Episode 36 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر 36 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

رئیل سٹیٹ ایجنٹ

اڑتی اڑتی سی خبر تھی کہ ہمارے مالکِ مکان یہ مکان بیچنے کے پھیر میں ہیں۔ ہمارے لئے یہ صورتِ حال خاصی مشکل تھی کیونکہ ہمیں یہ اندازہ بالکل نہیں ہو رہا تھا کہ ہم بطور کرایہ دار مکان کے ساتھ ہی بیچے جارہے ہیں یا ہمیں کسی دن بیسمنٹ خالی کر دینے کے لئے کہا جائے گا۔
خواتین میں بھی کچھ عرصہ سے رابطہ ذرا کم ہی ہو پا رہا تھا۔ اس غیر یقینی صورتِ حال سے نکلنے کے لئے میں نے یہ طے کر لیا تھا کہ آج میں خود ہی مالک مکان سے بات کر لوں تاکہ یہ تجسس ختم ہو۔میں یہ سب کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ مالک مکان کا بیٹا آیا اور کہنے لگا
"ڈیڈی کہہ رہے ہیں اگر آپ فارغ ہیں تو اوپر آ جائیں ، کچھ بات کرنی ہے"میں تو خود ہی بات کرنا چاہ رہا تھا، اسلئے فوراً اوپر چلا گیا
ہمارے مالک مکان کہنے لگے۔

(جاری ہے)

" بھائی صاحب آپ سے کچھ کہنے کا میرا کچھ منہ نہیں بن پڑتا، اسلئے روزانہ سوچتا تھا کہ کل بات کر لوں ، میں اپنی گھر والی سے کہتا تھا کہ تو بات کر۔ وہ کہتی تھی کہ میں نہیں کہہ سکتی تو خودبات کر لے، اور آخرِ کاریہ دن آگیا ۔ بات یہ ہے کہ ہم نے یہ مکان بیچ دیا ہے، اور اگلے دو ہفتہ میں اس کی کلوزنگ ہے۔ہم تو چاہتے تھے کہ آپ ہی اس مکان کو خرید لو، ہم آپ سے پانچ دس ہزار کم ہی لے لیتے، لیکن آپ سے کوئی جواب نہیں ملا تو پھر ہم نے دوسروں کو بیچا۔
اوپر والا جانتا ہے، کہ ہم اس کو مجبوری میں بیچ رہے ہیں، ورنہ کبھی نہ بیچتے"
مالکِ مکان کا معذرت خواہانہ لہجہ اور پھر ان کی فیملی نے ہمیشہ اپنوں کا ہی سا سلوک کیا تھا۔
" ہمارے حالات ایسے نہیں ہیں کہ ہم مکان خریدنے کا سوچ سکیں ۔ یہ بتائیں کیا ہمیں یہ مکان خالی کرناہو گا" میں نیپوچھا
مالک مکان نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔
نیا مالک مکان ان کی اپنی کمیونٹی کا ہی ہے اور اسکے لئے یہ مثبت بات ہے کہ بیسمنٹ کرایہ پر اٹھا ہے، اور اس میں ہم جیسے اچھے کرایہ دار ہیں (ماشااللہ)۔ کرایہ کی شرائط میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔
مجھے یہ سن کربہت اطمینان ہو ا کہ ہمیں بیسمنٹ خالی نہیں کرنا ہے۔
ہمارے لئے نئے مالک مکان کچھ اچھے ثابت نہیں ہوئے۔ ہمیں پرانے مالک مکان کی فیملی کے جانے کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ ہمارے لئے کیا کچھ کرتے تھے۔
انہوں نے کبھی ہمیں کبھی یہ انداز ہ ہی نہیں ہونے دیا کہ بیسمنٹ میں رہنے کے کیا مسائل ہیں؟ ہمیں کبھی پتہ ہی نہیں چلا تھا کہ اوپر فرش پر اٹھا پٹخ ہورہی ہو تو دھمک نیچے آتی ہے۔ لگتا تھا کہ وہ ساری فیملی دبے پاؤں چلتی تھی۔ خاص کر شام سات آٹھ بجے کے بعد تو چلنے پھرنے کی بھی کوئی آواز نہیں آتی تھی۔
ان مالک مکان کے انداز نرالے تھے۔ بچہ ہر وقت اوپر گیند کھیلتا تھا، صوفوں سے فرش پر کودتا تھا۔
ایک دفعہ تو اتنے زور سے کودا کہ ہمای چھت پر لگا ہوا بلب کا شیڈ نیچے گر کر چور چور ہو گیا۔ دوسرے دن مالک مکان سے شکایت کی تو انہوں نے کہا کہ بچہ ہے وہ تو کھیلے گا۔ انکے اندا زسے ایسا لگ رہا تھا کہ بلب شیڈ ہم سے ٹوٹا ہے، اور ہم صرف بہانہ کر رہے ہیں۔
اس طرح کے واقعات کے تسلسل سے ہمیں انداز اہو گیا کہ اب یہاں سے نکلنے کا وقت آگیا ہے، بہتر یہ ہے کہ ٹھنڈے کلیجے رخصت ہولیا جائے۔
ہمیں بھییہاں رہتے ہوئے تین سال سے زیادہ ہو گئے تھے۔ بیسمنٹ میں روشنی اور تازہ ہوا نہ آنے کی وجہ سے صحت کے مسائل بھی پیدا ہورہے تھے۔ اور لوگوں نے بھی مشورہ دیا کہ اب جب کہ تم ہزار بارہ سو کا اپارٹمنٹ لے سکتے ہو تو انتظار کس بات کا ہے۔ بلکہ ایک دو لوگوں کا مشورہ تھا کہ ہم مکان خریدنے پر غور کریں۔
اس صورتِ حال کی روشنی میں ہم نے اپارٹمنٹ کی تلاش شروع کر دی۔
ابھی اپارٹمنٹ کی تلاش جاری تھی کہ ایک رئیل سٹیٹ ایجنٹ کا فون آ گیا۔ آپ ان کا نام جیکی سمجھ لیں۔
 "ہم مکان خریدنانہیں چاہتے بلکہ کرایہ کا مکان ڈحونڈ رے ہیں" ہم نے انہیں بتایا
"آپ ایسا کریں، مجھے صرف ۱۵ منٹ کی ملاقات کا موقع دیں، میں آپ کے فائدے ہی کی بات کرونگا۔ آپ صر ف ایک موقع دے دیں"
میں ہر طرح کے ایجنٹوں سے گھبراتا ہو ں ،لیکن مسٹرجیکی بھی بہت پھرتیلے آدمی تھے، ملاقات کا وقت لے کر ہی ٹلے۔

مسٹر جیکی سے ملاقات بہت دلچسپ رہی۔ وہ اعدادو شمار کی تمام جادوگری سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ میں اگر ہزار بارا سو کا اپارٹمنٹ کرایہ پر لے سکتا ہوں تو کیوں نہیں ایک ایسا مکان لے لیتا، جس کی مارٹگیج اتنی ہی ہو۔ اپنا مکان اپنا ہی ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا مکان کی قیمت بھی بڑھتی جائے گی۔ اگر دو تین سال بعد میں مکان بیچنا چاہونگا تو یہ مکان ۲۰، ۳۰ ہزار ڈالر دے کر ہی جائے گا۔

 مسٹرجیکی واقعی چرب زبان آدمی تھے اور اپنے کام میں ماہر۔ میں نے انکی تمام تقریر اور نمبروں کا ہیرپھیر سننے کے بعد کہا کہ وہ مجھے کچھ سوچنے سمجھنے اور بیگم سے مشورہ کرنے کا موقع دیں، اور یہ کہ میں ان سے بعد میں رابطہ کرونگا۔
مسٹرجیکی نے چلتے چلتے مجھے اخبار دکھاے جس میں انکے اشتہار ان کی تصویروں کے ساتھ چھپے تھے۔ کچھ اخباروں کی کاپیاں وہ مجھے مفت دے گئے۔
ان کی گرم جوشی سے میں انداز ہ کر رہا تھا کہ وہ اس ملاقات سے مطمئن ہیں اور امید کر رہے ہیں کہ وہ مجھے مکان بیچنے میں کامیاب ہو جائیں گے!
مسٹرجیکی کی باتیں بہت دل خوش کن اور اپنے مکان میں رہنے کا تصور اس سے زیادہ مسحور کن تھا، لیکن مجھمیری نظر زمینی حقائق پر بھیتھی۔ جیکی صاحب کا کہنا تھا کہ جو کرایہ ہے مارٹگیج بھی اسی کے برابر ہو گی۔
لیکن صرف مارتگیج ہی تو سب کچھ نہیں ہے، اس کے ساتھ بجلی کا بل ہے، گیس کا بل ہے، انشورنس ہے، جائدادٹیکس ہے، مکان کی مرمت ہے، فرسودگی ہے۔ میرے حساب سے یہ کم ازکم ۶ سوڈالر ماہانہ کا اضافی خرچہ تھا۔
پھر مکان خریدنے کے لئے کم ازکم دس فیصد نقد رقم(یہاں کی زبان میں ڈاؤن پیمنٹ)، اگر آپ چھوٹے سے چھوٹا مکان بھی خرید یں تو اس کی کم ازکم قیمت ۲ لاکھ ہو گی، تو اس حساب سے ڈاؤن پیمنٹ کی رقم ہی ۲۰ ہزار ڈالرتک پہنچ جاتی ہے۔
پھروکیل کی فیس۔یہ رقم کہاں سے آئے گی؟ نوکری بھی نئی ہے، کل کلاں کو چلی گئی تو سب کچھ دھرا رہ جائے گا۔ نہیں بھئی یہ بڑا جنجال ہے۔ فی الحال کرایہ کا اپارٹمنٹ ہی بہتر ہے۔بچے اور بیگم بھی کرایہ کے اپارٹمنٹ کے حق میں تھیں۔
 میں نے مکان خریدنے کا ارادہ بالکل ترک کر دیا۔ ترک کیا کیا، وہ تو پہلے بھی کچھ ایساارادہ نہیں تھا، صرف مسٹر جیکی نے زندگی میں کچھ ہل چل مچا دی تھی۔

دو دن گزرے تھے کہ مسٹر جیکی کا دوبارہ فون آ گیا
" جی سر کوئی مکان دکھاؤں؟"
" نہیں مسٹر جیکی، میرامکان خریدنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے"
" کیوں صاحب ایسا کیا ہو گیا؟ اس دن تو آپ بالکل تیار تھے۔کیا کسی اور ایجنٹ سے بات ہو گئی ؟
میں نے انہیں صاف صاف بتا دیا کہ اس میں ماہانہ ۶ سو ڈالر کے ا ضافی اخراجات کا تخمینہ ہے۔ کم ازکم ۲۰ ہزار ڈالر کا ڈاؤن پیمنٹ ہے۔
وکیل کی فیس ہے۔ وغیرہ وغیرہ
مسٹر جیکی بہت ہوشیار آدمی تھے ۔ انہوں نے کہا
" آپ سے ڈاؤن پیمنٹ کی بات کون کررہا ہے۔ آپ کو مکان زیرو ڈاؤن پر مل جائے گا۔ بس ذرا سی مارٹگیج بڑھ جائے گی۔ رہے ۶ سوڈالر بلوں وغیرہ کے لئے، تو میں آپ کو ایسا مکان دلاؤں گا جسکا بیسمنٹ کم ازکم ۶ ساڑھے ۶ سو کرایہ پر اٹھ جائے گا۔ اب رہی وکیل کی فیس تو میرے جاننے والے ایک وکیل ہیں بہت سستا کام کرتے ہیں۔
آپ ان کی فیس بھی قسطوں میں دے دیجئے گا۔ کہئے اب کوئی مسئلہ باقی بچا ۔ اب دکھاوئں مکان؟"
" مسٹر جیکی، میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ مجھے مکان لینا ہی نہیں ہے۔ میں نے ایک اپا رٹمنٹ کی لیز پردستخط کر دئے ہیں"
میں جھوٹ تو بولنا نہیں چاہ رہا تھا۔ لیکن مسٹر جیکی سے پیچھا چھڑانے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ میری بات سنتے ہیں مسٹر جیکی کی آواز مرجھا سی گئی
" اچھا لیز لے لی ہے۔
میں تو بہت پرا مید تھا۔ آپ کے ہی فائدے کی بات تھی، چلئے پھر کبھی مکان خریدنے کا ارادہ ہو تو مجھے یاد ر کھئے گا"
وہ اور بھی بہت کچھ کہتے رہے اور میں ہاں ہاں کرتا رہا۔ جب دس منٹ کے بعد انہوں نے بائے بائے کی تومجھے نجات ملی۔ ویسے بھی مجھے اس وقت اپنے رضاکارانہ کام پر جانا تھا
 کینیڈ امیں رضاکارانہ کام کی بہت اہمیت ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق کینیڈا میں تقریباً ۶۵ لاکھ افراد رضاکارانہ کام کرتے ہیں۔
ان لوگوں کاتعلق تمام شعبہ ہائے زندگی سے ہے۔ محکمہ شماریات کے مطابق عورتیں زیادہ تعداد میں رضاکارانہ خدمات انجام دیتی ہیں لیکن اگر رضاکارانہ کام کرنے والے گھنٹوں کا شمار کیا جائے تو اس میں مرد حضرات آگے ہیں۔ میں نے بھی کافی عرصہسے سوچ رہا تھا کہ تھوڑا بہت وقت رضاکارانہ کام کے لئے وقف کیا جائے لیکن کہاں؟ کسی نے مشورہ دیا کہ فوڈ بینک کے لئے بھی کچھ کام کیا جا سکتا ہے ۔
فوڈ بینک؟
میرا خیال تھا کہ کینیڈا ایک ترقی یافتہ ملک ہے، دنیا کی بڑی آٹھویں معیشت ہے، یہاں فوڈ بینک کا کیا کام ؟ لیکن تھوڑی تحقیق کے بعد کینیڈا میں غربت سے متعلق جو اعداد و شمار میری نظر سے گذرے وہ میرے لئے بہت غیر متوقع تھے۔ مثال کے طور پر سات ملین سے زیادہ کینیڈین غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔صرف ٹورانٹو میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ رعائتی رہائش کی ویٹنگ لسٹ پر ہیں جو کئی سالوں پر محیط ہے۔
فلاحی امداد کے تحت گزارا کرنے والے آدھے سے زیادہ افراد فوڈ بینک سے استفادہ کرتے ہیں۔
اپنے نظام الاوقات کے مدِ نظر میں نے ایک ساؤتھ ایشین فوڈ بینک میں رضاکارانہ کام کرنے کی حامی بھر لی۔ اس میں ایک حلال فوڈ سیکشن بھی تھا ۔
 منیجر صاحبہ نے مجھ ے پوچھا" آپ انٹرویو کے لئے کب آ سکتے ہیں؟"
 میں نے ان سے ہفتہ کا دن گیارہ بجے کا وقت طے کر لیا ۔
ہفتہ کے دن میں وقتِ مقررہ پر پہنچ گیا " مجھے منیجر سے ملنا ہے" میں نے استقبالیہ پر کہا
" منیجر تو مصروف ہیں۔آپ تشریف رکھیں، آپ پہلی دفعہ آئے ہیں؟" استقبالیہ پر موجود لڑکی نے پوچھا ۔ میرا خیال تھا کہ وہ بھی یہاں رضاکارانہ کام کر رہی ہے
"جی بالکل پہلی دفعہ۔ آپ کا پتہ بھی مشکل سے ملا، میں اس علاقہ سے زیادہ آشنا نہیں ہوں"
"پھرکارڈ تو ہو گا نہیں آپ کے پاس؟"
میرا خیال تھا بزنس کارڈ کا پوچھا جا رہا ہے۔
فوڈ بینک کے منیجر سے ملنے کے لئے بزنس کارڈ مانگا جا رہا ہے۔ واہ بھئی یہاں تو خاصی نقشے بازی لگ رہی ہے!
"خیر ، ایسا کریں ڈرائیونگ لائسنس دے دیں، اس سے بھی کام چل جائے گا "خاتون نیکہا
کاغذی کارروائی طویل ہوتے دیکھ کر میں نے کہا
" میں یہاں رضاکارانہ کام کے لئے آیا ہوں، منیجر صاحبہ نے مجھے گیارہ بجے کا وقت دیا تھا "
"اف میرے خدا" لڑکی نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا" میں تو آپ کو نیا کلائنٹ سمجھ رہی تھی۔
معاف کیجئے گا"
 فوڈ بنک صرف ڈبوں میں پیک کھانے پینے کی اشیاء دال چاول اور دیگر اشیاء ہی قبول کرتا تھا،یعنی ایسی چیزیں جن کے جلدی خراب ہونے کا امکان نہ ہو۔میرا کام زیادہ ترباہر کاتھا۔ اگر کوئی فوڈ بینک کو کھانے پینے کی چیزٰیں دینا چاہتا اور کہتا کہ گھر سے سامان اٹھوا لیں اور یہ جگہ میرے گھر کے آس پاس ہوتی تو میں مناسب وقت دیکھ کر سامان گاڑی میں رکھ کر کر فوڈ بینک پہنچا دیتا۔
یہ کام عموماً میں چھٹی کے دن ہی کرتا تھا
بقرعید کے زمانے میں کام ذرا مشکل ہوگیا کیونکہ قربانی کا گوشت لوگ تھوک کے بھاؤ فوڈ بنک بھجوا رہے تھے۔ اس گوشت کی خاطر سینٹر والوں نے کئی بڑے بڑے ڈیپ فریزز کا بندوبست کر لیا تھا۔ یہ کام اسلئے بھی مشکل لگا کہ بعض دفعہ گوشت کی مقدار زیادہ ہوتی تھی، لفٹ نہ ہوتو سیڑھیا ں چڑھنی پڑتی تھیں۔ اس صورتِ حال سے بہتر طور پر نبٹنے کے لئے میں نے ایک چھوٹی ٹرالی گاڑی میں رکھ لی تھی ۔

 بقرعید کا دوسرا دن تھا کہ مجھے فوڈ بینک منیجر کا فون آیا۔
" آپ کے علاقہ میں کوئی صاحب قربانی کا گوشت دینا چاہتے ہیں، انکے کئی فون آ چکے ہیں، کافی پریشان لگتے ہیں۔ کیا آپ وہاں سے گوشت لا سکتے ہیں؟"
میں نے منیجرسے کہا کہ کل میری ایک جگہ ملاقات طے ہے۔ میں ایسا کرونگا کہ ان صاحب کے گھر سے گوشت لے کر فوڈ سینٹر پہنچاتا ہوا آگے نکل جاؤنگا۔
بات طے ہو گئی میں نے ان صاحب کا فون نمبر اور پتہ نوٹ کر لیا۔
 دوسرے دن صبح میٹنگ کے لئے تیار ہوا ۔ان صاحب کا پتہ آسان تھا۔میں نے ان کے گھر پہنچ کرگھنٹی بجا دی۔
تھوڑی دیر کے بعد ایک صاحب برآمد ہوئے۔
" مجھے فوڈ سینٹر والوں نے قربانی کے گوشت کے لئے بھیجا ہے" میں نے انہیں بتایا
انہوں نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا، ایک نظر میری گاڑی پر ڈالی، مڑے دروازہ بند کیا اور اندر چلے گئے۔
تقریباً پانچ منٹ کے بعد ایک ننہا سا تھیلا لئے برآمد ہوئے۔ جس میں مشکل سے آدھا کلو گوشت ہو گا۔
" فوڈ سینٹر والے بھی عجب لوگ ہیں، پتہ نہیں کیسے کام کر رہے ہیں؟"
انہوں نے نا گواری سے تھیلا میرے ہاتھ میں پکڑایا اور بڑبراتے ہوئے واپس چلے گئے۔ آدھا کلو گوشت کے لئے یہ ہنگامہ، میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔
فوڈ بنک پہنچاتو منیجر صاحبہ نے کہا
"کیا گوشت بہت ہے، گاڑی سے نکلوانا ہے، کسی اور کو ساتھ بھیجوں؟"
" نہیں اس کی ضرورت نہیں۔
یہ رہا گوشت" یہ کہہ کر میں نے گوشت کا تھیلا انکی طرف بڑھا دیا۔ منیجر اتنا سا تھیلا دیکھ کر حیران ہوگئیں اور کہنے لگیں
" کمال ہے۔ وہ توجس طرح بے چین ہو کر فون کر رہے تھے، میں سمجھی کہ گوشت بہت ہے، ان سے سنبھل نہیں رہا ہے۔ چلئے آپ کو بہت زحمت ہوئی"
" نہیں زحمت تو نہیں ہوئی، البتہ تھوڑی سی حیرانی ضرور ہوئی ہے۔ بہرحال میں چلتا ہوں۔ ایک میٹنگ ہے"
ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی، منیجرنے فون اٹھایا۔
دوسری طرف سے جس اشتعال سے بات ہو رہی تھی وہ مجھے بھی سنائی دے رہی تھی
" قربانی کا گوشت مستحق لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ آپ نے کن صاحب کو بھیج دیا تھا۔ اچھے خاصے سوٹد بوٹڈ آدمی تھے۔ گاڑی بھی تھی۔ یہ کہاں سے مستحق ہو گئے۔ وہ تو میرے دروازے آگئے تھے اور آپ نے انہیں بھیجا تھا ، اس لئے قربانی کا گوشت دے دیاورنہ".......
" کیا مطلب؟ آپ کسی ضرورت مند کو گوشت دینے کے لئے فون کررہے تھے۔
میں سمجھی آپ فوڈ بنک کو گوشت بھیجنا چاہ رہے ہیں۔ وہ توہمارے رضا کار ہیں، اور فوڈ بنک کے لئے لوگوں کے گھروں سے سامان اکٹھا کرتے ہیں"
"ارے ارے۔ میں غلط سمجھا۔ میں سمجھا آپ نے کسی معتحق کو بھیجا ہے۔ معاف کیجئے گا بڑی غلط فہمی ہو گئی۔ میری طرف سے ان سے معافی مانگ لیجئے گا"
"کوئی بات نہیں پہلی دفعہ مجھے بھی یہاں کلائنٹ سمجھا گیا تھا" میں نے منیجر صاحبہ کو یاد دلایا۔ اس پر ایک قہقہ پڑا۔ اتفاق سے اس وقت وہ رضاکار بھی موجودتھی جو مجھے پہلے دن فوڈ بینک کا کلائینٹ سمجھی تھی
"آپ لوگ یہ بات بھولیں گے نہیں، ہمیشہ ہی شرمند کرتے رہیں گے"
"نہیں اس وا قعہ نے آپ کے قصے کو مات کر دیا ۔ بہرحال دونوں واقعات کا مرکزی کردار میں ہی ہوں" میں نے کہا۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem