Episode 38 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر38 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

ٹریفک ٹکٹ
ایک رات ہم لوگ کہیں سے مل ملا کر واپس آ رہے تھے۔ گھر کے قریب بائیں ہاتھ پر مڑنے کے لئے مجھے سگنل کے انتظار میں رکنا پڑا۔ مجھ سے آگے پانچ چھ گاڑیاں تھیں۔ سگنل سبزہوا، تمام گاڑیاں باری باری مڑنی شروع ہوئیں، میں قطار میں آخری تھا۔ میں بھی مڑا اور مڑنے کے بعد مشکل سے سو قدم چلاہونگا کہ میری کار کے پیچھے پولیس کار کی بتی جلنے بجھنے لگی۔
پہلے تو میں سمجھا کہ یہ کسی اور گاڑی کے لئے ہے، لیکن یہ احساس ہوتے ہی کہ یہ اشارہ میرے لئے ہے، میں نے سیدھے ہاتھ کاسگنل دیتے ہوئے گاڑی آگے لے جاکردائیں طرف پارک کر دی اور انتظار میں بیٹھ گیا۔
 پولیس والے نے میرے پیچھے گاڑی روکی، اتر کر آیا ہائے ہیلو کی، لائسنس اور گاڑی کے کاغذات دیکھے اور پھرمجھ سے پوچھنے لگا "تمہیں پتہ ہے میں نے تمہیں کیوں روکا ہے؟"
" نہیں، مجھے نہیں معلوم، میں کس لئے روکا گیا ہوں" میں نے جواب دیا
" تم نے بائیں تھ پر اس وقت گاڑی موڑی، جب تمہارا سگنل بند ہو چکا تھا" اس نے کہا
میں حیران رہ گیا، مجھے سو فیصد یقین تھا کہ جب میں نے گاڑی موڑی ہے تو سگنل سرخ کیا، پیلا بھی نہیں ہوا تھا۔

(جاری ہے)

"نہیں، جب میں گاڑی موڑ رہا تھا سگنل سبزتھا "
بیگم سامنے بیٹھی تھیں انہوں نے میری حمایت میں کچھ کہنا چاہا تو میں نے انہیں ہاتھ کے اشارہ سے روک دیا
پولیس والا بولا"تو تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں"
"نہیں، میں نے یہ نہیں کہا، یہ تو تم خود کہہ رہے ہو" میں نے کہا
"بہرحال میرے حساب سے تم نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے، میں تمہیں ٹکٹ دے رہا ہوں، تم چاہو تو مجھے عدالت میں بلا سکتے ہو"اس نے کہا اور ٹکٹ بنانے لگا
"عدالت میں تو میں انصاف لینے جاؤنگا ہی۔
کیونکہ میں نے قانون توڑا ہی نہیں ہے"
تھوڑی دیر میں اس نے ٹکٹ بنا کر میرے ہاتھ میں دے دیا اور گڈ نائٹ کہہ کر رخصت ہوگیا۔میں نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔ اب ہم سب گفتگو کرنے لگے کہ پولس والے کو یہ غلط فہمی کیوں ہوئی کہ میں نے سگنل توڑا ہے۔ میرا خیال تھا کہ پولیس والا میرے سامنے والے سگنل پر کھڑا تھا اور وہ بھی بائیں ہاتھ کو مڑ رہا تھا۔ اسکا سگنل جلدی بند ہوتا ہے کیونکہ اس طرف سے کم ٹریفک آتاہے، جب کہ میرا والا سگنل زیادہ ٹریفک کی وجہ سے دیر تک کھلا ہوتاہے۔
جیسے ہی پولیس والے کا سگنل بند ہوا، غالباً وہ یہ سمجھاکہ میرا سگنل بھی اس وقت بند ہونا چاہئے، مگر چونکہ میں گاڑی موڑ کر نکل گیا، اسلئے اس نے قیاس کیا کہ میں سگنل توڑ کر بھاگا ہوں۔ بہر حال جیسا بھی ہودیکھا جائے گا۔ میں بھی دیکھوں گا کہ یہاں کا قانون کیسے فیصلہ کرتا ہے۔
چند دن کے بعد مجھے ڈاک میں سرکار کی طرف سے ایک خط ملا جس میں مجھے دس ہفتے کے بعد ٹریفک کورٹ میں حاظری کی ہدایت تھی۔
پیش نہ ہونے کی صورت میں یک طرفہ فیصلہ صادر کر دیا جائے گا
میں نے اس سلسلہ میں لوگوں سے معلومات کرنی شروع کیں۔سب لوگ اس بات پر متفق تھے کہ مجھے عدالت میں حاضر ہونا چاہئے۔ اس بات کے بھی امکانات ہوتے ہیں کہ اگر پولیس والا کسی دوسری اہم سرکاری ڈیوٹی یا دیگر عذر کی وجہ سے عدالت میں حاظر نہ ہو سکے تو آپ کے حق میں فیصلہ ہو جائے اورکیس خارج ہو جائے۔
ہاں اس بات پر الگ الگ رائے تھیں کہ مجھے ٹریفک ٹکٹ کے ماہر وکیل سے رابطہ کرنا چاہئے یا پنا مقدمہ خود لڑنا چاہئے۔ بہر حال اس بات کی طرف کسی نے اشارہ نہیں کیا کہ مک مکا کی کوئی صورت ہے۔
 اخباروں کے اشتہارات ، ٹیلیفون ڈائریکٹری اور انٹرنیٹ سے میں نے وکیلوں کے نام ، پتے اور فیس وغیرہ کا اندازہ لگانے کی کوشش شروع کر دی۔ وکیلوں کی فیس ڈیڑھ سوڈالر سے لیکر پانچ سو ڈالر تھی۔
جتنامشکل کیس ہو گا اتنی ہی فیس زیادہ ہوگی۔ بہرحال تمام معلومات جمع کرنے کے بعد میں نے یہ حتمی فیصلہ کر لیا کہ میں کسی وکیل کی خدمات حاصل نہیں کرونگا اور خود ہی اپنا کیس لڑونگا۔
اپنی پیشی سے تقریباً ایک ہفتے پہلے میں نے کیس کی تیاری شروع کر دی۔ جائے واردات یعنی اس ٹریفک انٹر سیکشن کا نقشہ بنایا جہاں مجھے ٹریفک کی خلاف ورزی کا ٹکٹ دیا گیا تھا۔
میں کس سمت سے آرہا تھا؟ پولیس والے کی گاڑی کس جانب تھی؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہا ں تک کہ میں نے ایک دن اس جگہ جا کر دونوں طرف کہ ٹریفک سگنل کھلنے اور بند ہونے کا وقفہ بھی نوٹ کر لیا۔ یہ حقیقت تھی کہ میں جس طرف کھڑا تھا اس طرف کا سگنل زیادہ دیر کے لئے بند ہوتا تھا۔
 عدالت میں پیش ہونے کا دن آ گیا۔کورٹ میرے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی لیکن پھر بھی احتیاط ضروری تھی، اسلئے میں کورٹ کے وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی پہنچ گیا۔

 باہر لگے ہوئے نوٹس کے مطابق میرا کیس کورٹ نمبر ۳ میں تھا ور میرا نمبر دوسرا تھا۔ میں نے کورٹ نمبر ۳ میں پہنچ کر اپنے کاغذات عدالتی اہلکار کودکھائے اور اسے یہ بھی واضح کردیا کہ میرے ساتھ کوئی وکیل نہیں ہے، میں اپنا کیس کے دفاع خود ہی کرونگا۔
 اس نے کہا "نو پرابلم"
میں عدالت میں موجود دوسرے لوگوں اور خاص طور سے پولیس والوں کو غور سے دیکھ رہا تھا اور یہ اندازہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس میں وہ پولیس والا کون ہے جس نے مجھے ٹکٹ دیا تھا۔
دیکھنے میں تو سارے پولیس والے ایک ہی جیسے لگ رہے تھے۔
 پہلا کیس پیش ہوا۔ میں اس کیس پر قطعی توجہ نہیں دے سکا کہ اس کی کاراوائی کس طرح چل رہی ہے، مجھے تو صرف کیس کے ختم ہونے کا انتظار تھا۔خدا خدا کر کے پہلا کیس ختم ہوا اور اس کیبعد ذرا سے وقفے کے بعدمیر ا نام پکارا گیا۔ میں دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے کاغذات سنبھالتا ہوااور آیتوں کا ورد کرتا ہوا جج کے سامنے پہنچ گیا۔

 پولیس والے کا نام پکارا گیا، کوئی نہیں آیا۔
 دل نے کہا وہ مارا۔
عدالتی اہلکار نے دوبارہ نام پکارا۔ کوئی نہیں آیا۔
 معزز جج نے ادھر ادھر دیکھ، اپنا چشمہ درست کیا، میری طرف دیکھ کر کہا " کیس ڈس مس، آپ جا سکتے ہیں"
میں نے عدالتی اہلکار کی طرف دیکھا اور پوچھا " کیامجھے کسی اور تاریخ پر حاضرہونا ہے؟"
" آ پ کاکیس خارج ہو گیا ، آپ پر کوئی چارج نہیں ہے۔
آپ جا سکتے ہیں"
میں نے خوشی سے مغلوب ہو کر عدالت کا شکریہ ادا کیا۔ جی تو چاہ رہا تھا کہ ایک عدد فرشی سلام بھی پیش کروں لیکن کینیڈین عدالت کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے خود کو قابو کیا اور ایک آزاد پرندے کی طرح لہراتا ہوا باہر آ گیا۔ کینیڈا زندہ باد۔ کینیڈا کا انصاف پائندہ باد
میں تو ٹریفک ٹکٹ کے معاملے میں خاصا خوش قسمت ثابت ہوا لیکن بیگم کے ساتھ کچھ اور ہی کہا نی ہوئی۔
ایک دن وہ باہر سے آئیں تو کافی گھبرائی ہوئی تھیں۔ بتانے لگیں کہ آج و ہ ایک سرخ ہوتے ہوئے سگنل پر گاڑی روکنا توچاہ رہی تھیں، لیکن فیصلہ کرتے کرتے سگنل پار کر گئیں۔ وہ تو خیر ہوئی کہ وہاں کوئی پولیس والا موجود نہیں تھا ورنہ ٹکٹ مل چکا ہوتا۔ یہ محض خوش فہمی تھی۔ اگلے ہفتے ہمیں ٹریفک ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ایک خط ملا جس میں ۶۰ ڈالر کا ٹریفک ٹکٹ تھا ۔
خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ آپ چاہیں تو اس ٹکٹ کوعدالت میں چیلنج کرسکتے ہیں۔
خط کے ساتھ تین تصویریں منسلک تھیں جو اس دن چوراہے پر لگے خود کار کیمرے نے کھینچی تھیں۔
 پہلی تصویر میں ہماری گاڑی سرخ ہوتے سگنل پر نہایت اطمینان کے ساتھ چوراہے سے گزرر ہی ہے، دوسری تصویر میں سرخ سگنل پر گاڑی چوراہے کے وسط میں، تیسری میں چوراہے کے پار جاچکی ہے۔تصاویر میں گاڑی کی نمبر پلیٹ بہت واضح تھی۔ عدالت میں کیا صفائی پیش کرسکتے تھے۔ ۶۰ ڈالر کا چیک ٹریفکٹکٹ کے ساتھ لگایا اور ڈاک کے حوالے کر دیا۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem