Episode 33 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر 33 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

 ٹورانٹو۔ایک امیگرینٹ دوست شہر

بہت سے لوگوں کے لئے ٹورانٹو کینیڈا کا سب سے بڑ اشہر ہے جس میں سی این ٹاور اور راجرز سینٹر ( پرانا نام سکائی ڈوم) جیسی تعمیرات ہیں جن کی کشش کے باعث دنیا بھر کے سیاح کھینچے چلے آتے ہیں۔ لیکن حقیقتاً ان تعمیرات کے علاوہ ٹورانتو کے دامن میں سیاحوں کے لئے اور بھی بہت کچھ ہے۔

کینیڈ اکی قدیم زبان میں لفظ ٹورانٹو کا لغوی مطلب "ملاقات کی جگہ " ہے۔ اس حوالے سے شہر ٹورانٹو بیس ہزار سال سے قدیم لوگوں کے ملنے ملانے اور باہمی تجارت کی جگہ رہا ہے۔ ٹورانٹو ایک قدری بندرگا ہ ہے اور جھیل ٹورانٹو کے شمال مغربی کنارے پر واقع ہے۔ یہ جھیل ہزاروں سال سے قدیم لوگوں لوگوں کے لئے سمندری راستے سے سفر کرنے کے لئے ایک اہم سٹیشن کا کام دیتی رہی ہے۔

(جاری ہے)

اس کے جزائر مدتوں سے انڈین فشری کے لئے اہم مراکز رہے ہیں۔مغربی اقوام کی آمد تو بہت بعد کا قصہ ہے۔
تاریخی شہر ہونے کے علاوہ ٹورانٹو ایک امیگرینٹس دوست شہر بھی ہے۔ یہاں کا ہر پانچواں شہری ۱۹۸۱ ء کے بعد وارد ہو ا ہے۔یہاں دنیا کے ۱۷۰ ملکوں کے لوگ بستے ہیں۔ برٹش اور آئریش ڈھائی لاکھ، چاینیزچار لاکھ، فرانسیسی تین لاکھ، جرمن ساڑھے تین لاکھ، گریک دو لاکھ، ساؤتھ ایشین، چار لاکھ، جاپانی ڈیڑھ لاکھ،اٹالین ساڑھے چھ لاکھ، مشرقِ وسطیٰ اور عربی لوگ ڈیڑھ لاکھ ، لاطینی، برازیلی اور پرتگالی تقریباً دو لاکھ۔

شہر ٹورانٹو میں ا س وقت ۱۰۰ سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی اور فرنچ کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں چینی،، اٹالین، پرتگیز، سپینش، پولش، جرمن، عربی، پنجابی ، اردہ، گجراتی ، ہندی اور تامل ہیں ۔
 لندن اور نیویارک کے بعد ٹورانٹو انگلش بولنے والوں کا دنیا کا تیسرا بڑا شہر جب کہ اٹالین بولنے والوں آبادی کے اعتبار سے یہ دنیا کا پانچواں بڑا اٹالین شہر سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں یورپی ممالک سے آنے والوں کی تعداد میں کمی اور ایشیائی ممالک سے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔
ٹورانٹو کے بارے میں چند دلچسپ حقا یق مندرجہ ذیل ہیں
۔ اس کا رقبہ ۶۳۲ سکوائر کلو میٹر ہے
۔ کینیڈا کی تقریباً آدھی آبادی ٹورانٹو کے ۱۶۰ کلو میٹر کے دائرہ میں رہائش پذیر ہے
۔ امریکہ کی آدھی سے زیادہ آبادی ٹورانٹو سے فقط ایک دن یا اس سے کم بذریعہ کار کی مسافت پر واقع ہے
۔
یہاں ہر سال ۲۰ ملین سے زیادہ لوگ سیاحت کے لئے آتے ہیں
۔ یہاں ۸۰۰۰ سے زیادہ ریسٹورنٹ اور ۳۲۰۰۰ سے زیادہ ہوٹل کے کمرے سیاحوں کی رہائش کے لئے موجود ہیں
۔ ٹورانٹو میں نارتھ امریکہ کا سب سے بڑا پبلک ٹرانزٹ سسٹم زیرِ استعمال ہے
۔ ٹورانٹو روزگار کی فراہمی کے اعتبار سے کینیڈا کا سب سے بڑا مرکز ہے اور ملک کی مجموعی روزگار کا چھٹا حصہ فراہم کرتا ہے
۔
یہاں پر دنیا کا سب سے بڑا زیرِ زمین پیدل چلنے والوں کا راستہ ہے جو ۱۵۰۰ سے زیادہ سٹورز اور دکانوں، ۶۰سے زیادہ آفس ٹاورز اور ۶ بڑے ہوٹلوں کو منسلک کرتا ہے
۔ راجرز سینٹر ٹورانٹو کی ایک اور عظیم الشان عمارت ہے جو بالکل سی این ٹاور سے ملی ہوئی ہے اور دو ملین سکوائر فٹ کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اتنے رقبے میں بیک وقت ۸ بوئنگ طیارے کھڑے ہو سکتے ہیں۔
اگر آپ سی این ٹاور اور راجرز سینٹر کو دور سے مشترکہ طور پر دیکھیں تو یہ ایک عظیم الشان منجد اور مینارہ کا منظر پیش کرتے ہیں۔
۔ یہاں کا یونین ریلوے سٹیشن نارتھ امریکہ کا قدیم ترین ریلوے سٹیشن ہے۔ اس کی تعمیر ۱۹۱۱ء میں شروع ہوئی تھی، لیکن پہلی جنگِ عظیم کے باعث اس کی تعمیر کا کام رک گیا۔ اس کا باقاعدہ افتتاح ۱۹۲۷ میں پرنس آف ویلز کے ہاتھوں ہوا۔
یہاں سے اوسطاً ۵۵ ہزار ٹرینیں ہر سال روانہ ہوتی ہیں۔ اس سٹیشن سے اندازاً ۲۵ ملین مسافر ٹرین کی سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ سٹیشن نہ صرف بیرونِ شہر بلکہ اندرونِ شہر ٹرینوں کا مرکز بھی ہے۔
 معیشت کے اعتبار سے اس وقت ٹورانٹو کو کینیڈا میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ گزشتہ دو تین عشروں میں ٹورانٹو اور اسکے نواحی علاقوں کی آبادی میں بہت زیاددہ اضافہ ہوا ہے اور نئی نئی آبادیاں وجود میں آگئی ہیں۔
ان نواحی شہروں کو ملا کر گریٹر ٹورنٹو ایریا GTA قایم کیا گیا ہے۔ گریٹر ٹورنٹو ایریا میں نہ صرف ٹورنٹو ڈاؤن ٹاؤن بلکہ دیگر شہر مثلاً سکاربورو، نارتھ یارک، ایٹوبی کوک،مسی ساگا، مارکھم، برمپٹن، اشاوہ، برلنگٹن، ملٹن اور وان وغیرہ سب ہی شامل ہیں۔
ان شہروں مرکزی کو ٹورنٹو سے ملانے کے لئے ٹرانپورٹ کا ایک جال کچھ اس طرح بچھایا گیا ہے کہ لوگوں کو جی ٹی اے کے کسی بھی حصے سے مرکزی ٹورنٹو تک پہنچنے میں دشواری نہ ہو اور انکے لئے پبلک ٹرانسپورٹ ذاتی گاڑی کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند نظر آئے ۔
خاس طور سے وہ لوگ جو روزگار کے سلسلے میں روزانہ ٹورنٹو سٹی تک آنے پر مجبور ہیں۔
میرادفتر ٹورانٹو ڈاؤن ٹاؤن میں تھا۔میں اپنی گاڑی ، بس یا گو(GO) ٹرین سے بھی جا سکتا تھا۔
ہائی وے کے رش اور شہر کی مہنگی پارکنگ کی وجہ سے میں نے اپنیگاڑی سے دفتر جانے کا خیال اول دن ہی سے رد کر دیا تھا۔ تجربہ کے طور پرمیں نے پہلے دن دفتر جانے کے لئے ٹرین سے سفر کرنے کا پروگرام بنایا
 دومنزلہ ٹرین ، دو دو کی قطار میں آرام دہ سیٹیں، رش بھی زیادہ نہیں، زیادہ تر آفس والے جانے والے اس وقت سفر کررہے تھے۔
کچھ کمپیوٹر استعمال کررہے تھے،کچھ کے ہاتھ میں اخبار تھا، کچھ سیل فون پر مصروف تھے اور ساتھ میں کافی کی چسکیاں بھی لگا رہے تھے، بقیہ لوگ اونگھ رہے ہیں یا میری طرح کھڑکی سے جھانک رہے تھے۔ مجموعی طور پر سفر کافی آرام دہ تھا۔ ٹرین سیدھی یونین سٹیشن پرآ کر رکی ۔
میرے ساتھ ہی لوگوں کا ایک ہجوم مختلف پلیٹ فارموں پر ٹرین سے اتر رہا تھا۔
لفٹ اور سیڑھیاں بھری ہوئی تھیں ۔ انسانوں کا یہ سیل ِ رواں یا تو زیرِ زمین ریل (سب وے)کے پلیٹ فارم کا رخ کر رہا تھا یا یونین سٹیشن کے دروازوں سے نکل کر شہر کے ہجوم میں مدغم ہو رہاتھا۔ کچھ لوگ سٹیشن کی عمارت کے اندر بنی ہوئی کافی شاپس سے پھرتی سے کافی اورناشتے کاسامان لے رہے تھے ۔ لمبی لمبی قطاریں تھیں۔ ہرشخص اپنی ہی دھن میں تھا ( یا مجھے لگا) اور اس وقت کوئی کسی کا نہیں تھا۔
یہ تھاٹورنٹو شہرکی صبح کی ایک جھلک۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوگیا ہوں جو سب وے کا رخ کر رہے تھے۔
پلیٹ فارم پر لگے ہوئے نقشے کی مدد سے میں نے وہ سب وے ٹرین منتخب کی جو مجھے آفس تک لے جا سکتی تھی۔
یہ ِ اتفاق تھا کہ سب وے ٹرین کا اسٹیشن میرے دفتر کی عمارت کے نیچے ہی تھا اور یوں میں ٹرین سے اتر کر اند ر اندر چلتا ہوا اپنی آفس بلڈنگ میں آ گیا۔
باہر قیامت کی سردی لیکن بلڈنگ لاوئنج کا درجہ حرار ت بہت مناسب تھا۔ ملحقہ کافی ہاؤس کی وجہ سے کافی کی خوشگوار مہک ہر آنے والے کا استقبال کر رہی تھی۔ میں کافی کا زیادہ دلدادہ نہیں ہوں لیکن اس سردی میں لاؤنج میں پھیلی ہوئی خوشبو مجھے بہت مسحور کن لگی۔ صرف خوشبو، کافی پینے کی طلب نہیں۔
ٹرین سے جاتے ہوئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔میں نے پورے ہفتہ کا پاس بنوا لیا تھا روزانہ لائین میں کھڑا ہونے کی زحمت سے بچ گیا ۔
ٹرین میں سوار ہونے سے پہلے پلیٹ فارم پر لگی ہوئی خود کارمشین سے اپنے ٹکٹ پر مہر لگوا لیتا تھا۔ ا سکا مطلب تھا کہ یہ ٹکٹ استعمال ہو گیا ہے۔میں مہر لگوانے کی زحمت کرو ں یا نہ کروں کبھی کسی نے ٹکٹ چیک نہیں کیا۔ایسا کیوں؟
لیکن ایک دن اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہو ہی گیا۔ میں صبح کے وقت ٹکٹ پر مہر لگو ا کر ٹرین میں بیٹھ گیا ۔ٹرین چلنے والی ہی تھی کہ ڈبے کے اندر ریلوے کی وردی میں ملبوس تین لوگ پھرتی سے داخل ہوئے اور دروازے روک کر کھڑے ہو گئے ۔
یہ ٹکٹ چیکر تھے۔ میں ٹرین نے سیٹی بجائی اور روانہ ہوگئی اورٹکٹ چیکر نے لوگوں نے ٹکٹ اور پا س چیک کرنا شروع کردئے۔
 کوئی مسئلہ نہیں میں نے بھی اپنا پاس آگے کر دیا ۔ٹکٹ چیکر نے آ ج کی مہردیکھی اور پاس واپس کر دیا۔ میرے سامنے تین نوجوان بیٹھے تھے جو اپنے حلیہ اور بات چیت سے طالب علم لگ رہے تھے۔ ان میں سے دو نے تو اپنے ٹکٹ دکھادئے، لیکن تیسر اوالا کبھی اپنی جیب میں ٹکٹ تلاش کرے، کبھی اپنے بیگ میں۔
میں نے محسوس کیا کہ اس کا ایک ساتھی زیرِ لب مسکرایا۔ ٹکٹ چیک کرنے والا اس دوران بہت آرام سے خاموش کھڑا رہا، یہاں تک کہ نوجوان نے اس کی طرف دیکھا اور کہا
"میں نے ٹکٹ خریدا تھا، لیکن اس وقت مل نہیں رہا۔ شائد راستے میں کہیں گر گیا ہے"
" ٹھیک ہے، آپ نے ٹکٹ خرید اہو گا، لیکن قانون کے مطابق جب ٹکٹ مانگا جائے تو آپ کو ٹکٹ پیش کرنا ہوتا ہے۔
یہ ایک قانونی تقاضا ہے جو ا سوقت پورا ہوتا نہیں نظر آتا، آپ کواس کا جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ نوجوان مجھے افسوس ہے۔ شائد آج کا دن آپ لیے بہت خوش قسمتی کا دن نہیں ہے" ٹکٹ چیکر نے کہا اور اپنی نوٹ بک کھولنے لگا
یوں تو ٹرین کے سفر میں سب کچھ صحیح تھا لیکن گھر سے سٹیشن تک لئے جو ایک مقامی بس لیتا تھا وہ اکثر لیٹ بھی ہو جاتی تھی ۔دس منٹ سے زیادہ لیٹ ہونے کا مطلب، آپ کی ٹرین چھوٹ گئی۔
میں نے سوچا کہ طویل فاصلے کی بس سے بھی سفر کر کے دیکھتے ہیں۔ ہو سکتا سفر کا یہ طریقہ نسبتاً بہتر ثابت ہو۔ بس اور ریل کے کرایہ میں کوئی فرق نہیں تھا بلکہ دونوں جگہ ایک ہی ٹکٹ چلتے تھے۔
مجھے بس کا سفر زیادہ بہترلگا۔رش کم،بریف کیس اور دستی سامان کے لئے الگ دو چھتی موجود ، سیٹ کے اوپر بلب کا سوئچ اور پنکھے کا کنٹرول ،سیٹ کو بھی آگے پیچھے کر سکتے ہیں، پڑھے لکھنے کا کام کر سکتے ہیں۔
پشت والی سیٹ کوبھی پیچھے کر کے آرام دہ بنا سکتے ہیں، چاہیں تو آرام کر سکتے ہیں، سو سکتے ہیں۔ ایک مسافر کو اور کیا چاہئے ؟
صبح میں میرابس کا سفر' یارک ڈیل' ٹرمینل پر ختم ہو جاتا تھا اورپھر یہاں سے میرے صبح کے سفر کا سب سے زیادہ خوشگوار حصہ شروع ہوتا تھا۔ میں یہاں سے سب وے لیتا تھا۔ سب وے کی سواری میں کوئی دل کشی نہیں تھی، میرے لئے دلکشی صبح کے اس مفت اخبار تک محدود تھی جو میں یہاں سے اٹھاتا تھا اور سب وے کے سفر کے دوران پڑھتا ہوا اپنے دفتر اتر جاتا تھا۔
اس ۱۴، ۱۵ منٹ کے وقفے میں مجھے تازہ خبروں کا خلاصہ، شہر میں ہونے والے پروگرام اور اہم اشتہارات پرنظر ڈالنے کا موقعہ مل جاتا تھا اور مجھے اس بات کی تسکین ہو جاتی تھی کہ میں نے آج کا اخبار پڑھ لیا ہے، اخبار پڑھنے کے عادی اس' ٹھرک ' سے واقف ہیں
شام میں دفتر سے واپسی کے سفر کا خوشگوار حصہ بھی یارک ڈیل ٹرمینل سے ہی شروع ہوتا تھا۔اس بار اس کی خوشگواری دوپہر یا سہ پہر کی وہ نیند تھی جسے پیار سے قیلولہ کہا جاتاہے ۔
یارک ڈیل سے بس کی آرام دہ سیٹ پر بیٹھتے ہی میرا سر بوجھل ہونے لگتا اور سر ڈھلک جاتا۔ پہلے ایک دو دن تو خاصا مسئلہ رہا ، اس قیلولہ کے چکر میں گھر کے نزدیک جس بس سٹاپ پر میں اترتا ہوں، نکل جاتاور مجھے اگلے سٹاپ سے گھر تک پیدل مارچ کرنا پڑتا۔ دو چار دن میں میرا جسم قیلولہ کے وقفے سے ہم آہنگ ہو گیا اور میں اپنا بس سٹینڈ آنے سے کافی پہلے ہی چوکنا ہو جاتا تھا۔

یہ میری خو ش قسمتی تھی کہ ٹورانٹو شہر کی مرکزی مسجد میرے دفتر کے نزیک ہی تھی۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ لنچ کا وقفہ اس طرح لوں کہ ظہر کی جماعت مل جائے۔ایک دن جب میں ظہر کے لئے آیا تو پتہ چلا کہ آج یہاں نماز کے فوراً بعد ٹورانٹو کے مئیر تشریف لانے والے ہیں ۔
 نماز ختم ہوئی تو اعلان ہوا کہ مئیر صاحب تشریف لا چکے ہیں ۔جو خواتین مئیر صاحب کی تقریر سننے میں دلچسپی رکھتی ہیں وہ پیچھے آکر بیٹھ جائیں۔
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مئیر صاحب اپنے ایک اسسٹنٹ کے ساتھ چلے آ رہے تھے۔ میرے حساب سے ٹورانٹو کا مئیر کوئی ایک عام شخصیت نہیں تھا۔لیکن نہ کوئی اہتمام، نہ ہٹو بچو، نہ کوئی استقبالیہ کمیٹی، فوٹو گرافر اور نہ ہی کوئی چائے پانی کا بندو بست۔ مجھے کچھ مایوسی سی ہوئی۔ دیکھنے میں مئیر صاحب ویسے ہی لگ رہے تھے، جیسے کبھی کبھار میں نے ان کو ٹی وی یا اخباروں کی تصویروں میں دیکھا تھا۔

 مئیر صاحب نے پہلے تو انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا کہ انہیں یہاں آنے اور بات کرنے کا موقع دیا ۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ مسجد ان کے دائرہ کار میں ہے اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی نمائندگی کرتی ہے، ا سلئے وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ وہ خود یہاں تک چل کر آئیں اور لوگوں کے مسائل معلوم کریں۔ انہوں نے کہا کہ مسجد کی انتظا میہ نے کچھ مسائل کی نشاندہی کی ہے۔
وہ آج دفتر واپس جا کر سب سے پہلا کام یہی کریں گے گہ اپنے سٹاف کو ان مسائیل سے آگاہ کریں اور فوری طور پر مسئلہ کا حل نکالیں گے۔ ان کے آفس کے دروازہ کھلے ہیں، ہم میں سے کوئی بھی شخص ان سے ذاتی طور پر رابطہ کر سکتا ہے۔
وہ زیادہ دیر رکے نہیں لیکن میں ان کی اس غیر رسمی گفتگو اور ملاقات سے بہت متاثر ہو ا۔عوامی نمائندہ ایسا ہی ہونا چاہئے۔

 بس کے سفر میں کئی روز کے مسافرتھے۔ ان میں سے ایک صاحب اپنی وضع، قطع اور چال ڈھال سے کسی یونیورسٹی کے پروفیسر لگتے تھے۔ گوری چٹی رنگت ،سرمئی سے سفید ہوتے ہوئے بال، چھوٹی سی فرنچ کٹ داڑھی، موٹے شیشوں کاچشمہ اور ہاتھ میں بریف کیس۔ پروفیسرصاحب بس میں ایک سیٹ پر خودبیٹھتے اور دوسری پر اپنا بیگ رکھ کر کوئی نہ کوئی کتاب کھول لیتے۔
میں پروفیسر کی شخصیت ، رکھ رکھاؤ اورمطالعہ کی عادت سے بہت زیادہ متاثر تھا۔
 عام طور سے بس میں رش نہیں ہوتالیکن ایک دفعہ کسی تہوار کی وجہ سے بس میں ایک دم سے رش بڑھ گیا اور لوگوں کے کھڑے ہونے کی نوبت آ گئی۔ پروفیسر صاحب دیکھ رہے تھے کہ لوگ کھڑے ہیں لیکن انہوں نے ساتھ والی سیٹ سے اپنا بیگ اٹھانے کی زحمت گوراہ نہیں کی، یہاں تک کہ ایک نوجوان نے ان سے استدعا کی کہ وہ اس سیٹ پر سے اپنابیگ اٹھا لیں تا کہ وہ بیٹھ جائے۔

پروفیسر صاحب نے پہلے تو اس نوجوان کو دیکھا اور پھر بڑی نا گواری سے بیگ اپنی گود میں رکھ لیا،لیکن اس دن کے بعد سے پرو فیسر صاحب میرے دل سے اتر گئے۔ ایسی تعلیم کا کیا فائدہ کہ آپ لوگوں کی پریشانی سے بے خبر ہو جائیں۔
 اسکے برعکس مجھے سب وے کاایک مسافر یاد آگیا۔ میں سب وے میں سفر کر رہا تھا۔ عام سا دن تھا، کوئی خاص رش نہ تھا، کافی سیٹیں خالی تھیں۔
ایک سٹیشن پر ٹرین رکی، اور دروازے سے ایک ایسا شخص داخل ہوا جس کی شکل اور کپڑوں سے اس کی مفلوک الحالی اور بیماری کا اندازہ ہو رہا تھا۔ چہرے پر کسی جلد ی بیماری کے بھی واضح نشانات تھے۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے بڑی ندامت اور شرمندگی ہو رہی کہمیں بھی دل سے چاہ رہاتھا کہ یہ شخص میرے برابرخالی سیٹ پر نہ بیٹھے،کہیں اور بیٹھ جائے۔ اس سے پہلے کہ وہ شخص اپنے بیٹھنے کی جگہ منتخب کرتا، میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھا ہوا آدمی بڑھا اور اس مفلوک الحال اور بیمارشخص کو ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ والی سیٹ پر لے آیا اور اس کاحال چال پوچھنے لگا۔
صاف لگ رہا تھا کہ دونوں میں کئی پرانی جان پہچان نہیں ہے اور پہلی مرتبہ مل رہے ہیں۔
 میں اس شخص کا، پروفیسر صاحب کا اور اپنی ذات سے موازنہ کر کے خود سے دل ہی دل میں شرمندہ ہونے لگا۔ مجھ میں اور پروفیسر صاحب میں کیا فرق تھا؟
ایک دن دفتر سے واپسی کے سفرمیں روزانہ کے مسافروں کے علاوہ ایک کالی رنگت والا نوجوان بھی سوار ہوا۔ وہ کانوں پر لگے ہیڈ فون پر موسیقی سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور ساتھ ہی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے جھوم بھی رہا تھا۔
موسیقی کی آواز ذرا بلند تھی، دور تک جا رہی تھی، غالباً لوگوں کو پریشان بھی کر رہی تھی لیکن کسی نے صدائے احتجاج بلند نہیں کیا۔ شائید میری طرح لوگوں کا خیال تھا کہ نوجوان کچھ دیر میں آواز کم کردے گا۔ جب سلسلہ دراز ہوا تو پروفیسر صاحب تنتناتے ہوئے اٹھے اور نوجوان کے قریب جا کر زور سے چیخے
"کیاخرافات ہے؟ کیا تم یہ آواز کم نہیں کر سکتے؟ کیسے کیسے لوگ آجاتے ہیں.۔
ذرا تمیز نہیں ہے.'......
گو کہ پروفیسر صاحب پچھلے واقعہ کے بعدمیرے دل سے اتر چکے تھے لیکن اس وقت مجھے ان کا ردِ عمل بہت فطری لگا۔ میرا خیال تھا نوجوان معذرت کرے گا اور فوراً آواز ہلکی کر دے گامگر ہو ا اس کے بالکل برعکس۔نوجوان کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی، اس کی موسیقی کی آواز ویسے ہی بلند رہی اور ساتھ میں جھومنے کا شغل بھی جاری رہا۔
تھوڑی دیر کے بعد پروفیسر صاحب دوبارہ گرمی کھاتے ہوئے اٹھے اور اس دفعہ انہوں نے بس ڈرائیور سے شکایت کی۔
بس رواں رہی اور جب ایک سگنل پر رکی تو ڈرائیور اٹھ کر آیا اور اس نے بڑے رساں سے نوجوان سے کہا
"کیا خیال ہے ، تمہاری موسیقی کی آواز کچھ زیادہ نہیں ہے؟ ممکن ہے کچھ مسافراس وقت تھوڑا سکون چاہتے ہوں۔کیا ہی اچھا ہو اگر تم آواز ذرا دھیمی کر لو۔
تم بھی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے رہو اوردوسرے لوگ بھی کچھ آرام کر لیں"
نوجوان نے کانوں سے ہیڈ فون ہٹایا، اور انتہائی سکون سے کہا
 "احساس دلانے کا شکریہ۔ اگر وہ صاحب بھی چیخنے کے بجائے اسی طرح کہتے تو میں فوراً آواز دھیمی کر لیتا۔ لیکن شائد آواز مسئلہ نہیں ان کا مسئلہ کچھ اور ہے۔ شکریہ'
یہ کہہ کر اس نوجوان نے موسیقی کی آواز دھیمی کر لی اور ہیڈ فون کانوں پر چڑھا لئے۔ آج میں پھر موازنہ کرنے پر مجبور تھا۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem