Episode 19 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 19 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

مسکراؤ…!
کہتے ہیں چہرے کھلی کتاب ہوا کرتے ہیں مگر اس کتاب کو پڑھنے والے بھی بہت کم ہیں۔ اگر ہر شخص چہرہ پڑھ سکتا تو زبان اور الفاظ کی وقعت کم ہو جاتی یا شاید ان کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ ہماری فطرت ہے کہ ہمیں مسکراتے ہوئے چہرے اچھے لگتے ہیں۔ مسکرانا ویسے بھی سنت ہے اور صدقہ جاریہ بھی۔ مگر روزمرہ زندگی میں ہمیں مسکراتے ہوئے چہرے کم کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔
خاص کر ہمارے ملک میں موجودہ حالات کچھ اس قدر گھمبیر ہو چلے ہیں کہ مسکراہٹ تو درکنار ہم اپنے چہروں پر خوف دہشت و وحشت لیے اکتائے اکتائے سے پھرتے ہیں۔ کسی بھی وقت کسی بھی انجانی و ناگہانی آفت کے سائلے تلے ہمارے شب و روز کچھ ایسے بسر ہوتے ہیں جیسے جنگل میں کمزور چرند کسی طاقتور سے خوف کھائے گھومتے ہیں۔

(جاری ہے)

پھر یہی وجہ ہے کہ ہماری باڈی لینگوئج اس قدر غیر متوازن ہے کہ مغرب کا کوئی باشندہ اگر ہمیں دیکھ لے تو فوراً یہ گمان کر لے کہ پوری دنیا کا درد فقط اسی ایک شخص کے سینے میں جوالا مکھی کی مثل ابال کھاتا ہوا دہک رہا ہے۔

اگر ہم چہرے کے تاثرات سے کسی شخص کی ذات کے خصائل کا اندازہ لگانا چاہیں تو یہ امر قدرے مشکل ضرور ہے مگر یہ ممکن بھی ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ اثرو رسوخ رکھنے والے افراد میں امریکی صدر باراک حسین اوبامہ سرفہرست ہیں۔ باراک اوبامہ کے چہرے کو غور سے دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح کے تاثرات سے عاری یہ چہرہ ایک انتہائی مضبوط اعصاب کے مالک شخص کا ہے۔
بہت کم لوگوں نے باراک اوبامہ کے چہرے کے تاثرات کو یک دم تبدیل ہوتے دیکھا ہو گا۔ مغرب میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران خاص کر انٹیلی جنس ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے افسران کو چہرے پڑھنے اور باڈی لینگوئج کو سمجھنے کی باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اسی طرح ڈپلومیٹس بھی اس کام میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ رواج کچھ خاص پروان نہیں چڑھ سکا۔
ہمارے سیاستدان جو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں مگر سیاسی ڈپلومیسی کی تربیت سے یکسر عاری ہی نظر آتے ہیں۔ مثلاً کسی بھی سیاستدان یا عوامی شخصیت کے بارے ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی اداروں میں یہ خاص تربیت دی جاتی ہے کہ وہ خطاب کے دوران حاضرین کی جانب انگلی نہ تانیں۔ کیونکہ اس سے حاضرین میں ایک منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے ان ممالک کے لیڈران کو آپ کبھی بھی دوران خطاب حاضرین کی جانب انگلی سے اشارہ کرتے نہیں دیکھیں گے۔
جبکہ دوسری طرف ہمارے لیڈران جوش خطابت میں اپنی ”انگلی“ کو بار بار ہوا میں کچھ اس انداز سے لہراتے ہیں کہ یہ ان کا ”ٹریڈ مارک“ ہی بن جاتا ہے۔
اس طرح کچھ اور آداب بھی ایسے ہیں جو ہر سطح پر ہماری ذات میں ہونے چاہئیں۔ آجکل سکولوں میں کھانے کے آداب کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ مشق نہیں کروائی جاتی۔ ماضی میں اچھے سکولوں میں ایک استاد لنچ بریک میں بچوں کے ساتھ موجود رہتا تھا جو کہ انہیں چھری کانٹے سے کھانے کے آداب سکھایا کرتا تھا۔
اب سکولوں میں محض امتحان اچھے نمبر لے کر پاس کرنے پر توجہ دی جاتی ہے اس کے علاوہ نشت و برخاست کے آداب بھی سکھائے جاتے تھے۔ ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی بچوں کی ”گرومنگ“ پر خاص توجہ دی جاتی ہے تاکہ وہ عملی زندگی میں خود اپنے اور اپنے گردو نواح کے افراد کے لیے موزونیت کا باعث ہوں۔ پر افسوس ہمارے تعلیمی اداروں کا سارا فوکس صرف نصابی سرگرمیوں تک محدود ہو چکا ہے۔
نہ سرکاری سطح پر کوئی ایسا ادارہ ہے نہ کوئی نجی ادارہ، جو بچوں اور نوجوانوں کی نصابی تعلیم سے ہٹ کر جدید بین الاقوامی ریسرچ سے اخذ شدہ ذہنی و جسمانی بہتری کے بارے میں ”گرومنگ“ کر سکے۔
بات اصل میں چہرے کے سب سے اہم فیچر یعنی مسکراہٹ کی ہو رہی تھی۔ کہتے ہیں زندگی ایک آئینے کی طرح ہوتی ہے اور سب سے بہترین عکس اسی صورت میں نظر آتا ہے جب ہم مسکراتے ہیں۔
میرے ایک غیر ملکی دوست نے پہلی بار پاکستان آنے کے بعد مجھ سے ایک سوال کیا کہ ”پاکستانی ایسے کیوں ہیں؟“ میں نے کہا کیسے کیوں ہیں؟ میرے دوست نے فوراً کہا کہ آپ لوگ ہر وقت غصے میں کیوں رہتے ہیں؟ کیا آپ کے کلچر میں مسکرانا معیوب سمجھا جاتا ہے اس نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک تو ہر دوسرا بندہ انتہائی سنجیدہ دکھائی دیتا ہے یا پھر ماتھے پر تیوریاں پڑی ہوتی ہیں۔
اگر کسی کی جانب مسکرا کر دیکھ لیا جائے تو وہ یا کنفیوژ ہو جاتا ہے یا کچھ یوں گھورنا شروع کر دیتا ہے کہ جیسے کوئی انتہائی مشکل سوال پوچھ لیا ہو۔
یہ واقعی ایک افسوسناک بات ہے کہ ہم مسکرانا ہی بھول گئے ہیں۔ ایک خوبصورت مسکراہٹ ہمارے تقریباً تمام عیب چھپا سکتی ہے۔ اس کے باوجود ہم مسکراہٹ سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ عوام تو عوام ہمارے لیڈران بھی مسکراہٹ سے دور دور ہی دکھائی دیتے ہیں۔
میاں نواز شریف کی مثال لے لیجئے۔ انتخابات سے قبل جلسوں میں میاں صاحب خوب مسکرایا کرتے تھے۔ طنز و مزاح بھی ہوتا تھا اور اظہار محبت بھی۔ مگر اقتدار میں آ جانے کے بعد ناجانے میاں صاحب کی مسکراہٹ کو کس کی نظر لگ گئی۔ ایسی کیا پریشانی اچانک آن پڑی کہ میاں صاحب مسکراہٹ کو بھول ہی بیٹھے ہیں۔
دوسری طرف عمران خان صاحب بھی جو اب ہمارے نوجوانوں کے ہر دلعزیز لیڈر بن چکے ہیں۔
وہ بھی مسکراہٹ میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ یہ وہی خان صاحب جن کی ایک مسکراہٹ پر کسی دور میں کئی نوجوان دل نثار ہو جایا کرتے تھے۔ خان صاحب آج بھی اگر مسکراہٹ کے بارے میں فیاضی برتیں تو دلوں کی دھڑکن بے ترتیب کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارے لیڈران کو اپنی باڈی لینگوئج کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ کیونکہ اس کا براہ راست اثر ساری قوم کے رویوں پر پڑتا ہے۔
مسکراہٹ کے معاملے میں بے شک صدر آصف علی زرداری واقعی سب پر بھاری ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق جو خواتین و حضرات بکثرت مسکراتے ہیں وہ اپنی اصلی عمر سے کم دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تحقیق بالخصوص خواتین کے لیے نہایت فائدہ مند ہے۔ جو کم عمر دکھنے کے لیے نا جانے کتنے جتن کرتی رہتی ہیں۔ ایک دوسری تحقیق کے نتیجے میں ثابت ہوا ہے کہ جو لوگ اپنی جوانی کے زیادہ تر حصہ میں جو تاثرات چہرے پر سجا کر رکھتے ہیں۔ عمر ڈھلنے کے ساتھ وہی تاثرات مستقل خدوخال کی صورت میں ان کے چہروں پر نقش ہو جاتے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات کے مطابق جبراً مسکرانے سے بھی انسان میں خوشی کی کیفیت جنم لے لیتی ہے۔ چاہے حالات غیر موافق ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی لیے آج سے مسکرائیے اور ہمیشہ مسکراتے رہیں۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider