Episode 5 - Badaltay Rishtay By Muhammad Tabish

قسط نمبر 5 - بدلتے رشتے - محمد تابش

اچھا بات سنو رشید ارشد نے رشید کو جاتے ہوئے روکاجی صاحب میں نے تمھیں کہا تھا کہ ایک ملازمہ کا بندوبست کرو پہلے والی تو بھاگ گئی اپنے یار کے ساتھ جی صاحب میں بات کی ہے میری بیٹی ہے صاحب وہ آگے پڑھنا چاھتی ہے آپ اسے ہی نوکری دے دیں ۔۔رشید اس قدر مجبور تھا کہ اپنی بیٹی کی بھی ملازمت کے لیے مان گیا تھا اور اب وہ جوان بھی ہو چکی تھی اسکی شادی کی بات فکر رشید کو فکر مند ررکھتی تھی ۔
رشید کا ایک ہی بیٹا تھا جس کو نشے کی لت پڑ چکی تھی رشید کی بیوی جو اب بیماری کی حالت میں تھی گھر میں فاقوں کی کیفیت تھی ۔رشید کے بیٹے نے اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے گھ کی قیمتی چیزیں فروخت کر چکا تھااب رشید کے پاس نہ کوئی سرمایہ تھااور نہ ہی کوئی آمد ن کا ذریعہ بس ایک یہی نوکری تھی جو کہ پچھلے30برس سے کر رہا رتھا۔

(جاری ہے)

نہایت مجبور ہو کر اُسنے اپنی بیٹی آمنہ کو آگے پڑھانے کا سوش رہا تھا کیوں کہ آمنہ کو پڑھائی کا بہت شوق تھا او ر آمنہ کے کئی رشتے بھی آئے، مگر ہر رشتہ 40سے لگ بگ لوگوں کا آتا تھا اگر کوئی جوان رشتہ آ بھی جاتا تو وہ انکار کر دیتے اسکے اس بیٹے کی وجہ سے کوئی بھی اس گھر میں شادی کے لیے راضی نہ ہوتا۔

۔۔اچھا تم ایک کام کرنا کل اپنی بیٹی کو آفس ہی لے آنا۔ نگینہ سے ملوا دینا جی صاحب جی ٹھیک ہے صاحب جی کچھ پیسے چاہیے تھے ۔رشید نے ڈرتے ہوئے ارشد سے عاجزانہ انداز میں سوال کیا ۔رشید ابھی پرسوں ہی تو تمیں پیسے دیے تھے اب پھر سے چلو جاؤ اب بعد میں لینا ارشد کا یہ رویہ نگینہ کو حیران کر رہا تھا کیوں کہ ارشد آفس اور باہر تو سب سے ہنس کر اور خوش مزاجی سے بات کرتا تھا مگر گھر کے اور آفس کے نوکروں سے بہت غرورسے بات کرتا تھا ۔

نگینہ نے گھر کے اندر قدم رکھا اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی آ ج سے پہلے اتنا شاندار محل نما گھر آج تک نہیں دیکھا تھانگینہ کی دائیں سائیڈ پہ سیڑھیاں تھی جو اوپر والے پورشن تک جاتی تھی سامنے قیمتی صوفے اور TVلاونچ میں ایک بڑی LCDلگی تھی اس گھر میں 8سے10 اور اوپر والے پورشن میں 8کمرے تھے یہ گھر تقریبا50مرلے کا ہوگا جس کی ڈیکوریشن شاہد اُسنے خواب میں بھی نہ دیکھی ہوں ہر کمرے میںACاور ٹائلز لگی ہو ئی تھی۔
 تم ادھر بیٹھو میں اپنی والدہ کو بتا کر آتا ہوں ارشد نے نگینہ کو صوفہ پر بیٹھنے کا بولا اور خود کمرے میں چلا گیا کچھ دیر بعد آیا او ر نگینہ کو امی سے ملوایا ۔۔ماما یہ نگینہ ہیں جن کا میں نے ذکر کیا تھا ارشد کی والدہ نے ا یک نظر اسے دیکھا اور کچھ بولے بغیر آنکھیں بند کر لیں۔۔ نگینہ کومحسوس ہوا جیسے اسکی ماں راضی نہیں ۔۔ارشد کی ماں ارشد سے ذیادہ مغرور عورت تھی مگر ارشد بھی اسکا بیٹا تھا جو اپنا بزنس دیکھ رہا تھا اور والدہ سے بات تک نہ کرتا تھا ۔
اسکی والدہ اکیلی گھر میں رہ کر بیمار ہو چکی تھی مگر ارشد کو اپنے کام سے مطلب تھا اسی وجہ سے اسکی والدہ اسے سمجھاتی تھی مگر اب وہ بھی مجبور ہو گئی تھی ارشد کی ہر بات ماننا اسکی ماں کی مجبوری تھی ۔ارشد اپنی مرضی کا مالک تھا ۔
زبیدہ بیگم(ارشد کی ماں)نیم بے ہوشی کی حالت میں تھی ،ہیلو ڈاکٹر فراز میں ارشد بات کر رہا ہوں گھر تشریف لائیں والدہ کی طبیعت خراب ہے ارشد اب کسی ڈاکٹر کو کال کر رہا تھا نگینہ تم امی کے پاس بیٹھومیں ڈاکٹر صاحب کو لے کر آتا ہوں۔
نگینہ کو اب پریشانی لاحق ہو گئی کہ وقت بہت ہو گیا ہے امی ابو انتظار میں ہوں گے اور رات کے دس بج گے تھے تم اتنے فریش ہو ،جاؤ نگینہ نے اثبات میں سر ہلا یا اور ارشد باہر چلا گیا ۔۔ڈاکٹر 10 منٹ میں آگیا تھا۔ نگینہ تم ساتھ والے کمرے میں چلی جاؤارشد نے اشارے میں نگینہ سے بات کی اور نگینہ ساتھ والے کمرے میں چلی گئی دوسرے کمرے میں بھی اے سی آن تھا ۔
وہ جا کر بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔وہ وہاں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ اللہ پاک نے کس قدر کیرنگ خاوند دیا ہے ۔۔
ڈاکٹر جا چکا تھا نگینہ شیشے کے سامنے ڈوپٹہ اتارے اپنے بال سیٹ کر رہی تھی۔۔ نگینہ کے جسم سے نکلنے والی مہک پورے کمرے میں پھیل چکی تھی مگر اُسے احساس نہ ہو رہا تھا وہ گنگاتی ہوئی اپنے بال سنوار رہی تھی کہ ارشد نگینہ کی پیچھے سے کمر کی جانب سے بغل گیر ہو گیا ۔
۔۔ارشد یہ کیا کر رہے ہیں پلیز چھوڑیں کوئی آ جائے گا۔۔ نہیں میری جان امی سو چکی ہیں اور گھر پر کوئی بھی نہیں ہے یہ وہی کمرہ تھا جدھر ارشد نے پہلی لڑکی کے ساتھ ایسا ہی سب کیا تھا ۔۔ارشد نے نگینہ کو اس طرح سے پکڑ رکھا تھا ۔نگینہ کو اسکا پکڑنا بھی پاگل بنا رہا تھا۔ارشد پلیز مت کریں یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔۔ ارشد جو، اب نگینہ کے سامنے آ چکا تھا اسکا چہرہ تھام کر نگینہ کو مکمل مدہوش کر چکا تھا۔
۔ اب نگینہ نے نے بھی خود کو آزاد کروانے کی کوشش چھوڑ دی تھی۔ نگینہ مکمل طور پر اپنے ہوش کھو بیٹھی اور ارشد کے رنگ میں خود کورنگوالیا تھا۔نگینہ غصہ میں لال پیلی ہو رہی تھی ۔ارشد آپ نے اچھا نہیں کیا نگینہ کے آنکھوں سے مسلسل آنسوں جاری تھے کہ ارشد نے نگینہ کو بہت پیارے انداز میں معذرت کی اور کہا کہ تم میری عز ت تھی اور اب بھی ہو ارشد ہم نے بہت بڑی غلطی کر دی ہے ۔
نگینہ جو اب قرب کی حالت سے گزر رہی تھی کہ اسکا لہجہ تھوڑا سخت تھا مگر اب کیا ہو سکتا تھا جو ہونا تھا ہو چکا تھا،چلو میں تمھیں چھوڑ آتا ہوں تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے کپڑے پہن لو نگینہ کچھ بولے بغیر تیا رہو چکی تھی اور گھر پہنچ کرخود کو کوستی رہی۔۔ نگینہ کو کپکی رات سے لگی ہوئی تھی وہ ٹھیک طریقہ سے سو بھی نا پائی تھی ۔نگینہ نے اپنا موبائل بند کر رکھا تھا۔
۔ ارے بیٹا تمھیں تو بہت سخت بخار ہے کتنا جسم تپ رہا ہے نگینہ کو چپ لگی ہوئی تھی دوا لینے کے بعد نگینہ کی طبیعت کچھ بہتر تھی ۔۔موبائل آن کرنے پر 50 کے لگ بگ میسجز نگینہ کو موصول ہوئے جس پر تحریر تھا کہ میں اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہوں مجھے معاف کر دینا میں اب بھی تمھیں چاہتا ہوں،کل میں تمھارے گھر امی کو لے کر پہنچ رہا ہوں اپنے والدین کو بتا دینا۔
۔ اس بات پر نگینہ کو کافی حد تک سکون ملا اور 2دن آفس نہ گئی۔ درازے کی بیل بجنے پر نگینہ نے دروازہ کھولا ارشد اور اسکی ماں کو اپنی آنکھوں کے سامنے پا کر ڈوپٹے کو سیٹ کیا۔۔
 اسلام علیکم کہہ کر راستے سے ہٹ گئی۔ نگینہ پہلے ہی اپنے والدین کو بتا چکی تھی۔ آؤ بیٹا نگینہ کی والدہ نے بہت احترام سے ارشد کا استقبال کیا او ر روم میں بیٹھا لیا۔
زبیدہ بیگم اب کمرے کا بغور جائزہ لے رہی تھی۔ بیٹا کیا کھائیں گے آپ نگینہ کی والدہ نے آنے والے مہمانوں سے پوچھا۔ کچھ نہیں امی کھانے پینے نہیں آئے زبیدہ نے ارشد کے منہ سے امی کا نام سنا تو ارشد کی طرف گھورنے لگی ۔ارشد نے ساتھ ہی بات کو بدل دیا۔۔ آؤ بیٹا بیٹھو نگینہ کی والدہ نے دروازہ کھلنے پر نگینہ کو اندر آنے کو کہا۔۔ نگینہ کے ہاتھ میں چائے کی ٹرے تھی۔ نگینہ نے ٹرے ٹیبل پہ رکھتے ہوئے نظریں چراتے ہوئے ناراضگی کے انداز میں ارشد کو دیکھا۔ بھرم زدہ چہرہ بنا کر ارشد کے عین سامنے جا بیٹھی۔

Chapters / Baab of Badaltay Rishtay By Muhammad Tabish