Episode 55 - Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem

قسط نمبر55 - باتیں کینیڈا کی (ایک پاکستانی امیگرینٹ کی زبانی) - فرخ سلیم

اس کاخیال تھا کہ پولیس آئے گی، خاوند کو ملامت کرے گی، سمجھا ئے گی اور یوں کرن ذرا سدھر جائے گا۔ لیکن سب کچھ ہوا ا سکے برعکس۔ پولیس نے کرن کوو حراست میں لے کر پولیس سٹیشن پہنچا دیا۔ دوسرے دن عدالت میں پیشی ہوئی کرن کی ضمانت پررہائی ہوئی لیکن کیس ابھی چل رہا ہے۔وہ نہ اپنے گھر واپس آسکتا ہے اور نہ اپنی بیوی سے بات کر سکتاہے۔
گھر آنا تو درکنار، وہ اپنے گھر کے آس پاس چار پانچ کلو میٹر کی حدود میں داخل بھی نہیں ہو سکتا۔
پویس، کچہری، وکیل، خرچہ ہی خرچہ، ذہنی پریشانی اور بے یقین مستقبل۔کرن کی بیوی اب پچھتا رہیتھی اور اس گھڑی کو کوس رہی تھیجب اس نے ۹۱۱ کال کیا تھا۔ وہ ان لوگوں سے بھی شاکی تھی جو بات بات پر ایسا کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔
کرن کی شادی کو ۱۷ سال سے ز ائد ہو چکے تھے، اس کے کوئی اولاد نہیں تھی۔

(جاری ہے)

ڈاکٹروں کو دکھایا لیکن ماہرین کے مطاق دونوں میاں بیوی میں کوئی خرابی نہیں تھی، بس یہ قدرت کی دین ہے۔ اس جوڑے نے بچہ گود لینے کی کوشش کی لیکن کینیڈا میں بچہ گود لینا ایک پیچیدہ عمل ہے اور ا سکے اخراجات بھی ۲۵ ہزرا ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ کرن کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اس کے کوئی رشتہ دارکینیڈا میں نہیں جن سے وہ اپنے دکھ سکھ بانٹ سکے۔

عام امیگرینٹس ۹۱۱ کوکال کرنا ایک عام بات اوراسے اپناحق سمجھتے ہیں ، جیسا کہ کرن کی بیوی کا خیال تھا۔اس نے اپنا حق استعمال کیا لیکن پولیس کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔موجودہ حالات میں پولیس گھریلو تشد دکے معاملات میں زیرو ٹالرنس (صفر برداشت) کے قانون پر عمل کرتی ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ ماضی میں کئی گھریلوتشدد کے معاملات میں پولیس نے فریقین کو فقط تنبیہ کر کے چھوڑ دیا ، لیکن اسی سلسلہ میں بعد میں کئی خواتین اپنے شوہروں اور سسرالی رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل ہو گئیں۔
سخت عوامی رد عمل کی وجہ سے متعلقہ قوانیں میں تبدیلی کی گئی جس کے نتیجے میں اب نئے قوانین سخت ہیں ہیں۔پولیس بھی کسی بھی صورت میں نہ تو رعائیت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اور نہ ہی رعائت دے کر کسی قسم کا خطرہ مول لینا چاہتی ہے۔ اگر آپ نے ۹۱۱ کال کیا، پولیس آگئی ہے توو ہ اپنی کارروائی پوری کرے گی۔
حقوق کی بات نکلی ہے تو میرے دفتر کے کچھ ساتھیوں کا بھی قصہ ہو جائے۔
ایک دن صبح جب ہم لوگ آفس پہنچے تو پارکنگ لاٹ میں برف کی ایک موٹی سی تہہ جمع ہوئی تھی اور کار پارکنگ کی لائنیں دکھائی نہیں دے رہی تھیں، چنانچہ لوگوں نے اپنی گاڑیاں اندازے سے پارک کر دیں۔ لنچ کے وقفے میں کچھ لوگ باہرنکلے تو دیکھا گاڑی پر غلط پارکنگ کا ٹکٹ لگے ہوئے تھے۔ زمین پر پڑی برف پگھل چکی تھی، پارکنگ کی لائینیں عیاں تھیں اور گاڑیاں ان لائینوں کے اوہر چڑھی ہوئی تھیں۔

 دوتین لوگ تو خود کو ملامت کرتے ہوئے خاموش ہو گئے ، جب کہ ایک صاحب نے پارکنگ لاٹ کے متعلق ہر جانے کا دعویٰ کر دیا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ چونکہ برف صاف کرنا پارکنگ لاٹ کی ذمہ داری تھی، انہوں نے برف صاف نہیں کی، اسلئے یہ سارا مسئلہ کھڑا ہوا۔ اگر برف صاف ہوتی تو ہم معمول کے مطابق بالکل صحیح گاڑی پارک کرتے۔وہ ایک قانون کا احترام کرنے والا شخص ہے، اس کو نہ صرف جرمانہ ادا کرنا پڑا بلکہ عزت ِنفس بھی مجروح ہوئی ہے اور اسے ایک لمبی ذ ہنی اذیت سے گزرنا پڑا ہے ۔

ہمارا خیال تھا کہ یہ ایک فضول منطق ہے، ہو سکتا ہے موصوف کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ حضرت مقدمہ جیت گئے اور ان کی عزتِ نفس کی بحالی کے لئے عدالت نے ان کو اچھا خاصا ہرجانہ دلوایا ہے۔
ساحل ایک۱۸ سالہ نوجوان تھا۔ وہ ڈرنک اینڈ ڈرائیوکے کیس میں کونسلنگ کے لئے آیا تھا ۔ شراب پی کر گاڑی چلانے کے الزام میں ا سکا لائسنس معطل کیاجا چکا تھا۔
اس کا کہنا تھا کہ جب نوجوان دوستوں میں بیٹھتے ہیں تو کچھ نہ کچھ پینے پلانے کا دور چل ہی جاتا ہے۔ یہ ایک عام سماجی عمل ہے۔ کبھی کبھار کوئی نئے قسم کا نشہ بھی ٹرائی کرنے کا موقع لگ جاتا ہے۔ہم نوجوان لوگ ہیں، ہمارے اعصاب زیادہ مضبوط ہیں، قانون کو ہمارے لئے اتنا سخت نہیں ہونا چاہئے۔
ساحل کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سیتھا۔ اسے نشہ آور چیزوں کی خریداری میں زیادہ مسئلہ نہیں تھا لیکن اسکے دیگر دوست اتنے امیر نہیں تھے۔
وہ نشہ کے لئے یا تو اپنے دوستوں پر انحصار کرتے تھے یا غیر قانونی طریقے سے رقم حاصل کرتے تھے۔ ساحل کا کہنا تھا کہ یہ ان کا فعل ہے وہ اس میں شریک نہیں تھا۔ اس کے کچھ دوستوں میں شراب اور نشہ استعمال کرنے والے نوجوانوں کی عمر فقط سولہ یا سترہ سال ہے۔ وہ اپنے گھر والوں کی لا علمی میں یہ سب کام کرتے ہیں۔
میں اس بات کوسن کر بہت حیران ہوا کہ نہ صرف نوجوانو ں بلکہ سکول کے بچوں میں بھی نشہ آورا شیاء کا استعمال خطرناک رفتار سے بڑھ رہا ہے۔
ایک سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ:
 گریڈ ۷ سے گریڈ۱۲ کے ۲ء۶۲ فیصد طالب علموں نے سال گزشتہ میں الکوحل کا استعمال کیا۔ ان طلباء میں سے ۵ء۱۸ فیصد طلباء نے ہر ہفتہ یا اس اکژاوقات الکوحل کا استعمال کیا ہے۔
 ان میں سے ۴ء۳۹ طلباء نے ایک دفعہ سے زیادہ ایک ہی نشست میں ۵ یا ا س سے زیادہ ڈرنک لئے۔
یہ ایک ہلکی سی جھلک تھی سکول جانے والے بچوں کی۔
اس وقت ہم گریڈ ۱۲ سے فارغ ہو جانے والوں کی بات نہیں کر رہے، ہم بات کر رہے ہیں گریڈ ۷ سے گریڈ ۱۲ تک کے بچوں کی، جن کی عمریں فقط ۱۲ سال سے ۱۷ سال کے درمیان ہیں۔
۴۵۰ گھنٹے کی عملی تربیت کا زمانہ بہت تیزی سے گزر گیا۔ میں خوش تھا کہ اگلے ہفتے سے کلاسز دوبارہ شروع ہوجائیں گی۔ میں اپنے دوستوں کو بہت مس کر رہا تھا، گو کہ ان سب سے میرا ای میل پر مستقل رابطہ تھا

Chapters / Baab of Baatein Canada Ki (aik Pakistani Immigrant Ke Zabani) By Farrukh Saleem