Episode 25 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر 25 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

میں دوسرے دن مقررہ وقت پر بتائے ہوئے پتہ پر پہنچ گیا۔ فیکٹری کیا تھی، ایک بڑا ساہال تھا جس میں بے شمار مشینیں لگی ہوئی تھی ۔
میں نے ایک شخص سے سپروائز کے متعلق پوچھا تو اس نے ایک دوسرے شخص کی طرف اشارہ کر دیا، جو مشینوں کے دوسری طرف کام کررہا تھا۔میں نے اسے جا کر اپنا نام اور ایجنسی کا نام بتایا۔
اس نے مجھے نیچے سے اوپر تک دیکھا اور پوچھا"بوتل پر ڈھکن لگا لو گے؟"
  یہ کیا سوال ہے؟بوتل پر ڈھکن لگانا کیا مشکل ہے؟ گھر میں لگاتے ہی رہتے ہیں۔
اس سے آسان کام کیا ہو سکتا ہے۔
سپروائزر نے میرے جواب کا انتظار نہیں کیا اور اشارے سے لائن کے آخری سرے کی طرف اشارہ کیا جہاں سے بوتلیں لائین بیلٹ پر آ رہی تھیں اور وہیں ان پرڈھکن لگائے جا رہے تھے۔

(جاری ہے)

اس جگہ پہلے سے ایک چینی لڑکی یہ کام کر رہی تھی۔ اس نے ہٹ کر مجھے جگہ دے دی، ڈھکنوں کی ٹوکری میرے آگے کر دی اور خوددوسرا کام کرنے لگی۔

میں نے پہلی بوتل پر تو ڈھکن بخوبی لگا لیا، دوسری پر اس وقت لگا سکا جب بوتل میر ے پاس سے تقریباً گزر چکی تھی۔ اب میں تیسرا ڈھکن لئے کھڑے تھاکہ جاتی ہوئی تیسری بوتل پر لگاؤں یا آنے والی چوتھی بوتل پر ۔
اس کشمکش میں تیسری بوتل بغیر ڈھکن کے گزر گئی۔ چوتھی میں میں نے ڈھکن تو لگا لیا لیکن پانچویں کا ڈھکن اور بوتل دونوں میرے ہاتھ سے پھسل گئے ۔
بوتل زمین پر گر کر چور چور ہو گئی۔
سپروائزر لال پیلا ہوتا ہوا آیا ، ایک کپڑے سے خود فرش صاف کرنے لگا اور دوسرا کپڑا مجھے فرش صاف کرنے کے لئے دیا۔لال پیلا تو میں محاورتاً کہہ رہا ہوں ورنہ اس کا رنگ تو اتنا گہرا تھا کہ ا س پر کوئی اور رنگ چڑھنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن تھا۔ اللہ معافی
بیلٹ رکنے کاسوال نہیں تھا۔
پہلے والی لڑکی نے دوبارہ ڈھکن لگانے شروع کر دیے۔ فرش کی صفائی کے بعدسپروائزر مجھے بیلٹ کے دوسرے سرے پر لے گیا۔ جہاں بوتلیں بیلٹ سے اٹھا کر ڈبوں میں رکھی جا رہی تھیں اور ڈبے بھرنے کے بعد سکڈ پر رکھے جا رہے تھے۔ میرا کام بھی یہی تھا کہ بوتل جیسے ہی بیلٹ کے آخری سرے پر آئے میں اسے اٹھا کر ڈبے میں رکھ دوں۔ اور جب ڈبہ بھر جائے تو میں اسے سکڈ پر رکھ دوں۔
مجھے یہ کام ڈھکن لگانے کی نسبتاً ذرا سہل دکھائی دیا۔ بوتلوں کو بیلٹ سے اتار کر ڈبے میں رکھنے کے لئے کافی پھرتی کی ضرورت تھی ورنہ ان کا ہجوم ہو جاتا تھا۔ ڈبہ بھرنے کے بعد سکڈ پر رکھنا بھی کافی محنت طلب کام تھا۔ ڈبے خاصے وزنی تھے۔ ذرا سی دیر میں میری کمر دوہری ہونے لگی۔ جیسے ہی ڈبہ بھرنے لگتا میری جان نکلنے لگتی کہ اب اس کو سکڈ پر رکھنے کا وقت آیا۔
آدھے گھنٹے میں میری حالت غیر ہو چکی تھی، لیکن اللہ نے میری فریاد سن لی۔ کہیں سے کڑ کڑ کی آواز آئی اور بیلٹاوربوتلوں کی قطار رک گئی۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ چھوٹے چھوٹے بونے جو بغیر قدم اٹھئے چل رہے تھے رک بھی سکتے ہیں ۔ میں نے سکون کا سانس لیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ پتہ چلا بیلٹ میں دو تین بوتلیں آڑی ترچھی ہو کر پھنس گئی ہیں۔
 
سپروائزر پھرتیلا تھا اس نے تین چار منٹ کے اندر سب کچھ ٹھیک ٹھاک کر کے دوبارہ بیلٹ چلا دی۔ پھر میں تھا بوتلوں کی نہ ختم ہونے والی قطار ، ڈبہ، سکڈ اور میری دوہری ہوتی ہوئی کمر۔ وقت انتہائی سست رفتاری سے گزرہاتھا۔ خدا خدا کر کے وقفہ کا سائرن ہوا۔ 
سپروائزر نے میرے قریب آ کر کہا کہ بیس منٹ کا وقفہ ہے۔
ڈائننگ روم میں کمپنی میں بننے والے جوس، اورآئس کریم وغیرہ سب موجود ہیں ۔ جو چاہو اور جتنا چاہو کھا سکتے ہو، سب مفت ہے۔
  کہاں کا جوس اور کہاں کی آئس کریم؟ آپ سمجھ نہیں سکتے، اس تھکے ہوئے جسم اور دوہری ہوتی ہوئی کمرنے لکڑی کی کرسی پرخود کو کس طرح گرادیا۔ لکڑی کی یہ کرسی ملکہ وکٹوریہ کے تخت سے زیادہ آرام دہ لگ رہی تھی۔
 
اس بیس منٹ میں میرے جسم نے کیا کیا عیش کئے؟ نہ بوتلیں تھیں نہ سکڈ تھی۔ میں اپنی مرضی کا مالک تھا، میں ہاتھ ہلانے یا وزن اٹھانے کا پابند نہیں تھا۔ آرام کے یہ بیس منٹ کا وقفہ چند سیکنڈوں میں گزر گیا۔ وقفہ ختم ہونے کاسائرن صورِ اسرافیل کی طرح لگ رہا تھا۔ پھر وہی کام شروع۔ بوتل، ڈبہ، سکڈ اور میں۔
میری بتدریج غیر ہوتی ہوئی حالت کو سپروایزر سمجھ گیا۔
اس نے کہا یہ کام چھوڑ دو ۔ یہاں سکڈ کا ڈھیر ختم ہو گیا ہے۔ تم دوسرے والے ہال سے ٹرالی پر سکڈیں اٹھا کر لے آؤ،او ر ہاں چاہو تو فرج میں سے کوئی جوس وغیرہ بھی نکال لو، تمہیں پسینہ بہت آرہا ہے۔ ایسا نہ ڈی ہائڈریشن ہو جائے۔
خدا خدا کر کے شفٹ ختم ہونے کی گھنٹی بجی، اور میں فیکٹری کے باہر بھاگا۔
مجھے اپنی زندگی کا یہ طویل ترین دن لگ رہا تھا۔
باہر نکلا تو قدم کہیں کے کہیں پڑ رہے تھے۔
مجھے فیض صاحب کے مزدوروں کی شان میں لکھے ہوئے اشعار یاد آرہے تھے اور مزدور کے ماتھے کے پسینے کی حقیقت معلوم ہوتی جا رہی تھی۔
وہ مزدور جن کی ہم نے بات تو بہت کی تھی لیکن کبھی ان کو محسوس نہیں کیا تھا۔
سروں پر بوجھ لادے ہوئے مزدور،فیکٹریوں کے تپتے ہوئے شیڈ کے نیچے کام کرتے ہوئے مزدور، ٹھیکیداروں کے ستائے ہوئے مزدور، دبلے پتلے اور فاقہ زدہ مزدور، دور دراز سے شہروں میں کام کی تلاش میں آئے ہوئے مزدور اور بوتل پر ڈھکن لگاتے ہوئے مزدور۔
گھر پہنچا تو کھانے پینے کا ہوش تک نہ تھا، جاتے ہی جوتوں سمیت بستر پر ایسا گرا کہ دوسرے دن ٹیلیفون کی گھنٹی سے آنکھ کھلی۔
 ایجنسی کی طرف سے اطلاع تھی کہ مجھے اب اس ملازمت پر نہیں جانا ہے، بلکہ آج کہیں بھی نہیں جاناہے۔
کل بتایا جائے گا کہ کہاں جانا ہے؟ 
مجھے اپنی کارکردگی سے اسی قسم کے رد عمل کی توقع تھی۔
  میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج مجھے کہیں نہیں جانا اور کروٹ لے کر سو گیا۔
خواب میں فیض صاحب کو دیکھا اور ان کا شکریہ ادا کیا جو ہم جیسے مزدوروں کا کتنا خیال رکھتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem