Episode 24 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 24 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

فوری بجلی، فوجی بجلی
پاکستان میں آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کا قیام تقریباً چالیس برس قبل عمل میں آیا تھا۔ آج اس ٹرسٹ کے تحت کام کرنے والے اداروں کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔ کھاد کی پیداوار سے اداروں کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔ کھاد کی پیداوار سے لے کر انشورنس تک، تعمیراتی ٹھیکوں سے ریئل اسٹیٹ اور بینکنگ سے لے کر سی این جی تک جو بھی ادارہ اس ٹرسٹ کے تحت کام کرتا ہے الحمد للہ منافع ہی کماتا ہے۔
سننے میں یہ بہت عجیب لگتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی شخص یہ سوچے کہ یہ ادارے ابھی تک ناصرف اپنی مالی پوزیشن کو مستحکم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں بلکہ عام صارفین کے اعتماد کو بھی بدرجہ اتم قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بلاشبہ قوم کے لیے کسی خوش خبری سے کم بات نہیں ہے کہ محض چالیس سال قبل بننے والا ادارہ اس ملک کا سب سے کامیاب بزنس چلا رہا ہے۔

(جاری ہے)

جبکہ ریلوے تو قیام پاکستان سے بھی قبل موجود تھا۔ اب اس کی حالت سب کے سامنے ہے۔ محکمہ صحت بھی قیام پاکستان کے ساتھ ہی قائم ہوا تھا آج کل وہاں ”ڈاکٹر مافیا“ کا راج ہے۔ تعلیم کا شعبہ بھی ڈوب رہا ہے۔ پرائیویٹ ادارے تو اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کیونکہ ان کا سرمایہ محفوظ نہیں۔ میں گنواتا رہوں گا اور آپ گنتے رہیں گے۔ پاکستان کے تمام محکمے زبوں حالی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
سب سے برا حال تو بجلی کی پیداوار کا ہے۔ اس پر بات کریں گے مگر ذرا آگے چل کر…
ہمارے اس عزیز ملک میں کسی بھی بزنس مین کے لیے کوئی نیا کاروبار شروع کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اگر کوئی کاروباری ان مشکل حالات میں کاروبار کا آغاز کرنے کا سوچ بھی لیتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ کیونکہ موجودہ ملکی حالات کے پیش نظر کسی سرمایہ دار کے لیے اپنا سرمایہ کسی کاروبار میں لگانا جوئے سے کم نہیں رہ گیا۔
اگر کوئی یہ جوا کھیلنے کا ارادہ کر بھی لیتا ہے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں ایسی ہیں کہ خدا کی پناہ… اول تو کسی سرکاری ادارے تک رسائی مشکل ہے۔ اگر رسائی ہو بھی جائے تو ”الرشی و المرتشی“ کو بھولنا پڑتا ہے۔ (امید ہے آپ اشارہ سمجھ گئے ہوں گے) یہ تو محض ایک مرحلہ ہے۔ اس کے علاوہ سرمایہ دار کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اگر اس کے ساتھ لین دین میں فریق پارٹی کے ساتھ کوئی تنازعہ ہو گیا تو اس کا حل کیا ہے؟ براہ راست دھوکے کی صورت میں اگر وہ سرمایہ دار عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو سنوائی مشکل ہوتی ہے۔
اگر مقدمہ سول کورٹ میں چل بھی پڑے تو تاریخ پر تاریخ ملتی رہتی ہے اور ایک عمر بیت جاتی ہے۔
پھر ہمارے ہاں ٹیکس کا نظام آئے روز حکومتی پالیسیاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ آج ہی کی بات ہے کہ عوام پر عید سے پہلے بجلی کا بم پٹرول میں بھگو کر مارا گیا ہے۔ ان سب اور ان جیسی اور بہت سی مشکلات کے باوجود جو ”مرد مجاہد“ ٹائپ کاروباری حضرات اس ملک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ان پر اکثر بھتہ مافیا کا خوف بھی تو منڈلاتا رہتا ہے۔
پر ایسی مشکلات سے ہمارے فوجی کاروباری ادارے خوش قسمتی سے مبرا ہیں۔ اس کی وجہ خوف اور عزت دونوں ہی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستانی شہری جو استطاعت رکھتا ہے اس کی اولین ترجیح ڈیفنس میں گھر بنانا ہوتی ہے۔ کیونکہ اسے فوج کے زیر نگرانی چلنے والی اس ہاؤسنگ سکیم پر سب سے زیادہ اعتماد ہوتا ہے۔ بے شک یہ اعتماد و عزت ہماری فوج نے سالہا سال کی دیانتدارانہ خدمات کے نتیجے میں کمائی ہے۔
اسی طرح سرکاری محکمے اس فائل کو روکنے میں غیر ضروری رخنہ نہیں ڈالتے جس کے مضمون میں فوج کا لفظ لکھا ہو۔ اور بھتہ مافیا کی فوج کے سامنے کیا مجال؟
دوسری طرف اگر ملکی حالات تبدیل نہ ہوئے تو ہماری برآمدات میں مسلسل کمی واقع ہو جائے گی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں جاری توانائی کا شدید بحران ہے۔ حکومت دن رات اجلاس پر اجلاس، کانفرنس در کانفرنس کیے جا رہی ہے کہ کسی طرح لوڈ شیڈنگ کا جن بوتل میں بند ہو مگر اب تو یہ جن سحر اور افطار میں بھی نکل آتا ہے۔
حکومت نے اعلان کیا تھا کہ سحرو افطار میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی اس پر میرے دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سحری کھانا اور افطاری کرنا انتہائی آسان کام ہیں۔ اصل کارنامہ تو سحر سے افطار تک روزہ رکھنا ہوتا ہے۔ اسی دوران بجلی نہیں ہوتی لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ سحرو افطار میں لوڈشیڈنگ کر لے مگر روزے کے دوران نہ کیا کرے۔ شاید ارباب اختیار نے یہ بات سنی اور پالیسی بدل لی۔
اب نہ سحرو افطار کے وقت بجلی ہوتی ہے اور نہ روزے کے دوران۔ تراویح کے بارے میں شکر ہے حکومت کا کوئی بیان نہیں آیا اور نہ ہی میرے عزیز دوست نے اس پر کوئی تبصرہ فرمایا۔
تو بات ہو رہی تھی توانائی کے بحران کی… حکومت اس وقت بجلی کے نرخ بڑھانے پر توجہ دے رہی ہے۔ میرے خیال میں قلیل المعیاد حل کے طور پر تیل سے چلنے والے پاور پلانٹس کے بجائے فوری طور پر انڈیا، ایران یا چائنہ سے بنی بنائی بجلی منگوانا ہی درست اقدام ہے۔
یہ کام فوری ہو سکتا ہے۔ تیل سے بجلی بنانا مہنگا سودا ہے۔ اس سے بجلی کی قیمت بڑھ جائے گی۔ دوسرا طریقہ پانی سے بجلی پیدا کرنا ہے۔ مگر اس میں ایک پوری دہائی لگ سکتی ہے۔ نا جانے کیوں حکومت تیل سے بجلی کی پیداوار پر ہی زور دے رہی ہے۔ نئے پاور پلانٹس لگائے جانے ہیں۔ کچھ ”ماہرین رشوت ستانی“ کا خیال ہے کہ بنی بنائی بجلی منگوانے میں ”الراشی و المرتشی“ کا کردار ختم ہو جاتا ہے۔
اسی لیے نئے پیداواری یونٹس پر ”کام“ تیزی سے جاری ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہ پیداواری یونٹس جو تیل سے چلیں گے ان سے پیدا بجلی اتنی مہنگی ہو گی کہ مہنگائی کا سیلاب آ جائے گا۔ اس کے علاوہ تیل سے پیدا کردہ بجلی جب برآمد کرنے والی اشیاء کی تیاری میں استعمال ہو گی تو نتیجتاً ان اشیاء کی قیمت اس قدر بڑھ جائے گی کہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں دوسرے ممالک کی سستی متبادل اشیاء کے ساتھ مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔
اگر یہ قلیل المیعاد حل ہے تو بنی بنائی بجلی میں کیا برائی ہے؟ اس بحران کا دیر پا اور مستقل حل صرف پانی سے سستی بجلی کی پیداوار رہی ہے۔
کالم کے آغاز میں ہی میں نے آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کا ذکر کیا تھا۔ ادھر آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت کام کرنے والے اداروں کے نظم و ضبط کی تعریف نہ کرنا بھی بخل ہو گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ آرمی نے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا وہ سونا ہو گیا۔
میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ اور فوج کے نام سے منسلک دیگر کاروباری اداروں کو اپنی توجہ توانائی کی پیداوار کی طرف مبذول کرنی چاہیے۔ آئی پی پیز نے تو اپنا رنگ دکھا دیا ہے کہ اربوں وصول کرنے کے بعد بھی ایک میگاواٹ بجلی بھی پیدا نہیں کر سکے۔ ہمیں اس وقت بیرونی طاقتوں سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا اندرونی توانائی کے بحران کی وجہ سے ہے۔ آرمی کو چاہیے کہ جنگی بنیادوں پر کوئی حکمت عملی وضع کریں اور اس بحران سے قوم کو نجات دلائیں۔ جنگ اور جنگی بنیادوں جیسے الفاظ کو آخر فوج سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے؟

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider