Episode 39 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 39 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

دیمک!
ڈرون حملوں سے متعلق 27 اکتوبر کو شائع ہوئے کالم میں میرے تجزیے پر شدید تنقید کی گئی۔ مگر 30 اکتوبر 2013ء کو ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثارصاحب نے سینیٹ میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر مستند سرکاری اعداد و شمال انتہائی دبنگ انداز میں پیش کیا۔ جس سے میری بات سچ ثابت ہو گئی۔ وزیر داخلہ کے مطابق ڈرون حملوں میں 30 اکتوبر 2013ء تک تقریباً 2160 دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں اور ان ”سفاک“ ڈرون حملوں کا شکار ہونے والے معصوم شہریوں کی تعداد 67 ہے۔
ویلڈن چوہدری نثار! ہمیشہ سچ کا ہی بول بالا ہوتا ہے۔ حقیقی اعداد و شمار منظر عام پر لے کر آنے پر نواز شریف حکومت خاص کر چوہدری نثار صاحب لائق تحسین ہیں۔ مگر ہمارے وزیر داخلہ صرف یہ بتانا بھول گئے کہ ان ڈرون حملوں میں 2160 دہشت گردوں کی ہلاکت اور 67 معصوم شہریوں کی شہادت کے علاوہ ہماری سکیورٹی فورسز کا بھی ایک جوان شہید نہیں ہوا۔

(جاری ہے)

نہ ہی ہمارے قومی خزانے سے ایک بھی روپیا اس کارروائی پر خرچ ہوا۔

باقی رہ جاتی ہے بات پاکستان کی خودمختاری کی۔ اگر یہ ڈرون حملے پاکستان حکومت کی اجازت کے بغیر ہو رہے ہیں تو یہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہیں اور انہیں فوراً بند ہونا چاہیے۔ دوسری صورت میں اگر یہ حملے حکومت پاکستان کی مرضی سے ہو رہے ہیں اور ان حملوں میں پاکستان کے خلاف برسرپیکار دہشت گرد ہلاک ہو رہے ہیں تو ان حملوں کو غیر ملکی امداد کے طور پر قبول کر لینا چاہیے۔
ایک مکتبہ فکر کے مطابق تو اگر آج کی پاکستان حکومت نے ابھی تک امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت نہیں دی تو فوراً وقتی طور پر اجازت دے دینی چاہیے۔ تاوقتیکہ ہم یہ ٹیکنالوجی خود حاصل نہیں کر لیتے۔
دوسری طرف اکثر ڈرون کے مخالف اس منطق کو بنیاد بنا کر ڈرون کی مخالفت کرتے ہیں کہ اگر دہشت گرد پاکستان کے کسی اور کونے مثلاً کراچی یا لاہور وغیرہ میں چھپے ہوں تو وہاں بھی ڈرون حملہ کیوں نہیں کیا جا سکتا ہے ان نادان دوستوں کو وزیرستان اور دیگر فاٹا کے علاقہ جات کے مخصوص مشکل جغرافیے کو فوجی آپریشن کے تناظر میں جانچنے کی ضرورت ہے۔
شمالی وزیرستان سمیت پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اکثر دہشت گردوں کی پناہ گاہیں انتہائی ناہموار اور پہاڑی مقامات پر ہیں۔ اگر پاکستانی حکومت وہاں زمینی کارروائی کرتی ہے تو دہشت گردوں کو گھات لگا کر حملے کرنے کے مواقع میسر ہوں گے۔ جس سے ہماری سکیورٹی فورسز کا شدید جانی نقصان ہو سکتا ہے۔ اس جغرافیائی خصوصیت کی وجہ سے شدت پسندوں کی سب سے زیادہ تعداد فاٹا کے علاقے میں موجود ہے۔
غور کیجئے کہ امریکہ اپنے شدید مخالف ممالک ایران اور شمالی کوریا پر ڈرون حملے کیوں نہیں کرتا؟ دراصل ان ممالک میں کسی دہشت گرد تنظیم کا ”بیس کیمپ“ نہیں ہے۔ جہاں سے امریکہ اور دیگر ممالک کے خلاف کارروائیاں ہوتی ہوں۔ جب ہمارے وزیراعظم نے حال ہی میں صدر اوباما سے ملاقات کے بعد کہا کہ ہمیں سب سے پہلے اپنا گھر درست کرنا چاہیے تو شاید ان کا اشارہ اسی طرف تھا۔
ہمارے چند دانشور اور سیاسی لیڈر حضرات کی رائے میں اگر بھارت کے ساتھ مذاکرات ہو سکتے ہیں تو طالبان کے ساتھ کیوں نہیں ہو سکتے؟ ادھر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ بھارت ایک ریاست ہے جسے پاکستان بطور ریاست تسلیم کر چکا ہے۔ مگر طالبان کے وجود کا بین الاقوامی یا ملکی سطح پر کوئی قانونی جواز موجود نہیں ہے۔ پھر وہ کیسے ”سٹیک ہولڈر“ کا درجہ حاصل کر سکتے ہیں؟ آئین پاکستان سے روگردانی کرنے والا کوئی بھی شخص جو کہ پاکستان میں رہتا ہے ہر حال میں قابل سزا مجر م ہے۔
عوام یہ بھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر کوئی نہتا شخص یا گروہ قانون کو ہاتھ میں لیتا ہے تو اسے قانون کی گرفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر جب یہی شخص یا گروہ طالبان کی طرح مسلح ہو کر آئین پاکستان سے انکاری ہو جائے تو کیا انہیں ”سٹیک ہولڈر“ بنا کر مذاکرات کی میز پر براری کی بنیادوں پر بٹھا لینا چاہیے؟
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ایک خاص مکتبہ فکر کے افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
جن کے پاس بے بہا پیسہ، اسلحہ اور کافی اثرو رسوخ تو ہے مگر یہ لوگ پاکستان میں اکثریت قطعاً نہیں ہیں۔ عددی اکثریت نہ رکھنے کے باعث انہیں اس بات کا ادراک بھی ہے کہ جمہوری طریقے سے اقتدار کا حصول ان کے لیے ناممکن ہے۔ لہٰذا یہ لوگ اپنے مخصوص مذہبی خیالات کی پاکستان میں اجارہ داری قائم کرنے کی نیت سے اپنے ہم خیال مسلح شدت پسندوں کو سپورٹ کرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے۔
ان افراد کے ہمارے معاشرے میں گھلے ملے ہونے کے باعث ہمارے عوام انتہائی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ کیا یہ منافقت نہیں کہ دہشت گرد ہمارے اولیاء کرام مثلاً عبداللہ شاہ غازی، رحمان بابا، داتا صاحب (لاہور)، بری امام اور سخی سرور وغیرہ کے درباروں پر دہشت گردی کی کارروائیاں بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی ملک میں شریعت کا نفاذ بھی چاہتے ہیں؟ اس مکتبہ فکر کے افراد کے سامنے اگر طالبان یا دوسرے شدت پسندوں کو ملک دشمن کہا جائے تو ان کے چہرے غصے سے سرخ ہو جاتے ہیں۔
یہ لوگ بڑے بڑے جلسوں میں بھارت کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں اور پاک فوج کے جوانوں کو مجاہدین کا درجہ بھی دیتے ہیں۔ مگر دوسری طرف ان شدت پسندوں کی بھی حمایت کرتے ہیں جو ان فوجی جوانوں کے سر قلم کر دیتے ہیں۔
عجیب تیری سیاست عجیب تیرا نظام
یزید سے بھی مراسم حسین کو بھی سلام
مزید اگر اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے یہ کہا جائے کہ دہشت گردی سے معصوم لوگ ہلاک ہو رہے ہیں اور حکومت وقت کا قیمتی سرمایہ تباہ ہو رہا ہے تو ان لوگوں کی طرف سے جواباً یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ سب ڈرون حملوں کا رد عمل ہے۔
ایک دلیل اور بھی دی جاتی ہے کہ ان ڈرون حملوں میں اکثر پختون ہلاک ہوتے ہیں اور قبائلی روایت کے مطابق بدلہ لینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اعداد شمار کے مطابق ڈرون حملوں میں ہلاک ہوئے افراد سے زیادہ بلکہ کئی گنا زیادہ معصوم شہری دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہلاک ہوتے ہیں۔ تو یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ڈرون کے رد عمل کے نتیجے میں دہشت گردی ہوتی ہے تو کیا ان معصوم نہتے ہزاروں پختون نوجوانوں نے بھی اپنا ”بدلہ“ لینے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے دہشت گردوں کے کیمپوں پر کتنے خود کش حملے کیے ہیں؟ یہ معصوم مگر ایسا نہیں کر سکتے؟ کیونکہ ”بدلہ“ لینے کے لیے ان کے پاس نہ پر تشدد اور زہریلا نظریہ ہے اور نہ ہی بیرونی فنڈنگ ان لوگوں کو ڈرون حملوں ملکی خود مختاری پر حملہ تو دکھائی دیتا ہے مگر فاٹا میں موجود عرب ازبک، تاجک اور چیچن دہشت گردوں کی موجودگی ان کی غیرت پر گراں کیوں نہیں گزرتی؟ ان شدت پسندوں کے حامیوں کی مثال دیمک جیسی ہے۔
جو اپنی سازشوں اور معصوم عوام کے دلوں میں ڈالے گئے وسوسوں کے ذریعے قومی یکجہتی کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کرتے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف ہمارے بہادر سیاسی قائدین یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہم دس سال تک دہشت گردوں سے جنگ نہیں جیت سکے تو اب کیسے جیت جائیں گے؟ تو کیا یہ حضرات کشمیر اور فلسطین کے حریت پسندوں کو بھی یہی کہیں گے؟ کہ دس سال سے بھی کہیں زیادہ عرصے کی جدوجہد کے نتیجے میں آزادی نہیں حاصل کر سکے تو اب کیا کر لیں گے؟ دراصل بات وقت یا قربانیوں کی نہیں بلکہ اصولوں کی ہوتی ہے اور پاکستان میں یہ اصول آئین پاکستان طے کرتا ہے۔
جسے پاکستان کی دو تہائی اکثریت نے تشکیل دیا ہے۔ اس آئین کو نہ ماننے والا ملک دشمن ہے۔ خیبر پختونخواہ کے عوام کی اکثریت مذاکرات کی حامی محض اس وجہ سے ہے کیونکہ یہ اپنی حکومت اور دفاعی اداروں کی طرف سے مسلسل عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ورنہ یہ شدت پسندوں کے نظریات سے کسی طور بھی متفق نہیں۔ اس مایوسی اور بزدلی کے ذمہ دار ہمارے سیاسی قائدین کے بزدلانہ حوصلہ شکن اور ”شرمناک“ بیانا۔ ہمارے سیاسی قائدین کو چاہیے کہ وہ بہادری سے کام لیتے ہوئے اپنے عوام اور مسلح اداروں کا حوصلہ بڑھائیں اور یہ کہنا بند کریں کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہم کبھی نہیں جیت سکتے۔ ایک آواز ہو کر یہ کیوں نہیں کہتے کہ یہ مٹھی بھر ملک دشمن پاکستان سے لڑ کر کبھی نہیں جیت سکتے؟

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider