شروع ہو گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں تکہ، کباب اور نان وغیرہ بھی آ گئے۔
ہر چیز بہت خوش ذائقہ تھی اور بہت محنت سے بنائی گئی تھی۔ سب نے جی کھول کے اور پیٹ بھر کے کھایا۔ مجھے نہیں لگتا کہ خود میں نے کبھی اس سے زیادہ کھایاہوگا۔ ہمیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی کہ بل کتنے کا آئیگا؟ 
جب ہم کھانا ختم کرنے والے تھے تو ہوٹل کی مالکن خود نکل کر آئیں ، سلام دعا کی اور کھانے کے بارے میں تاثرات پوچھے۔
کھانے کی تعریف اور سروس کے بارے میں ہمارے تاثرات سن کر بہت خوش ہوئیں۔ پھر پوچھنے لگیں
" آپ لوگ پان کھائیں گے؟ "
عید کے دن اور پان، کون انکار کر سکتا ہے اور پھر ہمارے لئے تو یہ ایک خوشگوار سی حیرانگی تھی۔ کھانے کے بعد جب بل آیا تو وہ ہمارے انداز ے سے بہت کم تھا۔ ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ کینیڈا میں ہماری اور ہمارے بچوں کی پہلی عید ایک خوشگوار تجربہ کے طور پر ہمیشہ ہماری یادوں میں رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem