Episode 30 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر 30 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

مجھے ہے حکمِ اذاں
چھوٹے صاحبزادے کے قران شریف کی تعلیم کے لئے زیادہ راستے نہیں تھے۔یہ تو بالکل ناممکن تھا کہ کوئی گھر پر آکر پڑھا دے۔ لے دے کر بس یہ راستہ تھا کہ ہم خود بچے کو مدر سے لے کر جائیں، اور واپس لائیں۔
ہمارے گھر سے نزدیک ترین مسجد ۱۵ منٹ کی ڈرائیو پر تھی۔ لیکن وہاں تک پہنچنے کے لئے تین بسیں بدلنی پڑتی تھیں اور اس طرح پہنچنے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹا لگتا تھا، اور اب خیر سے اس کا حل نظر آرہا تھا۔

 یہ مسجد باقاعدہ مسجد نہیں تھی ، بلکہ کسی صاحب دل اور صاحب حیثیت شخص نے ایک رہائشی مکان کو مسجد کے لئے وقف کر دیا تھا ۔ اوپر والے حصہ میں سے کمرے ختم کر کے ہال کی شکل دے دی گئی تھی۔ بیسمنٹ میں ایک چھوٹا کچن تھا، ایک دو چھوٹے کمرے تھے، جو آنے والی تبلیغی جماعتوں کے استعمال میں آجاتے تھے، بقیہ حصہ ایک بڑے کمرے پر مشتمل تھا۔

(جاری ہے)

جو بطور مدرسہ استعمال ہوتا تھا۔

جمعہ کی نماز میں جب رش ہوتا ہے تو اس کمرہ کو بھی استعمال کیا جاتاہے۔ اسی کے احاطے میں نئی مسجد زیرِ تعمیر تھی اور اس وقت کچھ قانونی مسائل اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے اس کی تعمیرکام رکا ہوا تھا۔
 مسجد چرچ سے ملی ہوئی تھی، مزے کی بات یہ تھی کہ چرچ والوں نے نمازیوں کو اس بات کی اجازت دے رکھی تھی کہ اگر نمازیوں کا رش بڑھ جائے تو وہ چرچ کی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر سکتے ہیں۔

پہلے دن میں نے اپنے چھوٹے بیٹے کو لے جا کر مولانا صاحب سے متعارف کرایا۔
میرا خیال تھا کہ میں اپنے بیٹے کو مدرسہ اتار کرگھرچلا جاؤں،اور پھر گھنٹے پون گھنٹے میں دوبارہ آ کر لے جاؤں۔ ایک دفعہ ایسا کرنے کے بعد اندازہ یہ ہوا کہ ایسا کرنا صرف وقت اور توانائی برباد کرنے کے برابر ہے۔ آپ بچے کو چھوڑ کر گھر آتے ہیں، مشکل سے آدھا گھنٹا بیٹھتے ہیں کہ لینے جانے کا وقت آجاتا ہے۔
اس آدھے گھنٹے کے وقفے میں بھی آپ کوئی سنجیدہ کام نہیں کر پاتے، کالج کا کام کر نہیں پاتے،دفع الوقتی کے لئے کبھی کوئی کتاب اٹھا لی، یا اخبار اٹھا لیا یا کچھ نہیں تو ایک اور چائے کی پیالی بنا کر پی لی۔ اپنی پڑھائی کے علاوہ میں نے صرف یہ کام اپنے ذمہ لے لیا تھا، گھر والوں نے تو مجھے دیگر کاموں سے بالکل فارغ کر دیا تھا
 میں نے یہ سوچا کہ آئندہ گھر آنے کے بجائے میں مسجد میں ہی رک جاؤں اور کوشش کروں کہ کچھ نہیں تو تھوڑی بہت تلاوت ہی کر لوں یا کوئی دینی کتاب پڑھ لوں۔
چنانچہ اگلی دفعہ بیٹے کو مدرسہ کے بیسمنٹ میں پہنچا کر میں اوپر مسجد والے حصے میں آ گیا۔ مسجد کی الماریوں میں لگی ہوئی کتابیں دیکھنے لگا۔ کتابیں دیکھ ہی رہا تھا کہ وہاں میز پر رکھے ہوئے ایک اشتہاری پرچے
( فلائیر) پر نظر پڑی۔
"حلال وحرام ۔آپ کیا کھا سکتے ہیں اور کیا نہیں، ایک جائزہ"
اللہ کا شکر ہے، ہمیں حلال و حرام کی تمیز ہے ۔
ہمیں پتہ ہے کہ ہم اور ہمارے بچے کیا کھا سکتے ہیں اور کیا نہیں۔ ہم ا س کی بہت احتیاط کرتے ہیں ہمیشہ جانی پہچانی دکانوں سے ذبیحہ گوشت لیتے ہیں اور کیا چاہئے۔
 یہ سوچتے ہوئے میں نے اشتہاری پرچے کی ایک کاپی اٹھا ہی لی کہ ایک نظر دیکھلینے میں کیا حرج ہے۔
 دو چار لائنیں پڑھنے کے بعد ہی انداہ ہو گیا کہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔ بات صرف ذبیحہ تک محدود نہیں ہے۔

چند ایسے اجزاء ہیں جو عمومی طور پرحلال نہیں ہیں اوریہ جزاء بیکری کے سامان، آئس کریم اور پکانے والے تیل تک میں ملے ہوتے ہیں۔اسلئیے اس سلسہ میں ذرا کان اور آنکھیں کھلے رکھنے کی ضرورت ہے۔
اس فلائر میں بازار میں دستیاب بہت سارے برانڈ ناموں کی اشیاء کی فہرست تھی جن سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ میں نے فلائر جیب میں رکھ لیا کہ بعد میں تفصیل سے دیکھوں گا۔

 تھوڑی دیر میں عصر کی اذان ہو گئی، نیچے سے مدرسہ کے بچے بھی آ گئے اور دیگر نمازیوں سمیت اچھی خاصی بڑی جماعت ہو گئی۔
 چھوٹے بچے پیچھے کھڑے کئے گئے۔ لیکن بچے تو بچے ہیں، ادھر جماعت کھڑی ہوئی ، مولاناصاحب نے نماز شروع کی، ادھر پیچھے بچوں میں دھکم پیل شروع ہو گئی۔ مجھے اپنا مدرسہ کا وقت یاد آگیا جب ہم لوگ بھی کچھ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
لیکن
 وہا ں حافظ جی کے مولا بخش کا ڈر رہتا تھا، یہاں مار پیٹ کی ممانعت تھی، ا سلئے بچے زیادہ بے خوف تھے۔
گھر جا کربیگم کو فلائر دکھایا ۔ الماری اور فرج کا جائزہ لیا تو بچوں میں ایک کہرام سا مچ گیا کیو نکہ آئسکریم کا بڑا ڈبہ جو ایک دن پہلے ہی خریدا گیا وہ ممنوعہ فہرست میں موجود تھا، اسکے علاوہ بھی کئی چیزیں مثلاً بسکٹ اور چاکلیٹ بھی اس فہرست میں شامل تھے ۔
بہرحال بحث مباحثے کی گنجائش نہیں ۔ توبہ کی گئی کہ اب تک جو کچھ کھایا ، انجانے میں کھایا، انشا اللہ آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی۔
اب میرا یہ معمول ہو گیاتھا کہ صاحبزاے کو نیچے مدرسہ میں چھوڑ میں خود اوپر آجاتا تھا، اور اپنے ساتھ لائے ہوئے قران شریف کی تلاوت کر لیتا تھا۔ جماعت کے ساتھ عصر کی نماز ہو جاتی تھی۔ مجھے کچھ ایسا محسوس ہونے لگا کہ میری طبیعت میں کچھ ٹھیراؤ سا آتا جا رہا تھا، اور اضطرابی کیفیت میں کچھ کمی تھی۔
ایک دن میں اسی طرح تلاوت میں مصروف تھا کہ صاحب زادے تشریف لائے اور کہنے لگے۔
 "حافظ جی کہہ رہے ہیں آپ عصر کی اذان دے دیں۔"
" کون میں؟ کسی اور سے کہا ہوگا۔ "
"نہیں" انہوں نے کہا کہ اپنے ابو سے کہواذان دے دیں۔"
یہ کہہ کر وہ حضرت تو یہ جا اور و ہ جا، لیکن میں حواس باختہ ہو گیا۔ میں اور مسجد کی اذان۔اب ایسا تو تھا نہیں کہ اذان آتی نہیں تھی، لیکن یہ تو بہت ذمہ داری کاکام ہے اور اچھے اللہ والے لوگ کرتے ہیں۔
میں تو دنیا دار قسم کا آدمی ہوں۔
بہرحال کوئی اور راستہ نہ پاکرمیں اذان کے لئے کھڑا ہو گیا۔ پھر بھی ایک آدھ منٹ اور انتظار کیاکہ شائد کوئی اور آ جائے اور میں یہ ذمہ داری ا سکے حوالے کروں۔ لیکن جب ایساکچھ نہیں ہوا تو میں نے اذان دینی شروع کر دی۔ یہ بھی گھبراہٹ تھی کہ کوئی غلطی نہ ہو جائے۔ مجھے خود اپنی آواز اجنبی لگ رہی تھی۔اذان کے بعد دعا مانگی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے یہ توفیق دی۔

ایک دن میں نے صاحبزادے کو مدرسے کے دروزے پر اتار ا اور گاڑی پارک کرنے کے بعد مسجد میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ ایک صاحب نے سلام کیا اور تقریباً میرا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے۔ صورت سے سوالی نہیں لگ رہے تھے بلکہ بہت عمدہ لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔
تعارف کے بعد پتہ چلا کہ حال ہی میں دوبئی سے امیگریشن لے کر یہاں آئے ہیں۔فیملی یہاں رہے گی خود ملازمت پر دوبئی واپس چلے جائیں گے۔

مجھ سے پوچھنے لگے "کہاں رہتے ہیں؟"
"یہاں نزدیک ہی ایک بیسمنٹ میں رہتا ہوں"میں نے جواب دیا
"یبسمنٹ میں؟" و ہ تقریباً چلا پڑے۔" آپ کو کینیڈا میں آئے کتنا عرصہ ہو گیا ہے؟"
"تین سال"
"تین سال!" اس دفعہ ان کی آواز پہلے سے زیادہ اونچی تھی
"تین سال ،اورآپ ابھی تک بیسمنٹ میں رہ رہے ہیں۔ معاف کیجئے میں آپ کو نہیں کہہ رہا ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے دیسی لوگ پلاننگ بالکل نہیں کرتے ۔
مجھے دیکھیں ، آئے ہوئے صرف ایک ہفتہ ہو اہے۔مکان خرید لیا، فرنیچر لے دیا،بچوں کا پرائیویٹ سکولوں میں داخلہ ہو گیا، ہم نے نئی گاڑی خرید لی ۔میں اگلے ہفتے دوبئی نکل جاؤنگا اور ہر چھ مہینے کے بعد چکر لگاتا رہونگا۔ جناب میں نے تو اگلے تین سال تک کا پروگرام بنا لیا ہے کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں جب بچوں کے سکول بند ہو جائنگے تو کہاں گھومنے جائیں گے۔
پہلے سال یورپ، دوسرے سال مشرقِ بعید اورتسیرے سال امریکہ۔ بلکہ میں نے تو یورپ کے ٹور کے لئے ہوٹلوں کی بکنگ بھی فائینل کر دی ہے. دیکھیں اسے کہتے ہیں پلاننگ......... "
ایک بیسمنٹ میں رہنے والے کے پاس کیا جواب ہو سکتاتھا۔ پھر بھی میں نے کہا "پلاننگ تو خوب ہے، چلیں اللہ بہتر کرے گا"
"شائد آپ میری پلاننگ سے کچھ زیادہ متاثر نہیں ہوئے"
"نہیں ایسا نہیں ہے"یہ کہہ کر میں ان کی توجہ عصر کی نماز کی طرف دلائی تو کہنے لگے"ذرا اذان تو ہونے دیں"
یہ کہہ کر وہ پھرشروع ہو گئے۔
ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ وہ مزیدپانچ سال دوبئی میں گزار کرکینیڈا کا مستقل رہائشی کارڈ ختم ہونے سے پہلے یہاں آجائیں گے، جب تک دو بچے پڑھائی ختم کر کے یونیورسٹی میں آجائیں گے۔ انہیں بھی ریٹائرمنٹ سے اتنا پیسہ مل جائے گا کہ مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ان کی تقریر اس وقت رکی جب عصر کی جماعت کھڑی ہو گئی۔
اگلے ہفتہ وہ مجھے مسجد میں پھر نظر آئے لیکن کافی افسردہ تھے۔ دوسرے دن ان کی دوبئی کی فلائٹ تھی، فیملی سے دور جانے کا دکھ بہرحال اپنی جگہ تھا
"آپ سے میرا دل ملتا ہے۔ میری پلاننگ والی بات کابرا نہ مانئے گا"یہ کہہ کر مجھ سے گلے ملے اور رخصت ہو گئے۔ میری نظر کے سامنے کئی دن تک انکا افسردہ چہرہ گھومتا رہا۔ اللہ ان کو اور ان کی فیملی کو خوش رکھے۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem