Episode 3 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 3 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

آمریت کی بدروح
نکولو میکادلی نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ”پرنس“ میں لکھا کہ حکمران کا کوئی نظریہ یا عقیدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو محض حکمرانی سے غرض ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک مذہب کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی عوام کی کوئی وقعت۔ اسی لیے اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لیے کوئی بھی قانون بنایا جا سکتا ہے اور اس کو ضرورت پڑنے پر کسی بھی نظریے یا عقیدے کا نقاب پہناکر نافذ کر دیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک پر مسلط ہوئے آمر انہی سفاکانہ اصولوں کی منہ بولتی تصویر ثابت ہوئے۔ ہمارے ملک میں آزادی کے بعد سے آج تک تقریباً نصف عرصہ سے زائد وقت آمروں نے حکمرانی کی۔ عوام اور عوامی نمائندوں کو قابو کرنے کے لیے ملک کے متفقہ آئین میں اتنی ترامیم ہوئیں کہ اصل آئین اور ترمیم شدہ آئین میں اتنا فرق ہے جتنا ایک شعر اور اس کی تشریح میں ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

ملک میں انتخابات کی آمد آمد ہے اور آئین کے مطابق ہی جمہوری عمل جاری رہے گا مگر کینیڈا سے آئے قادری صاحب نے آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کی اہمیت اس قدر تواتر کیساتھ بیان کی کہ اکثر تو اس پر ایمان لے آئے۔ قادری صاحب کی ”نیت“ کے بارے میں سپریم کورٹ ان کی دائر کردہ اپیل کو مسترد کر کے پہلے ہی سند جاری کر چکی ہے اس لیے اس پر مزید روشنی ڈالنا بے سود ہے۔

ہر خاص و عام پاکستانی کو معلوم ہونا چاہیے کہ آئین وہ دستاویز ہے جو پاکستان کے عوام کی امنگوں اور خواہشات کی ترجمانی کرتا ہے۔ا سی کی روشنی میں پاکستان میں مروجہ تمام ریاستی قوانین، ضابطے اور اصول بنائے اور چلائے جاتے ہیں۔ اسی دستاویز کی زبان قانونی اور تکنیکی ہے، اس وجہ سے عام پاکستانی کے لیے ناقبل فہم ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس دستاویز پر ہمارے آمر حکمران اور ان آمروں کے زیر اثر جمہوری نمائندے جو شب خون مارتے رہے ہیں وہ عام آدمی سے ہمیشہ مخفی ہی رہا۔
وطن عزیز میں قانون توڑنے والا مجرم جبکہ اپنی منشاء کے مطابق قانون بدل دینے والے کو فوجی آمر کہا جاتا ہے۔
2 مارچ 1985ء کو جاری کردہ صدارتی حکم نامے نے 1973ء کے آئین کی شکل ہی مسخ کر دی اور پھر نومبر 1985ء میں جونیجو صاحب کی پارلیمنٹ سے اسے منظور کروا کر مستقل آئین کا حصہ بنا دیا۔ خاص طور پر پارلیمنٹ کی اہلیت سے متعلقہ آرٹیکل کو کچھ اس طرح تبدیل کر دیا کہ وہ عوامی نمائندوں کی گردن پر تلوار بن کر لٹکنے لگا۔
اور یہ تلوار آمر حکمران کے ہاتھ میں تھما دی گئی۔ غور کرنے کی بات ہے کہ یہ آئینی ترامیم عوامی نمائندوں کی تخلیق کردہ نہیں تھیں بلکہ ضیاء الحق مرحوم اس کے موجد تھے۔ بہر حال جونیجو صاحب کی پارلیمنٹ نے ربڑ سٹیمپ کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کو آئین کا حصہ بنا دیا۔ یعنی یہ 1985ء کی تمام آئینی ترامیم حقیقتاً ایک آمر کے ذہن کی اختراع تھیں نہ کہ پاکستانی عوام کی خواہشات پر مبنی تھیں۔
مزید یہ کہ کیا 1985ء کی اسمبلی کو خالصتاً عوامی مینڈیٹ حاصل تھا؟ اور کیا ان نمائندگان کے اسمبلی میں آنے میں اس وقت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ”فن کاری“ بھی شامل تھی؟ اصغر خان کیس میں اعلیٰ عدلیہ کا حالیہ فیصلہ 1990ء کے انتخابات میں کی گئی چند فوجی افسران کی مداخلت کی توثیق کرتا ہے۔ حالانکہ 1990ء میں 1985ء کی طرح کوئی باوردی ڈکٹیٹر ملک عزیز پر مسلط نہ تھا۔
بہرحال جہاں ضیاء الحق جیسا آمر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سیاسی منظر نامے پر چھایا ہو تو ان کے زیر سایہ انتخابات اور اس کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کس قدر عوامی نمائندہ ہو گی؟ یہ آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔
اس فوجی آمر نے عوام کے مذہبی احساسات کو جانچتے ہوئے بڑی ذہانت سے 62 اور 63 نامی ترامیم کو یوں مذہبی لبادہ پہنایا کہ گویا وہ دین کی خدمت کر رہا تھا مگر درحقیقت وہ قانون سازی (62(d,e,f,g) کے ذریعے ایسا معیار مقرر کرنا چاہتا تھا جو قطعاً واضح نہ ہو۔
اور اس مبہم قانون کو اپنی پسند کے مطابق کسی کے بھی خلاف استعمال کر سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 63(g) میں بڑی ہوشیاری کے ساتھ عدلیہ اور فوج کے تقدس کو ایک ہی پائیدان پر لا کھڑا کیا، اس طرح فوجی آمر نے اپنی اور اس وقت کی عدلیہ کی کار گزاریوں پر ہمیشہ کے لیے عوام اور ان کے نمائندوں کی جانب سے کی جانے والی ممکنہ تنقید کو خاموش کرا دیا۔ آج کے عوام کے لیے یہ بات سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ مروجہ آئین و قانون کی اصلاح کے لیے آئین کی شقوں سے اختلاف رائے رکھنا اور اس کا اظہار کرنا ان کا بنیادی حق ہونے کے ساتھ ساتھ آئین و قانون کے ارتقائی عمل کا لازمی جزو بھی ہے۔
اسی طرح جنرل ضیاء الحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جنرل (ر) پرویز مشرف نے 2003ء میں اپنی زیر اثر پارلیمنٹ سے اپنی خود ساختہ شقوں کو سترہویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنا دیا۔ نتیجتاً پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے لیے گریجویٹ ہونے کی شرط جیسی بے شمار تبدیلیاں آئین کا حصہ بن گئیں۔ اس بار پھر آمر کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا کہ اس سے گریجویٹ اسمبلی کے ذریعے پاکستان کے قانون سازوں کا علمی معیار بلند کرنا مقصود ہے۔
درحقیقت اس کا مقصد اسمبلی کو چند مخالفین کی دسترس سے باہر کرنا اور پاکستانی عوام جن کی اکثریت ناخواندہ ہے، انہیں اپنے حقیقی نمائندوں سے محروم کرنا تھا۔ خود ہی سوچئے کہ 2002ء میں پاکستان کی شرح خواندگی تقریباً 50 فیصد یعنی کہ آدھی عوام ناخواندہ تھی مگر ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے صرف گریجویٹ نمائندے ہی منتخب کر سکتے ہیں۔
ان آمروں نے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا رکن ہونے کی اہلیت کے بارے میں تواتر سے جو ترامیم کیں انہوں نے ”الیکشن“ کو محض ”سلیکشن“ بنا کر رکھ دیا۔
اگر قوانین اور ضابطوں نے سیاسی امیدواروں کی چھانٹی کرنی ہے تو پھر ووٹ کس مرض کی دوا ہے؟ اس طرح کی مصنوعی قانونی شرائط عوامی رائے اور قانون سازی کے ادارے یعنی پارلیمنٹ کے درمیان دیوار بن جاتی ہیں۔ نتیجتاً عوامی نمائندوں اور عوام کے درمیان ایسا خلاء اور تضاد جنم لیتا ہے جو معاشرے میں منافقت کی بنیاد بنتا ہے۔ ہم بنیادی طور پر مذہبی قوم ہیں۔
88ء سے 97ء تک اور 2008ء سے 2013ء تک جمہوری پارلیمنٹ 62 اور 63 میں ترمیم کرنے کی کوشش محض اس وجہ سے نہیں کر سکیں کیونکہ اول تو وہ جمہوری طور پر مضبوط نہیں تھیں اور دوئم یہ کہ ان میں سے کوئی بھی پارلیمنٹ ہماری مذہبی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو شجر ممنوعہ تصور کرتی تھیں۔ اسی طرح 63(g) میں فوج اور عدلیہ کے تقدس سے متعلق آرٹیکلز موجود ہونے کی وجہ سے ایک کمزور پارلیمنٹ انتخابی امیدوار کی اہلیت سے متعلق آئینی ترمیم میں ردو بدل کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔
نتیجتاً آج کے انتخابی منظرنامے میں 62 اور 63 کے سائے تلے ”عوام کے ملازمین“ (جو شاید خود اس مطلوبہ معیار پر پورے نہیں اترتے) کے سامنے اہلیت سے متعلق انٹرویو میں ”عوامی نمائندے“ اپنی تضحیک کراتے دکھائی دیتے ہیں۔ دراصل ہمارے عوامی نمائندے اپنی بزدلی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ نا جانے یہ لوگ ٹیپو سلطان کا وہ قول کیوں بھول چکے ہیں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔
اس کے علاوہ مذہبی سکالرز بھی اپنی ڈھائی اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھے رہے۔ اور جمہوری حکومت کی اس شدومد کے ساتھ رہنمائی نہیں کہ جیسا کہ ان کا فرض تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آج کے تناظر میں ایک ڈکٹیٹر (پرویز مشرف) کے بنائے گئے غیر منطقی اور غیر مساوی گریجویٹ ہونے کے قانون کی پاسداری نہ کرنے کے جرم میں عوامی نمائندے آج ایک اور آمر (ضیاء الحق) کے بنائے گئے قانون یعنی ترمیم شدہ آرٹیکل 62 اور 63 کی زد میں آ کر نااہلی کا سامنا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ آمریت کے عفریت اور نظریہ ضرورت کو بقول سپریم کورٹ ہم دفن تو کر چکے ہیں مگر نا جانے کب ہم آمریت کی اس بدروح سے پیچھا چھڑوا پائیں گے؟

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider