Episode 23 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 23 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

عقیدہ
بر ٹرینڈرسل نے کہا تھا کہ ”میں اپنے عقائد پر جان نہیں دے سکتا۔ ہو سکتا ہے وہ غلط ہوں۔“ جب کوئی بچہ کسی کے گھر پیدا ہوتا ہے تو اس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اگر اس بچے کے والدین مسلمان ہیں تو بچہ بھی مسلمان ہو گا۔ اگر وہ کسی عیسائی کے گھر پیدا ہو تو بچہ پیدائشی عیسائی اور اگر کسی ہندو یا یہودی ے گھر اس نے جنم لیا تو ہندو یا یہودی ہی ہو گا۔
جس طرح نومولود کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے والدین کا انتخاب اپنی مرضی سے کر سکے ٹھیک اسی طرح اسے اپنے مذہب کو بھی اپنی مرضی سے اختیار کرنے کا بھی موقع نہیں ملتا۔ پھر اس کے والدین حق و باطل، سچ یا غلط کا جو معیار اس کے لیے مقرر کر دیتے ہیں وہی معیار اکثر اس کی پوری زندگی کے لیے ہوا کرتے ہیں۔
ایسی مثالیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں کہ کوئی بچہ جب شعور کی منازل طے کر رہا ہو تو وہ ان عقائد سے رو گردانی اختیار کرے جو عقائد بچپن سے اس کے والدین اس کے ذہن میں سرائیت کرتے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

مذہب وراثت میں ملا کرتا ہے۔ یہ موروثیت 99.99 کی شرح سے جوں کی توں اگلی نسل میں منتقل ہو جایا کرتی ہے۔ عقائد کی تبدیلیوں یا یوں کہہ لیجئے کہ اپنی بنیادی تعلیمات سے منہ موڑ لینا کسی طور بھی آسان نہیں ہوا کرتا۔ اس میں مذہبی تعلیمات کا عمل دخل اپنی جگہ مگر معاشرہ بھی اسے برداشت کرنے کا حوصہ کم ہی رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے مذہبی عقائد جو کہ اسے وراثت میں ملے ہوں کو بالائے طاق رکھ کر بالکل نئے اور کلی طور پر مختلف عقائد کو مان کر ان کی پیروی کرنے کا اعلان کر دے تو مذہب سے خارج ہونے پر مذہبی سزائیں تو اسے شاید مرنے کے بعد ملیں مگر اس کا معاشرہ اسے ”اچھوت“ فرد قرار دے دیتا ہے۔
سب سے پہلے والدین اور بہن بھائی لعنت ملامت کرتے ہیں پھر دوست احباب بھی رشتہ ناطہ توڑ دیا کرتے ہیں۔
تیسری دنیا کے ممالک میں جہاں بچے ہمیشہ معاشی طور پر اپنے والدین کے محتاج ہوتے ہیں۔ لہٰذا عقائد کی تبدیلی کا سوچنا اپنے معاشی قتل کے مترادف سمجھتے ہوئے اس پہلو پر نظرثانی تک نہیں کرتے۔ کیوں کہ ”عاق“ کیے جانے کا خوف سر پر تلوار کی طرح لٹکتا رہتا ہے۔
خاص طور پر خواتین کے لیے تو یہ سوچنا بھی محال ہے کیوں کہ تیسری دنیا میں خاتون زیادہ تر مرد کی محتاج ہی رہتی ہے۔ بیوی اپنے شوہر کی محتاج، بیٹی اپنے باپ کی اور ماں اپنے بیٹے کی محتاج ہوتی ہے۔ ادھر میری عقائد سے مراد اب مذہبی کے ساتھ ساتھ معاشرتی بھی ہیں۔ لٰہذا معاشی اور معاشرتی آزادی کے فقدان کی وجہ سے نوجوان اپنے عقائد پر نظرثانی کر ہی نہیں سکتے۔
کیوں کہ ہمارے ہاں ریاست کسی بھی شہری کے تحفظ سے عاری ہے۔
پاکستان تقریباً ایک دہائی سے ہولناک دہشت گردی کا شکار ہے۔ ملک کے ممتاز دانشور حضرات اور قومی سلامتی کے مختلف چیمپئن لوگ اس کی ذمہ داری کبھی امریکہ پر تھوپتے ہیں تو کبھی اسے ہندوستان اور اسرائیل کی ملی بھگت قرار دیتے ہیں۔ جب کوئی ثبوت ہاتھ نہیں آتا تو یہی دانش ور اور قومی سلامتی کے چیمپئن حضرات کچھ ملکی انتہا پسند تنظیموں کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
آج کل تحریک طالبان پاکستان کو ملک میں دہشت گردی کا اہم کردار تصور کیا جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے بیان یہ آتا ہے کہ فاٹا کے پہاڑوں پر جو نوجوان ہتھیار بند ہوئے دن رات ریاستی نظام کو تہ و بالا کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ بقول ان کے یہ نوجوان محض بھٹکے ہوئے ہیں۔ حکومت ان کو اپنی رٹ کو منواتے ہوئے کچھ سخت نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے راہ راست پر لے آئے گی۔
بات مگر اتنی سادہ نہیں ہے۔ یہ ہماری حکومت کی معصومیت ہے یا محض حقائق سے چشم پوشی۔ سیدھی بات ہے کہ کوئی بھی شخص اگر آپ کو مختلف دلائل دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کرے کہ آپ جن عقائد پر کار بند ہیں وہ غلط ہیں اور بچپن سے جوانی تک آپ نے اپنے عقائد کے بارے میں اپنے بزرگوں سے جو بھی تعلیمات حاصل کی ہیں وہ سرا سر باطل ہیں۔ تو کیا آپ اپنا عقیدہ چھوڑ دیں گے؟ جواب آپ سب کو معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔
تو جب آپ اپنا عقیدہ تبدیل نہیں کر سکتے تو دوسرے کے بارے میں عقیدہ کی تبدیلی کے بارے گمان کرنا تقریباً بیوقوفی ہے۔ نام مجھے یاد نہیں مگر کسی عظیم شخص نے کہا تھا کہ مذہبی عقائد کو ہم یوں سنبھالتے ہیں جیسے مالی اپنے باغیچے کے پھولوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کرتا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے عقائد کو سمجھنے کے لیے ذرا ماضی میں جائیں توپتہ چلتا ہے کہ 80 اور 90ء کی دہائی میں ہم نے میڈیا اور کتابوں کی صورت میں نئی نوجوان نسل کے ذہن میں مسلمانوں کا امیج محض جنگجو حکمرانوں کے طور پر پیش کیا ہے۔
محمد بن قاسم سے لے کر محمود غزنوی تقریباً تمام ہیرو ہی جنگجو تھے اور ان شخصیات کے جنگ سے متعلق پہلوؤں پر ہی توجہ دلوائی گئی۔ اس کے علاوہ ان کے روز مرہ معاملات زندگی اور شخصیت کے دیگر پہلو مخفی رکھے گئے۔ آج بھی جب صلاح الدین ایو بی یا محمد بن قاسم کا ذکر آتا ہے تو لاشعوری طور پر ذہن میں ایک شمشیر زن زرہ پہنے گھوڑے پر سوار جری نوجوان کا عکس بن جاتا ہے۔
اسی طرح سویت یونین کے خلاف جہاد میں ایک پوری نسل جوان ہو گئی۔ بہت سے مدارس میں روس کے خلاف جہاد اور بعد ازاں اندرونی خانہ جنگی کا شکار افغانستان پر غلبہ پانے کی نیت سے خصوصی تربیت کی گئی۔ اس کے نتیجے میں جو نسل نوجوان ہوئی وہ ایک خاص قسم کے عقائد رکھتی ہے اور ان کو اپنے عقائد اتنے ہی مقدم اور عزیز ہیں جتنے کہ کسی بھی پاکستانی یا غیر پاکستانی انسان کو اپنے موروثی عقائد چاہے وہ عقائد مذہبی ہوں یا معاشرتی۔
اکثر ہمارے دانشور حضرات شدت پسند مذہبی لوگوں کو کم عمل گردانتے ہوئے ان پر شدید تنقید کرتے ہیں۔ حضرت علی کا قول ہے کہ ”صاحب علم ، لاعلم شخص کے جذبات اور ذہنی کیفیت زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے کیونکہ ایک وقت میں وہ بھی لا علم تھا۔“ جبکہ ہمارے دانشوروں کا رویہ اس کے برعکس ہے۔ وہ خود کو صاحب علم بھی کہتے ہیں اور شدت پسندوں کے جذبات سمجھنے سے عاری نظر آتے ہیں۔
میں ہرگز اس عقیدے کے حق میں نہیں ہوں مگر میں یہ جانتا ہوں کہ اس نوجوان نسل کا عقیدہ کسی بھی عقیدے کی طرح ناقابل احترام اور توجہ طلب ہے اور جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں عقیدہ تبدیل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔
ایلی نورر وسولٹ جو سب سے زیادہ وقت کے لیے امریکہ کی خاتون اول رہی ہیں نے کہا تھا ”ارادے مضبوط رکھو۔ دوستانہ ماحول قائم کرو، اپنے عقائد پر قائم رہو جیسے وہ رہتے ہیں اور اتنی ہی سخت محنت کرو جتنی وہ کرتے ہیں۔
“ ضرورت اس امر کی ہے کہ امن قائم کرنے اور مذاکرات کرنے کے لیے سب سے پہلے دوسرے فریق کے عقیدے کو سمجھنا پڑتا ہے۔ اسے عزت دینے کے ساتھ ساتھ برداشت کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ حکومت پاکستان کو مذاکرات کرنے سے پہلے طالبان عقیدے کا احترام کرنا ہو گا۔ مذاکرات کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دوسریے فریق کے عقائد کو قطعاً غلط ثابت کر کے اس پر اپنی مرضی مسلط کر دی جاائے۔
ایسی روش عموماً عدم برداشت اور جنگ کو جنم دیتی ہے۔
تحریک طالبان پاکستان جیسی دوسری کئی انتہا پسند تنظیموں کی ذہنیت اور عقائد کے بارے میں ہمارے ایک عربی صحافی دوست جو سعودی عرب کے شہری ہیں نے ایک فارمولا پیش کیا۔ ان کے نزدیک حکومت پاکستان اگر ان تنظیموں سے بامقصد مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو ان لوگوں سے مذاکرات کریں جو 80ء کی دہائی میں نوجوان تھے کیونکہ ان لوگوں کے عقائد پیدائشی طور پر انتہا پسندی سے متاثر نہیں تھے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے ان عقائد پر نسبتاً آسانی سے نظرثانی کر سکتا ہے جو اس نے خود اپنی مرضی سے اپنائے ہوں دوسری طرف ان عقائد کی نفی کرنا تقریباً ناممکن ہے جو پیدائشی طور پر اور پھر بچپن میں بزرگوں کی طرف سے ذہن پر کندہ کر دئیے جائیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جو شخص اپنے عقائد کی پاسداری کے لیے جان تک دینے کو تیار ہو جاتا ہے ضرور اس کے پیچھے کار فرما جذبات بہت ہی مضبوط ہوتے ہیں۔ ہم کسی کے عقائد سے اختلاف ضرور کر سکتے ہیں مگر ان عقائد سے جڑے جذبات کا احترام انتہائی ضروری ہے۔ ہماری حکومت کو طالبان کے عقائد تبدیل کرنے کی بجائے ان کے عقائد کا احترام کرتے ہوئے پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر پیش رفت کرنی چاہیے۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider