Episode 23 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر 23 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

چلتے ہو تو چمن کو چلئے!


ایک چینی لڑکی آگے آگے بھاگ رہی تھی۔ اس کے پیچھے کتا بھاگ رہا تھا، کتے کی زنجیر لڑکی کیبیلٹ سے بندھی تھی۔ کتے کے پیچھے لڑکی کا شوہر سائیکل پر چلا آ رہاتھا۔ سائیکل کے پیچھے اس نے ایک چھوٹاسائیکل ٹریلر باندھ رکھا تھا جس میں ایک ننھی بچی دھوپ کا چشمہ لگائے اور خوبصورت سی ٹو پی پہنے بیٹھی تھی۔
تفریح کی تفریح، ورزش کی ورزش۔ فیملی بھی خوش اور کتا بھی خوش۔ اس طرح کے دلچسپ نظارے اکثر ٹہلنے والی پگڈنڈی( واکنگ ٹریل) پر نظر آتے تھے جہاں میں تقریباً روزانہ ہی چہل قدمی کرنے جاتا تھا۔
یہ پگڈنڈی ہمارے گھر سے بالکل نزدیک ہے اور تھوڑا فاصلہ طے کر نے کے بعد یہ ایک اور بڑی پگڈنڈی میں ضم ہوگئی ہے۔

(جاری ہے)

قدرتی نالے کے ساتھ سفر کرتی ہوئی دو سکولوں، ایک فٹبال گراؤنڈ، دو بیس بال گراؤنڈ اور کئی چھوٹے پارکوں کے کناروں سے گزرتی ہوئی یہ ٹریل کئی کلو میٹر تک چلی گئی تھی۔

ایک بار میں نے سوچا کہ دیکھوں تو اس کی حد کہاں تک ہے۔ یہ خیال خام ہی رہا کیونکہ نقشے میں اس کی کئی طویل شاخیں دکھائی دیں چنانچہ میں نے ارادہ ترک کر دیا۔
  اس پارک کی دیکھ بھال شہری حکومت کے ذمے ہے اور حکومت یہ ذمہ د اری ہت احسن طریقے سینبھا رہی ہے۔ میں نے یہاں کبھی بھی گندگی نہیں دیکھی، کبھی حد سے بڑھی ہوئی گھاس مشاہدے میں نہیں آئی، نہ ہی کہیں شکستہ روشیں اور خود رو جھاڑ جھنکاڑ دکھائی دئے۔
چند دن پہلے جب میں ٹہلنے کے لئے نکلا تو ذہن پر کافی بوجھ تھا۔ کچھ دیر ٹہلنے کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک نہایت بزرگ شخصیت جو بمشکل تمام چل پا رہے تھے میرے سامنے سے گزرے، مسکرائے اور ہاتھ ہلایا۔ میں بھی غیر ارادی طور پر مسکرایا اور ہاتھ ہلا دیا۔ ان مسکراہٹوں کے تبادلے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میرے ذہن کابوجھ اچانک ختم ہو گیا ہے اور میں خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہا ہوں۔
کیوں نہ ہو، یہاں آنے والے ہم سب لوگ ایک واکنگ کلب کے غیر رسمی ممبر ہیں اوریہ ہائے ہیلو باہمی ربط و ضبط کا ایک موثر ذریعہ ہے۔
کینیڈا میں طویل ویک اینڈ ( ایسا ویک اینڈ جو دودن سے زیادہ کا ہو) کی تیاری لوگ بہت پہلے سے کرنا شروع کر دیتے ہیں خاص طور سے اگرکسی کا شہر سے باہر جانے یا پکنک وغیرہ کا پروگرام ہو۔ ہم لو گ بھی سردیوں کے طویل اور سخت موسم سے گزرنے اور بیسمنٹ تک محدود رہنے کی وجہ سے اس دفعہ کے لونگ ویک اینڈ پر باہر جانے کا پروگرام بنا رہے تھے۔
چونکہ ہمارے پاس گاڑی تو تھی نہیں ا س لئے گاڑی کرایہ پر لینے ، یہاں کی عام فہم زبان میں رینٹ کرنے کا ارادہ تھا۔
اس سلسلے میں جب کوشش شروع کی تو پتہ چلا کہ فیملی کاراور وین وغیرہ سب جگہ ہی پہلے ہی بک ہو چکی ہیں۔ کسی نے بتایا کہ ٹورانٹو ایئر پورٹ کے کار رینٹل پر کوشش کرو، وہاں ایئر پورٹ کے مسافروں کی وجہ سے ہمیشہ اچھی تعداد میں گاڑیاں دستیاب ہوتی ہیں۔
مشورہ بہت صحیح تھا، جب بڑے بیٹے نے ٹورانٹو ایئر پورٹ پرمعلوم کیا تو وہاں مسئلہ حل ہو گیا۔ معقول کرایہ اورروزانہ آپ جتنے کلو میٹر چاہیں سفر کر سکتے ہیں۔
عموماً کرایہ کی گاڑیوں پر ایک دن میں سو یا ڈیڑھ سو کلو میٹر کا سفر کر سکتے ہیں اگر آپ دن بھر میں اس سے زیادہ سفر کریں تو ہراضافی کلو میٹر کے الگ سے پیسے دینا پڑتے ہیں۔
لمبا سفر ہو تو یہ سودا خاصا مہنگا پڑ سکتا ہے۔
  کرایہ کے علاوہ گاڑی کی انشورنس بھی خاصی مہنگی ہو سکتی ہے اور بعض دفعہ گاڑی کے کرایہ سے زیادہ بیمہ کی رقمہو جاتی ہے۔ اسکی پیش بندی کے طور پر ہم نے ایک ایسا گولڈکریڈٹ کارڈ لے رکھا تھا جس پر گاڑی کا بیمہ مفت تھا۔یہ کھوج بھی ہماری بیٹی نے کی تھی۔ اس کو گھومنے پھرنے اور کفایتی تدبیروں میں ہمیشہ سے دلچسپی تھی۔
کمپیوٹرکی وجہ سے اب یہ مشغلہ آسان ہو گیا تھا۔
ہم لوگوں کاا اردہ ایلگو ن کوئین پارک جانے کا تھا۔ یہ پارک ٹورانٹو کے شمال میں تقریباً ڈھائی سو کلو میٹر کے فاصلے پر گھومنے پھرنے اور ایک دو راتوں کے قیام کے لئے ایک بہت مناسب تفریح گاہ ہے۔ طے یہ ہوا کہ صبح سویرے گھر سے نکل پڑیں ، کچھ سینڈوچز وغیرہ ساتھ رکھ لیں اور کسی جگہ رک کر چا ئے وغیرہ لے لیں گے۔
 
صبح سویرے ہائی وے پر بہت زیادہ رش نہیں تھا ۔ گاڑیاں مناسب رفتار سے چل رہی تھیں لیکن میں نے نوٹ کیا کہ ایک گاڑی بہت تیز رفتار سے میرے پیچھے آئی، کبھی میرے دائیں اور کبھی بائیں ہونے لگی،غالبا وہ مجھ سے آگے نکلنا چاہ رہی تھی ۔ میں نے گاڑی ذرا کنارے کر لی۔ اس بے چین روح نے گاڑی زن سے نکالی اور ہوا ہوگئی۔ میرے حساب سے اس کی رفتار کسی بھی صورت 160 کلومیٹر سے کم نہیں رہی ہو گی ،ڈرائیونگ بھی خطرناک حدوں کو چھو رہی تھی۔
 
میرے دل میں توآیا کہ اسی وقت پولیس کو فون پر رپورٹ کروں ۔ ایک دس منٹ سفر کیا ہو گا کہ دیکھا کہ اس گاڑی کو پولیس نے روک رکھا ہے۔ یا تو میری طرح کسی نے سوچا ہو گا اور فون بھی کر دیا ہو گا یا ٹریفک پولیس نے خود ہی ڈرائیور کو دھر لیا ہو گا۔ ایسی غیر ذمہ دارانہ حرکت دوسروں کے لئے اور خود ڈرائیور کے لئے بھی خطرناک ہو سکتی ہے۔
  سو، سوا سو کلو میٹر سفر کے بعد واش روم اور کافی بریک کے لئے گاڑی روکی اور اسکے بعد ہم تقریباً اگلے ڈیڑھ گھنٹے میں راستے کی خوبصورتی سے لطف انداز ہوتے ہوئے ا یلگون کوئین پارک پہنچ گئے۔
یہاں کافی تعداد میں کاریں اور سیاحوں کی مخصوص بسیں نظر آ رہی تھیں۔ تفریح کرنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اپنے ساتھ سائیکلیں اور کشتیاں (کینو) بھی لے کر آئی ہو ئی تھی ۔
ہم نے پارک کے استقبالیہ سے داخلے کے ٹکٹ اور پارک سے متعلق کتابچہ اور نقشے وغیرہ لے لئے۔ہمارے لئے یہ معلومات اس لئے ضروری تھیں کہ یہ کوئی چھوٹا موٹا پارک نہیں ہے۔رقبہ کے لحاظ سے ہی یہ پارک تقریباً ۸ ہزارسکوائر کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے،اور اس میں ہر سال اوسطاً تین لاکھ ٹورسٹ آتے ہیں۔
کتابچوں سے ہمیں پتہ چل گیا کہ گھومنے پھرنے کے مقامات مثلاً بیچ، آبشار، پکنک سپاٹ، اور کیمپنگ گراؤنڈ وغیرہ کہاں کہاں واقع ہیں ،یہاں آج کل کونسے تفریحی پروگرام ہو رہے ہیں؟ کشتیاں اور سائیکلیں کہاں سے کرایہ پر مل سکتی ہیں؟ کھانے پینے کی دکانیں اور خریدار ی کے مراکز کہاں کہاں موجود ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ایلگون کوئین پارک کاا ندرونی حصہ آپ پیدل یا بذریعہ کار بھی دیکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ اس کا اندرونی حصہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو کشتی سے سفر کرنا پڑے گا۔ یہاں چپو والی کشتیاں اور موٹر بوٹ بھی کرایہ کے لئے دستیاب تھیں ۔
ہمار۱ خیال تھا کہ ایلگون کوئین پارک دیگر تفریح گاہوں کی طرح فقط ایک تفریح گاہ ہے جہاں ہم معمول کی مشینی زندگی سے ہٹ کر ذرا اچھا وقت گزارنے جا رہے ہیں۔
لیکن پارک کے استقبالیہ میں داخل ہونے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہاں صرف تفریح ہی نہیں بلکہ یہاں معلومات کا ایک خزانہ ہے جس میں تاریخ، جغرافیہ، قدرتی مناظر، جنگل کی زندگی، جانور، تحقیق اور مینجمنٹ سب کچھ ہی شامل ہے۔ ایلگون کوئین پارک کا انتظام کرنے والوں نے کس حسنِ خوبی سے اور کتنی موثر منصوبہ بندی سے کام لیا ہے۔ آپ جہاں بھی جائیں آپ کو فوری طور پر یہ احساس ہو گا کہ یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں بن گیا بلکہ ا سکے پس منظر میں بہت عمدہ منصوبہ بندی، کاوشیں اور انتھک محنت شامل ہے۔
ایلگون کوئین پارک زمانہ قدیم سے رہنے والوں کے لئے مچھلی پکڑنے، شکار، بیری چننے والوں اور لکڑیاں اکھٹی کرنے والوں کے لئے ایک پسندیدہ جگہ تھی۔ اسکے سفید پائن درختوں کی برطانوی شہری زندگی میں بڑی مانگ تھی۔ چنانچہ پائین کے درختوں کے کٹنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اسکے کاٹنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور وہ جنگل کے اندر دور دراز علاقوں میں پہنچنے لگے۔
 
طریقہ کار یہ تھا کہ پہلے کلہاڑی سے بڑے بڑے درخت کاٹے جاتے ، انکے چوکور ٹکڑے کئے جاتے اور جب گرمیوں کا زمانہ آتا تو ان کو کھینچ کھانچ کر دریائے اٹاوہ میں بہا دیا جاتا ، جہاں سے وہ سفر کرتے ہوئے وہ مہذب دنیا تک آجاتے اور وہاں انکو دریا سے باہر کھینچ لیا جاتا ۔ 
ہم لوگوں نے سب سے پہلے گاڑی میں پارک کا ایک لمبا چکر لگایا، کچھ جگہ رک کر تصویریں کھینچیں اور پھر کھانے کا وقفہ کر لیا۔
دوسرے مرحلے میں ہمارا ٹریکنگ اور کشتی رانی یعنی کینوئنگ کا پروگرام تھا۔ چونکہ ہم نے دن بھر کا ٹکٹ لیا ہوا تھا، اس لئے ہمارا خیال تھا کہ آج دن کے دن جتنا گھوم سکتے ہیں ، گھوم لیں، دوسرے دن دوبارہ فی آدمی 16 ڈالر صرف ٹکٹ پر خرچ کرنا ذرا مہنگا سودا لگ رہا تھا۔
کرایہ کی کشتی کے ساتھ ان لوگوں نے پہننے کے لئے حفاظتی جیکٹ بھی دیئے اور خاص طور سے تاکید کی کہ دورانِ سفر اسے کسیوقت بھی نہ اتاریں۔
چونکہ جھیل بہت طویل و عریض ہے ا سلئے حفاظتی عملہ ہرجگہ نگاہ نہیں رکھ سکتا۔ 
چھوٹے صاحبزادے فرمانے لگے
" آپ لوگ گھبرائیں نہیں مجھے سوئمنگ آتی ہے"
میں ان کی بات پر دل ہی دل میں ہنسا۔بہرحال ان کادل رکھنے کے لئے میں نے کہا
"اگر ایسی بات ہے، میں تو پھر آپ کے ساتھ ہی بیٹھوں گا"
دو گھنٹے کی کشتی رانی بہت پر لطف لیکن بہت "با مشقت" تھی۔ جب کشتی کنارے لگی تو میں نے سکون کا سانس لیا اور شور مچادیا کہ اب کسی ہوٹل میں چل کر آرام کرتے ہیں۔ آرام بڑی چیزہے منہ ڈھک کر سویئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem