Episode 34 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 34 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

میرا خواب
ہپی (Hippie) چند امریکی نوجوانوں کی ایک تنظیم تھی۔ ان نوجوانوں کا مقصد دنیا میں سیاحت کو فروغ دینا تھا۔ یہ منچلے نوجوان نا صرف دنیا بھر کے سیاحتی مقامات کی سیر کرتے تھے بلکہ ان کا مقصد کم خرچ میں بہترین سیاحت کے طریقے متعارف کروانا تھا۔ یہ لوگ یورپ سے افریقہ، ایشیاء سے آسٹریلیا تک سیاحتی طائفوں کی صورت میں سفر کرتے تھے۔
1970ء کی دہائی میں ان نوجوانوں نے ایشیاء کا سفر کیا۔ یہ خصوصاً پاکستان، بھارت اور نیپال، میں مختلف سیاحتی مقامات کی سیر کو آئے تھے۔ ہپی ٹریل (Hippie Trail) نے پاکستان میں خیبر بائی پاس، پشاور، کراچی، لاہور، سوات اور راولپنڈی میں اپنا وقت گزارا۔ ان نوجوانوں کے اس سیاحتی دور کے بعد یورپ اور امریکہ میں پاکستان کے ثقافتی ورثے کی اچھی شہرت ہوئی تو 70ء کی دہائی میں پاکستان کی سیاحت کی صنعت نے خوب ترقی پائی۔

(جاری ہے)

خصوصاً لاہور اور شمالی علاقہ جات میں ہر سال لاکھوں غیر ملکی انفرادی طور پر یا سیاحتی ٹولیوں کی صورت میں پاکستان آنے کا باعث بنتے۔
پاکستان کے ماضی کے سیاسی رہنماؤں پر نظر ڈالیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے سیاحت کی صنعت میں موجود زرمبادلہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام کروانے کا منصوبہ بنایا۔ خاص کر کراچی کے ساحل کو عرب اور مغربی دنیا کے لیے ایک بہترین تفریحی مقام بنانے کے لیے مختلف ہوٹل اور بینک بنانے کے منصوبوں پر کام جاری تھا۔
مگر بھٹو حکومت کے خامتے کے بعد افغانستان میں ہوئے جہاد نے اس انڈسٹری کی طرف توجہ نہ ہونے دی۔ یوں پاکستان نا صرف سیاحوں سے محروم ہوا بلکہ کثیر زرمبادلہ کمانے کا موقع بھی ہاتھ سے گیا۔
پاکستان بلاشبہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے جنت سے کم نہیں۔ قدیم ثقافت میں دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کے لیے ادھر موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی ہزاروں سال پرانی ثقافت اپنے اندر ان گنت راز چھپائے غیر ملکی سیاحوں کی منتظر ہے۔
برف پر کھیلے جانیوالے کھیلوں کے شوقین افراد کے لیے نانگا پربت کی فلک شگاف چوٹیاں اپنے دامن میں سفیدی کی چادر لیے اپنے حسن کی تعریف سننے کو بے قرار ہیں۔ سوات کی کئی وادیاں یا ناران، کاغان کی جھیلیں سب اپنے اندر طلسم کو سموئے چپ چاپ آنیوالے پر سکون دور کے انتظار میں ہیں۔ اسی طرح لاہور میں بادشاہی مسجد، شالیمار باغ اور جہانگیر کے مقبرے کی طرح بہت سی یادگاریں مغلوں کے تعمیرانی فن پر دادو تحسین پانے کی منتظر ہیں۔
دنیا بھر خصوصاً امریکہ اور یوپ میں سیاحت اب باقاعدہ ایک منافع بخش انڈسٹری بن چکی ہے۔ ”ہینگ لگے نہ پھٹکڑی“ کے مصداق اس انڈسٹری میں لاگت نہ ہونے کے برابر مگر منافع بے تحاشہ ہے۔ ورلڈ ٹورالزم آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق فرانس اس وقت سیاحوں کی آمد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے۔ محض 2012ء میں فرانس میں 8 کروڑ تین لاکھ افراد سیاحوں کی صورت میں آئے۔
اسی طرح امریکہ میں 6 کروڑ سات لاکھ، ہمارے برادر ملک چائنہ میں 5 کروڑ 8 لاکھ۔ سپین میں 5 کروڑ سات لاکھ سیاح سال 2012 میں مختلف مقامات کی سیرو سیاحت کے لیے آئے۔ سیاحوں کی آمد کے حوالے سے سال 2012ء میں ہمارے برادر اسلامی ممالک ترکی کا نمبر چھٹا اور ملائیشیا کا دسواں ہے۔ ان ممالک میں بالترتیب سال 2012ء میں 3کروڑ چھ لاکھ اور 2 کروڑ پانچ لاکھ سیاح آئے۔
بھارت میں ہر سال تقریباً 70 لاکھ سیاح آتے ہیں۔ جبکہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں یہ تعداد دس لاکھ سے بھی کم ہے۔
اسی طرح اگر سیاحت سے حاصل ہوئے زر مبادلہ کی بات کی جائے تو امریکہ اس فہرست میں سب سے آگے ہے۔ سال 2012ء میں امریکہ نے اس انڈسٹری سے 126 ارب ڈالر کمائے۔ چائنہ کا چوتھا نمبر ہے۔ چائنہ نے 50 ارب ڈالر سیاحتوں کے ذریعے کمائے۔
اگر اپنے پڑوسی ملک بھارت میں موجود سیاحت کی صنعت کا جائزہ لیں تو ورلڈ ٹریول اینڈ ٹور ازم کونسل رپورٹ کے مطابق بھارت تقریباً 100 ارب ڈالر سے زائد مبادلہ حاصل کرتا ہے جو بھارت کے کل جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتا ہے۔ بھارت میں سالانہ تقریباً 70 لاکھ غیر ملکی سیاح آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں سیاحت کی صنعت ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔
پاکستان میں جاری حالیہ دہائی میں شدت اختیار کرتی دہشت گردی کی وجہ سے سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔
پاکستان میں بدقسمتی سے زمانہ امن میں بھی سیاحت کو باقاعدہ انڈسٹری کا درجہ محض وزارت کی سطح پر ہی دیا جا سکا۔ مگر اس کی ترقی کے لیے خاطر خواہ اقدامات کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی گئی۔ پاکستان کے میدانی اور گرم علاقوں میں رہنے والے افراد ہی اب کچھ حد تک شمالی علاقہ جات کی سیاحت پر آتے ہیں۔ یہ لوگ پرانی تصاویر دیکھ کر ان علاقوں کی خوبصورتی سے متاثر ہوتے ہیں مگر اصل حقیقت کا اندازہ وہاں جا کر ہی لگتا ہے۔
دشوار گزار راستوں پر انتہائی کرب ناک سفر کرنے کے بعد جب کسی سیاحتی مقام تک پہنچا جاتا ہے تو وہاں کی قدرتی خوبصورتی کو مصنوعی دنیا کی بے حسی دیمک کی طرح چاٹتی معلوم ہوتی ہے۔ ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی میں کھڑے ہو کر دیکھنے پر سرسبز پہاڑ آنکھوں کو خوب بھاتا ہے مگر جب وہاں پہنچنے پر دور دور تک پھیلی گندگی کو دیکھتے ہیں اور تعفن ہمارے نتھنوں کے ذریعے دماغ کو اس بدبو کی شدت کا احساس دلواتا ہے تو آئندہ کبھی نہ آنے کی قسم کھانے کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔
یہ کسی اجتماعی قومی المیے سے کم نہیں کہ شمالی علاقہ جات کی حسین وادیوں تک سفر کرنے کو دل سب کا کرتا ہے مگر سفر کی صعوبتوں کا سوچ کر ہی ارادہ ترک کرنا پڑتا ہے۔
حکومت وقت اگر اس جانب توجہ مبذول کرے تو انتہائی شاندار نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ادھر یہ بات بھی شامل حال ہے کہ ملک میں جاری موجودہ دہشت گردی میں شمالی وزیرستان کے بعد شمالی علاقہ جات خصوصاً سوات کو دہشت گردوں کے بیس کیمپ کی سی حیثیت حاصل رہی ہے۔
اگر اس امر کو بڑے کینوس پر دیکھا جائے تو شمالی علاقہ جات میں انفراسٹرکچر کی ترقی ملک کی مجموعی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ ہمارے ملک کی جغرافیائی حیثیت بہت اہم ہے۔ ہمارے دائیں اور بائیں بھارت اور چائنہ کی صورت میں تقریباً دنیا کی ایک تہائی آبادی رہتی ہے۔ پھر عرب ممالک کے دولت سے مالا مال ”شیخ“ بھی تفریح کے متوالے ہوا کرتے ہیں۔
ملک میں اگر امن و امان قائم ہو اور حکومت ان علاقوں کی تعمیر و ترقی میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی ایک تہائی آبادی سے لاکھوں سیاح اور عرب ممالک سے کثیر سرمایہ کاری ملک میں آنے کا قوی امکان موجود ہے۔
شمالی علاقہ جات بالخصوص وادی سوات میں تفریحی قیام گاہوں کا قیام پاکستان کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان میں سیاحت کے مستقبل کے بارے میں سوات میں ”سیاحتی شہر“ کا قیام میرا برسوں پرانا ایک خواب ہے۔
ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے ملک ریاض سب سے موضوع شخص ہیں۔ صدر الدین ہاشوانی بھی اس پراجیکٹ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک ایسا تفریحی شہر جہاں قدرتی مناظر کے ساتھ ساتھ جدید ترین بین الاقوامی سہولیات ہمہ وقت میسر ہوں گی تو ہمارے ہمسایہ ممالک اور مشرقی وسطیٰ کے صحراؤں سے لوگ پاکستان کی اس جنت میں قیمتی زرمبادلہ خرچ کرنے کیونکہ نہ آئیں گے؟ ہمارے نوجوان جو بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے دہشت گردی کی جانب مائل ہو چکے ہیں ان کو بھی باعزت طریقے سے رزق حلال کمانے کے مواقع میسر آ جائیں گے۔
اس طرح غربت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور جرائم کا سدباب بھی ہو جائے گا۔ وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار علی خان صاحب بھی پوری شدومد کے ساتھ ان حضرات کا ساتھ دیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان سیاحت کی دنیا میں اول نمبر پر شمار ہو گا۔ سیاحت کی انڈسٹری کے ذریعے سے بھی معاشی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ جو پاکستان کو کچھ ہی عرصے میں ایشیاء کی معاشی سپر پاور بنا دے گا۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider