Episode 7 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 7 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

باقی کیا رہ جاتا ہے؟
میں اس دس بارہ سال کے دبلے پتلے بچے کا سوال سن کر سوچ میں گم ہو گیا۔ اس کا ہنستا دمکتا معصوم چہرہ شرارت سے بھرپور آنکھوں میں چھپی سوال کرتی آس کو اب تک نہیں بھول پایا۔ یہ واقعہ میرے عزیز دوست کے اکلوتے بیٹے کی بارہویں سالگرہ پر پیش آیا۔ نا جانے ہنسی مزاح سے بھرپور اور خوشگوار محفل کے اختتامی لمحات میں اس بچے کے ذہن میں یہ سوال کہاں سے سرائیت کر گیا اور اس نے انتہائی معصومیت سے انتہائی سنجیدہ سوال کر ڈالا، ”انکل! پاکستان کا سربراہ بننے کے لیے مجھے کون سی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے؟ میرے نزدیک بچوں کے سوالات کو غیر سنجیدگی سے لینا ظلم ہے۔
یہ بچہ جس کا نام جاوید ہے میرے عزیز دوست جو ایک قومی اخبار میں رپورٹر ہے اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے ان کا واحدچشم و چراغ ہے۔

(جاری ہے)

بہت لاڈلا مگر ذہین بچہ جو اکثر انتہائی مشکل سوالات بہت معصومیت سے کر ڈالتا ہے۔ اس بچے کی سادگی پر شک نہیں کیونکہ وہ ابھی یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ سربراہ سے مراد وزیراعظم ہے یا صدر یا پھر دونوں؟ یا پھر اول الذکر افراد کو گرفتار کر کے جو حکومت پر قابض ہو وہ۔

بہر حال سوال ہوا‘ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد جب میں نے روایتی قسم کی نصیحتیں کرنا شروع کر دیں تو اس بچے نے موجودہ حالات کے تناظر میں کسی واضح مثال کا تقاضا کر ڈالا جس کا جواب کم از کم میرے پاس اس وقت موجود نہ تھا کہ کوئی عام انسان خالصتاً ذاتی جدوجہد کے ذریعے اس ملک کا ”سربراہ“ کیسے بن سکتا ہے؟
ہم اگر موجودہ حالات کے تناظر میں اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیں اور یہ جاننا مقصود ہو کہ پاکستان کی مملکت خداداد کی سربراہی کے لیے کون سے میرٹ کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کے لیے ہمیں بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کا ہی مشاہدہ کرنا پڑے گا۔
کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو کسی نہ کسی صورت اس ملک کے اقتدار پر پہنچ کر ہماری قسمتوں کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اب رہی بات کہ ہمارے حکمرانوں نے ”لیڈر“ کی کرسی تک پہنچنے کے لیے کن راستوں کا انتخاب کیا؟ اور کس قسم کی جدوجہد کے نتیجے میں وہ آج سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ہیں؟ تو جناب جواب عرض ہے کہ ان میں سے اکثر کی پیدائش خوش قسمتی سے ان گھرانوں میں ہوئی جو قیام پاکستان سے ہی سیاست کے کاروبار میں شامل ہیں۔
جو باقی بچے وہ بڑے بڑے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے گھروں میں منہ میں سونے کا چمچ لیے پیدا ہوئے۔ اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کے لیے نا صرف ارب پتی گھرانوں میں پیدا ہونا ضروری ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں اس کا ایک شارٹ کٹ کسی اثرو رسوخ رکھنے والے سیاسی گھرانے میں شادی کرنا بھی ہے۔ کچھ اور مثالیں بھی موجود ہیں کہ جیسے آپ کسی بین الاقوامی مالیاتی ادارے میں کسی اچھی پوسٹ پر پہنچ جائیں اور کسی ڈکٹیٹر کی بنائی گئی ربڑ سٹیمپ ٹائپ حکومت کے سربرارہ بن جائیں یا پھر اتنے طاقتور ہو جائیں کہ ایک دن ملک کے منتخب وزیراعظم کو پھانسی لگوا دیں یا جلا وطن کر دیں۔
کرکٹ کھیلیں اور خوب شہرت کمائیں اور بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ بن جائیں۔ کسی بڑے عالم دین کے گھر پیدا ہونا یا کسی آستانے کا گدی نشین ہونا بھی ایک طرح کا بڑا میرٹ ہے۔
دوسری طرف ہم مغرب کی ترقی پر رشک کرتے تو ہیں مگر منافقت کی انتہا یہ کہ دن رات اپنی تنزلی میں انہی ممالک کے کردار کو برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ اگر محض تجزیے کو ہم مغرب میں حکمران بننے کے پیچھے جدوجہد اور میرٹ تک محدود رکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
امریکی صدر باراک حسین اوبامہ نہ تو کسی ارب پتی تاجر کی اولاد ہے نا اس نے رگبی، باسکٹ بال وغیرہ میں کوئی ورلڈ کپ جیتا، نہ ہی اس کے والد نے کسی بااثر سیاسی گھرانے میں شادی کی اور نہ ہی باراک اوبامہ ایک فوجی جرنیل تھا۔ یہ ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا سیاسی ورکر تھا جس کی زندگی کا بیشتر حصہ والد کی شفقت تک سے محروم رہا اور اب امریکا کا صدر ہے۔
اسی طرح ڈیوڈ کیمرون نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہ ایک متوسط خاندان تھا۔ ڈیوڈ کیمرون کا باپ پیدائشی طور پر دونوں ٹانگوں سے معذور تھا مگر پھر بھی آج ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کا وزیراعظم ہے۔
ہمارے ہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی شخصیات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو سب میں محض چند کلیدی خصوصیات ہی ایسی ہیں جس کے بل بوتے پر وہ ”لیڈری“ کے دعویدار ہیں۔
اگر اسے مزید تفصیل سے بیان کیا جائے تو کچھ یوں ہے کہ اگر میاں نواز شریف کی ذات سے ان کی دولت اور ضیاء الحق کی مہربانیوں کو الگ کر کے دیکھیں تو میاں صاحب کی سیاست میں کیا باقی رہ جاتا ہے؟ صدر آصف علی زرداری کی ذات سے ذوالفقار علی بھٹو کی دامادی علیحدہ کر کے دیکھیں تو ان کی سیاست میں کیا باقی رہ جاتا ہے؟ اسفند یار ولی خان سے باچا خان کی وراثت الگ کر کے دیکھیں تو ان کی سیاست میں کیا باقی رہ جاتا ہے؟ مولانا فضل الرحمن سے مولانا مفتی محمود کی فرزندی الگ کر کے دیکھ لیں تو ان کی سیاست میں کیا باقی رہ جاتا ہے؟ عمران خان سے کرکٹ کو الگ کر کے دیکھیں تو ان کی سیاست میں کیا باقی رہ جاتا ہے؟ چوہدری برادران سے چوہدری ظہور الٰہی کی شخصیت کو الگ کر کے دیکھیں تو ان کی سیاست میں کیا باقی رہ جاتا ہے؟ پرویز مشرف سے آئین شکنی کو الگ کر دیا جائے تو ان کی سیاست میں کیا باقی رہ جاتا ہے؟ اسی طرح سید صبغت اللہ راشدی سے پیر پگاڑا کو الگ کر دیا جائے تو ان کی سیاست میں کیا باقی رہ جاتا ہے؟
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں مٹھی بھر لیڈران میں سے کسی ایک کو اپنا رہبر منتخب کرنے پر محدود کر دیا گیا ہے۔
کیا ان چند شخصیات کو اس قوم کی قسمت کا لکھا جان کر اپنے شعور کو گہری نیند سلا دینا چاہیے؟ اور اپنا قیمتی ووٹ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے کسی ایک کے پلڑے میں ڈال دینا چاہیے؟ 19 مارچ 2013 کو ایک قومی اخبار میں شائع ہونے والے کالم ”ان میں سے کوئی نہیں“ کے ذریعے مجھ نا چیز نے حقیقی سیاسی ”تبدیلی“ کے لیے بیلٹ پیپر میں خالی خانہ متعارف کرانے کی تجویز پیش کی۔
یہ وہ واحد ذریعہ تھا جس سے پاکستان کی سیاست میں حقیقی ”تبدیلی“ لانا ممکن تھی۔ دل خون کے آنسو روتا ہے کہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود الیکشن کمیشن نے اس انقلابی تبدیلی کو چند تکنیکی وجوہات کی نذر کر دیا۔ مزید ظلم یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد دانشور حضرات اور چند میڈیا کے لوگوں نے اس کی شدید مخالفت بھی کر ڈالی۔ نتیجتاً اس فرمودہ اور غیر مساوی سیاسی نظام کے کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں پھر سے پھنس کر رہ گئے ہیں۔ بیلٹ پیپر پر خالی خانے کے مخالفین اب اپنی آنے والی نسلوں کو سربراہ مملکت بننے کے لیے کون سا میرٹ بتانا پسند کریں گے؟ یہ جواب اب انہوں نے دینا ہے۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider