Episode 41 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر41 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

یکم جولائی، کینیڈا کا سرکاری یومِ پیدائش مانا جاتاہے۔ لفظ کینیڈا 'کناٹا 'سے نکلاہے ۔کناٹا کا لفظی مطلب گاوں ہے۔
۱۹۲۰ء تک کینیڈا کا اپنا کوئی باضابطہ اور سرکاری جھنڈا نہیں تھا۔ ۱۹۶۲ء میں اس وقت کینیڈا کے وزیر اعظم لسٹر پیرسن نے فیصلہ کیا کہ کینیڈا کا اپنا باضابطہ جھنڈا ہونا چاہےئے، اور اس سلسلے میں عوام کی رائے اور مشورہ طلب کیا۔
یہ سلسلہ دو سال تک چلتا رہا۔ اس کو جھنڈے سے متعلق عظیم مباحثہ( گریٹ فلیگ ڈبیٹ) کہا جاتا ہے ۔ آخر کار پارلیمنٹ نے رائے شماری کرائی اور یہی جھنڈا رائے شماری سے چنا گیا جو آج کینیڈا کا جھنڈا ہے۔ اسکا رنگ سرخ اور سفید ہے جسکا مطلب مضبوطی ، آزادی اور خود مختاری ہے۔ میپل لیف کا نشان اسلئے رکھا گیا کہ کینیڈا یہ نشان۱۷۰۰ء سے استعمال کر رہاہے۔

(جاری ہے)

پہلی مرتبہ یہ جھنڈا۱۹۶۵ء میں اٹاوہ میں لہرایا گیا۔
کینیڈا کی کنفیڈریشن کی داستان کے علاوہ بھی مجھے جو موضوعات قابلِ توجہ لگے، ان میں کینیڈا کے قدیم باشندے سرِفہرست تھے۔ میرا خیال تھا کہ یہ قدیم باشندے ہزاروں سال پہلے اس علاقہ میں رہتے ہو نگے اور اب صرف قصے کہانیوں میں ان کا ذکر باقی ہو گا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ قدیم باشندے ایک جیتی جاگتی حقیقت ہیں۔
یہ کینیڈا کے کئی علاقوں میں ابھی تک موجود ہیں اور اپنے کلچر اور اپنے تشخص کی بقاء کی جدو جہد میں مصروف ہیں اور اس کی ایک مکمل اور منفرد تاریخ ہے۔
قدیم باشندے مخصوص علاقوں میں رہتے ہیں جن کو 'ریزرو' کہا جاتا ہے اور اس سلسلے میں کینیڈا کی حکومتوں سے وقت کے ساتھ کئی معاہدے کئے گئے۔اب یہ معاہدے جیسے بھی رہے ہوں اور جن حالات میں بھی کئے گئے ہوں،مجھے بظاہر قدیم لوگوں کی حالت بہت زیادہ قابلِ رشک نظر نہیں آئی۔
میرا خیال تھا کہ مجھے اس موضوع پر امتحان کی تیاری کے علاوہ الگ سے بھی بہت کچھ پڑھنے کی ضرورت ہے۔مثلاً کینیڈا کا طرزِ حکومت، یہاں کے قومی اورعلامتی نشان، بطور کینیڈین ہمارے حقوق و فرائض وغیرہ
آج ہمشہریت کا امتحان دینے کے لئے سینٹر پر بیٹھے تھے۔ ہم اپنے ساتھ ان تمام کاغذات کی اصل اور فوٹو کاپی بھی ساتھ لائے جن کی ہمیں ہدایات دی گئی تھیں۔
اس ٹیسٹ میں اندازاً ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد شرکت کر رہے ہیں۔
ٹیسٹ توقع سے زیادہ آسان رہا ۔ صرف ۲۰ سوالوں کے جوابات دینے تھے۔ ۱۲ یا اس سے زیادہ سولات صحیح ہونے کی صورت میں آپ پاس ہیں۔ ہر سوال کے چار ممکنہ جوابات تھے، جن میں سے آپ کو ایک جواب منتخب کرنا تھا۔جن کی وجہ سے صحیح جواب دینا اور بھی آسان ہو گیا تھامیں نے گھڑی دیکھی تو صرف ۱۲ منٹ میں پرچہ حل کر لیا تھا۔
احتیاطاً میں نے اپنے جوابات کو پھر سے پڑھا کہ شائید کہیں کوئی غلطی رہ گئی ہو۔ یہ مرحلہ بھی اگلے ۸ منٹ میں طے ہو گیا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ کچھ لوگ اپنے حل شدہ پرچے واپس کر رہے تھے، میں نے بھی اپنے پرچے پر آخری نظر ڈالی، ممتحن کے حوالے کیا اور باہر نکل آیا۔ چند منٹ بعد بیگم بھی باہر نکال آئیں۔ ہم دونوں کا خیال تھا کہ پرچہ اچھا ہوا ہے اور انشااللہ پاس ہو جائیں گے۔

کچھ عرصہ کے بعد ہمیں سرکار کی طرف سے ٹیسٹ میں کامیابی کی اطلاع اورشہریت کی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ ملا جس میں ہمیں شہریت کا سرٹیفیکٹ دیا جانا تھا۔
 ہم آج اس تقریب میں شرکت کرنے ایک مقامی کمیونٹی سینٹر میں آئے تھے۔ اس تقریب میں ۱۴ سال سے زیادہ عمر کے ان بچوں کی شرکت لازمی ہے جوشہریتلے رہے ہوں، اس سے کم عمر کے بچے بھی چاہیں تو اس تقریب میں شرکت کر سکتے ہیں۔
ہمارے دو بچے تو ۱۴ سال سے زیادہ کے تھے ا سلئے ان کی شرکت تو لازمی تھی، تیسرے۱۴ سال سے کم ہیں لیکن ہم انہیں بھی ساتھ لائے تھے۔تقریب کا رنگ بھی روایتی اور قدیم تھا۔ گارڈز اور محافظ اپنے روایتی تاریخی لباس میں ملبوس تھے۔ بالکل ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم پرانے زمانے کی کسی شاہی تقریب میں بطور مہمان شریک ہیں۔
 اس تقریب کے لئے شرکاء کے لئے کسی خاص قسم کے لباس کی قید نہیں تھی ، زیادہ تر لوگوں نے سوٹ اور ٹائی لگا رکھی تھی کچھ خواتین اپنے کلچرل لباس میں ملبوس تھیں۔

ایک ایک کر کے لوگوں کے نام پکارے جاتے رہے اور لوگ جا کر حلف اٹھاتے رہے اور اپنے سرٹیفیکیٹ وصول کرتے رہے۔ کچھ دیر کے بعد ہم لوگوں کا نام بھی پکارا گیا۔ ہم سے بھی جج صاحب نے روایتی انداز میں حلف لیا،ہمیں مبارکباد دی اورشہریت کا سرٹیفیکیٹ ہمارے حوالے کیا۔ ہمیں اس بات کی بھی خوشی تھی کہ ہم کینیڈا کے شہری تو ہو گئے ہیں لیکن اس سلسلے میں ہمیں اپنے ملک کی شہریت کو خیرآباد نہیں کہنا پڑا(کئی ملک کے شہریوں کواس مسئلے کا سامنا تھا)۔

میراخیال تھا کہ اب چونکہ ہم لوگوں کو کینیڈا کی شہریت مل گئی ہے تو اب کینیڈین پاسپورٹ بھی بنو الیں۔ ویسے تو مستقبل قریب میں ملک سے باہر جانے کا پروگرام نہیں تھا لیکن ابھی ذرا فراغت بھی تھی، کینیڈین پاسپورٹ کی فیس کے پیسے بھی تھے تو کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھا لیا جائے، بعد میں شائید ایسے مواقع نہ ہوں۔
پاسپورٹ کا فارم بہت سادہ تھالیکن اس فارم کی تصدیق کسی ایسے شخص سے کرائی جانیتھی جو آپ کو کم ازکم تین سال سے جانتا ہو۔
ایسا شخص آپ کا فارماسسٹ ، ڈاکٹر، کوئی سوشل ورکر یا وکیل بھی ہو سکتا تھا۔ بظاہر یہ کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں لگ رہا تھا۔ ہم سب لوگوں کے پاس ہیلتھ کارڈ تھے اور ہمارا ایک فیملی ڈاکٹر بھی تھا۔
 ڈاکٹر صاحب نے سب لوگوں کے فارم کی تصدیق کر دی لیکن میرے فارم کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ان کے کلینک میں رجسٹرڈ ضرورہوں، لیکن میں گزشتہ تین سال میں ان کے پاس کبھی گیا ہی نہیں اور نہ کبھی میڈیکل چیک اپ کرایا۔
بات بالکل درست تھی اور زیادہ بحث کی گنجائش نہیں تھی۔ سب لوگوں کے فارم کی تصدیق ہو گئی اور میرا فارم بغیر تصدیق کے واپس ہو گیا۔ اب مجھے کسی وکیل سے رابطہ کرنا تھا
میں اپنی مثالی صحت پر دل ہی دل میں خوش ہورہا تھا کہ میرے بڑے بیٹے نے کہا
"ابو اللہ کا شکر ہے کہ آ ٓپ کو ابھی تک ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑی لیکن کیا ضروری ہے کہ آپ ڈاکٹرکے پاس اسی وقت جائیں جب آپ بیمار ہوں۔
تین سال سے زیادہ آئے ہوئے ہو گئے، آپ اس دفعہ مکمل چیک اپ کروا ہی لیں۔معمول کے سارے چیک اپنے وقت پر ہوتے رہنے چاہئیں یہاں تو ویسے بھی ساری سہولتیں مفت ہیں"
بات معقول تھی۔ میں نے اپنے فیملی ڈاکٹر سے پہلی دفعہ ملاقات کی۔ ڈاکٹر بھلا مانس تھا، ویسے بھی گھر میں ا سکی تعریفیں سنتا رہتا تھا۔ اس نے مجھے بلڈ ٹیسٹ اور دو تین الا بلا ٹیسٹ او ربھی لکھ کر دئے۔
یوں تو سارے ٹیسٹ صحیح تھے لیکن بلڈ پریشر کی کہانی ذرا مختلف تھی،یہ معمول سے ذرا زیادہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے خبردار کیا کہ وہ اسے کچھ عرصے مانیٹر کریں گے، اگر صورتِ حال بہتر نہیں ہوتی تو پھر وہ کوئی دوا تجویز کریں گے۔
 تو گویا یہ تھا شہریت کا تحفہ۔ مجھے اس بات کی خوشی ضرور تھی کہ میرے بچے بھی اب سمجھدار ہو گئے ہیں اور وقت کے تقاضے کو پہچاننے لگے ہیں۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem