Episode 28 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 28 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

دہشت گردی ضروری ہے
دہشت گردی سے نہ امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ ایک مہذب معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں قانون کی عمل داری اور امن صرف اسی وقت ممکن ہے جب تمام شہریوں کے دلوں میں ریاست اور سکیورٹی اداروں کی دہشت (جرم کرنے کی صورت میں) بدرجہ اتم موجود ہو۔ کوئی بھی شہری قانون شکنی سے پہلے دس بار سوچے اور ایسے خیال پر عمل پیرا ہونے کی ہمت نہ جوڑ پائے۔
ریاست کے لیے اپنی دہشت قائم کرنے کا واحد طریقہ قانون شکن عناصر کو آئین اور ضابطے کے مطابق سزائیں دینے سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان میں بدقستمی سے گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ سکیورٹی ادارے جن کا کام عوام کو تحفظ دینا ہے اور جرائم پیشہ عناصر کے دلوں میں دہشت بٹھانا ہونا چاہیے وہ خود اپنی حفاظت پر مامور نظر آتے ہیں۔

(جاری ہے)

مثال کے طور پر کسی بھی اہم علاقے میں چلے جائیں تو قدم قدم پر چیک پوسٹیں بنی ہوتی ہیں۔

جو یہ تاثر دیتی ہیں کہ ہمارے محافظ خود عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ غور کیجئے کہ ایسا کیوں ہے؟ ہمارے سکیورٹی ادارے تشویش میں مبتلا اور دہشت گرد مجرم عناصر دندناتے پھرتے ہیں؟ سادہ سی بات ہے کہ جب مجرموں اور دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا نہیں دی جائے گی تو کبھی ریاست کی دہشت قائم نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ملک میں امن۔
ہمارے سکیورٹی ادارے اپنی جانوں پر کھیل کر دہشت گردوں کو گرفتار کرتے ہیں۔
ان گرفتار دہشت گردوں میں بہت سے عدم ثبوت کی بنیاد پر بری ہو جاتے ہیں۔ جان جوکھوں میں ڈال کر اگر کبھی ثبوت حاصل ہو بھی جائے تو سرکاری وکیل کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں اور کسی طرح کوئی شیر دل سرکاری وکیل کیس کی پروری کر بھی لے تو محترم جج صاحب کو سکیورٹی خدشات لاحق ہوجاتے ہیں۔ جج صاحب بھی اگر سر پر کفن باندھ لے تو کوئی گواہی دینے کو تیار نہیں ہوتا۔
اسی طرح یہ سب لوازمات پورے ہو جائیں اور دہشت گرد کو سزا سنا بھی دی جائے تو سزاؤں پر عمل درآمد نہیں ہو پاتا یا روک دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے مقدمات میں بہت سے سرکاری وکلاء عینی شاہدین اور یہاں تک کہ جج صاحبان بھی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان سب لوگوں کو قربانیوں کے نتیجے میں کئی دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی گئی ہیں۔ ہمارے ملک میں تقریباً سات ہزار سے زائد قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں ان میں سے زیادہ تر دہشت گردی کے مجرم ہیں۔
گزشتہ پی پی کی حکومت کے پانچ سالوں میں محض ایک شخص کو سزائے موت دی گئی۔ حال ہی میں اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ طالبان کی دھمکی پر جیلوں میں بند دہشت گردوں کی سزائے موت حکومت نے ملتوی کر دی ہے۔ اب دہشت گردوں کی سزائے موت موخر ہونے سے حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
دوسری طرف پاکستان میں سکیورٹی سے متعلق پہلی پالیسی غالباً قائداعظم نے بنائی تھی۔
بعد ازاں یحییٰ خان نے اپنے دور صدارت میں نیشنل سکیورٹی کونسل 1969ء میں قائم کی جو آنے والے ہر آمر کی خوب دل پسند پالیسی بنی رہی۔ جنرل پرویز مشرف نے اس سکیورٹی کونسل میں نئی روح پھونکتے ہوئے اسے بھرپور فعال کیا اور اپنے بچپن کے دوست اور سابق بیوروکریٹ طارق عزیز کو اس کا ایڈوائزر مقرر کیا۔ سکیورٹی کونسل کے ایڈوائزر کا تقرر کسی نہ کسی طور پر حکمران کے ذہن کی عکاسی ضرور کرتا ہے۔
پرویز مشرف نے طارق عزیز کا تقرر اس وجہ سے کیا کہ سابق صدر ملک میں انتظامی معاملات کو بہترین انداز میں چلانا چاہتے تھے اور یہ کام ایک ماہر تجربہ کار بیوروکریٹ سے بہتر اور کون کر سکتا ہے۔ طارق عزیز کو بطور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر لگانا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ مشرف صاحب کا خیال تھا کہ چند خوشامدی بیوروکریٹس کے بل بوتے پر پاکستان کی سلامتی کونسل کو ناقابل تسخیر بنایا جا سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں یہ سکیورٹی کونسل بالکل غیر فعال رہی ہے اور سکیورٹی کا کام دفاعی کیبنٹ کمیٹی سے چلایا جاتا رہا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس دور کے ملکی سکیورٹی معاملات پر حکومت کی گرفت کمزور تھی۔ مگر موجودہ حکومت نے اس میں کچھ ردو بدل کے ساتھ سے نیا رنگ دیا ہے جسکی ایڈوائزری جناب سرتاج عزیز فرما رہے ہیں۔ آپ سرتاج عزیز صاحب معروف ماہر معاشیات ہیں جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت پاکستان میں سکیورٹی مسائل سمیت جملہ معاملات کا حل معیشت کی بہتری میں مضمر سمجھتی ہے۔
cabinet committee on national security میں چاروں وزرائے اعلیٰ کو شامل نہ کرنا ایک نامناسب بات ہے۔ جب تک چاروں وزرائے اعلیٰ جو مختلف سیاسی سوچوں کے نمائندے ہیں قومی سلامتی کی کمیٹی میں ایک جگہ اکٹھے ہو کر ایک لائحہ عمل پر متفق نہیں ہوں گے اس وقت تک کوئی قابل عمل اور متفقہ قومی سکیورٹی پالیسی تشکیل دئیے جانا زیادہ موثر نہیں ہو گا۔
تاریخی پیرائے میں دیکھا جائے تو چاہے جتنی ہی سکیورٹی پالیسیاں بنا لی جائیں یا نام بدل بدل کر انگنت ملکی سکیورٹی امور سے متعلق کمیٹیاں اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عوام کی دہشت حکمرانوں کے دل میں موجود نہ ہو۔
بالکل ایسے ہی جیسے ریاست کا خوف دہشت گردوں کے دل میں موجود ہونا لازمی ہے۔ جب بھی کوئی حکومتی اقدام عوام کی امنگوں کے خلاف ہو تو عوامی خوف کے سامنے حکومت کو بے بس ہو جانا چاہیے۔ مگر تاریخی پیرائے میں دیکھا جائے تو عوام نے دو مرتبہ کم از کم اپنی دہشت پیدا کرنے کے نادر مواقع کھو دئیے۔ ایک اس وقت جب جنرل ضیاء الحق نے ملک کے جمہوری وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پابند سلاسل کیا اور بعد ازاں تخت دار پر لٹکا دیا تب عوام اپنی دہشت قائم کر سکتے تھے۔
دوسرا موقع اس وقت ملا جب اکتوبر 99ء میں جنرل پرویز مشرف نے دو تہائی اکثریت والے میاں نواز شریف کو جیل بھجوا دیا۔ مگر عوام اپنی دہشت سے خود ہی نا آشنا رہے۔ ویسے بھی کہتے ہیں جو طمانچہ لڑائی میں مارنا بھول جائیں بعد ازاں اسے اپنے سر پر ہی مار لینا چاہیے۔ اسی طرح جنرل ضیاء کی آمریت کے بعد آئی محترمہ اور میاں صاحب کی دو الگ الگ حکومتوں نے بھی ریاست اور قانون کی دہشت منوانے کا موقع گنوا دیا۔
90ء کی دہائی میں فرقہ وارانہ فسادات اپنی جڑیں مضبوط کر رہے تھے۔ فرقہ وارانہ عناصر نے اپنی دہشت بہت حد تک قائم کر لی تھی لیکن وہ اس قدر مضبوط نہیں تھے جس قدر آج ہیں۔ سابق جمہوری حکومتوں نے ان عناصر کے خلاف کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گرد منظم ہوتے گئے اور آج یہ پوری پاکستانی ریاست کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ امید ہے کہ ن لیگ کی حکومت 90ء کی دہائی میں جمہوری حکومتوں کو نیشنل سکیورٹی سے متعلق غلطیوں کو پھر سے نہیں دہرائے گی یا کم از کم دہرانہ نہیں چاہیے۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider