Episode 15 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 15 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

کرپٹ کون؟……
ہم کرپشن کا زیادہ تر الزام پٹواری یا کسی پولیس والے پر لگاتے ہیں۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو نچلی سطح پر کرپشن کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ہم آئے روز سیاست دانوں بیوروکریٹس، صحافی حضرات اور ججز کے اثاثے عوام کے سامنے ظاہر کرنے اور ان پر کڑی نگاہ رکھنے کو ہی کرپشن کا سدباب سمجھتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میری ملاقات ایک غیر ملکی معاشی ماہر سے ہوئی جنہوں نے مجھے کرپشن کا ایک حیرت انگیز طریقہ بتا کر میرے چودہ طبق روشن کر دئیے۔
آج کے دور میں آپ کیش کی صورت میں رشوت وصول کریں اور ہنڈی یا حوالے کے ذریعے اس ملک سے باہر بنکوں میں منتقل کر دیں۔ وہاں آپ کے نام کی بجائے ایک کوڈ نمبر ملے گا اور آپ کے دستخط کی بجائے ایک پاس ورڈ ۔ دنیا کی کسی حکومت یا ادارے کو آپ سے متعلق کسی قسم کی تفصیلات فراہم نہیں کی جائیں گے۔

(جاری ہے)

آج کل کرپشن کے بڑی کھلاڑی کالا دھند اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کی بجائے اس طریقہ واردات کے ذریعے محفوظ بینا لیتے ہیں۔

کرپشن کی مد میں دھرے جانیوالے حضرات تو محض نچلے درجے کی بدعنوانیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ بڑے مگرمچھ تو موجودہ پاکستانی نظام احتساب اور یہاں تک کہ پاکستانی میڈیا کی دسترس سے بھی باہر ہیں۔ اس لیے یہ جو اپنے اثاثے ظاہر کرنے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں تو یہ ایک سیاسی شعبدہ بازی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور عوام کو بیوقوف بنانے کا ایک طریقہ ہے۔ ان صاحب کی بات سن کر میں حیران و ششدر رہ گیا۔
11 مئی کے انتخابات کے بعد ملک میں ایک بار پھر جمہوری حکومت کو حکمرانی نصیب ہوئی ہے۔ جہاں اس جمہوری حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہاں سب سے اہم چیز کرپشن کا خاتمہ اور احتساب کا مضبوط عمل اولین ترجیح گردانا جا رہا ہے۔ جب تک ان دو مرضوں کی صحیح تشخیض نہیں کی جاتی تو بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔ ہمیشہ احتساب اپنے سے ہی شروع ہوتا ہے کیونکہ جو معاشرہ احتساب کا عمل اپنی ذات سے شروع کرتا ہے تو وہی ترقی کی طرف گامزن رہتا ہے۔
اس لیے جو اس وقت تخت حکمرانی پر براجمان ہیں وہ پہلے خود اپنا احتساب کریں۔ نئی جمہوری حکومت کا یہ بیان خوش آئند ہے کہ ہم نیب (NAB) کو بہتر کریں گے اور احتساب کا عمل مضبوط کریں گے۔ پہلے ہمیں اس بات کا تعین کرنا ہے کہ قانون شکنی کرپشن ہے یا نہیں؟ اگر قانون شکنی کرپشن کے زمرے میں آتی ہے تو سب سے بڑی قانون شکنی یعنی آئین شکنی کرپشن کیوں نہیں؟
پاکستان کے تمام قوانین پاکستان کے آئین سے جنم لیتے ہیں۔
ان قوانین کو توڑنے والا ہر شخص مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے جو لوگ تمام پاکستانی قوانین کی بنیاد یعنی آئین کو معطل کر کے کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں ان کو مجرم تو دور کی بات ملزم کہتے ہوئے ہمارے سیاستدانوں پر لرزا طاری ہو جاتا ہے۔ کبھی اقتدار کو کھونے کا خوف چھا جاتا ہے اور کبھی سالہا سال سے ہمارے خون میں سرائیت کر جانے والی محکوم ذہنیت آڑے آ جاتی ہے۔
مثال کے طور پر پرویز مشرف کی ضمانت کی درخواست خارج ہونے کے بعد کسی غیبی طاقت نے قانون نافذ کرنے والے افراد کے ہاتھ پاؤں شل کر دئیے۔ کمرئہ عدالت میں موجود پولیس اہلکار کو اعصاب کیوں ساتھ چھوڑ گئے۔ یہ اسی محکوم ذہنیت کے اثرات تھے جو سالہا سال کی محکمومیت نے ہمارے نفسیات پر چھوڑے ہیں۔ ان مطلق العنان حکمرانوں نے عوام کو ذہنی طور پر محکوم بنا دیا۔
اس لیے جب تک احتساب کا شکنجہ ان دراز قد والوں کی گردن تک نہیں پہنچے گا اس وقت تک ہمارے ملک کی بنیادیں مضبوط نہیں ہو سکتیں۔ اور پھر چھوٹے چھوٹے چور لٹیروں کا احتسبات بھی عدل کے تقاضوں پر پورا نہیں اترے گا۔ اس لیے اب حکومت وقت کو فیصلہ کرنا ہو گا انہوں نے ذہنی طور پر محکوم قوم کے گلے سے غلامی کا طوق نکال کر ہمیشہ کے لیے پھینک دینا ہے یا پھر نظریہ ضرورت کو ایک بار پھر سے زندہ کر دینا ہے؟
دوسری طرف چند لوگ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ایو ب اور مشرف کے دور میں بہت ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔
ہماری معیشت مضبوط ہوئی۔ اس لیے فوجی آمر بہتر لوگ تھے۔ تو پھر کیا ہم اس نظریے کے سامنے سر تسلیم خم کر لیں کہ وقتی طور پر کوئی بھی نظریہ مان کر اس کے پیچھے چل پڑیں اور اس کی سیاہ کاریاں مستقبل بعید میں بھگتیں؟ اس نظریہ ضرورت ابن وقت ذہنیت اور محکومیت پسند رویوں نے آج ہمیں کہاں لا کھڑا کیا ہے؟ کیا ہم نے دنیا کی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا؟ کیا آج بھی ہم گھڑے کا مینڈک بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں؟ ہمارے ملک کی 60 سالہ تاریخ میں 32 سال آمروں نے حکمرانی کی ہے۔
اور آج ملک کو اس سنگین نہج پر پہنچانے میں ان آمروں کا کم از کم 50 فیصد ہاتھ ضرور ہے۔ لیکن چند ناقدین ان ڈکٹیٹروں کے دور کو جمہوری دور سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ہر ایک کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حال ہے۔ اسی طرح اختلاف رائے کا حق بھی ہر کسی کو حاصل ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ کسی پر تنقید برائے تنقید نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہر اک کو آزادی ہے۔
کہ وہ اپنی رائے کھل کر اظہار کر سکتا ہے۔ لیکن یہ آزادی بھی صرف جمہوری حکومت دیتی ہے جبکہ یہ حق آمریت سلب کر لیتی ہے۔ آمریت تو لوگوں کے ہونٹ سی دیتی ہے۔
پرویز مشرف پر ”آرٹیکل6“ کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ انتہائی احسن اقدام ہے۔ پر پھر بھی آج کل ایک سوال سب کی زبان پر ہے کہ کیا میاں صاحب آخر میں سابقہ حکومت کی کارستانیوں کا احتساب کریں گے؟ یا ”مفاہمتی پالیسیوں“ پر عمل پیرا ہو کر فوجی آمر اور حواریوں سمیت سب چور لٹیروں کو عام معافی کا اعلان کر دیں گے؟ یہاں ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا میاں صاحب کو مینڈیٹ جو پاکستانی قوم نے دیا ہے وہ مفاہمتی پالیسی کے سامنے جھکنے کے لیے دیا ہے؟ کیا یہ عمل بدنام زمانہ ”این آر او“ کی بدترین شکل نہ ہو گی؟ کیا ایسے اقدام کو ایک بار پھر ہماری اعلیٰ عدلیہ کالعدم قرار دے گی؟
ہمارے حکمرانوں یک نفسیات بھی ان فاتحین جیسی ہو گئی ہے؟ جو دور بستیوں سے آتے، تاخت و تاراج کرتے، مال غنیمت سمیٹتے، بوریاں بھرتے اور اپنے گھوڑوں پر لاد کر واپس لوٹ جاتے۔
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ ہمارے وزیراعظم کا اگر اس ملک کے سب سے بڑے مجرم کو مصلحت کی بنا پر معاف کر دیتے ہیں تو ان لوگوں کا کیا قصور جو چھوٹے چھوٹے جرائم میں کئی سالوں سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں؟ جبکہ دوسری طرف آئین اور قانون سب کو مساوی حقوق دیتا ہے۔ ایک طرف یہ سوال بھی اٹھتا ہے کیا میاں صاحب نے 9سال میں اس لیے جیل کاٹی اور جلا وطن ہوئے تاکہ وہ آمریت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں؟ چودہ سال پہلے میاں صاحب نے آمریت کے سامنے سر نہیں جھکایا تھا۔
اکتوبر 1999ء میں میاں صاحب نے اور اس کی پاداش میں قید و بند سمیت تکالیف کا سامنا کیا۔ نتیجتاً ان کے مرتبہ اور عزت میں بہت اضافہ ہوا اور اسی وجہ سے وہ آج ایک بار پھر پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں۔ دولت اور اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ پرعزت وہ اثاثہ ہے جو دنیا اور آخرت میں انسان کے کام آتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ میاں صاحبان اب تک یہ حقیقت جان چکے ہوں گے۔
اگر اس دفعہ اس آمر کو بچ نکلنے کا راستہ دے دیا جاتا ہے تو کیا یہ جمہوری نظریات اور انصاف کی ہار نہ ہو گی؟ جب تک اس ملک میں کسی آئین شکن کو سزا نہیں دی جاتی تو احتساب کا عمل پروان نہیں چڑھ سکتا۔ اگر میاں صاحب بغاوت کرنے والے کا احتساب نہیں کر سکتے تو میاں صاحب! تاریخ بہت ظالم چیز ہے۔ یہ دفع پھر اپنے آپ کو دہرائے گی۔ اور ملک کو اس مقام پر لے آئے گی جس کا یہ ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider