Episode 52 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر52 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

 سوشل ورک میں داخلہ
ایک سال بطور کونسلر کام کرنے بعد میں نے سوچ لیاکہ مجھے اب ویب ڈیزائننگ کو مکمل طور پر بطورپروفیشن خیرآبا د کہہ کر سوشل ورک میں آجانا چاہئے، یوں بھی دو کشتیوں میں سفر کرنا آسان نہیں ہے۔ میں انجینئرنگ اور کمپیوٹرکو پہلے ہی لال جھنڈی دکھا چکا تھا۔سنا تھا کہ ایک کینیڈین ، اوسطاً، اپنی زندگی میں ۵ پیشے تبدیل کرتا ہے۔
میرا تو یہ صرف چوتھا پیشہ تھا۔
 سوچنا تو آسان تھا لیکن میرے پاس سوشل ورک کی کوئی تعلیمی سند تو تھی نہیں صرف تجربہ ہی تجربہ تھا۔
 میرا اپنی بیٹی سے اکثر مکالمہ رہتا تھا کہ بغیر کسی سند اور تعلیم کے کوئی پیشہ اختیار کرنا خطرناک ہے۔میرے لئے یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ میں کل وقتی ملازمتچھوڑ کر سوشل ورک کے ڈگری کورس میں داخلہ لے لوں ۔

(جاری ہے)

کروں تو کیا کروں؟
ایک دن میری بیٹی نے تقریباً پونے تین سال پر محیط سوشل ورک کے ایک ایسے ماسٹرز پروگرام کی طرف میری توجہ دلائی جو صرف ویک اینڈز کے لئے تھا۔
 پونے تین سال، ایک خاصہ لمبا وقفہ تھا۔ عمر بھی اب وہ نہیں رہی محنت بھی بہت نظر آ رہی تھی، فیس بھی کافی تھی اوراس کے ساتھ ہی لمبی کاغذی کارروائی تھی ۔ فیصلہ آسان نہ تھا۔میں نے کئی لوگوں سے مشورہ لینے کی کوشش کی لیکن کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنے میں کامیابی نہ ہوئی ۔
آخری فیصلہ بہرحال مجھے ہی کرنا تھا۔
ایک دن مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کروں۔چنانچہ میں اگلے دن میں صبح سویرے ان کے آفس میں پہنچ گیا اور مسئلہ بیان کیا۔
"میرامشورہ یہ ہے کہ تم اس بات کا فیصلہ خود کرو" انہوں نے بے حد خشک لہجے میں کہا اور اپنے کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہو گئے
مجھے ان سے اس بے رخی کی توقع نہیں تھی ۔ میں بوجھل قدموں سے باہر چلا آیا۔

 میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ خیال آیا کہ اگر زندگی ہے تو تین سال تو جیسے تیسے گزر ہی جائیں گے۔ داخلہ لے لوں تو تین سال کے بعد ڈگری ہاتھ میں ہو گی۔داخلہ نہیں لیتا تو یہ قلق اور پچھتاوہ تا عمر رہے گا کہ موقع میرے پاس تھا اور میں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا،میں شائید اس پچھتاوے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ میں نے اسی لمحے داخلہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔

 داخلہ کا طریقِ کار کافی طویل اور صبر آزما تھا۔ دیگر لوازما ت کے علاوہ دفتر سے نہ صرف باقاعدہ اجازت بلکہ
 ایک اچھا تعارفی خط بھی چاہئے تھا۔ گو کہ میں ڈاکٹر صاحب سے مایوس ہو چکا تھا لیکن تعارفی خط کے لئے مجھیان ہی سے بات کرنی تھی۔ مرتا کیا نہ کرتا، مجھے ان سے تعارفی خط کی درخواست کرنی پڑی
"توآخر کارتم نے داخلہ لینے کا فیصلہ کر ہی لیا ۔
مبارک، مبارک، مجھے تم سے یہی توقع تھی" ڈاکٹر صاھب نے گرمجوشی سے کہا۔
مجھے بہت حیرت ہوئی ، پچھلی د فعہ تو موصوف کی آنکھیں ہی بدلی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب سمجھ گئے
"حیران نہ ہو۔ پچھلی دفعہ میں نے تمہیں جان بوجھ کر تم کو ٹالا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ تم خود کرو اور اس کا کریڈٹ بھی تم خود ہی لو۔ میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں۔
لاؤ کدھر ہے خط۔ مجھے تمہارے لئے تعارفی خط لکھنے میں بے حد خوشی ہو گی"
 گرتے پڑتے باقی مراحل بھی طے ہو گئے اور ایک دن مجھے یونیورسٹی کی طرف سے پروانہ ملا کہ مجھے داخلہ دے دیا گیا ہے۔ مجھے خوشی ہوئی اور ساتھ ہی احساس ہو ا کہ اب ایک بار پھر ویک اینڈ کی سماجی سرگرمیاں محدود ہوجائیں گی ۔
کیمپس کافی بڑا تھا۔پہلے دن کلاس روم ڈھونڈ نے میں اچھا خاص وقت صرف ہو گیا۔
کلاس روم میں ہر میز پر ۶ طلباء کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔کچھ طلبا آ چکے تھے اور ادھر ادھر بیٹھ رہے تھے، کچھ میزوں پر اپنے کمپیوٹر سیٹ کررہے تھے
نہ میں کسی کو جانتا اور نہ ہو کوئی مجھے جانتا تھا، میں بھی ایک خالی میز پر بیٹھ گیا۔ لوگ آتے رہے بیٹھتے رہے ،میری میز خالی رہی۔ مجھے لگا شائید لوگ مجھے جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں،
 کافی دیر کے بعد جب دیگر میزیں تقریبا ً بھر گئیں تب دو خواتین میری میز پر کی طرف آئیں۔
صاف ستھری رنگت،یہاں کے معیار سے اصل کینیڈین۔
"ایکس کیوز می۔ اگر یہاں کوئی نہیں بیٹھا ، تو ہم یہاں بیٹھ سکتے ہیں"
"نہیں کوئی نہیں بیٹھا ہے، آپ تشریف رکھیں"
اس کے بعد ایک اور لڑکاآیا، میرے خیال سے وہ گیانا کا تھا۔ اس کے آنے کے بعد کسی اور نے ہماری ٹیبل کا رخ نہیں کیا۔ وہ دونوں خواتین آپس میں گفتگو میں لگ گئیں۔ گیانی لڑکے نے اپنا سیل فون نکال کر اس سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔

ٹھوڑی دیر میں پروفیسر صاحبہ تشریف لے آئیں۔ بات خوش آمدید اور تعارف سے شروع ہوئی۔ وہ سوشل ورک میں پی ایچ ڈی تھیں اور گزشتہ ۲۰ سال سے تدریس کے پیشے سے وابسطہ تھیں ابھی تک وہ یونیورسٹی کے کل وقتی طلباء کو پڑھاتی رہیں،ہم جیسے کمیونٹی میں کام کرنے والے لوگوں کو پڑھانے کا ان کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ ان کو توقع تھی کہ ہم لوگوں سے کچھ " سیکھ" سکیں گی۔
پانچ کتابوں اور ساٹھ سے زیادہ تحقیقی مقالوں کی خالق۔ہم لوگوں سے کیاسیکھیں گی؟ مجھے وہ بہت منکسرالمزاج شخصیت لگیں۔
پروفیسرصاحبہ کے بعد ہم لوگوں کے تعارف کی باری آئی۔
 ہمیں اپنے تعارف میں لازماً چار باتیں بتانی تھیں: اپنا نام، کس شعبہ میں کام کر رہے ہیں؟،ا س کورس میں داخلہکی وجہ اور اس کورس سے کیا توقعات ہیں۔ اس کے علاوہ اگر اپنے متعلق کوئی خاص با ت بتانا چاہیں تو مختصراً بتا دیں۔
مجھ سمیت اس کورس میں ۳۴ لوگ تھے۔جس میں۲۸ خواتین تھیں۔ایک سردار جی اور ایک حجاب والی خاتون بھی تھیں۔
 زیادہ تر لوگ میری طرح تھے جن کا تجربہ تو تھا ، دیگر شعبوں کی سندیں تو تھیں لیکن سوشل ورک کی سند نہیں تھی۔ ان میں کچھ لوگ دماغی صحت، منشیات، اورجوئے جیسی لعنتوں میں مبتلا لوگوں کی کونسلنگ کے فرایض انجام دے رہے تھے ۔ کچھ لوگ گھریلوظلم و ستم کی شکار عورتوں کی بہبود سے وابسطہ تھے۔
ایک صاحب پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے، ایک ریٹائرڈ سکول ٹیچر تھیں۔میں واحد شخص تھا ، جو خود بھی امیگرینٹ تھا اور اب امیگرینٹ کے ساتھ کام کر رہاتھا۔
کھانے کا وقفہایک گھنٹے کا تھا۔ مجھ سمیت زیادہ تر لوگوں نے کیفے ٹیریا کا رخ کیا ۔ میں نے اپنا سینڈوچ نکالا ، چائے گرم کی اور ادھر ادھر کا جائزہ لینے لگا۔
کھانے کے وقفے کے بعد کلاس روم میں اپنی میز پر صرف میں اور وہ گیانی لڑکا موجود تھے۔
دونوں خواتین کسی اور میز پر جا چکی تھیں۔
 دوسرے دن میں پہنچا تو وہ گایانی لڑکا پہلے سے اس میز پر موجود تھا۔ لیکن بعد میں کسی نے بھی ہماری میز کا رخ نہیں کیا۔
 کلاس کا آغاز تعصب کے موضوع سے ہوا۔ پروفیسرصاحبہ نے لوگوں سے پوچھا
کیا کینیڈا میں تعصب ہے؟
کچھ نے کہا تعصب ہے، کچھ نے کہا نہیں ہے، کچھ میرے طرح غیر جانب دار رہے
 "چلیں اس پرہم بعد میں تفصیلی بات کریں گے" یہ کہہ کر انہوں نے اپنا سلائیڈ شو سٹارٹ کر دیا
۔
سنٹر فار ریسرچ اینڈ انفارمیشن کینیڈا اور ایک مشہور اخبار گلوب اینڈ میل کے کئے ہوئے سروے کے مطابق ۷۴ فیصد کینڈین کی رائے میں کینیڈا میں تعصّب کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
۔ کینیڈا کے محکمہ اعداو شمار سٹیٹس کینیڈا کے ایک تجزیہ کے مطابق اقیتوں اور خاص کر سیاہ فام لوگوں کو تعصّب اور غیر مساوی سلوک کا سامنا ہے۔
 ۔اس سروے کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں ۵۰ فیصد سیاہ فام لوگوں نے، ۳۳ فیصد ساؤتھ ایشین اور اسی تناسب سے چائینیز نے تعصّب اور غیر مساوی سلوک کی شکایات درج کرائیں
"آپ میں سے کوئی تعصب کی مثال پیش کر سکتا ہے؟ " ٹیچر نے سلائیڈ شو روک کر سوال کیا
میں نے ہاتھ کھڑا کیا
"جی بتائیں"
"مثال تو نہیں، لیکن آپ اسے مشاہدہ کہہ سکتے ہیں اور یہ غلط بھی ہو سکتا ہے آپ میری میز پر دیکھیں۔
کیا ہم دونوں، آپ کو کلاس کے دیگرلوگوں سے جدا نہیں لگ رہے"میں نے اپنے گایانی ساتھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
"لوگ ہمارے ساتھ کیوں بیٹھنا پسند نہیں کر رہے؟ کیا یہ تعصب کی کوئی قسم ہے یا میری غلط فہمی؟"
اس سے پہلے کہ گفتگو آ گے بڑھتی، وہ دونوں خواتین جو کل ہماری مہز پر تھیں اور آج کہیں اور بیٹھی ہوئی تھیں، ایک دوسرے کو دیکھا، مسکرائیں اوراپنے بیگ سنبھالتی ہوئی ہماری میز پر واپس آ گئیں
"اگر آپ یہ تاثر دینا چاہ رہے ہیں کہ ہم یہاں تعصب کی وجہ سے نہیں بیٹھے تھے ، تو ایسا کچھ نہیں ہے، آپ نے کون سا کل ہمیں خوش آمدید کہا تھا۔ منہ پھلائے بیٹھے رہے" ان میں سینئر خاتون نے کہا

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem