Episode 16 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 16 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

کوٹہ
پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور دیگر کچھ علاقے قیام پاکستان سے لے کر آج تک پسماندگی کی بھیانک تصویر بنے ہوئے ہیں۔ وہاں نظام تعلیم سے لے کر صحت عامہ اور قانون و انصاف تک ہر نظام میں بہتری آنے کی بجائے بدتری آتی رہی ہے۔ آئین پاکستان جب تشکیل پایا تو ان علاقوں کو فوری طور پر قومی دھارے میں لانے کے لیے مجوزہ کوٹہ سسٹم متعارف کروایا گیا تھا۔
مگر یہ ایک مخصوص مدت کے لیے تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اس دوران ان علاقوں میں تعمیرو ترقی کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ وہاں کے مقامی باشندوں کو باقی ماندہ پاکستانیوں کے مساوی سہولیات میسر آ سکیں۔ مگر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور آج تک پسماندہ علاقہ جات کے لوگ کوٹے کے ہی محتاج ہیں۔
میں کسی طور پر بھی اپنے ان بھائیوں کو اس کوٹے کے تحت بھرتی کا مخالف نہیں ہوں مگر میرے نزدیک یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ کہیں ہم نے کوٹہ سسٹم کے تحت ان علاقوں کے ہنرمند اور تعلیم یافتہ نوجوان کو ذہنی طور پر معذور تو نہیں کر دیا؟ کہ یہ باقی ماندہ پاکستان خصوصاً پنجاب کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کی نسبت کم تعلیمی تربیت ہونے کے باوجود بھی بڑے سرکاری اداروں میں ملازمت حاصل کر لیتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ طریقہ تو ایسے ہی ہے جیسے مریض کو تکلیف کی حالت میں درد کم کرنے کی دوا دی جائے مگر اس درد کی اصل وجہ کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے۔ اس ”کوٹہ سسٹم“ کی شکل میں پسماندہ علاقوں کے پاکستانیوں کو ایک زمانے سے درد کی گولی دی جا رہی ہے نتیجتاً اس کے پیچھے کارفرما خامیاں تاحال درست نہیں ہو سکیں۔ کوٹہ یافتہ افراد سہل پسند ہو گئے ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ ان کا حق یہ کوٹہ نہیں بلکہ باقی ماندہ پاکستان کے نسبتاً ترقی یافتہ علاقوں جیسی تعلیمی اور دیگر سہولیات کا میسر آنا ہے۔
فرض کیجئے کہ اگر کوٹہ سسٹم نہ ہوتا تو بہت سے ہمارے پاکستانی بھائی ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لے پاتے اور نہ ہی سرکاری نوکریاں حاصل کر پاتے۔ اس طرح سے انہیں اپنی محرومیوں کا واضح طور پر احساس ہوتا اور وہ ان محرومیوں کے تدارک اور قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے صدائے احتجاج بلند کرتے۔ نتیجتاً حکومت وقت ان کی محرومیوں کا تدارک کرنے پر مجبور ہو جاتی۔
ایسی صورت میں یہ کوٹہ یافتہ نوجوان بھی اپنے آپ کو کسی دوسرے پاکستانی نوجوان کے ہم پلہ محسوس کرتے اور پاکستان کی ترقی میں بہتر کردار ادا کر سکتے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے کوٹہ یافتہ نوجوان صلاحیت ہونے کے باوجود پہلے تعلیمی اداروں میں اور بعد ازاں سرکاری نوکری کے دوران ایک لا شعوری احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔
ایک لمبے عرصے سے رائج اس نظام کی وجہ سے وہاں کے لوگ شاید خواب غفلت میں چلے گئے ہیں۔
اس میں زیادہ قصور وہاں کے عوامی نمائندوں کا ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دور حکومت کو ہی اگر مثال بنایا جائے تو کوئی ایک قرار داد میری نظر سے نہیں گزری جہاں یہ ذکر ہو کہ ان علاقوں میں محض نظام تعلیم کی درستگی کے لیے ہی اقدامات کر لیے جائیں۔ کوٹہ سسٹم کے مصنوعی حل سے کسی بھی مستقل اور پائیدار حل کی تلاش کرنا یا اس کا گمان بھی کرنا دیوانے کے خواب کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
دوسری طرف اگر سیاسی نظام کو بھی دیکھا جائے تو خواتین کی مخصوص نشستیں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔ غیر امتیازی اقدار کو فروغ دینے کے لیے کی گئی یہ قانون سازی درحقیقت خود ایک امتیازی عمل کی چیخ چیخ کے غمازی کر رہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین ابھی تک اس معیار پر نہیں پہنچ سکیں کہ وہ عام انتخابات میں کثیر تعداد میں کامیاب ہو سکیں۔
ضرورت تو اس امر کی تھی کہ تعلیمی، قانونی اور معاشرتی اصلاحات لا کر خواتین کو زیادہ سے زیادہ مین سٹریم میں لایا جاتا۔ اس کام کے لیے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کا حکومت بھرپور استعمال کر سکتی تھی۔ مگر ہمارے حکمران سیاسی شعبدہ بازیوں اور سستی شہرت کے عادی ہو چکے ہیں۔ خواتین کی مخصوص نسشتیں ان کی اسی غیر مدبرانہ سوچ کی عکاس ہیں۔
مشرف صاحب کا خواتین کی مخصوص نشستوں کا قدم مبینہ طور پر مغرب کے سامنے محض اپنا روشن خیال حکمران ہونے کا تاثر دینے کی کوشش تھی۔ افسوس کہ آمریت کے بعد جمہوری حکومت نے بھی اس روش کو قائم رکھا۔
ہمارے آج کے حکمرانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ خواتین کا اسمبلی تک پہنچنا اور سیاسی عمل کا حصہ بننا ان کا بنیادی حق ہے۔ مخصوص نشستوں کی صورت میں خواتین کو سیاسی بھیک کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔
ہمارے حکمرانوں کو ان عوامل پر غور کرنا چاہیے جس کی وجہ سے خواتین پاکستان کے سیاسی نظام میں نمایاں نہیں ہو پا رہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے تعلیمی اداروں میں رائج نصاب کی تشکیل نو کی اشد ضرورت ہے۔ اور اسی طرح تعلیمی اداروں کا پسماندہ علاقوں میں رائج فرسودہ ثقافتی اقدار کا سدباب بہت اہم ہے۔ حکومت وقت کو آئینی اور قانونی پیچیدگیاں دور کرنے کی ضرورت ہے جو خواتین کی سیاست سمیت دوسرے شعبہ ہائے زندگی کا حصہ بننے میں رکاوٹ ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف نے بھی نوجوانوں کے لیے مخصو ص کوٹے کے تحت پارٹی ٹکٹس دینے کا اعلان کیا۔ خان صاحب کی نیک نیتی پر کوئی شک نہیں مگر نوجوانوں کو ان کی کم عمری اور ناتجربہ کاری کی بنیاد پر مسترد نہ کرنا ہی کافی ہے اور یہ رویہ ان پر کوئی احسان نہیں بلکہ ان کا آئینی و قانونی حق ہے۔ اسی طرح باقی سیاسی جماعتوں کو جنس اور عمر کی بنیاد پر کوٹہ جیسے مصنوعی حربوں کی بجائے غیر امتیازی اقدار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح سابقہ حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صورت میں عوام کو بھکاری بنانے کا جو اقدام کیا وہ قابل افسوس ہے۔ غریب کا حق چند ٹکوں کی بھیک نہیں بلکہ وہ ملکی حالات ہیں جہاں غریب کے پاس روز گار کے بھرپور مواقع ہوں۔ جن سے وہ اپنی عزت نفس مجروح کیے بغیر رزق حلال کما سکے اور اپنی قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر ترقی کی منزلیں طے کر سکے۔
اسی روش کو آج کی حکومت نوجوانوں کے بارے میں اپنا رہی ہے۔ غور طلب بات ہے ایسے ملک میں جہاں چھوٹا اور درمیانہ کاروباری حلقہ حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے بد سے بدتر حالات کا شکار ہوتا جا رہا ہے وہاں ہمارے نوجوان جو کاروباری تجربہ بھی نہیں رکھتے ہوں گے آخر کیسے کامیاب ہوں گے؟ جہاں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے آئے روز کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں، جہاں دہشت گردی اور لاقانونیت کی وجہ سے لوگوں کے چہرے زرد پڑ گئے ہوں، جس ملک کے صاحب ثروت افراد کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ وغیرہ کی شہریت حاصل کر کے جوق در جوق اپنا سرمایہ باہر منتقل کر رہے ہوں۔
اسے ملک میں نوجوانوں کے ہاتھ میں قرض کے پیسے پکڑا دینا ایسے ہی ہے جیسے کسی کو ایسی گاڑی کی چابی تھما دینا جس میں نہ پٹرول ہو اور نہ ٹائر اور پھر گاڑی چلانے کی ذمہ داری اس شخص پر تھوپ دی جائے۔ قرضے ضرور دئیے جائیں مگر اس سے پہلے کاروبار کے لیے موافق فضاء پیدا کرنا ناگزیر ہے۔ حکمرانوں کو اس کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔
ہمارے حکمرانوں کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ مسائل حل کرنے کے لیے لیپ ٹاپ سکیم، منی قرضہ سکیم، کالی پیلی ٹیکسی اور قلیل المیعاد منصوبے کافی نہیں اس سے بڑھ کر ٹھوس اور بروقت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
مثال کے طور پر بنگلہ دیش گورنمنٹ نے صرف ایسے حالات پیدا کیے جہاں ڈاکٹر یونس جیسی شخصیت کو اپنے ملک میں ”گرامین بینک“ بنانے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر یونس نے اپنی حکومت وقت سے کسی گرانٹ یا معاشی مدد کے بغیر ایسا بینک کھڑا کر دیا جس نے معاشرے کے پسے ہوئے غریب طبقے کو چھوٹے چھوٹے قرضے دے کر انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا اور اس طرح ملک کی معاشی کایا ہی پلٹ دی۔
ہمارے ملک میں بھی لاتعداد ڈاکٹر یونس موجود ہیں جو اس ملک کو پلک جھپکتے ہی معاشی طور پر مستحکم بنا دینے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو سیاسی امداد یا مصنوعی کوٹہ سسٹم وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنی قابلیت اور محنت سے کڑے سے کڑے میرٹ پر پورا اترنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ پرشرط یہ ہے کہ ہماری حکومت وقت اپنے اصل فرائض پہچانتے ہوئے اپنی توجہ بغیر تعطل بجلی اور فوری انصاف کی فراہمی، غیر امتیازی اقدار کے فروغ اور امن و امان کی صورتحال کی بحالی پر مرکوز رکھے۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!!

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider