Episode 35 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر 35 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

فائر ورک
میں پہلے ڈرائیونگ ٹیسٹ میں بیس سالہ ڈرائیونگ کے تجربہ کے باوجود ناکام ہو گیا تھا اور بیگم پاس ہو گئی تھیں، میرے لئے ایک اچھا سبق تھا ۔میں نے روڈ ٹیسٹ یعنی جی ٹو لائسنس کی اچھی خاصی تیاری کی تھی اور پہلی ہی دفعہ میں پاس ہوگیا تھا لیکن ہائی وے ٹیسٹ بقول شخصے میرے گلے پڑ گیا۔
اسے جی لائسنس کا ٹیسٹ کہتے ہیں اورمیں اس ٹیسٹ میں اب تک چار دفعہ فیل ہو چکا تھا۔
 میں نے اپنے استاد تبدیل کئے، اپنے شہر کے ڈرائیونگ ٹیسٹ سینٹر کے بجائے دوسرے شہروں میں ٹیسٹ دئے، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ ادھر ٹیسٹ لینے والا یا والی میرے ساتھ بیٹھا، میرا ذہن بالکل خالی ہو جاتا تھااور پھر پہ در پہ غلطیاں ہونا ایک فطری عمل تھا۔

(جاری ہے)

میری خود اعتمادی تحت الثریٰ کی آخری حدودد کو بھی پار کر چکی تھی۔
 اب یہ آخری موقعہ تھا ۔ میرے لائسنس کی مدت ختم ہو رہی تھی ، اسبس بار فیل ہونے کا مطلب تھا کہ آپ کا ڈرائیونگ لائسنس منسوخ ۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
اس دفعہ میں نے ان صاحبسے ڈرائیونگ کی تربیت لی جن سے میں نے سب سے پہلے روڈ ٹسٹ کی تربیت لی تھی اور پہلے ہی ہلے میں پاس ہو گیا تھا۔
میرے استادکے پیشہ وارانہ تجربے کے حساب سے میری تیاری بہت اعلیٰ تھی اور اس دفعہ میرے فیل ہونے کا کوئی منطقی جواز نہیں بنتا۔ اگر فیل ہوتا ہوں تو پھر مجھے کسی ڈرائیونگ انسٹرکٹر کے بجائے نفسیاتی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔
میں اورمیرے استاد اپنے وقت سے پہلے ہی ڈرائیونگ ٹیسٹ سنٹر پہنچ گئے تھے۔ آسمان پر بادل گہرے تھے اور برف باری کے سے آثار تھے۔
ہم نے ہفتہ کا درمیانی دن اور صبح گیارا بجے کا وقت لیا تھا جب سڑکوں پر اور خاص طور سے ہائی وے پر ٹریفک کم سے کم ہوتا ہے ۔ یہ انسانی تدبیریں تھی جو ہم لوگ کر رہے تھے۔ میری دعا تھی کہ کوئی اچھا ایکزامنر مل جائے اور اللہ ا سکے دل میں رحم ڈال دے تو شائید بیڑا پار ہوجائے
ٹسٹ شروع ہوا،ممتحن خاصا کھڑوس لگ رہا تھا۔ اس کی ہدایات کے مطابق مجھے سب سے پہلے گاڑی الٹی چلا کر دو نارنجی رنگ کے ڈبوں( پائلون) کے درمیان پارک کرنی تھی۔
بظاہر یہ کوئی مشکل کام نہیں، ایسی پارکنگ تو میں عام کرتا ہوں۔ لیکن خدا جانے کیا ہوا ، میں نے گاڑی پیچھے کی،پہلے پائیلون کو ٹکر ماری اور بہت آرام سے گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھا دی۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا میرے استادسر پکڑ کر زمین پر بیٹھ رہے تھے۔ اپنے مزاج کے حساب سے وہ یقیناً کچھ غیر پارلیمانی الفا ظ اپنی ذات سے اور کچھ میری ذات سے منسوب کر رہے ہونگے۔

میں نے دوباہ کوشش کی اور اس دفعہ نہایت کامیابی سے دوسرے پائلون کوبھی زمین دکھا دی، لیکن پارکنگ پھر بھی نہیں ہو سکی۔
"چلیں یہ کام تو ہو گیا، اب ہائی وے پر چلتے ہیں۔ باہر نکل کر اگلے سگنل سے سیدھے ہاتھ مڑ کر گاڑی ہائی وے پر ڈال لیں"۔ ممتحن صاحب جذبات سے عاری آواز میں بولے
 میں نے گاڑی سیدھی کی اور گرے ہوئے پائلون کو کچلتا ہوا ڈرائیونگ سنٹر کی پارکنگ سے باہر آ گیا۔
ہائی وے پر پہنچتے پہنچتے میں نے دو فاش غلطیاں مزید کیں۔ ابھی ہم ہائی وے پر پہنچے بھی نہیں تھے کہ برف کے طوفان کی ز د میں آگئے۔ طوفان اتنا زبردست تھا کہ کچھ نظر نہیں آرہا تھااور ونڈ سکرین تاریک ہو چلا تھا۔ میں نے ممتحن صاحب کی طرف دیکھا۔ اس دفعہ وہ کچھ پریشان سے دکھائی دئے۔ انہیں اتنی دیر میں تیس مار خان کی صلاحیتوں کا اچھا اندازہ ہو چلا تھا۔

" ٹسٹ کو بھول جائیں۔جو بھی پہلا واپسی کاراستہ ملے ، لے لیں اور سنٹر پہنچنے کی کوشش کریں۔ یہ طوفان جلد ختم ہوتا نظر نہیں آتا، سیفٹی فرسٹ"
غالباً ان کا مطلب تھا " جان بچاؤ جان ۔ ٹسٹ گیا جہنم میں، اناڑی ڈراےؤر"
برف کا طوفان سب کچھ اڑائے لئے جا رہا تھا، گاڑی کے وائیپر پوری رفتار سے چل رہے تھے، لیکن شیشے کے پار کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
میری سار ی توجہ سڑک پر تھی۔ میرے حواس پوری طرح بیدار تھے اور میرا بیس سالہ تجربہ اب پوری طرح میری رہنمائی کر رہا تھا۔ میں بڑے ٹرکوں سے بچتا ہوا سب سے کنارے والی لائین میں آگیا۔ میری کوشش تھی کہ میں کسی نہ کسی طرح اسی لائین میں رہوں۔ میرے سامنے ایک گاڑی تھی اور اس کے آگے ایک ٹرک تھا۔ میں نے سامنے والی گاڑی سے احتیاطاً ایک خاص فا صلہ برقرا ررکھا تھا۔

تھوڑی دور چلنے کے بعدمیرے سامنے والی گاڑی کی بریک لائٹ روشن ہوئیں، گاڑی اچانک لہرائی اور دائیں ہاتھ کو گھومتی بلکہ تیرتی ہوئی چلی گئی۔ گاڑی کی بریک لائٹ روشن ہوتے ہی میری چھٹی حس نے ہی خبردارکیا کہ کچھ گڑ بڑ ہونے ہے۔ میں نے اپنے گاڑی مزید ہلکی کر لی اور ذرا سا بائیں ہاتھ کو نکل کر لہرانے والی گاڑی سے انچوں کے حساب سے بچ کر نکل گیا۔
میرے نکلنے کے بعد دھماکے کی آواز آئی، غالباً وہ گاڑی کسی چیز سے ٹکرائی تھی۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے یہ گاڑی میری بھی ہو سکتی تھی۔ رکنے کا کوئی موقعہ نہیں تھا۔
 دھیرے دھیرے بچتے بچاتے،ہائی ویسے نکلنے کا راستہ آ گیا۔ ٹیسٹ سنٹر کی سڑک اور یہ ہم ٹیسٹ سنٹر کی پارکنگ میں ۔ برف کا طوفان ابھی تک جاری تھا۔ میں نے گاڑی روک دی ، ممتحن صاحب میری ٹسٹ شیٹ پر اپنے ریمارکس لکھنے لگے۔

میں جس نارنجی پلائلون کو میں ٹیسٹ کے شروع میں کچلتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا، اس کا ایک سرا ابھی تک برف سے باہر جھانک رہا تھااور، مجھے میرے ٹسٹ کے نتیجے کی پیشگی اطلاع دے رہا تھا۔ مجھے صرف یہ فکر تھی کہ میں انسٹرکٹر صاحب کا سامنا کیسے کرونگا۔ میں ان کے لئے تقریباً ایک کلنک کا ٹیکہ ہی تھا۔ممتحن صاحب نے پرچہ میری طرف بڑھا دیا
"مبارک ہو!"
"کیا مطلب ، میں پاس ہو گیا ہوں ، کیسے؟"الفاظ میرے منہ سے نکل نہیں رہے تھے
"بالکل پاس، اس طوفانی موسم میں آپ نے جس محفوظ طریقے سے گاڑی چلائی ہے وہ آپ کی مہارت کا ثبوت ہے، سیفٹی فرسٹ"
میں نے اس برفانی موسم میں گاڑی کا شیشہ گرایا، کھڑکی سے باہر ہاتھ نکالااور دو انگلیوں سے فتح نشان بنایا۔
میرے انسٹرکٹر کی بانچھیں کھل سی گئیں کچھ بڑ بڑائے ۔ غالباً اس دفعہ انکے کچھ غیر پارلیمانی الفا ظ موسم اور ممتحن سے منسوب ہو رہے ہوں گے۔' او منڈے دل خوش کیتااے'
گذشتہ رات سے برف گرنا شروع ہوئی تو وہ سہ پہر کو جاکر ذرا تھمی ۔ سڑکو ں اور فٹ پاتھ پر جگہ جگہ برف کے ڈھیر بن چکے تھے۔ شام ہو چلی تھی اور مجھے اپنے بڑے بیٹے کو جم سے لینا تھا۔
فقط دس منٹ کی ڈرائیو تھی اور کہیں اترنا تو تھا نہیں ا سلئے میں نے ہلکی جیکٹ پہنی اور گاڑی سٹارٹ کر کے نکل آیا۔ پیٹرول ٹینک کی سوئی بتا رہی تھی کہ پیٹرول تقریباختم ہے۔ وقت کم تھا اس لئے میں نے سوچا کہ بیٹے کو لینے کے بعد پیٹرول ڈلوا لونگا۔ بس یہی غضب ہو گیا۔ جم سے ایک سگنل پہلے گاڑی نے جھٹکے لینے شروع کئے ، اور نہایت اطمینان سے بند ہونے لگی۔
میرے لئے صرف اتنا موقع تھا کہ میں اس بند ہوتے ہوئے انجن کے زور پر گاڑی کو کنارے لگا سکوں۔ کنارے لگانے کا بعد میں نے کئی گہرے گہرے سیلف مارے لیکن گاڑی نے سانس تک نہیں لی، اس کا صاف صاف مطلب تھا کہ پیٹرول ختم ہو چکا تھا۔ سردیوں کی شام ہی کیا ہوتی ہے، دیکھتے ہی دیکھتے اندھیرا چھا گیا۔ مجھے گاڑی کے ساتھ ساتھ بیٹے کی بھی فکر ہونے لگی۔ میرے پاس تو سیل فون تھالیکن بیٹے کے پاس نہیں تھا۔
یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہو رہا تھا کہ اس کمپنی کو فون کروں جن سے ہم نیہنگامی حالتمیں گاڑی کی مرمت کی انشورنس لی ہوئی ہے، یاکہیں سے پیٹرول لا کر گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کروں؟
 گاڑی کے ساتھ ہی اس کاہیٹر بھی بند ہو چکا تھا، میری جیکٹ اس بڑھتی ہوئی سردی کا مقابلہ کرنے کے لئے بالکل نا کافی تھی۔ صورتِ حال گھمبیر ہوتی جارہی تھی، اور مجھے فیصلہ جلد کرنا تھا۔
میں نے سب سے پہلے گھر فون کر کے ٹیلیفون میں پیغام چھوڑ دیا کیا کہ میں کہاں ہوں اور صورتِ حال کیا ہے؟ اس کے بعد میں نے ٹو ٹرک والوں کو فون کیا ۔ میں نے ا نہی آڑے وقتوں کے لئے ان کی خدمات حاصل کررکھی تھیں۔ٹورانٹو کی حدود میں اگر گاڑی کہیں رک جائے، گاڑی خراب ہو جائے یا چلنے کے قابل نہ رہے اور آپ انہیں اطلاع دے دیں تو یہ جتنی جلدی ممکن ہو آ پ کو مدد کے لئے ٹوٹرک روانہ کر دیتے ہیں۔
ٹو ٹرک والا
 آ پ کی گاڑی کو رواں کرنے میں مدد دیتا ہے، اگر بوجوہ دگاڑی سٹارٹ نہ ہو سکے تو اپنے ٹرک کے پیچھے باندھ کر آپ کے مکینک یا آپ کے گھر جہاں چاہیں گاڑی پہنچا دیتا ہے۔
 مجھے ٹو ٹرک والوں کا فون بڑی مشکلوں سے ملا۔ آپریٹر نے بتایا کہ چونکہ آج موسم بہت خراب رہا ہے ، اسلئے درجنوں گاڑیاں ادھر ادھر خراب کھڑی ہیں، ان کاسٹاف اور ٹو ٹرک سب بے حد مصروف ہیں ، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میرانمبر کب آئیگا، اس میں دو گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔
ہا ں اگرمیں کسی اور کمپنی سے مدد لے لوں، یا کسی ٹو ٹرک والے کو پکڑ لوں تو وہ اس کے اخراجات ادا کر دیں گے۔ آپریٹر نے میرا محلِ وقوع نوٹ کر کے فون بند کردیا۔
مجھے یہ سب سن کر بڑی مایوسی ہوئی۔ لیکن اس خراب موسم میں ٹو ٹرک والے بھی مجبور تھے۔
دو گھنٹے کا مطلب ہے کہ میری تو قلفی جم جائے گی۔ گاڑی چھوڑ کر میں کہیں جا نہیں سکتا، کیونکہ اس طرح کی کنارے پر کھڑی لاوارث گاڑیوں کے خلاف ٹریفک پولیس فوری کارروائی کرتی ہے۔
میں نے پھر دو چار گہرے گہرے سیلف مارے کہ شائد کو ئی معجزہ ہو جائے۔ معجزہ تو خیر کیا ہوتا، اس حرکت کی وجہ سے مجھے گاڑی کی بیٹری جواب دیتی ہوئی معلوم ہونے لگی۔ان تمام کوششوں میں اچھاخاصا وقت صرف ہو چکا تھا، بیٹے کو پانچ بجے لینا تھا اور اب ساڑھے پانچ سے کچھ اوپر ہو چلا تھا۔
اتنے میں سیل فون کی گھنٹی بجی، میرا بیٹا کہیں جمنازیم کے باہر سے فون کررہا تھا
"ابوآپ کب آئیں گے، یہاں سناٹاہو چلا ہے"
 میں نے اسے صورتِ حال سمجھائی ، لوکیشن بھی سمجھا دی کہ یہ جگہ جمنازیم سے زیادہ دور نہیں ہے جہاں گاڑی خراب ہوئی ہے، اگروہ پیدل چلنا شروع کر ے تو ۱۵ منٹ میں پہنچ سکتا ہے۔

فون بند کرنے کے بعد میرے پاس سوائے انتظار کرنے یا سردی سے سکڑنے کے کوئی تیسرا مشغلہ نہیں تھا۔ مجھے فون پر بات کئے ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ میرے پیچھے ایک ٹریفک پولیس کی گاڑی آ کر رکی۔ میں نے دل میں کہا مرے پر دو اور درے۔ چونکہ گاڑی بہت خطرناک جگہ کھڑی ہے اس لئے اب ٹکٹ ملا ہی ملا۔
لیکن میری حیرانی اس وقت دو چند ہوگئی، جب پولیس والے نے ہائے ہیلو کے بعد پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے ، کسی مدد کی ضرورت تو نہیں ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ میں ٹو ٹرک کا انتظار کر رہا ہوں۔
میں چاہ رہا تھا کہ یہ کسی صورت چلا جائے، میں پولیس والوں سے ذرا دور ہی رہنا پسند کرتا ہوں۔ پولیس والے نے یہ دیکھ کر کہ میں کسی قسم کی مدد کا خواہاں نہیں ہوں، بائے کر کے چل دیا۔ تھوڑی دیر کے انتظار کے بعد مجھے اپنا بیٹا آتا ہوا نظر آیا اس نے دور سے ہی گاڑی دیکھ کر ہاتھ ہلایاتو مجھے خاصا اطمینان ہوا۔
میں نے دوبارہ ٹو ٹرک والوں کو فون کیا تو پتہ چلا کہ ابھی تک کوئی بندوبست نہیں ہو سکا ہے۔
جیسے ہی کوئی بندوبست ہوگا وہ مجھے اطلاع دیں گے۔
اب سردی سے سکڑنے والے دو ہوگئے تھے۔ میں نے سوچا کے کسی جاننے والے کو فون کروں، ہو سکتاہے کوئی مدد مل ہی جائے۔ اتفاق سے ایک پڑوسی مل گئے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ کہیں سے ڈبے میں پیٹرول لے آئیں گے ۔تھوڑی دیر میں میرے پڑوسی تشریف لے آئے، پیٹرول کا ڈبہ میرے حوالے کیا، مجھ سے معذرت کی کہ وہ زیادہ نہیں رک سکتے، میرے بیٹے کو گاڑی میں بٹھایا اور روانہ ہو گئے۔
سرد ی بڑھتی جارہی تھی اور میں اب سردی سے باقاعدہ کانپ رہا تھا۔ میراجی توچاہ رہاتھا کہ ٹو ٹرک اور گاڑی پر لعنت بھیج کر ٹیکسی پکڑوں اور گھر روانہ ہو جاؤں لیکن پھر اسکے بعد کا سوچ کر میں خاموش بیٹھ گیا۔
 ایک دفعہ پھر فون ملانے لگاتو محسو س ہوا کہ سیل فون کی بیٹری ڈاؤن ہو رہی ہے۔ اس وقت میرے پاس لوگوں سے رابطہ کا واحد ذریعہ یہی سیل فون تھا۔
میں نے فون کرنے کا اراد ہ ترک کر دیا۔
 تقریباً آدھے گھنٹے بعد جب میں سردی سے بالکل ادھ مرا ہوچکا تھا، فون کی گھنٹی بجی اور ٹو ٹرک والوں نے خوشخبری دی کہ پانچ سات منٹ میں مدد پہنچ رہی ہے۔اللہ شکر، کچھ امید تو نظر آئی۔
 تھوڑی دیر کے بعد ایک ٹو ٹرک میری گاڑی کے آگے الٹا ہو کر کھڑا ہوگیا ایک جوان آدمی اس میں سے کود کر اترا اور میری گاڑی کی طرف آیا۔

" میں پیٹر ہوں۔ جیسز۔ تم تو برف ہوچکے ہو۔ پہلے تم میری گاڑی میں بیٹھو، گاڑی گرم ہے"
 میرے منہ سے نہ تو آواز نکل رہی تھے نہ میرے ہاتھ پاؤں چل رہے تھے۔ اس نے میرا ہاتھ سے پکڑا اور اپنی گاڑی میں لے جاکر بٹھایا۔ ایک پیپر کپ میں اپنے فلاسک میں سے گرم کافی نکال کر دی اور کہنے لگا
" تم ذرا خود کو نارمل کرو ، میں تمہاری گاڑی چیک کرتا ہوں۔
"
یہ کہ کر اس نے مجھ سے گاڑی کی چابی لی اوراتر کر چلا گیا۔ میں شیشے میں سے دیکھ رہا تھا ۔جب ا س نے اپنے تمام گر آزما لئے لیکن گاڑی ٹس سے مس نہیں ہوئی، تو وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا
" گاڑی ٹو کر نی پڑے گی"
 میرے پاس بھی اب کوئی چارہ نہ تھا، میں نے اثبات میں گردن ہلا دی۔ پیٹر نے بڑی پھرتی سے اپنی گاڑی کو پیچھے کیا، میری گاڑی کو شکنجے میں کسا، اس پرروشنیوں کے عارضی بلب لگائے اورمیرے ساتھ ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا
" گاڑی تمہارے گھر لے چلوں یا مکینک کے پاس چھوڑو گے؟ دونوں صورتوں میں مجھے پتہ بتادو۔
"
"اب اس وقت کون مکینک ملے گا، اور حالت بھی بہت غیر ہے اب جو ہوگا کل دیکھا جائے گا۔ یہ سوچ کر میں نے اس گھر کا پتہ بتا دیا۔ سڑک پر پہنچے تو پیٹر نے اپنی روداد شروع کرد ی
" آج غضب کی ٹھنڈک ہے اور بہت برا موسم ہے۔ مجھے کام کرتے ہوئے مسلسل چودہ گھنٹے ہو چکے ہیں۔ اوپر سے لوگوں کی بد تمیزی۔ دوپہر میں ایک کال پر گیا تو گاڑی کے مالک نے مجھے بے نقط سنانی شروع کر دیں۔
میں تھوڑی دیر سنتا رہا، کیونکہ جب گاڑی خراب ہو ، اور سروس میں دیر ہو تو گاہک کی تھوڑی بہت بد مزاجی بہت فطری سی بات ہے اور میں بھی اسے طرح دے جاتا ہوں۔ لیکن جب ا سکی بد زبانی بہت بڑھ گئی اور وہ گالی گلوچ پر اتر آیا تو میں نے اس کو خبردار کیا
 " بس بہت ہو گیا، اب تم خاموش ہو جاؤ اور مجھے کام کرنے دو"
یہ سن کر وہ بھڑک اٹھا اور مغلظات پر اتر آیا۔

 میں نے نہایت اطمینان سے اپنا سامان اٹھایا اور اس سے کہا
 " تمہیں جو کرنا ہے کرلو۔ میں جارہا ہوں۔ تم جیسے بدتمیز آدمی کے لئے یہ سبق کافی ہے کہ تم سردی میں سکڑتے رہو"
"میں نے اپنے سپروائزر کو اطلاع دے دی کہ گاہک بہت بد تمیزی کر رہاتھا، میں اسے چھوڑ کر جا رہا ہوں اور اپنی یونین کو بھی اس کی اطلاع دے رہا ہوں"
یہ سن کر میرے کان کھڑے ہو گئے اور میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ میں نے بد مزاجی نہیں دکھائی، ورنہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو سکتا تھا۔

بیس منٹ بعد میں اپنے گھر میں اطمینان سے گرم چائے کا لطف لے رہا تھا، بیسمنٹ کے روشندان سے برف کے گالے گرتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور قطعی یہ نہیں سوچ رہا تھا کہ کل گاڑی کو کس طرح مکینک کے پاس لے کر جاؤنگا؟
ٹو ٹرک نے گاڑی تو گھر پہنچا دی لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ گاڑی کو مکینک کے پاس کیسے لے جاؤں؟ اس سے بڑا مسئلہ یہ تھا کس مکینک کے پاس لے جاؤں؟ پرانی گاڑی ، کبھی یہ خراب ، کبھی وہ خراب۔
میں اس پر اچھا خاصا خرچہ کر چکا تھا لیکن اسکے مزاج قابو میں نہیں آرہے تھے۔ خیر اس دفعہ مسئلہ گاڑی کی وجہ سے نہیں میری تساہلی کی وجہ سے ہواتھا۔
 مجھے یاد آیا کہ ایک دن میں نے اپنے ایک ساتھی کو گاڑی کا مسئلہ بتایاتو انہوں نے مجھے ایک ورکشاپ کا فون نمبر اور پتہ دے دیا اور کہا
" سید صاحب آدمی بہت ایماندار اور قابل ہیں، اگر تم انکو برداشت کر لے گئے تو تمہارا کافی مسئلہ حل ہو جائیگا"میں اس وقت لفظ 'برداشت' کو میں کوئی خاص معنی نہ پہنا سکا۔

میں نے اپنے مالک مکان سے مدد کی درخواست کی، اس شریف آدمی نے اپنی گاڑی سے بوسٹر لگایا اورکھینچ تان کرگاڑی سٹارٹ ہو گئی۔ میں ہانپتا کانپتا کسی نہ کسی طرح گاڑی لے کر سید صاحب کے گیراج پہنچ گیا۔صبح کا وقت تھا، وہ اپنا گیراج اور دفتر کھول ہی رہے تھے۔ میں ان کے دفتر میں بیٹھ گیا۔ سلام دعا ہوئی، گفتگو چلتی رہی، انکا سٹاف بھی ایک ایک کر کے آگیا، وہ فون پر بات بھی کرتے رہے، پھر چائے آ گئی۔
انہوں نے قوالیوں کا کیسٹ بھی لگا لیا ۔
غرضیکہ ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا ۔ میں نے ایک دفعہ ان کی قطع کلامی کر کے کہا
 "میں گاڑی ٹھیک کرانے کیلئے لایا ہوں پرانی گاڑی ہے اور کافی پیسہ لگ چکا ہے"
"جی پرانی گاڑی تو بوڑھے ماں باپ کی طرح ہے۔ جتنا دوا علاج کرا لیں، کچھ نہ کچھ چلتا ہی رہتا ہے" سید صاحب نے کہا
گفتگو کا سرا کھو گیا اور اتنے میں وہ اپنی کسی سٹاف کی آواز پر اٹھ کر گیراج میں چلے گئے۔
آدھے گھنٹے کے بعد وہ پھر اپنے آفس میں آئے تو میں نے دوبارہ اپنا مدعا بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ مجھے جلدی ہے۔
"آٓج تو میرے پاس کام بہت ہے، آپ کسی اور وقت آئیں اور اگر جلدی ہے تو گاڑی کسی اور کو دکھالیں" سید صاحب نے بے نیازی سے کہا
مجھے تو آگ سی لگ گئی۔ یہ بات اب میرے دو گھنٹے ضائع کرنے کے بعد کہہ رہے ہیں۔ اسی وقت کہہ دیتے جب میںآ یا تھا۔
لیکن ا چانک مجھے اپنے دوست کی بات یاد آ گئی
" اگر تم انکو برداشت کر لو؟ "
میں نے خون کا گھونٹ سا پیا اور کوشش کر کے بہت نرم لہجے میں ان سے کہا
 " گاڑی تو مجھے آپ سے ہی ٹھیک کرانی ہے، چاہے کتنی ہی دیر ہو جائے"
سید صاحب پھر اپنی ورکشاپ میں چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد سید ساحب کا ہرکارہ آیا کہ گیراج کے عقبی دروازے سے گاڑی اندر لے آئیں۔

 مجھے خوشی کے ساتھ حیرت بھی ہوئی۔ میں اپنی گاڑی سٹارٹ کر کے عقبی دروازے سے ورکشاپ میں لے آیا۔ گیراج کافی بڑا تھا او ر اس میں پانچ، چھ گاڑیا ں اور بھی کھڑی تھیں۔ ایک لڑکے نے میری گاڑی کو بڑے والے جیک پر لگا کر اوپر اٹھا دیا۔ سید صاحب نے مسئلہ پوچھا، میں نے بتا دیا۔ کہنے لگے
" آپ آفس میں بیٹھیں۔ کچھ دیر لگے گی"
میں آفس میں جاکر بیٹھ گیا۔
۱۵منٹ کے بعد سید ساحب آئے اور کہنے لگے
"گاڑی تیار ہے۔ آپ لے جائیں"
"پیسے کتنے؟ "
کہنے لگے "پرزہ تو کوئی بدلا نہیں گیا ہے، صرف بیس ڈالر مزدوری کے دے دیں"
صرف بیس ڈالر؟ ابھی تو میں پچھلے ہفتہ ایک چھوٹے سے کام کے تین سوڈالر بھگت کر بیٹھا ہوں ۔اس وقت بھی میں احتیاطاً کئی بڑے نوٹ لے کر چلاتھا۔ سید صاحب کے پاس بھی کھلے ہوئے پیسے نہیں تھے۔
کہنے لگے
"پھردے جائیے گا"
 اتناا عتبار۔ سید صاحب سے تو یہ میری پہلی ہی ملاقات تھی۔
 انہوں نے تو میرا پتہ اور فون نمبر تک نہ پوچھا تھا۔ وہ میری ہچکچاہٹ سے بھانپ گئے۔ کہنے لگے
 "بھئی اس بیس ڈالر سے نہ تو آپ امیر ہو جائیں گے اور نہ ملے تو میں غریب نہیں ہو جاؤں گا۔ پھر آپ ہم وطن بھی تو ہیں۔ کام میں تو ایسا چلتاہے"
میرا دل ان کے لئے محبت کے جذبات سے بھر گیا۔
تویہ تو تھی سید صاحب سے میری پہلی ملاقات۔ اس کے بعد بھی ان کے پاس کبھی گاڑی کے سلسلے میں اور کبھی ویسے ہی جاناہوتا رہتا تھا۔ ان کے پاس قوالیوں اور اردو کتابوں کا بڑا عمدہ ذخیرہ تھا، اردو کی کتابیں میری بڑی کمزوری ہیں۔ ان کے پاس جیسے ہی کوئی نئی کتاب آتی مجھے فون کرتے کہ آؤ بھی ایک نئی کتاب آ گئی ہے۔
سید صاحب کے نظام الاوقات بہت جامع تھے۔
ساڑھے آٹھ بجے گیراج کھلتا تھا۔ایک سے ڈیڑھ تک کھانے اور نماز کا وقفہ۔ کھانا گھر سے آتا تھا اور وہ تمام سٹاف کے ساتھ مل کر کھاتے تھے اس کے بعد ظہر کی نماز باجماعت۔ سار اسٹاف شریک ہوتا تھا اور گاہک کو بھی اخلاقی مار کے ساتھ شریک کرنے کی کوشش کرتے تھے،گاہک بھی اگر مسلمان ہے۔ نماز کی امامت خود کرتے تھے۔ اور اس کے بعد عصر کی نماز کا وقفہ۔

 انکے بھانجے شمس نے ان اوقات کے نام مقرر کر رکھے تھے۔ صبح، ایزی ورک۔دوپہر سیریس ورک اور شام کا فائر ورک۔
صبح کا سیشن ایزی ورک اس لئے تھا کہ اس کو سید صاحب بہت آسان لیتے تھے۔ گپ شپ چل رہی ہے، چائے آ رہی ہے، کیسٹ پر قوالیاں لگی ہیں، فون ریسو کئے جا رہے ہیں، اور کچھ تھوڑا بہت کام بھی چل رہا ہے۔ اس وقت سارے گاہک انکے ذاتی دوست ہوتے تھے اور تمام سٹاف ان کا چہیتا ہوتا تھا۔

 اسکے بعد دوپہر کا سیشن شروع ہوتا تھا، یعنی سیریس ورک۔ ا س میں سید صاحب بہت سنجیدہ ہو جاتے تھے۔ کام میں پھرتی، فالتو باتیں بند، فون بھی خود نہیں اٹھاتے تھے، سٹاف اٹھاتا تھا۔
 اس کے بعد فائر ورک کا نمبر آتا تھا۔ یہ شام کا سیشن مار دھاڑ سیبھر پور سیشن ہوتا تھا ۔ گیراج بند کرنے کا وقت آرہا ہے، کام پورا نہیں ہوا ہے، گاہک سر پر سوار ہیں۔
اس وقت سارے گیراج میں سید صاحب کی چنگھاڑ سنائی دے رہی ہوتی تھی۔ منہ سے جھاگ اڑ رہے ہوتے۔
 اس وقت سید صاحب کی آنکھیں بدل چکی ہوتی تھیں، کسی کو نہیں پہچانتے تھے۔ کیسٹ اور قوالیا ں بند، گفتگو بند، فون بھی اٹھانے پر پابندی، سارا سٹاف آگے پیچھے بھاگ رہا ہوتا، اوزار پٹخے جا رہے ہوتے، خود سید صاحب کبھی ایک گاڑی پر سوار ہیں، کبھی دوسری گاڑی کے بونٹ میں گھسے ہوئے ہیں۔
سید صاحب کے پرانے گاہک جو انکے مزاج سے واقف تھے اس وقت وہ بھی ان کے سامنے نہیں پڑتے تھے، بلکہ آفس میں دبکے بیٹھے رہتے تھے۔ ادھر پونے چھ بجا، ڈراما ختم۔ ادھر سید صاحب نے کام چھوڑا۔ ہاتھ دھوئے اور سیدھے آفس میں۔ گاہکوں سے اختتامی بات چیت۔
سٹاف بھی آرام کا سانس لیتا تھا۔ اسکے بعد وہ اپنے سٹاف کو کچھ نہیں کہتے تھے۔ جو کام مکمل ہوا، ہوا، نہیں ہوا تو بات دوسرے دن پر گئی۔

گاہک سے کہہ دیتے تھے
" کیا میں لڑکوں کی جان نکال لوں ،میں کیا اب گاڑی پر سوار ہو جاؤں، میں نے تو آپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ گاڑی کہیں اور لے جائیں"
 اپنے سٹاف اور ورکرز کو" لڑکے" کہتے تھے۔ چھ بجے گیراج بند، چاہے کتنا بھی اہم کام باقی ہو۔ اب گیراج دوسرے دن ہی کھلے گا اور ایزی ورک سے سٹارٹ لے گا۔ میں یہ ڈرامہ شروع سے دیکھتا آرہا تھا ور اس کا عادی ہوگیا تھا۔

 میری دوستی شمس سے بھی ہو گئی ۔ وہ بھی اکثر اوقات سید صاحب کی شخصیت کے بارے میں بتاتا رہتا تھا۔ جوں جوں میں سنتا ، سید صاحب کے لئے میرا احترام بڑھتا جاتا تھا۔انہوں نے کراچی میں بی ایس سی ختم ہی کیا تھا کہ ایک کارایکسیڈنٹ میں ماں باپ کا انتقال ہو گیا۔ شمس کی والدہ سید صاحب کی واحد اور بڑی بہن تھیں۔ ماں باپ کے انتقال بعد کچھ عرصہ بہن بہنوئی کے ساتھ رہے۔
اس وقت شمس کافی چھوٹا تھا ۔ کچھ عرصے بعد سید صاحب بہتر مستقبل کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے کینیڈا آ گئے۔ یہ تقریباً ۱۵سال پہلے کی بات ہے۔ کافی عرصے ادھر ادھرچھوٹے موٹے کام کرتے رہے، پھر کچھ آٹو کے کورسز کئے اور کوشش کر کے محدود پیمانہ پر اپنا گیراج کھول لیا۔ آدمی محنتی اور ایماندار تھے، کام اچھا کرتے تھے، گیراج اچھا چل پڑا۔
جب شمس کے باپ کا انتقال ہو گیا، چچاؤں نے گھر اور کاروبار پر قبضہ کر لیا اور یہ لگنے لگا کہ اب شمس اور اس کی ماں کے لئے تمام راستے بند ہو چکے ہیں بلکہ شمس اور اسکے بھائی بہنوں کی زندگی کو بھی خطرہ ہے تو سید صاحب نے کوشش کر کے ان لوگوں کو کینیڈا بلوا لیا۔
اب یہ لوگ تین سال سے سید صاحب کے ساتھ تھے۔
 شمس نے پاکستان سے بزنس کے کچھ کورسز کئے تھے۔ یہاں آنے کے بعد کچھ عرصے ادھر ادھر معمولی نوکریا ں کرتا رہا اور اب ادھر ایک سال سے سید صاحب کا ہاتھ بٹا رہا تھا۔ہاتھ کیا بٹا رہا تھا، ہر وقت انکے جلالی غصہ کو آواز دیتا رہتا تھا۔سید صاحب اسکو مکینک بنانا چاہ رہے تھے، اسکا رجحان مکینک بننے کا بالکل نہیں تھا۔
چنانچہ سید صاحب ہروقت فلیتہ پر بیٹھے رہتے تھے اور شمس کی تاجپوشی ہوتی رہتی تھی۔
 آج بھی کچھ ایسا ہی سلسلہ تھا۔ شمس کسی غلط اوزار سے گاڑی کا انجن کھولنے کی کوشش کر رہا تھا اور سید صاھب اندر ہی اندر کھول رہے تھے۔ دو منٹ تودیکھتے رہے۔ اور پھردورہی سے چیخے۔
"صحیح کام کے لئے صحیح اوزار"
 میں نے دھیرے سے کہا "صحیح کا م کے لئے صحیح شخص"
 سید صاحب میری طرف مڑے اورپوچھنے لگے
"آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟"
" شمس مکینک نہیں ہے اور آپ اسے زبردستی مکینک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں" میں نے کہا
 "میں جانتا ہوں ، لیکن میرے پاس اور کام ہے بھی تو نہیں، یہ گیراج ہے گیراج۔
میں اسے یہی کام دے سکتا ہوں"
 "آپ اسے ایسے کئی کام دے سکتے ہیں، جن میں آپ کا کافی وقت ضائع ہوتا ہے مثلاً گاہکوں کی ٹیلیفون کالز،
 گا ڑیوں کے پرزوں کی خریداری، بلنگ اورحساب کتاب وغیرہ۔ آپ سوچیں ان کاموں میں آپکاکتنا وقت لگ جاتا ہے۔ یہی وقت آپ گاڑیوں کی مرمت کو دے دیں" میں نے کہا
سید صاحب کی آنکھیں سوچ میں ڈوب گئیں۔ پھر دھیرے سے بولے۔
"آپ کی بات میں بڑا وزن ہے۔ مجھے یہ خیال خود کیوں نہیں آیا"
اگلے ہفتے میں کسی کام سے سید صاحب کے گیراج گیا تو دنیا بدلی ہوئی تھی۔ شمس آفس میں تھا۔ گوکہ یہ شام کا وقت تھا یعنی فائر ورک لیکن گیراج میں سے سید صاحب کے گرجنے برسنے کی آواز نہیں آرہی تھے۔
" آپ کے مشور ہ کی برکت ہے۔ مجھے ا پنی مرضی کاکام مل گیا اور ماما کو گیراج پر توجہ دینے کا موقع مل گیا۔
گاہک بھی خوش ہیں" شمس بولا
شمس بہت سمجھدار لڑکا تھا۔ اس نے کچھ دنوں میں سید صاحب سے مشورہ کر کے سپئر پارٹس کی سپلائی کا کام شروع کر دیا۔ مقامی کالج کے تعاون سے تربیت کے لئے دوسٹودنٹس مکینک بھی بھرتی کر لئے، جو بہت سنجیدگی سے اور اچھا کام کر رہے تھے
آج مجھے گیراج کا چکر لگانا ہی لگانا تھا کیونکہ گاڑی کے سالانہ ٹیکس کے ساتھ اس دفعہ ایمیشن ٹیسٹ کی رپورٹ بھی جمع کرانی تھی۔
گاڑی صرف اسی وقت ایمیشن ٹیسٹ پاس کر سکتی ہیں، جب ان کا انجن واقعی عمدہ حالت میں ہو۔ مجھے اپنی گاڑی سے قطعی کوئی امید نہیں تھی۔ پیسے دے دلا کر پاس کروانے کا یہاں کوئی سلسلہ نہیں تھا
میں گیراج پہنچا اور شمس سے ذکر کیا
" اچھا ! ایمیشن ٹیسٹ آ گیا ہے، چلیں قسمت آزماتے ہیں۔ آپ ذرا اخبار وغیرہ پڑھیں، اس میں ذرا وقت لگے گا، سرجی ان مرحومہ کو تو ریٹائر ہی کرد یں۔
اب ا ن کے کریا کرم کا وقت ہے"
یہ کہہ کر شمس نے گاڑی کی چابی لی اورگیراج کے اندر چلا گیا ۔ میں ایک اخبار ختم کر کے دوسرے کی طرف ہاتھ بڑھانے ہی والا تھا کہ دفتر کا دروازہ دھڑسے کھلا اور شمس کی چیختی ہوئی آواز آئی
"مرحومہ پاس ہو گئیں، مرحومہ پاس ہو گئیں۔ پاس ہی نہیں، اچھے نمبروں سے پاس ہوئی ہیں"
یہ کہہ کر اس نے ایمیشن ٹیسٹ سرٹیفیکٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا
 ایک دن شام میں شمس کا فون آگیا۔
کہنے لگا ماما کی اگلے ہفتے شادی ہے۔ چونکہ وقت کم ہے اس لئے کارڈ تو چھپ نہیں سکیں گے سب کو زبانی بلاوہ دے رہا ہوں۔
 میں کرسی سے گرتے گرتے بچا"ماما کی شادی ؟ کیوں مذاق کر ر ہے ہو بھئی، یہ کہو تمہاری شادی ہے"
شمس مذاق نہیں کر رہا تھا۔ واقعی سید صاحب کی شادی تھی۔ اور اس کا سارا کریڈٹ شمس کی امی کو جاتاتھا۔ سید صاحب چالیس سال کے بھی نہیں تھے، لیکن جس ڈھب سے ان کی زندگی گز رہی تھی، اس میں شادی کی گنجائش نہ تھی۔
شمسی کی امی نے سید صاحب کی بہن کے بجائے ا پنی ماں کا کردار اد ا کیا، جسکی جتنی تعریف کی جائے اتنا کم ہے۔
ہم لوگ اگلے ہفتے سید صاحب کی شادی میں گئے۔ وہ بہت شاندا رلگ رہے تھے۔ شمس شرارت سے کہنے لگا۔" ماما کا سیریس ورک چل رہا ہے۔ آپ کو کئی دفعہ پوچھ چکے ہیں"
میں سیدھا صاحب کے پاس چلا گیا۔ اس سے پہلے کے میں مبارکبادد وں کہنے لگے" بہت دیر کی مہرباں آتے آتے"
میں نے آنکھ دبا کر کہا" دیر آئد، درست آئد"
سید صاحب سمجھ گئے کہنے لگے
"بھئی دیر سے آنا نہ آنے سے بہتر ہے"
" بیشک بیشک" یہ کہہ کر میں ان کے گلے لگ کر مبارکباد دینے لگا۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem