Episode 22 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر 22 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

کینیڈا میں نوجوان اپنی شناخت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہیں خود کو اپنے والدین کی شناخت سے علیحدہ کرنا ہوتا ہے۔ تنہا ایسا کرنا مشکل ہے، اس کے لئے دوستوں اور ساتھیوں کی اعانت ضروری ہو جاتی ہے۔ اس معاملہ میں نوجوانوں کے لئے اپنے گھرانہ کی نسبت دوستوں کو ترجیح دینا ایک عام سی بات ہے۔ اور والدین یہ بھی محسوس کر سکتے ہیں کہ ان کی اولاد بری صحبت میں پڑ گئی ہے۔
اس صورتِ حال میں بعض اوقات والدین سخت رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ نوجوانی کا زمانہ ویسے بھی ذرا سرکشی کا زمانہ ہوتا ہے، اس لئے یہ سختی اور بھی مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ اسے نوجوان اپنی والدین کی طرف سے محبت میں کمی یا کینیڈین کلچر سے ناواقفیت سمجھ سکتے ہیں۔
ایک اور مقرر نے جو ماہرنفسیات بھی ہیں کہاکہ جب اختلافات اور لڑائی جھگڑ ہوتے ہیں تو بسا اوقات نوجوان خود کو بہت بے بس محسوس کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

وہ دونوں کلچر میں سے کسی میں اپنائیت محسوس نہیں کرتے۔وہ اپنی روایات سے ہٹ کر چلنا چاہتے ہیں لیکن ان کو یہ خوف ہوتا ہے کہ وہ اپنی فیملی کی تائید اور امداد سے محروم ہو جائیں گے۔ دونوں جانب سے گھرنے کے بعد وہ منشیات کا شکار ہوسکتے ہیں، غلط لوگوں میں پھنس سکتے ہیں، گھر سے بھاگ سکتے ہیں یا انتہائی مایوسی کے عالم میں خود کشی کر سکتے ہیں۔
کئی زاویوں سے یہ ورکشاپ ہمارے لئے بہت اہم اور معلوماتی ثابت ہوئی۔ میں نیمقررین کے کہے ہوئے کئی اہم نکات نوٹ کر لئے۔ بعد میں جب بھی مجھے موقع ملتا میں ان نکات پر نظر ڈال لیتا اور اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتا کہ میرے تعلقات اپنے بچوں سے کیسے ہیں؟
سکول گرمیوں کی چھٹیوں کے لئے بند ہونے والے تھے ۔
بچے مختلف پروگرام بنا رہے تھے کہ وہ چھٹیوں میں کیا کریں گے؟ کہاں گھومنے جائیں گے؟کیا وہ کسی جگہ ملازمت کرسکیں گے(سمر جاب)؟ اگر کریں گے تو کہاں کریں گے؟ ان کے دوست کہاں کہاں کام کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ؟ 
  چھوٹے صاحب زادے بھی اس عمل میں شریک تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ وہ آئیس ہاکی رنگ کی نگہداشت کر سکتے ہیں، یا آئیس بلیڈز کو تیز کرنے والی مشین پر کام کر سکتے ہیں۔
بچوں میں ان چھٹیوں کی اس لئے بھی زیادہ گرمجوشی تھی کہ ا نکے لئے یہاں گرمیوں کی چھٹیوں کا پہلا موقع تھا۔ ابھی تک برف ، گھر اور سکول۔ اب ذرا باہر نکلنے کا موقع ہاتھ آ رہا تھا اور ساتھ میں سمر جاب کا جوش۔ بطور والدین ہمارے لئے یہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ گھومنا پھرنا اور سمر جاب دونوں۔ گھومنے پھرنے کے لئے پیسے چاہئیں اور ابھی تک کوئی مستقل آمدنی کی کوئی صورت نظر آئی نہیں تھی۔
 
سمر جاب؟ پتہ نہیں کس قسم کا کام ملے، کیسا ماحول ہو؟ بچے کام کر بھی سکیں گے یا نہیں، پھر بسوں سے آنا جانا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔تھوڑی سوچ بچار کے بعد میں نے اپنے تمام خدشات کو کنارے کر دیا مجھے اندازہ تھا کہ یہاں پر طلباء کے لئے سمر جاب کرنا کوئی انہونی بات نہیں ہے ، بلکہ نہ کرنا انہونی بات ہے۔ اس میں خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔
 
زیادہ تر بچے "ونڈر لینڈ" میں کام کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن اس کے علاوہ بھی کئی اور آسامیاں تھیں جس میں کتابوں اور طباعت کے ایک بڑے سٹور اور وئیر ہاؤس کے مواقع بھی شامل تھے۔ونڈر لینڈ کو آپ کینیڈا کا ڈزنی لینڈ کہہ سکتے ہیں۔ گرمیوں کے زمانے میں جب ان کا کاروبار عروج پر ہوتا ہے اور سکول بند ہو رہے ہوتے ہیں، یہ سینکڑوں کی تعداد میں طلباء بھرتی کرتے ہیں اور ان کوتربیت دیتے ہیں۔
طلباء کے لئے یہاں کام کرنے میں بہت کشش یہ ہے کہ مفت میں ونڈرلینڈ دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ خود سے دیکھنے جائیں تو اس کا ٹکٹ کافی مہنگا ہے۔مفت کی تفریح اور کام کرنے کے پیسے الگ۔ گویا ایک پنتھ دو کاج
ایک دن میں نے خود ہی بچوں سے سمر جاب کا تذکرہ کیا اور انہیں بتایا کہ ہماری طرف سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
چونکہ ابھی تک گھر میں کوئی گاڑی نہیں ہے اس لئے بسوں سے سے ہی آنا جانا ہو گا۔
بیٹی نے توچھٹیوں میں کام کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔ ا سکا خیال تھا کہ اگلے سال دیکھا جائیگا۔ بڑے بیٹے نے ایک کتابوں کے وئیر ہاؤس میں سمر جاب کرے کا عندیہ دیا۔ اس کے لئے آنے جانے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ سکول کا ایک دوست بھی وہاں کام کر ے گا اور اس کی گاڑی میں چلے جائیں گے۔
 
چھوٹے صاحبزادے بہت رنجیدہ تھے۔ انہیں کہیں کام ملتا نہیں نظر آرہا تھا ۔ بہرحال ہم نے ان کو پھسلا لیا تھا کہ سمر جاب نہ سہی ہم انہیں ہر روز سکیٹنگ کے لئے لے جایا کریں گے۔
رہا گھومنے پھرنے کا معاملہ تو میں نے اس کے لئے کافی پہلے سے منصوبہ بندی کی ہوئی تھی۔ کینیڈا کی دو باتیں مجھے ہمیشہ سے مسحور کرتی رہی تھیں۔
ایک تو یہ کہ میں گھوم پھرکرکینیڈا کی خوبصورتی دیکھوں، دوسری یہاں کے کسی اچھے کالج یا یونیورسٹی میں پڑھوں۔ اس سمر میں مجھے کم از کم ایک خواہش پوری ہوتی نظر آرہی تھی۔
گاڑی نہ ہوناکوئی مسئلہ نہیں تھا۔ کرایہ پر گاڑی لینے کی سہولت ہمیشہ سے نظر میں تھی۔ گھومنے پھرنے کے لئے ہم نے پہلے ہی سے روزانہ کے اخراجات سے ہٹ کر کچھ پیسوں کی بچت کر رکھی تھی۔
ہمیں پتہ تھا کہ اس طرح بچوں کے ساتھ کچھ اچھا وقت گزارنے کا موقع مل جائے گا اور تفریح بھی ہو جائے گی۔ کہا ں جانا ہے یہ بعد میں طے کرتے رہیں گے۔
سکول بند ہونے میں ایک ہفتہ تھا جب میرے بڑے بیٹے نے کہا کہ وہ اور ان کے دوست ایک پکنک پارٹی کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ ابھی جگہ وغیرہ کا طے نہیں ہوا ہے ہو سکتا ہے کسی پارک ، جھیل یا آبشار کا پروگرام ہو اور یہ ایک طرح کا 'پاٹ لک 'ہو گا۔
ہر شخص اپنے گھر سے کچھ نہ کچھ پکوا کر لائے گا۔
" پکانے کا مسئلہ نہیں ہے۔ بس اپنے دوستوں سے پوچھ کر بتادو کہ کیا بنایا جائے۔ سینڈوچ وغیرہ یا کوئی دیسی چیز ؟" بیگم نے کہا 
"دیسی چیز؟ زیادہ تردوست گورے ہیں؟ پھر بھی میں پوچھ لونگا"بیٹے نے جواب دیا
دو سرے د ن یہ سن کرہماری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ زیادہ تر بچوں نے سموسہ کی فرمائش کی ہے۔
صاحبزادے خودبھی حیران تھے، لیکن یہ ان کے دوستوں کی فرمائش تھی ، ہم لوگوں نے تو طے نہیں کیا تھا۔
پکنک کا دن آگیا ۔ بیگم نے بہت اہتمام سے آلو اور قیمے کے سموسے الگ الگ پیک کئے اور قلم سے لکھ دیا، گھر کی بنی ہوئی چٹنیاں بھی ڈبوں میں ڈالیں اور ہر ڈبے پر چٹنی کے اجزاء بھی لکھ دئے تاکہ کسی کو مسئلہ نہ ہو۔ساتھ میں ٹشو پیپر اور چھوٹی پلیٹیں، غرضیکہ پاٹ لک ہر لحاظ سے خود کفیل تھا۔
بچے تو دس جا رہے تھے لیکن میرے حساب سیکم از کم120فراد کااہتمام تھا۔ ہمیں زیادہ فکر یہ تھی کہ کسی بھی صورت ہمارے صاحبزادے اپنے دوستوں میں خود کو کم تر نہ محسوس کریں۔
دوسری صبح وہ حضرت تو نکل کر چلے گئے لیکن ہمیں انتظار تھا کہ بچے کیا رائے دیتے ہیں؟شام کو صاحبزادے دروازے سے ہی شور مچاتے ہوئے گھسے
"سموسے ہٹ ہو گئے۔
سب نے کہا کہ اپنے مام کو تھینک یوکہہ دینا۔ گریٹ سموساز"
"کچھ بچا؟" بیگم نے پوچھا
"نہیں کچھ نہیں ۔ صبح سے لوگ سموسوں پر ہی پلے پڑے تھے۔ جب کہ میں نے ان سے کہہ دیا تھا کہ سپائسی ہیں۔ لیکن کون سنتا ہے۔ ایک بچے نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ شام تک سموسے نہیں بچیں گے، اس لئے اس نے چار سموسے گھر لے جانے کے لئے پہلے ہی الگ کر لئے تھے۔
اس کی ماں کو سموسے بہت پسند ہیں۔ " جواب ملا
سموسے ہٹ ہونے سے زیادہ ہمارے لئییہ بات اہم تھی کہ ہمارے صاحبزادے خوش لوٹے اور انکے دوستوں میں ایک دیسی ڈش کی پذیرائی ہوئی۔ دوسرے دن اس بچے کی اماں کا فون آیا، وہ بیگم سے سموسے بنانے کی ترکیب پوچھ رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem