Episode 20 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 20 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

”آل انڈیا ریڈیو“
انڈین سرکاری ریڈیو اسٹیشن کا نام ”آکاش وانی“ ہے۔ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کے تقریباً نوے ہزار فوجی بھارتی قید میں چلے گئے۔ ان میں سے بہت سے قیدی ”آکاش وانی“ پر براہ رست روزانہ اپنا، نام رینک اور رجمنٹ بتاتے تو آواز پاکستان کی سرحدوں کے اندر تک سنائی دیتی تھی۔ ایسا کر کے بھارت ہماری بے بسی کا مزہ لیتا تھا۔
یہ الفاظ ہمارے ایک نہایت سینئر صحافی دوست کے ہیں جو سقوط ڈھاکہ کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔ جب میں نے ان محترم صحافی دوست سے سوال کیا کہ آخر کیا وجہ تھی جو ہمیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا؟ کیا اس وقت محض چھ سال پرانا (1965) کا جذبہ ایمانی ختم ہو گیا تھا؟ ہتھیار نہیں تھے؟ کیا گولا بارود ختم ہو گیا تھا؟ آخر ماجرا کیا تھا؟ تو محترم سینئر صحافی نے جواب میں محض یہ کہا کہ مشرقی پاکستان کے عوام ہی اپنی فوج کے خلاف ہو گئے تھے۔

(جاری ہے)

دنیا کی کوئی بھی فوج دوسری فوج سے تو لڑ سکتی ہے مگر اپنے عوام سے نہیں لڑ سکتی۔ اور جب کسی ملک کی فوج اپنے ہی عوام کی حمایت کھو دے تو بیرونی طاقتوں کے لیے آسانی بڑھ جاتی ہے۔ ”مکتی باہنی“ نام کی چنگاری دشمن نے بھڑکائی تھی یا خود ہم نے؟ اس سوال سے قطع نظر اس چنگاری کو ایندھن ضرور دشمن نے مہیا کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی پاکستان کے عوام اغیار کے شانہ بشانہ اپنی فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
پھر سب سے بڑا قصور ہماری روایتی نا اہلیوں کا بھی تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان دو لخت ہو گیا۔
71ء کی جنگ کے دوران مشرقی پاکستان میں تعینات ایک سابق فوجی افسر نے مشرقی پاکستان کے حالات کا نقشہ کچھ یوں کھینچا کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی نفرت اس نہج پر پہنچ چکی تھی کہ کسی بھی سویلین پر بھروسہ کرنا محال ہو گیا تھا۔ بنگالی باورچی سے لے کر جمعدار اور ڈرائیور سے چوکیدار تک کوئی بھی کسی بھی وقت حملہ آور ہو جاتا تھا۔
پاکستانی افواج کے مورچے کہاں کہاں ہیں اور وہ کس قسم کی نقل و حمل کر رہے ہیں۔ یہ تمام معلومات ہندوستانی فوج کو بنگالی لمحہ بہ لمحہ پہنچاتے رہے۔ اس صورت حال میں کسی بھی فوج کا جنگ جیتنا تو درکنار محض لڑنا بھی ناممکن تھا۔ مشرقی پاکستان کے عوام مغربی پاکستانیوں سے اس حد تک متنفر کیوں ہو گئے کہ ایک پاکستانی دوسرے پاکستانی کا گلا کاٹنے لگا؟ یہ اس کالم کا موضوع نہیں ہے جو نقطہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کوئی بھی بیرونی فوج کسی ملک پر قابض نہیں ہو سکتی جب تک اس ملک کے عوام دشمن ملک کا ساتھ نہ دیں۔
اسی طرح افغانستان سے روسی فوج کے انخلاء کے بعد کچھ عرصہ امن قائم رہا مگر پھر افغانستان میں خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا۔ اس مرتبہ یہ لڑائی مختلف مسلمان متحارب گروپس کے مابین تھی۔ آخر کار 1995ء میں طالبان نامی ایک تنظیم نے ملا عمر کی قیادت میں کابل پر قبضہ کیا اور افغانستان کو ایک آزاد خود مختار ریاست کے طور پر پیش کیا۔ اس وقت سعودی عرب پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے سوا کسی بھی ملک نے اسے تسلیم نہ کیا۔
شمالی اتحاد نے طا لبان کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کی۔ جنرل عبدالرشید دوستم اور احمد شاہ مسعود اور دیگر گروپس نے طالبان کی مزاحمت کی۔ پھر 9/11 ہوا اور امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ یہی شمالی اتحاد امریکہ کی سپورٹ کرنے لگا اور یوں امریکہ بآسانی افغانستان پر قابض ہوا۔ ادھر یہ امر قابل ذکر ہے کہ شمالی اتحاد کی حمایت اور فراہم کردہ معلومات کے بغیر امریکہ کے لیے افغانستان میں داخلہ محال تھا۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ شمالی اتحاد کی مدد کے بغیر یہ خطہ امریکہ کے لیے ویت نام سے بھی زیادہ بھیانک ثابت ہوتا۔ویت نام اور افغانستان میں فرق صرف اتنا تھا کہ ویت نام کے عوام متحد ہو کر امریکہ کے خلاف نبردآزما ہو گئے۔ ویت نامی جنہیں ویت کان کہا جاتا تھا، روایتی طور پر کسان تھے اور افغانستان کے جنگجو عوام کی طرح جنگ کا تجربہ نہیں رکھتے تھے۔
اس کے باوجود ویت نام جنگ میں تقریباً پچاس ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ جبکہ افغانسان میں 2001ء سے لے کر آج تک محض 1742 امریکی فوجی مارے گئے۔ اسی طرح عراق میں اکثریت عراقی عوام صدام حسین سے شدید نفرت کرتے تھے اور محض صدام حسین کے خوف کی وجہ سے خاموش تھے۔ صدام حسین کے دو فرزنداودے حسین اور کوسے حسین کا من پسند مشغلہ عراقی خواتین کی عصمت دری تھا۔
اور محترم صدام حسین کو جس علاقے سے شورش کی حدت محسوس ہوتی وہاں پر بلا جھجک کیمیکل بم پھینک کر پورے کا پورا گاؤں فنا کر دیا کرتے تھے۔ اس امریکی لشکر کشی میں امریکی فوج کو اکثریت میں عراقی عوام کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔ امریکی فوج جب شہروں میں داخل ہوئی تو بہت سی جگہوں پر عوام نے ان پر پھولوں کی پتیاں تک نچھاور کیں۔ طالبان سے قدرے زیادہ منظم اور پیشہ ور عراقی فوج چند دن بھی امریکی افواج کے خلاف مزاحمت نہ کر سکی اور پورے عراق میں 2003 سے 2011ء تک محض 3527 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔
اسی طرح دوسری جنگ عظیم میں شکست پانے والے جاپان اور جرمنی آج دنیا کے معاشی سپر پاورز میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ ممالک جنگ ہارنے کے باوجود آج معاشی طور پر انتہائی مستحکم ہو چکے ہیں۔ جن ممالک کے عوام بیدار ہوتے ہیں اور ان میں قومیت کا جذبہ موجود ہوتا ہے ایسی قوموں کی افواج کو شکست دے کر بھی انہیں زیر نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف جو قومیں منقسم اور کسی بھی وجہ سے اپنی افواج یا حکومت سے متنفر ہو جاتی ہیں انہیں کوئی بھی بیرونی طاقت بآسانی مغلوب بنا لیتی ہے۔
اب ذرا اپنے ملکی حالات پر نظر ڈالیں، امریکہ نے اپنی ملکی سرحدوں سے ہزاروں میل دور افغانستان اور عراق پر قبضہ کے لیے تقریباً آٹھ ہزار فوجی مروا لیے۔ جبکہ دوسری طرف اپنے ہی ملک کو تسخیر کرنے کے لیے پاکستانی فورسز صرف 2008 سے اب تک 15 ہزار 6 سو اکیاسی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکی ہیں۔ ہماری افواج کسی طور پر امریکی فوج سے کم حوصلہ یا ہمت نہیں رکھتیں فرق صرف اتنا ہے کہ امریکی عوام متحد اور ان کی سوچ یکساں ہے جبکہ پاکستانی عام پبلک میں گھومیں پھریں تو غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں متحرک شدت پسند تنظیموں کے بارے میں ان کے تاثرات لیں تو دس میں سے آٹھ لوگ انتہائی کنفیوژن کا شکار معلوم ہونگے ۔
کوئی انہیں امریکی جارحیت کا ردعمل قرار دے کر معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرے گا تو کوئی ان کے نظریہ سے اتفاق کرتے ہوئے ان کا حامی دکھائی دے گا کوئی انہیں پاکستانی ماننے سے سرے سے ہی انکار کر دے گا اور کوئی انہیں غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا لیبل لگا کر کسی سازشی مفروضے پر تحریر شدہ ناول کے کردار سے تشبیہ دے گا۔کچھ حضرات تو ان کے وجود سے ہی انکاری معلوم ہونگے اور کچھ تو اس حد تک چلے جائیں گے کہ انہیں اپنی قومی سکیورٹی ایجنسیوں کی کارستانیاں یا کٹ پتلیاں قراردے دیں گے۔
ایسی صورت حال میں ہم ڈرا ئینگ روم میں بیٹھ کرا پنی گورنمنٹ سے شدت پسندی کے خلاف واضح پالیسی نہ بنانے پر تنقیدکرتے رہتے ہیں۔ ان سنگین نوعیت کے قومی معاملات پر ابہام کا شکار عوام کے لیڈر آخر کار کیسے کوئی واضح جامع پالیسی بناکر اس پر عملدرآمد کر سکتے ہیں؟ ہمیں بحیثیت قوم کسی ایک نظریے پر متفق ہونا پڑے گا چاہے وہ منظریہ کوئی سا بھی ہو۔
اس کے بغیر شدت پسندی کا حل ہو جانا دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ حال ہی میں میاں نواز شریف نے چینی حکومت اور سرمایہ داروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ ہمارے دیرینہ دوست نے واضح طور پر ہمارے وزیر اعظم کے سامنے یہ شرط رکھ دی کہ وہ اس وقت لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے جب تک پاکستان اپنی داخلی امن و امان کی صورت حال قابو میں نہیں کر لیتا اور چینی ماہرین کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی نہیں بنا لیتا۔
یہ واقعی ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ 1971ء کی جنگ میں 90 ہزار پاکستانی فوج بھارتی فوج سے محض اس لیے ہار گئی کیونکہ اسے عوامی سپورٹ حاصل نہیں تھی۔ تو کیا آج کے حالات میں اگر پاکستانی عوام کا چند ہزار شدت پسندوں کے لیے نرم گوشہ ختم ہو جائے تو وہ کس طرح ہماری بہادر افواج کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ ذرا سوچئے!!!

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider