Episode 51 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر51 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

 بات یہیں سے تو شروع ہوتی ہے۔ آپ سب سے پہلے یہاں انگلش کی کلاس میں داخلہ لیں، نئے آنے والوں کے لئے یہ مفت سہولت ہے " میں نے بتایا
"آپ تو بچوں کی پڑھائی پر توجہ دینے کی بات کر رہے تھے، اب آپ مجھے خود پڑھنے کو کہہ رہے ہیں"
"آپ کی انگلش بہتر ہو جائے گی تو آپ کا اعتماد بھی بڑھ جائے گا۔ آپ بچے کی پڑھائی میں مدد بھی دے سکتی ہیں اور خود بھی سیکھ سکتی ہیں۔
بس تھوڑی محنت کی ضرور ت ہے"
"محنت سے تو میں گھبراتی نہیں۔ اس کی فکر نہ کریں"
"پھر تو مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ انگلش میں مہارت ہوجائے تو پھر آپ کے راستے کھل جائیں گے ۔ کمپوٹر سیکھ سکتی ہیں، ڈرائیونگ کرسکتی ہیں۔ آپ کو گھر میں بند کرنے کی کون بات کر رہا ہے"
" چلئے بڑا بچہ تو سکول داخل ہو جائے گا۔ چھوٹے کا کیا ہو گا"
"انگلش کی کلا س میں داخلہ لینے والوں کے لئے یہاں بچوں کی نگہداشت مفت ہے۔

(جاری ہے)

آپ کلاس کے لئے آئیں تو بچے کو چائلڈ کئیر میں چھوڑ دیں۔ واپسی پر بچے کو لے لیں۔"
"یہ تو بہت آسانی ہے۔ " خاتون نے سر ہلایا۔
میں نے خاتون کو انگلش کی کلاس میں داخلہ کے لئے فارم بھروا دیا، اپنا بزنس کارڈ دے دیا ۔فیملی اٹھ کر چلی گئی اور بات آئی گئی ہو گئی
 تین چار مہینے کے بعد ایک دن میاں کا فون آیا۔ان کے نام سے تو میرے حافظہ میں کوئی شبیہ نہیں ابھری لیکن جب انہوں نے یہ کہا کہ انہیں ڈائی میکر کی بہت اچھی جاب مل گئی ہے تو مجھے وہ فیملی یا د آ گئی۔

"وہ جو آپ نے کہا تھا کہ انگلش سیکھ لو تو سارے راستے کھل جائیں گے۔ آپ کی یہ بات میری بیوی کے دل میں ایسی بیٹھ گئی کہ وہ اس دن سے انگلش سیکھنے کے پیچھے پڑ گئی۔ کلاس میں تو باقاعدہ جاتی ہے،بچوں کے ساتھ بیٹھ کر بچوں کے سارے ٹی وی پروگرام دیکھتی ہے، اس ہفتے مجھے پکڑ کر بچے کے سکول بھی لے گئی، ٹیچر سے ساری بات خود اس نے ہی کی" انہوں نے بتایا
مجھے خوشی ہوئی کہ کسی کا بھلا ہوا۔
لوگوں کی مدد اور رہنمائی کرنا میرے فرائض میں شامل اور مجھے اسی کام کی تنخواہ ملتی تھی۔ اگر کسی کلائنٹ کا کوئی اٹکا ہو کام ہو جاتا تھا توکلائئنٹ کو تو خوشی ہوتی تھی لیکن مجھے بہت سکون اور اطمینان ہو تا تھا۔ لیکن بعض دفعہ اس کے برعکس بھی ہوتا تھا۔
میرے پاس ایک بڑی بی آ ئیں ۔ وہ سوشل ہاؤسنگ کی امیدوار تھیں۔ ان کی صحت بہت خستہ تھی، دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔
سوشل ہاؤسنگ کی لسٹ ۱۱ سال پر محیط تھی اور ترجیحی بنیادوں پر صرف ان خواتین کو جگہ مل رہی تھی جو تشدد کا شکار تھی۔ جن کی جان کو خطرہ تھا ، بے گھرتھیں یا کسی شیلٹر میں تھیں۔ میں نے کافی کوشش کی لیکن ان کے لئے کچھ کر نہیں سکا ۔ مجھے احساسِ جرم ہونے لگا۔ لیکن بڑی بی کے رخصتی الفا ظ مجھے بہت حوصلہ دے گئے
" بیٹا تو نے میری بات سنی، یہاں بڈھوں کی سنتا کون ہے۔
تو نے پوری کوشش کی۔ لیکن یہ اوپر والے کی مرضی ہے۔ جیتا رہے"
آج میری منیجرنے مجھے بلایا۔ اللہ خیر کرے۔
 میرا وجداں ہے، کوئی تازہ بلا آتی ہے۔
"آپ کو تو بزرگوں کے ساتھ کام کرنے کا کافی طویل تجربہ ہے، آپ کے ریزیومے میں تو یہی لکھا ہے" منیجر نے کہا
"ہاں تھوڑا بہت تو ہے"
"بس تو پھر سارا مسئلہ ہی حل ہو گیا۔ اصل میں کل سینئرز کا ہفتہ وار پروگرام ہے اور پروگرام کوا رڈینیٹر "... وہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبرائیں...." ایک دم سے چھٹیوں پر چلی گئی ہے۔
کل آپ پروگرام سنبھال لیں ۔ ویسے بھی آپ کے پاس سینئرز کے ساتھ کام کرنے کا طویل تجربہ ہے"
" طویل نہیں۔۔۔"!
 ۱۳ ہزار پٹیشن سے لے کر بل پیش کئے جانے اور نئے الیکشن تک کی کہانی تازہ ہو گئی۔میرے زخم دوبارہ رسنے لگیمیرا جملہ پوراے ہونے سے پہلے ہی منیجر فون اٹھا کر کسی سے گفتگو میں لگ گئیں اور میں منہ لٹکا کر کمرے سے باہر آ گیا۔ادھر ادھر سے اس پروگرام کے بارے میں تفصیلات حاصل کرنے کی کوششیں کرنے لگا۔

پتہ چلا کہ اس پروگرام میں پچیس تیس ساؤتھ ایشن بزرگ خواتین اور حضرات ہر ہفتہ شرکت کرتے ہیں۔باہمی رابطے کی زبان ہندی، پنجابی، اردو اور انگلش کا ملغوبہ ہے۔ اس بہانے یہ لوگ اپنے گھروں سے نکل آتے ہیں ، آپس میں مل ملا لیتے ہیں ۔ ان لوگوں نے اس پروگرام کو آپس میں "شغل میلہ" کا نام دیا ہواہے۔ پروگرام کا سارا انتظام یہ لوگ خود ہی کرتے ہیں۔

پروگرام کے پہلے حصے میں ہفتہ وار خبریں، پھر ان ہی کہانی ان کی اپنی زبانی اور پھر چائے کا وقفہ۔کمرے میں ہی کھانے پینے کی میز ہے۔ دفتر کی طرف سے چائے پانی کا بندو بست ہو تا ہے۔ لیکن پروگرا م کے اکژشرکاء گھر وں سے بھی کچھ نہ کچھ لے آتے ہیں۔ پروگرا م انچارج کا کام پروگرام کو اس کی حدود میں ایسے رکھنا ہے کہ کوئی انتظامی مسئلہ نہ کھڑاہو جائے۔

 میں دوسرے دن سینئرز کے پروگرام میں اپنے طویل تجربہ کے ساتھ موجود تھا۔
 سینئرز آنا شروع ہو گئے ۔ وہ آپس میں ہی گفتگو میں لگے ہوئے تھے ، کسی نے میرے طرف توجہ نہیں دی۔ اتنے میں ایک بزرگ نے داخل ہوتے ہی نعرہ لگایا،
"لگ گئی، بھئی لگ گئی" ساتھ ہی وہ بھنگڑا بھی ڈال رہے تھے
"کیا لگ گئی"کسی نے پوچھا
"پنشن لگ گئی، جی میری پنشن لگ گئی" بڑے میاں نے کہا۔
ان کا دھمال جاری تھا
لوگوں نے انہیں مبارکباد دی اور مٹھائی کا مطا لبہ کیا
"چلوجی محتاجی ختم ہوئی اب آپ بچوں سے لینے کے بجائے ان کو کچھ دے سکتے ہو" کسی نے بہت دل لگتی بات کہی۔میرے ذخموں کو جیسے پھر کسی نے چھیڑ دیا
 جب سب لوگ بیٹھ چکے تو میں مائیک پر جانے کے بجائے وہیں کرسی بچھا کر بیٹھ گیا۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اس طرح کی محفلوں میں لوگوں کے ساتھ بیٹھنے سے ذرا بے تکلفی کا اظہار ہوتا ہے اور لوگ بھی جلدی گھل مل جاتے ہیں۔
میں نے گلا صاف کیا اور اپنا تعارف کرانا شروع کیا تھاتو پیچھے سے ایک بزرگ کی کراری سی آواز آئی
"سر جی نہ کچھ سنائی دے رہا ہے ، نہ دکھائی دے رہا ہے۔ کرسی چھوڑو آپ اس ڈبے ( روسٹرم) پر چڑھ جاؤ اور ٹوٹی (مائیک) ہاتھ میں لے کر بولو تو بات بنے۔"
سر جی کے پاس ڈبے پر چڑھنے اور ٹوٹی ہاتھ میں لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔اس چکر میں وہ کاغذ جس پر پروگرام کی تفصیل لکھی تھی کہیں غائب ہو چکا تھا۔
اب میں اپنے طویل تجربہ کے ساتھ مائیک ہاتھ میں لئے خالی الذہن کھڑا تھا
"ہاں جی جگو صاحب پہلے اس ہفتے کی خبریں ہو جائیں ۔ پھر میں ذرا کچھ پرانے فلمی ڈائیلاگ سناتا ہوں" کسی نے کہا
اس کے ساتھ ہی جگو صاحب اپنا چشمہ اور اخبار سنبھالتے ہوئے آ گئے۔میں نے کنارے ہٹ کر مائیک جگو صاحب کے حوالے کر دیا۔جگو صاحب نے بہت محنت سے ایسی خبروں کا انتخاب کیا تھا جو سب کے لئے یکساں دلچسپی کا باعث اور معلوماتی تھیں۔
ان کے بعد فلمی ڈائیلاگ والے صاحب خود ہی تشریف لے آئے
"ہاں جی ایک پرانی فلم ہے۔ ہیرو عدالت میں جج صاحب کے سامنے کھڑا ہے" یہ کہہ کر انہوں نے اپنے گلے میں پڑے مفلر کو کاندھے پر ڈالا اور آنکھیں نشیلی بنائیں
"امیر سے اس کی دولت چھین لو۔۔۔۔مر جائے گا ، غریب سے اس کی عزت چھین لو۔۔۔۔مر جائے گا"
شرکاء میں سے کسی نے اسی لہجہ میں ٹکرا لگایا
"آج کے نوجوان سے سیل فون چھین لو۔
۔۔ مر جائے گا"
ایک زبردست قہقہ پڑا۔ ابھی یہسلسلہ چل ہی رہا تھا کہ ایک دم سے دراوازہ کھلا اور ڈاکٹر صاحب سرخ رنگ کا جنگل ہیٹ پہنے، گٹاربجاتے اور جھومتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ سنیرز نے جس طرح شور مچا کر ان کا استقبال کیا اس سے مجھے اندازہ ہو ا کہ ڈاکٹر صاحب ان لوگوں کے لئے اجنبی نہیں ہیں۔ خواتین بھی شور مچانے میں پیچھے نہیں تھیں۔ڈاکٹر صاھب نے جھوم جھوم کر گٹار بجاتے ہوئے ایک بڑے میاں کو آنکھ سے اشارہ کیا۔
بڑے میاں کود کر ڈاکٹر صاحب کے سامنے آ گئے اور ٹھمکے لگانے لگے۔
 اس وقت کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ جنگل ہیٹ پہنے ہوئے گٹا ر بجانے والا اپنے شعبہ کا ماہر اور اعلیٰ ترین ڈگریوں کامالک ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے خود بھی دو چار ٹھمکے لکائے اور کچھ دیر کے بعدبزرگوں کی دادو تحسین کے ساتھ اسی طرح جھومتے ہوئے باہر نکل گئے جیسے آئے تھے
"بڑاہی بیبا بندہ ہے ۔ دل خوش کر دیا۔جیتا رہے"
ایک بزرگ نے ہاتھ اٹھا کر دعا دی۔ مجھے اس دن احساس ہوا کے سوشل ورک کا اصل مقصد تو خلقِ خدا کی خدمت کرنا ہے، چاہے کسی شکل میں ہو۔ ڈاکٹرصاحب اس گر سے بہت اچھی طرح واقف تھے، میں ابھی نوآموزتھا!

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem