Episode 4 - Badaltay Rishtay By Muhammad Tabish

قسط نمبر 4 - بدلتے رشتے - محمد تابش

 نگینہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ ارشد سے بات کرئے نگینہ کا بھرم بھی رہ جائے اور بات ارشد تک بھی پہنچ جائے یہ کام تھوڑا مشکل ضرور مگر نا ممکن نہیں تھا نگینہ کو ارشد سے عشق ہو چکا تھا اور وہ اپنی زبان سے اظہار نہیں کر سکتی تھی کیوں کہ اللہ نے عورت کو شرم و حیا کا مجسمہ بنا کر دھرتی پر بھیجا ہے عورت میں اللہ پاک نے بہت سے خوبیوں سے نوازا اور اس میں ایک خوبی یہ بھی ہے مگر ہمارا معاشرہ عورت کو بہت سے کام بھی کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اب نگینہ ارشد سے بات بھی کرنا چاھتی تھی ارشد مجھے آپسے ایک بات کرنی ہے گاڑی میں بیٹھی نگینہ نے ارشد سے بات کرنا شروع کی وہ رات ماما بابا آئے تھے اور میری شادی کی بات کر رہے تھے آ پ کیا تحفہ دیں گئے مجھے میری شادی پر ارشد بھی بات سمجھ رہا تھا کہ نگینہ کیا کہنا چاھتی ہے ارشد کو شرارت سوجھی ہاں میں تمھیں اچھا سہ تحفہ دوں گا اپنی شادی کا کارڈ مجھے لازمی پہنچا دیناارشد میں کیا کہنا چاھتی ہوں اور آپ مذاق کر رئے ہیں ارے بابا میں امی سے بات کر لی ہے کل تم میرے ساتھ میرے گھر چلنا پھر میں رشتہ لینے اپنی والدہ کو بھیج دوں گا اچھا ٹھیک ہے تم کل آفس سے چھٹی کے بعد میرے ساتھ چلنا اور گھر پر بتا دینا کہ میٹنگ میں جانا ہے دیر ہو جائے گی ارشد آپ سچ کہہ رہے ہیں نہ نگینہ سوالیہ نظروں سے ارشد کی طرف دیکھا اور مسکرا دی نگینہ اب مزید خوش ہو گئی تھی کیوں کہ جیسا وہ چاہتی تھی ویسا اب اسے ملنے جا رہا تھا نگینہ مکمل طور پر بدل گئی تھی مگر شرافت اور شرم و حیا پہلے کی طرح ہی تھی نگینہ نے گھر جا کر میٹنگ کا بتایا او اگلے دن بلیک جینز اور یلو کلر کی شرٹ پہن کر ارشد کے ساتھ چل دی نگینہ آج اپنی ساس سے ملنے والی تھی اور پریشان بھی تھی کہ نا جانے اسکی ساس کیسی ہوگی ادھر ارشد اپنی والدہ کو ساری حقیقت بیان کر چکا تھا اور امی کوراضی بھی کر چکا تھا ۔

(جاری ہے)


نگینہ کو وہ وقت یاد آ رہا تھا جب وہ کالج کی فیس بھرنے کے لیے اپنی دوستوں سے ادھار مانگتی تھی اور آج نگینہ دوسری کی ہر طرح کی مد د بھی کر رہی تھی نگینہ بے سہارا لوگوں کو سہا رہ دینا چاھتی تھی اور ایک ٹرسٹ بنانا بھی اسکا خواب تھا مگر اس خواب تک پہنچنے کے لیے اسے مزید تگو دو کی ضرورت تھی ارشد سے نگینہ کو اچھا خاصہ پیسہ مل چکا تھا اور سیونگ بھی کر چکی تھی مگر نگینہ میں ایک لمحہ بھی غرور نہ آیا نگینہ محبت کو عبادت کا درجہ دے چکی تھی اور وہ ایسی ہی محبت کی قائل تھی جس میں محرم صرف اسے پہلی رات ہی چھو سکے انسان وہی کچھ حاصل بھی کرتا ہے جس کا وہ گمان کرتا ہے اور نگینہ کا بھی یہی گمان تھا جو نگینہ کو مل رہا تھاانسان کی زندگی میں اکثر ایسے حالات آ جاتے ہیں جس کا انہیں وہم و گمان بھی نہیں ہوتا مگر کامیاب وہی ہوتا ہے جو ان امتحانات کو برداشت کرے اور عبور کر لے نگینہ کو اپنی ساس سے ملنے کی خوشی کے ساتھ ساتھ ڈر بھی لگ رہا تھا ارے یار ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ میری والدہ ہیں یہ کہہ کر ارشد نے نگینہ کو رلیکس کیا اور آفس سے نکل پڑے ارشد آؤ کہیں گھومنے چلیں پہلی بار ارشد کو نگینہ نے خود کہا تھا ارشد یہ سن کر بہت ذیادہ خوش ہوا اور دونوں گاڑی پہ بیٹھ کر لانگ ڈرائیو پہ چلے گئے ارشد نے گاڑی چلاتے ہوئے نگینہ کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی نہیں ۔
ارشد ابھی ایسا ویسا کچھ مت کریں میں آپکو محرم بننے کے بعد آپکے حوالے کر دوں گی مگر ابھی یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ ارشد کو وقتی طور پر غصہ ضرور آیا مگر بعد میں ٹھیک ہو گیا۔ اب دونوں پارک میں جا بیٹھے اور کافی پینے لگے ۔نگینہ نے جب اپنی گھڑی دیکھی تو رات کے 8 نج چکے تھے۔ دیکھیں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا چلیں اٹھیں اب چلتے ہیں نگینہ نے پریشان ہوتے ہوئے ارشد سے کہا ۔
۔اچھا باباچلو ماما بھی انتظار کر رہی ہوں گئی، نگینہ نے آج ارشد سے بہت ساری باتیں کی اور دل کھول دیا اور سب کچھ ارشد کو بتا دیا مرد کو جب لڑکی کی حقیقت کاپتہ لگ جائے تو مرد کے لیے عورت کی عزت کم ہو جاتی ہے کہتے ہیں کہ محبت انسان کو اندھا بہرہ کر دیتی ہے جو نہ بھی بتانے والی باتیں ہوں محبت میں وہ بھی بتا دی کر خود کو قید کر لیا جاتا ہے۔
۔۔مرد کی فطرت ہے کہ مرد اس عورت کے ذیادہ قریب جاتا ہے جس کو وہ حاصل نہ کر پا رہا ہو ارشد کتنا سفر رہ گیا ہے گاڑی میں بیٹھی نگینہ نے ارشد سے پوچھا بس آدھا گھنٹہ مزید تم دیکھ رہی ہو ٹریفک کتنی جام ہے ارشد یہ فٹ پاتھ پہ سونے والے بچوں کا کوئی نہیں ہوتا کیا جو انہیں چھت عطا کر دیں نگینہ جو باہر فٹ پاتھ پہ سوئے ہوئے لوگوں اور بچوں کو دیکھ رہی تھی پریشانی کے عالم میں ارشد سے پوچھ رہی تھی ارے میری جان چھوڑو تم کیا باتیں لے کر بیٹھ گی ہو ہمیں خو د سے غرض ہونی چاہیے لو بس اس سے اگلی گلی میں میرا مطلب ہمارا گھر ہے۔
۔۔۔۔
ارشد نے گاڑی کا رہارن بجایا اور اندر سے چوکیدار نے دروازا کھول دیا ارشد لو گھر آ گیا ہے ۔رشید میڈم کے لیے گاڑی کا دورازہ کھولو ۔رشید بہت ادب سے نگینہ کو سلام کرنے کے بعد دروازہ کھولتا ہے نگینہ جب اپنے پاؤں زمین پر رکھتی ہے اور نظر اٹھا کر ادھر اُدھر کا جائزہ لینے شرورع کرتی ہے ۔نگینہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اتنا شاندار محل اسنے دل میں کہا اور آہستہ آہستہ اندر قدم قدم بڑھانے لگی ایک مین دروازہ جو کہ خاص لکڑی کا بنا ہوا تھا ۔
لب سڑک آس پاس دیکھا تو گھاس پر جھولوں کو دیکھ کر دل خوش ہو گیا اسکے ساتھ ہی پودوں کی کیاری لگی ہوئی تھی جس کی مہک سارے گھر میں پھیلی ہوئی تھی کچھ لمحوں کے لیے نگینہ نے آنکھیں بند کی اور مہک کو محسوس کرنے لگی محل ممل طور پر ٹائلوں والا تھا نگینہ کیا دیکھ رہی ہو یہ سب میری والدہ کی خواہش سے ہوا ہے انہیں پھولوں سے خاص دلچسپی ہے وہ روز خود پودوں کو پانی دیتی ہیں اور یہ ہے ہمارا ملازم رشید اسنے رشید کا تعارف کرواتے ہوئے رشید کی طرف اشارہ کیا یہ ہمارے پاس پچھلے30سال سے ہے اس گھر میں میری والدہ کا بہت خیال رکھتا ہے ۔
رشید ہاتھ باندھے سر کو جھکا کر کھڑا تھا صاحب جی امی کی طبیعت خراب ہے اور وہ دوا بھی نہیں کھا رہی رشید نے ارشد کو اسکی ماں کی طبیعت کے بارے آگاہ کیا تم نے فون کیوں نہیں کیا۔۔ ارشد اب رشید پر غصہ ہو رہا تھا صاحب جی بیگم صاحبہ نے منع کیا تھا چلو جاؤ یہاں سے اب نگینہ نے غور کرنا شروع کر دیا اور اس بات تک پہنچ گئی کہ ارشد کو کسی غریب کا احساس بھی بھی نہ تھا اور رشید کو گھر میں نوکری دینا اسکی مجبوری تھی کیوں کی رشیدارشد کے والد نے اپنی زندگی میں ملازمت دی تھی ارشد اسے نکال بھی نہیں سکتا تھا ۔۔

Chapters / Baab of Badaltay Rishtay By Muhammad Tabish