Episode 48 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر48 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

 مسٹر نزلہ
جیسے جیسے بچے بڑے ہو رہے تھے، اپارٹمنٹ تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ جتنی مکانیت میں ہمارا دو بیڈ روم کااپارٹمنٹ ہے، اسی مکانیت میں تین بیڈروم کے اپارٹمنٹ مل رہے تھے اس لئے یہ بھی مسئلہ کا حل نہیں تھا کہ ہم تین بیڈروم کا اہرٹمنٹ لے لیں۔ کیا کریں ؟کیا ٹاؤن ہاؤس خریدنے کی سوچیں؟ فیصلہ آسان نہیں تھا۔
بیگم کی پڑھائی آخری مراحل میں تھی، اس وقت یہ مسئلہ اٹھانا ان کی ساری توجہ غارت کر سکتا تھا۔ چنانچہ اس مسئلہ پر ابتدائی طور پر مجھے ہی غوروفکر کرنی تھی۔
 ایک عام فارمولہ یہ ہے کہ رہائشی انتظامات پر آپ کی گھریلو آمدنی کا ایک تہائی سے زیادہ خرچ نہیں ہونا چاہئے۔ اس سے جتنا زیادہ آپ خرچ کر رہے ہیں اتنا ہی بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں۔

(جاری ہے)


 اس وقت ہم کرایہ اور پارکنگ کے لئے ساڑھے بارہ سو ڈالر دے رہے تھے جو ہماری گھریلو آمدنی کا ایک تہائی سے کم تھا۔

لیکن گھر لینے کی صورت میں یہ اخراجات دو سے ڈھائی ہزار ڈالر تک پہنچ سکتے تھے۔ پھر مکان کی خریداری کے لئے ۱۵ سے بیس ہزار نقد گرہ میں ہونے چاہئیں۔ معاملہ اتنا سادا نہیں تھا!
 جہاں ہم رہ رہے تھے، اس اپارٹمنٹ کے سامنے والی سڑک کے دوسری طرف کچھ عرصہ سے نئے مکان تعمیرہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ میں وہاں سے گزرتا تو تھا لیکن کبھی دھیان نہیں دیاکہ کیا بن رہا ہے، کس قسم کی تعمیر ہو رہی ہے؟ اب جب مکان خریدنے کا خیال آیا توسوچا کہ چل کر دیکھنا چاہئے وہاں کس طرح کے مکان بن رہے ہیں؟
 سیلز آفس میں ایک بڑی بی نے مجھے خوش آمدید کہا۔
ان کے چہرے پر ایک غم آلود سی نرمی اور لبوں پر دل موہ لینے والی مشفقانہ مسکراہٹ تھی۔ وہ مجھے ایک سیلز ایجنٹ کے بجائے سماجی کارکن لگیں۔ میرے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئیکیونکہ میں مسٹرجیکی جیسے پھرتیلے اور طرح دار ایجنٹوں سے ذرا گھبراتا ہوں جوگاہک کی ضروریات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف اپنا مال ٹھکانے لگانے کی فکر میں رہتے ہیں۔
"آپ یہاں کہیں نزدیک ہی رہتے ہیں " انہوں نے پوچھا
"جی بالکل نزدیک" میں نے اپنے اپارٹمنٹ بلڈنگ کی طرف اشارہ کیا
"پھر تو مجھے یہ بتانے کی قطعی ضرورت ہی نہیں ہے کہ یہاں سے ساری ضرویارتِ زندگی نزدیک ہیں،مرکزی بس سٹینڈ، کمیونٹی کالج، لائبریری، شاپنگ مال اور جمنازیم وغیرہ" انہوں نے مسکرا کے کہا
" ہماری اس کمیونٹی میں تقریباً دو سو مکانات ہو نگے۔
آنے جانے کے لئے فقط دو گیٹ ہیں، تاکہ غیرضروری ٹریفک اور اجنبی لوگوں کی آمدو رفت سے مکینوں کو محفوظ رکھاجائے۔ بچوں کے کھیلنے کے لئے پارک ہوگا" یہ کہہ کر انہوں نے اس علاقہ کا نقشہ میرے سامنے رکھ دیا اور اس پر تمام مقامات کی نشاندہی کی۔
"اب آپ بتائیں آپ کس قسم کا مکان دیکھ رہے ہیں، آپ کی فیملی میں کتنے لوگ ہیں"
میرا جواب سننے کے بعد انہوں نے مختلف مکانا ت کے نقشے دکھائے اور قیمتیں بتائیں۔
ہماری ضروریات کو پورا کرتا ہوا سب سے سستا ٹاؤن ہاؤس ڈھائی لاکھ کی حدود میں تھا۔ ابتداء میں ۲۰ ہزار کی نقد ادائیگی تین قسظوں میں کرنی تھی۔
"یہ تو ہوا آپ کا حساب لیکن اس مکان سے متعلق ماہانہ اخراجات کیا ہونگے،مجھے اس کا کچھ بھی اندازہ نہیں ہے "میں نے پوچھا
"ابھی دیکھے لیتے ہیں"
انہوں نے کاغذ پر کچھ اعدادو شمار لکھے، تھوڑی دیر حساب کتاب کرتی رہیں
"میں مارگیج میں مہارت تو نہیں رکھتی ہوں لیکن میرے حساب سے ۱۸ سو سے دو ہزار ماہانہ میں مارگیج ،جائداد ٹیکس اور بل وغیرہ سب ادا ہو جائے گا" انہوں نے کہا
مجھے یہ سن کر اطمینان ہوا کہ یہ رقم میرے ذاتی تخمینہ سے کافی کم تھی۔

" چاہے میں خود مکان خرید وں یا نہ خرید ں ۔ لیکن میں اپنے تمام جاننے والے جو مکان خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، آپ سے ملنے کا مشورہ دوں گا۔آپ نے بہت اچھی طرح میری رہنمائی کی ہے" میں نے کہا
 " شکریہ۔ آپ کے جاننے والے مکان خریدیں یا نہ خریدیں لیکن میرا ۳۰ سالہ تجربہ کہتا ہے کہ آپ پہلا مکان ہم سے ہی خریدیں گے" انہوں نے جواباً کہا
میں نے دل میں کہا۔
اللہ آپ کی زبان مبارک کرے۔
میرے نزدیک مکان کی خریداری ایک ایسا اہم معاملہ تھا جس میں گھر کے تمام اراکین کی شرکت ضروری ہے، چھوٹے ہوں یا بڑے،خود کماتے ہوں یا آپ سے جیب خرچ لیتے ہوں۔
 میں نے تین ہفتے انتظار کیا اور جیسے ہی بیگم کے فائنل امتحان ہوئے، میں نے رات کے کھانے پر جب سب لوگ موجود تھے میں نے مکان کی خریداری کا معاملہ چھیڑ دیا۔
پہلے تو سب نے ذرا گرمجوشی دکھائی لیکن پھر اخراجات کا اندازہ کرتے ہوئے بات سنجیدہ ہو گئی۔
میں نے اب تک کی اپنی تمام معلومات ، سامنے والے پلاٹ پر بننے والے مکانات کے کتابچے ، ریٹائرمنٹ کی بچت کی تفصیلات سب کے سامنے رکھ دیں ۔
بڑے بیٹے نے کہا کہ اس کے دوست کے والد کافی عرصے سے رئیل سٹیٹ میں ہیں وہ ا نکی رائے لے سکتا ہے۔ بیٹی نے اکاوئنٹنگ اور انٹرنیٹ ریسرچ کی ذمہ داری اٹھا لی۔
چھوٹے بیٹے نے کہا کہ اگر پیسے کم پڑتے ہیں تو وہ اپنا ماہانہ جیب خرچ قربان کرنے کو تیار ہے۔ بیگم نے اپنی رائے محفوظ رکھی کہ وہ جمہور کے ساتھ تھیں۔
بچوں کی گفتگو سے مجھے یہ اندازہ کر کے بہت خوشی ہوئی کہ یہ ہمارے نزدیک بچے ہیں لیکن ان کی سوچ میں کافی پختگی ہے۔ میرے حساب سے یہ میٹنگ بہت کامیاب تھی کیونکہ اس پرو جیکٹ کی وجہ سے سب لوگ اپنی اپنی ذمہ داری سمجھ رہے تھے اور میری ذمہ داری کا بوجھ اب تقسیم ہو رہا تھا۔

ہفتہ بھر کی مشترکہ گفت و شنید کے بعد یہ طے ہوا کہ سب لوگ سائٹ آفس پر چلیں ، صورتِ حال کا جائزہ لیں، مکانوں کے نقشے دیکھیں اور پھر طے کریں کہکیا کرنا ہے۔
اس اتوار کو ہم سب کی چھٹی تھی، لیکن سائٹ آفس کھلا تھا۔ میں سب کو لے کر پہنچ گیا
"پور ی فیملی موجود ہے، اس کا مطلب ہے، آج آپ لوگ مکان بک کر کے ہی جائیں گے۔ میری طرف سے ایڈوانس مبارکباد۔
" بڑی بی نے ہمارا استقبال کرتے ہوئے کہا
یہاں سارے ٹاؤن ہاؤس ہی تھے۔ یعنی ایسے مکان جن کی دیواریں مشترک تھیں۔ مکان کی قیمت میں چولہا، فرج، کپڑا دھونے اور سکھانے کی مشین سب ہی کچھ شامل تھا
سب کچھ صحیح تھا لیکن گاڑی ایک مرحلے پر آکر رک گئی۔ مکان کی قیمت میں مرکزی ائر کنڈیشنر شامل نہیں تھا۔ اگر ہمیں ائر کنڈیشنر چاہئے تو اس کی قیمت ہمیں اضافی دینی ہو گی۔
یہ اضافی قیمت ہمارے بجٹ سے باہر تھا۔
"ائر کنڈیشنر کے بغیر شائد ہم یہ مکان نہ خرید سکیں" بیگم نے کہا
جہاں تک میری سمجھ بوجھ کا تعلق ہے، عورتیں چاہے کسی رنگ و نسل سے ہوں اور دنیا کے کسی حصہ میں رہتی ہوں، ایک دوسرے کو خوب سمجھتی ہیں۔بڑی بی نے بیگم کے لہجے میں چھپی تریا ہٹ کو صاف محسوس کر لیا اور غالباً وہ یہ بھی سمجھ گئیں کہ اس کہانی میں میراکردار ختم ہو چکا ہے۔

"آپ فکر نہیں کریں۔ اسی قیمت میں آپ کو گھر ملے گا، سنٹرل ایئر کنڈیشنر کے ساتھ!"
یہ کہہ کر وہ اٹھیں اور برابر کے کمرے سے جا کر ٹیلیفون گھمایا۔
"ایک امیگرینٹ فیملی ہے۔ میں انہیں مکان کی قیمت میں ائیر کنڈیشنر مفت دے رہی ہوں۔ باس کو بتا دینا"
مجھے ان کی آواز بالکل صاف سنائی دے رہی تھی۔ ان کی آواز میں تیس سال کے تجربے کی خود اعتمادی اور اس ادارے میں ان کا اثرورسوخ نمایاں تھا۔
میرے پاس اسے تریا ہٹ سمجھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔
دوسر ے دن میں نے پاکستان فون کیا اور جب اپنی بہن کو خوشی خوشی بتایا کہ ہم نے مکان بک کر ا لیا ہے تو دوسری طرف ذرا سی دیر کے لئے خاموشی چھا گئی
"تو گویا تم لوگوں نے کینیڈا میں مستقل رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے"
میرے ہاتھ سے فون کا ریسیور گرتے گرتے بچا۔

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem