Episode 35 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 35 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

ہمارے اصلی ہیرو کون؟
ہم روزانہ کی بنیاد پر درجن بھر سے زائد نیوز چینلز پر بے شمار ٹاک شوز کو بہت انہماک سے دیکھتے ہیں۔ شام سات بجے سے رات 12بجے تک جاری رہنے والے یہ بے مہار قسم کے پروگرامز اس قدر انٹرٹینمنٹ سے بھرپور ہوا کرتے ہیں کہ سینما انڈسٹری کے زوال کے بے شمار اسباب میں سے ایک سبب یہ ٹاک شوز بھی ضرور ہوں گے۔ مگر ان ٹاک شوز میں سیاست و ریاست، سیاسی پالیسیوں، حکومتی نا اہلیوں، خارجہ پالیسیوں، دہشتگردی اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر بحث سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں ہوتا۔
کوئی ایک پروگرام بھی ہمارے ملک کے تعلیمی نظام کے حوالے سے ملنا مشکل ہے۔ پرائمری سطح کی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک ہر سطح پر تعلیم کا حال اتنا برا ہے کہ تعلیم یافتہ شخص بھی اگر عقل و شعور رکھتا ہو تو خود کرنا خود اندوہی تصور کرے گا۔

(جاری ہے)

پھر پرائمری سے میٹرک تک جو تاریخ ہمارے پیارے پاکستان کی ہمیں پڑھائی جاتی ہے اس کا بیشتر حصہ ان حکمرانوں کی تعریف و توصیف میں ضائع کر دیا جاتا ہے جن کا پاکستان کی تخلیق سے دور دور تک کوی تعلق ہی نہیں ہے۔

پھر برصغیر کی تاریخ میں گزرے ہوئے بادشاہوں کے کارناموں کو بیان کرنے کا انداز اس قدر حقیقت سے دور ہوتا ہے کہ ایک کم سن بچہ جو ابھی بلوغت کی منازل طے کر رہا ہوتا ہے اور اپنے اردگرد کے ماحول، رہن سہن اور اپنی درسی کتب کی راہنمائی سے جینے کے ڈھنگ سیکھ رہا ہوتا ہے وہ ٹھیک ٹھاک کنفیوژن کا شکار ہوجاتا ہے۔
اسلامیات کے پیریڈ میں اسے پڑھاتے ہیں کہ اقتدار اعلیٰ کا اصل اور واحد مالک اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے۔
ہر انسان چاہے وہ کسی بھی رنگ و نسل، مذہب یا عقیدے سے تعلق رکھتا ہو اس کی جان و مال، عزت و آبرو اور اس کا رزق وغیرہ سب خداوند بزرگ و برتر کی ہی ملکیت ہے اور حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے۔ کسی شخص کو اللہ کی حاکمیت میں شریک بنانا یا کسی شخص کو سوائے خدا کے حاکم اعلیٰ تصور کرنا شرک ہے۔ اتنی بھاری اور ایمان افروز کلاس کے بعد جب وہی سٹوڈنٹ معاشرتی علوم یا مطالعہ پاکستان کے پیریڈ میں پہنچتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند پر مسلمان بادشاہوں نے کئی سو سال تک حکومت کی۔
یہ بادشاہ حضرات کلی طور پر اپنی رعایا کے ساتھ ہونے والے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے تھے۔ اس کی ہر بات حرف آخر تصور کی جاتی تھی۔ ان کی زبان سے ادا ہوا ہر لفظ آئین ہوتا تھا۔ ان کی سلطنت میں موجود ہر ذی رو ح کی جان و مال اور عزت ان کی ذاتی ملکیت ہوتی تھی۔ ان کو پوچھنے والا یا ان کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ پھر انہی بادشاہوں کی تعریف و ثناء کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ گویا بادشاہوں کے حاکم وقت ہونے سے زیادہ ان کے ولی اللہ ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔
استاد پھر مزید صلاح الدین ایوبی، احمد شاہ ابدالی، محمد بن قاسم، قطب الدین ایبک اور شہاب الدین محمد غوری وغیرہ جیسے فاتحین کی داستانیں بچوں کو طوطے کی طرح رٹوا دیتے ہیں۔ یہ تضاد بچوں کے ناپختہ ذہنوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ایک طالب علم ابہام کا شکار ہو کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ہمارے ہیروز اصل میں ہیرو تھے یا محض مطلق العنان بادشاہ؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت کو چاہیے کہ اس متضاد تعلیمی نصاب کا از سر نو جائزہ لے کر ضروری تبدیلیاں کرتے ہوئے طالب علموں کے معصوم اذہان کو ابہام سے نجات دلائیں۔
تعلیمی نصاب میں تاریخ پاکستان کا مطالعہ کیا جائے تو تمام برصغیر کے مسلمان حکمرانوں کرشماتی اور عیوب سے پاک شخصیت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہمہ وقت یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کبھی ان کے ہاتھوں سے ظلم یا انسانیت سوز فیصلہ نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر اورنگزیب عالمگیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بادشاہ سلامت اتنی عظیم شخصیت تھے کہ ٹوپیاں اور تسبیاں بنا کر فروخت کیا کرتے تھے اور ان کی آمدنی ہی اپنا گزر بسر کرتے تھے۔
تو ایسا ہی ہو گیا کہ ہمارے حکمران کروڑوں کی گاڑیوں میں سفر کرتے اور اربوں روپے مالیت کے گھروں میں رہتے ہیں مگر جب ان کے انکم ٹیکس گوشوارے پر نظر ڈالیں تو بادشاہ اورنگزیب کی طرح ٹوپیاں اور تسبیاں بیچ کر گزر بسر کرنے والی شخصیات معلوم ہوتی ہیں۔ اس طرح کی مضحکہ خیز تاریخ کو تاریخ کے مضمون کا حصہ ہونے کی بجائے ”مزاح نگاری“ کے مضمون کے اسلوب میں شامل ہونا چاہیے۔
اور اگر مزاح نگاری بطور مضمون اب تک متعارف نہیں کروایا جا چکا تو اسے فی الفور پاکستان کے تعلیمی نصاب میں شامل کر لینا چاہیے۔ ایک تو مزاح کے انسانی جسم اور روح پر انتہائی مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دوسرا اس مضمون کے نصاب کے لیے تاریخ سلاطین پاک و ہند کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سیاسی حالات حاضرہ سے وافر مواد مل سکتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں گزرے بادشاہوں کی تاریخ (جو انہوں نے اپنے درباری مورخین کے ذریعے حسبِ منشاء خود لکھوائی) اگر مزاح کے زاویے سے پڑھی جائے تو ابن انشاء اور مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری بالکل پھیکی معلوم ہو گی۔
مثال کے طور پر شہنشاہ بابر کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں کہ شہنشاہ بابر دو آدمیوں کو اٹھا کر محل کی فصیل پر روزانہ دوڑا کرتے تھے۔ گویا موصوف ہالی ووڈ کے مشہور کومک (Comic)کردار "The incredible Hulk" یا "Iron Man" ہوں۔ نا جانے کب ہم اپنی نوجوان نسل کو تعصب سے پاک تاریخ اور تاریخی حقائق کی تعلیم دینا شروع کر دیں گے؟
712ء میں محمد بن قاسم نے ایک مظلوم خاتون کو بحری قذاقوں سے رہائی دلوانے کے لیے سندھ کے ساحل کا رخ کیا۔
ہندو بادشاہ راجہ داہر کو شکست دیتے ہوئے ملتان شریف (جو سندھ کے ساحل سے کوسوں دور تھا) تک آن پہنچے۔ موصوف پاک و ہند میں ایسے آئے جیسے دور حاضر میں امریکہ افغانستان میں اسامہ بن لادن کے تعاقب میں آیا اور پھر پورے افغانستان پر قابض ہو کر ہی بیٹھ گیا۔ بمطابق ہماری تاریخ یہ فوجی حملہ اسلام کے پاک و ہند میں آنے کی وجہ بنا۔ درحقیقت اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرنے والی شخصیات غریب پرور اور سادہ لوح، مخلوق خدا سے محبت کرنے والے صوفیاء کرام ہی ہیں جو محمد بن قاسم کی طرح تلوار کے دھنی تو نہ تھے بلکہ پیار و محبت اور اپنے اچھے کردار سے متاثر کر کے اسلام کا پیغام غیر مسلموں تک پہنچاتے رہے۔
ان مسلم حکمرانوں جنہوں نے انسانیت اور اسلام دونوں کی خدمت کے بجائے صرف اپنی خدمت کی ان جگہ بابا بلھے شاہ، خواجہ معین الدین چشتی، سید علی ہجویری عرف داتا صاحب، رحمن بابا، بابا شاہ چراغ، عبداللہ شاہ غازی، لعل شہباز قلندر، بہاؤالدین زکریا ملتانی اور بری امام سرکار جیسے عظیم صوفی بزرگان نے درحقیقت اشاعت اسلام کا فریضہ انجام دیا۔
جب تک ہم جابر اور سفاک بادشاہوں اور ڈاکوؤں کو صرف مسلمان ہونے کی بنیاد پر اپنی نصابی کتب میں ہیرو بنا کر پیش کرتے رہیں گے تب تک ہماری نوجوان نسل میں سے تشدد، ظلم اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسے رویوں کا خاتمہ نا ممکن ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تاریخ پاکستان کی وہ ہستیاں جنہوں نے پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کی مثلاً قائداعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، محترمہ فاطمہ جناح، سر سید احمد خان، اور وہ شخصیات جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد ملک کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیں اور ملک کا نام روشن کیا۔
مثلاً ڈاکٹر عبدالسلام، فیض احمد فیض، ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند، عبدالستاد ایدھی، جان شیر اور جہانگیر خان اور شرمین عبید چنائے اور ملالہ یوسف زئی کو بطور قومی ہیروز ، نصابی کتب میں شامل کر دینا چاہیے۔ اس طرح تاریخ کے دیو مالائی قصوں نے نوجوان نسل کی جان چھوٹ سکتی ہے اور اپنے حقیقی ہیروز سے روشناس ہونے اور ان کی تقلید کرنے کا موقع میسر آ سکتا ہے۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider