Episode 44 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر44 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

 ایک عام کینیڈین روزمرہ زندگی میں پہننے اوڑھنے کے معاملے میں بہت زیادہ رکھ رکھاؤ کا قائل نہیں ہے۔ لیکن یہی کینیڈین جب کسی کھیل کود وغیرہ یا فقط جاگنگ ہی کے لئیکے لئے باہر نکلا ہو تو پھرآپ اس کی تیاری دیکھیں۔ آنکھوں پر چشمہ بھی لگا ہوا ہے، موسیقی کے لئے ہیڈ فون کانوں میں لگا ہوا ہے، اچھے ٹریک سوٹ میں ملبوس، صاف ستھرے جاگرز، ایک طرف پانی کی بوتل بھی لٹکی ہوئی ہے۔
غرضیکہ اس وقت اس کی تیاری قابل دید ہوتی ہے ۔ شائید ہی آپ کبھی کسی کینیڈین کو عام چپلوں اور گھر کے لباس میں جاگنگ کرتے دیکھیں
کینیڈا میں لوگوں کو جانور ،خاص طور سے کتے پالنے کا بہت شوق ہے۔ لیکن انہیں اپنے اپارٹمنٹ میں جانور رکھنے کیلئے باقاعدہ لائسنس حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ کتا دیکھتے ہی حالت غیر ہو جاتی ہے، چاہے کتنا ہی چھوٹا کتا کیوں نہ ہو، کتا بہرحال کتا ہے۔

اسے کیا معلوم اس کا سائز کتنا چھوٹا ہے۔ پھر کتابوں میں بھی کہیں نہیں لکھ اہے کہ کس سائز کے کتے سے ڈرناچاہئے؟
خبروں اور ان ڈور تفریحات کے لئے کینیڈین زیادہ تر ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر انحصار کرتے ہیں۔ ریڈیو کا زیادہ تر استعمال دورانِ سفر اور کار میں ہوتا ہے۔ اب آہستہ آہستہ سیل فون اس کی جگہ لے رہا ہے۔
ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے علاوہ فلم بینی بھی لوگوں کے لئے تفریح کا ایک بڑا ذریعہ ہے ۔
کینیڈا کی اپنی فلم انڈسٹری کا شمار بھی دنیا کی بڑی فلم انڈسٹری میں کیا جاتا ہے۔کینیڈا میں اس وقت اوسطاّ ڈیڑھ ہزار سالانہ فلمیں بڑے سکرین اور ٹیلی ویژن کے لئے تیار کی جاتی ہیں۔ ایک کینیڈین سال میں اوسطاً تین فلمیں سنیما ہال یا تھیٹر میں جا کر دیکھتا ہے۔
وطنِ عزیز میں ہر طرف وی آئی پی ہی وی آئی پی ہیں۔ ائرپورٹ پر وی آئی پی لاؤنج، کسی بنک یا ادارہ میں جائیں، آپ لائن میں سوکھ رہے ہیں، وی آئی پی صاحب کا کام کاؤنٹر کے پیچھے سے ہو رہا ہے، سڑک پر ہٹو کی آوازیں، پولیس والوں نے راستہ روک رکھا ہے، کیا بات ہے؟ کسی وی آئی پی کا قافلہ جا رہا ہے۔
کینیڈا میں ایسا نہیں ہے۔ نہ راستہ رکتا ہے، نہ ٹریفک روکی جاتی ہے۔ وزیراعظم بھی گزر رہا ہو تو کوئی خاص اہتما م دیکھنے میں نہیں آتا۔ لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ کینیڈا میں وی آئی پی نہیں ہیں۔ یہا ں بھی وی آئی پی ہیں لیکن دوسری قسم کے۔ آئیے ہم آپ کو ان کی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔
 سامنے فٹ پاتھ کے قریب گھاس پر سکول جانے والے چھوٹے بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
سکول کی نارنجی رنگ کی بس آگئی۔ ڈرائیور بس کو فٹ پاتھ کے ساتھ ملا کر کھڑا کرے گی ( یہاں زیادہ تر سکول بس ڈرائیور خواتین ملیں گی)۔ بس کے اوپر لگے ہوئے سرخ رنگ کیجلتے بجھتیسگنل جلائے گی، اور بس کیبائیں ہاتھ پر سرخ رنگ کا سٹاپ کا بورڈ باہر نکل آئے گا۔ اب دونوں طرف کا ٹریفک رک گیا ہے۔ مجال نہیں کہ کوئی طرم خان بس کے آگے یا پیچھے سے گاڑی نکا لنے کی ہمت کر لے، اس طرح کی خلاف ورزی کا فقط جرمانہ ہی دو ہزار ڈالر ہے۔
بس کا دروازہ کھل گیا ہے،ایک ایک کر کے بچے سوار ہو رہے ہیں۔ ڈرائیور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ سب بچے بس میں آ گئے ہیں اور اب بس چلا نا محفوظ ہے۔ وہ بس کا دروازہ بند کرے گی، اوپر جلتے بجھتے سرخ سگنل بند کرے گی، سٹاپ سائن والا بورڈ اندر کر ے گی، اب اسکے پیچھے اور سامنے سے آنے والا ٹریفک رواں ہو سکتا ہے۔
سکول کی حدود میں تمام سڑکوں پر ٹریفک کی رفتار کی حد زیادہ سے زیادہ چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
اسی طرح صبح اور دوپہر سکول لگنے اور دوپہر میں ختم ہونے کے وقت سکول کی حدود میں تما م سگنلز پر بچوں کو سڑک پار کرانے کے لئے مخصوص لباس میں سٹاپ سائن لئے ہوئے لوگ نظر آئیں گے۔ تو جناب یہ ہیں کینیڈا کے وی آئی پی۔معذور افراد بھی وی آئی پی کا درجہ رکھتے ہیں۔
کینیڈا میں جہا ں وی آئی پی ہیں وہاں اچھوت بھی ہیں! حیران نہ ہوں، س کی بھی ایک جھلک ملاحظہ فرما لیں۔

بلڈنگ گرم ہے لیکن لوگوں کا ایک گروہ باہر سردی میں سکڑ رہا ہے۔ پہلے میری سمجھ میں نہیں آتا تھاکہ یہ کون لوگ ہیں اور اس سردی میں باہر کیا کر رہے ہیں؟ بعد میں پتہ چلا یہ کینیڈا کے اچھوت ہیں، یعنی سگریٹ نوش خواتین و حضرات۔قانوناً یہ بیچارے بند جگہوں خاس کر عمارتوں میں کہیں بھی سگریٹ نوشی نہیں کر سکتے۔ یہاں پر بسوں، عمارتوں، لفٹوں اور ریسٹوران وغیرہ میں بھی تمباکو نوشی پر مکمل پابندی ہے۔
بلڈنگ کے ا ندر کسی بھی جگہ یہاں تک کہ عوامی واش روم میں بھی سگریٹ نوشی پر دو ہزار ڈالر تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ آپ میں ہمت ہے تو اس کی خلاف ورزی کر کے دیکھیں۔یہ ایک اچھا قانون ہے اور لوگ اس کی پاسداری کرتے ہیں غالباً ایک اچھا شہری ہونے کی حیثیت سے نہ کہ جرمانہ کے ڈر سے ۔ ۱۹ سال سے کم عمر لوگوں کے ہاتھ سگریٹ فروخت کرنا بھی قانوناً جرم ہے۔
اس لحاظ سے سگریٹ کے دلدا دہ لوگوں کے لئے کینیڈاایک مشکل ملک ہے
وطنِ عزیز میں ہرتقریب اور تہوار کھانے سے شروع ہو کر کھانے پر ہی ختم ہوتا ہے۔ رمضان کی دعوتِ افطار، عید کی سویاں، بقرعید پر تکے، شب دیگ، حلیم ، پائے، نہاری ، شادی بیاہ ، عقیقہ اور سالگرہ جیسی تقریبات تو چھوڑیں، سوئم کا کھانا، چالیسویں کا کھانا، برسی پر کھانا،محرم کا شربت، شب برات کا حلوہ، نیاز کی جلیبیاں ۔
کسی کے گھر جائیں تومٹھائی لے جائیں۔ پیمار کی عیادت کو جائیں تو پھل وغیرہ لے جائیں۔معمول کی دعوتیں الگ، سلطنتِ مغلیہ اسی کھانے پینے کے چکر میں نکل گئی۔ طعنے بہرحال انگریزوں کو ہی دئے جاتے ہیں، جب کہ ان بیچاروں کا تعلق شاہی حلیم اور مغل بریانی سے اتنا بھی نہیں تھا، جتنا ہمارا جارج پنجم سے ہے۔
 کینیڈین کا معاملہ ذرا مختلف ہے، ان کے سار ے تہوار اور اہم دن شاپنگ سے شروع ہو کر شاپنگ پر ہی ختم ہوتے ہیں۔
کرسمس ہو، ویلنٹائین، ہیلو ان، نیا سال ہو ، کوئی اہم دن ہو سیل اور شاپنگ اس کا ایک اٹوٹ انگ ہے
 خوشی اور غمی کے موقعوں پر بھی کینیڈین پھول اور کارڈ بھیج کر اپنی سماجی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں بھیجنا روایات حصہ نہیں ہے۔ کینیڈین سوسائٹی کا یہ پہلو بہت ہی روکھا، بھوکا اور سوکھا ہے۔ چلو سانو کی!

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem