Episode 36 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 36 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

کون صحیح…… کون غلط……؟
موسم بھی خوشگوار تھا اور مصروفیات بھی کم تھیں۔ میرے سیاستدان دوست نے مجھے گھر آنے کی دعوت دی تو مجھ سے انکار نہ ہو سکا۔ وہاں پہنچا تو گھر کے لان کو بہت قرینے سے سجایا گیا تھا۔ کیونکہ اتفاق سے میں ایک صحافی بھی ہوں لہٰذا کوئی بھی دلچسپ معلومات ملیں تو انہیں قارئین تک پہنچانا فرض سمجھتا ہوں۔ ایک کونے میں میرے دوست کے کوئی عزیز جو کہ پاکستان کے ایک دفاعی ادارے کی اعلیٰ پوسٹ سے حال ہی میں ریٹائر ہوئے تھے۔
وہ ایک ادھیڑ عمر کے باریش شخص سے گفتگو میں مگن تھے۔ معلومات اکٹھی کرنے پر پتا چلا کہ موصوف طالبان کے بارے میں انتہائی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور غالباً کسی زمانے میں افغانستان میں جہاد بھی فرما چکے ہیں۔ میں فوراً ”بن بلائے مہمان“ کی طرح ان کے پاس کھڑا ہو گیا۔

(جاری ہے)

اب بات کہاں سے شروع ہوئی تھی۔ مجھے اندازہ نہیں مگر ”طالب اور فوجی“ کی یہ منفرد گفتگو حالیہ ”مذاکرات“ تک پہنچتی تو گفتگو نے انتہائی دلچسپ رخ اختیار کر لیا۔

سابق فوجی افسر نے مولانا صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بندوق کے زور پر اپنے مطالبات اور اپنی خواہشات کو پورے پاکستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر مولانا صاحب نے بغیر کسی وقفے کے جو کچھ بولا وہ یہ تھا کہ ”کم از کم“ آپ تو یہ بات نہ کریں کہ بندوق کی نوک پر اپنی خواہشات مسلط کرنا برا عمل ہے۔ اس ملک پر آپ ہی کے ساتھیوں نے چار مرتبہ مارشل لاء نافذ کیا۔
کیا ان آمروں کے ہاتھ میں بندوق کی بجائے پھولوں کے گلدستے تھے؟ ان آمروں میں سے کم از کم دو آمروں کو تو آپ نے بھی اپنی سروس کے دوران سلوٹ ضرور مارا ہو گا۔ فوجی افسر کا سرخ و سفید چہرہ مولانا صاحب کی بات سن کر مزید سرخ ہو گیا اور پھٹی آنکھوں سے حیرت و غصہ عیاں تھا۔ ایک لمحے توقف کے بعد فوجی اہلکار بولے کہ ایک غلط چیز کو دلیل بنا کر دوسری غلط چیز کو درست ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بات درست ہے کہ ان صاحبان نے آئین کو پامال کیا۔ مگر اب وقت بدل چکا ہے۔ دنیا تبدیل ہو چکی ہے۔ اسی اعتبار سے پاکستان بھی بدل رہا ہے۔ ہمیں اب آگے چلنا ہے۔ آپ کے نظریات پرانے ہو چکے ہیں۔ اب جمہوریت ہی ملک کی اصل تقدیر ہے۔ اس میں ترقی ہے۔ اس وقت نہ میڈیا آزاد تھا نہ ہی عدلیہ اب یہ دونوں نا صرف آزاد ہیں بلکہ خاصے طاقتور بھی ہیں۔ اب فوج کا مزاج بھی بدل چکا ہے۔
فوج بھی اب تنقید برداشت کرنے لگی ہے۔ کیونکہ جموریت کی پروان کے لیے ضروری ہے اگر آپ ماضی کی بات کرتے ہیں تو ماضی آپ کا بھی کچھ شاندار نہیں رہا۔ آپ کے چاہنے والوں نے افغانستان پر حکومت کی مگر اپنی حکومت کو کامیاب نہیں کر سکے۔ اپنے دور حکومت میں طالبان نے عوام کی بہتری کے لیے کون سے کارنامے سر انجام دئیے؟ اکیسویں صدی میں بھی افغانستان پتھر کے زمانے میں جی رہا تھا۔
آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی اس دور میں واپس چلا جائے؟ پاکستانی عوام اب باشعور ہیں وہ ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستانی عوام کسی طور پر بھی یہ قبول نہیں کریں گے کہ کوئی انہیں بم دھماکوں سے ڈرا کر یرغمال بنا لے۔
مولانا صاحب نے فوراً کہا واہ جی واہ! کیا ڈرانے اور یرغمال بنانے کا حق صرف آپ کو ہے؟ 18 کروڑ عوام اور تقریباً سات لاکھ فوج جتنی محبت پاکستان سے کرتے ہیں اتنی ہی ہم بھی کرتے ہیں۔
آپ ماضی کی بات کرتے ہیں تو سنیں۔ امریکہ میں ہوئے 9/11 سے پہلے تک کبھی پاکستانی حکومت یا فوج کو پاکستان کے مغربی بارڈر کی سکیورٹی کا کوئی مسئلہ ہوا؟ ہم جہادی اس کی حفاظت اپنی جان سے زیادہ کرتے تھے۔ جب 1947ء میں پاکستان آزاد ہوا اور کشمیر کی ملکیت کا تنازعہ کھڑا ہوا تب اس وقت ہم نے ہی قربانیاں دے کر پاکستان کو آزاد کشمیر، گلگت بلتستان آزاد کروا دیا۔
جناب! ہم نے پاکستان کا رقبہ بڑھایا مگر آپ لوگوں نے اپنے دور حکومت میں تو آدھا پاکستان ہی کھو دیا۔ روس کے خلاف قربانیاں بھی ہمارے بزرگوں نے دیں گمر ہمیں بدلے میں کیا ملا؟ ہمارے بچے یتیم ہوئے۔ تو ہمیں اور انہیں لاوارث چھوڑ دیا گیا۔ آپ لوگ ریٹائر ہوتے ہیں تو ڈیفنس میں کوٹھیاں اور پلاٹ ملتے ہیں اور ہم دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے رہے۔
آپ خود بتائیے کیا محض اسی وجہ سے آپ ریٹائرمنٹ کے بعد کئی مربع زمین پنشن تمام خاندان کے لیے فری میڈیکل سمیت لا تعداد مراعات کے لیے خود کو مستحق سمجھتے ہیں کہ آپ سرحدوں کی نگرانی اور حفاظت کرتے ہیں اور وقت آنے پر جان بھی قربان کر سکتے ہیں؟ تو کیا ہم مسلح نہیں؟ کیا ہم پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کئی سالوں تک نہیں کرتے رہے؟ جب ہم کشمیر اور افغانستان میں لڑتے تھے اور جانیں قربان کرتے تھے۔
تب آپ اپنے پرتعیش دفتروں میں آرام فرماتے تھے۔ پھر آپ کے لیے مراعات اور ہمارے لیے گالی اور گولی کیوں؟ فوجی افسر نے قدرے سرد لہجے میں کہا کہ آپ یہ مت بھولئے کہ آپ کو ہم نے ہی بنایا تھا۔ ہم نے ہی آپ کو جدید اسلحہ دیا۔ آپ کی ٹریننگ کی۔ آج جو آپ اور آپ کے نامور جہادی لیڈران لاکھوں میں کھیلتے ہیں وہ ہمارے ہی مرہون منت ہیں۔ اگر ہم ان کا ہاتھ نہ پکڑتے تو آج یہ لوگ اپنے محلے کی مسجد کے پیش امام ہی ہوتے۔
ہماری مدد کے بغیر آپ کے بزرگ نہ روس کو شکست دے سکتے تھے اور نہ ہی آگ کے چاہنے والے 1965ء میں دو تہائی افغانستان پر قابض ہو سکتے تھے اسی طرح آپ کو یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے آپ کو جہاد پر جانے کے لیے کبھی مجبور نہیں کیا تھا۔ آپ نے جہاد فی سبیل اللہ کی بنیاد پر کیا۔ آپ تنخواہ دار نہیں تھے۔ جب آپ جہاد پر جا رہے تھے تو آپ کو معلم تھا کہ آپ کو بدلے میں کیا ملنا ہے۔
ہم آپ کو سپورٹ ضرور کرتے رہے۔ مگر ہم نے آپ سے کوئی وعدہ ہرگز نہیں کیا تھا۔ آپ نے 9/11 کے بعد خود غلطی کی۔ آپ اگر اس وقت اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر دیتے تو نہ آج آپ پریشان ہوتے نہ ہم۔ اس بات پر مولانا صاحب نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا کہ جناب آپ کیسے اتنے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اسامہ اس وقت افغانستان میں تھا؟ بمطابق ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ آپ کو تو 2011ء میں معلوم نہیں تھا کہ اسامہ بن لادن کہاں ہے؟ اب پاکستان میں سے کسی شخص کو افغان طالبان امریکہ کے حوالے کس طرح کر سکتے تھے؟
”آپ بے وجہ الزام تراشی بند کریں“ سابق فوجی افسر نے قدرے سخت لہجے میں کہا۔
اگر آپ کوا پنی طاقت اور عوامی پذیرائی کا اتنا ہی زعم ہے تو انتخابات میں حصہ لیں۔ اکثریت حاصل کریں اور اپنی حکومت قائم کریں۔ ہم اس کے بعد خود آپ کے نظریے کو پروموٹ کرنے میں آپ کی مدد کریں گے۔ جس طرح موجودہ وزیراعظم کا ساتھ دے رہے ہیں۔ مولانا صاحب پانی کا گلاس کا ختم کرنے کے بعد بولے۔ جس طرح آپ نے پہلے اسی وزیراعظم کو دو تہائی اکثریت کے باوجود گرفتار کر لیا تھا؟ سابق فوجی اہلکار نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آخر یہ بات آپ کیوں نہیں سمجھ رہے اب حالات بھی تو بدل گئے ہیں۔
موجودہ وزیراعظم تو وہی ہیں مگر 1999ء نہیں بلکہ 2013 ہے۔ آپ بھی ووٹ کی طاقت سے آئیں ہم آپ کو ویلکم کریں گے۔
اس پر مولانا صاحب بولے کہ یہ بھی خوب ہے کہ جب آپ کو جمہوری نمائندہ سے اختلاف ہو تو آپ ان کی حکومت کو چلتا کریں اور جمہوریت پر شب خون ماریں اور نظریہ ضرورت کو جمہوری نظریے پر فوقیت دے دیں اور جب طالبان آپ کی جمہوریت کو غلط کہیں تو آپ جمہوریت کے سب سے بڑے وکیل اور سرپرست بن جائیں۔
یہ آپ کس کو دھوکہ دے رہے ہیں ہمیں یا عوام کو؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ کبھی پس پردہ اور کبھی سامنے رہ کر آپ نے ہی اس ملک کو چلایا ہے؟ سیاست دان اور سول بیورو کریسی کا پاکستان میں کردار ہر دور میں محض کٹھ پتلی سا ہی رہا ہے۔ اگر کسی جمہوری حکومت نے آپ کی مداخلت کو محدود کرنے کی کوشش کی تو سیاستدان کبھی پھانسی پر کبھی جیل میں اور کبھی ملک بدر کر دیے جاتے رہے۔
جب ہم نے تاریخ میں پہلی دفعہ آپ کو بزور بازو چلینج کیا تو آپ جواباً امن پسنند اور جمہوریت کے حمایتی بن گئے۔ اس پر سابق فوجی افسر نے کہا کہ آپ کی اس غیر جمہوری رویے کو آج کی دنیا کبھی تسلیم نہیں کرے گی۔ جواباً مولانا صاحب بولے کہ اگر دنیا اتنی ہی جمہوریت پسند ہے تو مصر میں جو کچھ ہوا اس کو دنیا نے کیوں تسلیم کر لیا؟ تو دنیا ہمیں کیوں قبول نہیں کرے گی؟
اس پر سابق فوجی افسر نے کہا کہ آپ کو فنڈنگ ہمارے دشمن ممالک سے ہوتی ہے۔
آپ لوگ ملک دشمن عناصر سے پیسہ لے کر کیسے محبت وطن ہو سکتے ہیں؟ اس پر مولانا صاحب بولے کہ بیرونی امداد کی عادت بھی آپ نے ہی ہمیں ڈالی تھی۔ آپ بس یہ بتائیں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جو پیسہ ملا وہ کون کھا گیا؟ اس کے ساتھ ہی قدرے سہمے ہوئے چہرے کے ساتھ میزبان جو یہ مکالمہ سن رہے تھے اچانک بولے ”کھانے سے یاد آیا کہ کھانے کا وقت ہو چکا ہے چلیں سب مل جل کر کھاتے ہیں“ اور ساتھ ہی کئی قہقہے گونج اٹھے……

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider