Episode 40 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 40 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

حکیم اللہ، فضل اللہ
جب اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کر کے میاں صاحب کو اٹک قلعے میں قید کروا دیا تھا تب میاں صاحب کو سعودی عرب میں ہی پناہ ملی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ میاں نواز شریف ابھی تک سعودی حکومت کے اس احسان کو فراموش نہیں کر پائے ہوں گے۔ افغان جہاد کے دنوں سے لے کر 1996ء میں کابل پر قبضے تک عرب ممالک طالبان پر سفارتی، مالی اور اخلاقی سطح پر احسانات کی بارش کرتے رہے۔
1996ء میں کابل پر قبضے کی صورت میں قیام پذیر ہونے والی طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہو یا پھر حال ہی میں طالبان کا قطر میں دفتر کھولنا ہو، عرب ممالک طالبان کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہے ہیں۔ تو اس طرح میاں صاحب اور طالبان رہنماؤں پر عرب حکمرانوں کے بہت سے احسانات ہیں۔

(جاری ہے)

شاید اسی مماثلت کے باعث پیپلز پارٹی دور میں تحریک طالبان پاکستان نے میاں صاحب کو جنگ بندی کے لیے ضامن کے طور پر نامزد کیا تھا۔

شاید اسی وجہ سے دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب میں طالبان کی طرف سے دہشت گردی کی کوئی بڑی کارروائی سامنے نہیں آئی۔ تیسری دفعہ میاں صاحب کے وزیراعظم بننے کے بعد پنجاب کافی حد تک پرسکون ہے۔ لیکن یہ امن طوفان سے پہلے کی خاموشی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت اسلامی ایک طرف اور ن لیگ اور اس کی اتحادی جمعیت علمائے اسلام (ف) طالبان کے بارے میں نرم گوشے کے اظہار کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ن لیگ مذاکرات کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کرواتی ہے تو خان صاحب طالبان کا پاکستان میں دفتر کھولنے کا مطالبہ کر دیتے ہیں۔ ایک طرف ن لیگ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کی بات کرتی ہے تو دوسری طرف خان صاحب نیٹو سپلائی روکنے کا نعرہ لگا دیتے ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن حکیم اللہ محسود کو ”شہید“ قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف ن لیگ کے اتحادی مولانا فضل الرحمن امریکہ کے ہاتھوں مارے جانے والے ”جانور“ کو بھی شہید ہونے کا مرتبہ دینے کا اعلان کر دیتے ہیں۔
ابھی اس کی بازگشت ختم نہ ہوئی تھی کہ سید منور حسن طالبان سے نبردآزما پاک افواج کے جوانوں کی شہادت پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ گویا کہ وفاقی اور خیبر پختونخواہ کی حکومت کے درمیان ”سیاسی دنگل“ میں اصولوں کو یکسر روندا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں تو خیبر پختونخواہ حکومت اپنے آپ کو طالبان کا زیادہ ہمدرد ثابت کر کے دہشت گردی کا اژدھا اپنے گلے سے نکال کر وفاقی حکومت کے گلے سے ڈالنا چاہ رہی ہے۔
دوسری طرف وفاقی حکومت بھی اس فارمولے پر عمل پیرا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ اس ”سیاسی دنگل“ نے مذاکرات کیے بغیر وفاقی حکومت کے لیے شدت پسندوں کے خلاف حتمی اور فیصلہ کن فوجی آپریشن بہت مشکل بنا دیا گیا ہے۔
ہر ذی شعور پاکستانی کو پتہ ہے کہ حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ حکومت پاکستان کبھی ماورائے آئین معاہدہ نہیں کر سکتی اور طالبان کسی صورت پاکستان کے آئین کو اپنے اوپر نافذ نہیں کر سکیں گے۔
یوں کہہ لیجئے کہ مذاکرات کی ابتداء کے دن سے طالبان کے خاتمے کی الٹی گنتی شروع ہو جائے گی۔ پی پی حکومت میں فوجی آپریشن کی اپوزیشن کی جانب سے مخالفت کی بناء پر طالبان کو سانس لینے اور پھر سے منظم ہونے کا موقع مل گیا۔ مگر موجودہ حکومت کے فوجی آپریشن کی مخالفت کون کرے گا،؟ شاید اسی وجہ سے طالبان کے کچھ عناصر یہ بھانپ چکے تھے کہ طالبان کی جانب سے مذاکرات نہ شروع کرنے یا پھر مذاکرات کے شروع ہونے کے بعد ناکام ہو جانے کی صورت میں حکومت پاکستان کی طرف سے ان کے خلاف فیصلہ کن فوجی آپریشن ہو گا۔
شاید اسی لیے حکیم اللہ محسود کے کسی قریبی ساتھی نے ”چپ“ ان کی گاڑی پر چسپاں کر دی۔ ورنہ خود سوچئے کہ کسی جاسوس کی کیا مجال کی ایک سفاک طالبان کمانڈر کے اتنے قریب پہنچ کر ”نشاندہی کی چپ“ اس کی گاڑی پر چسپاں کر دے؟ فرض کیجئے کہ ”چپ“ لگانے کی ضرورت نہ بھی پیش آئی ہو تو حکیم اللہ محسود کی نقل و حرکت کی انتہائی درست خبر سوائے اس کے قریب ترین ساتھیوں کے اور بھلا کس کو ہو سکتی ہے؟ طالبان نے دراصل حکیم اللہ محسود کی ”بلی چڑھا کر“ خود کو انتہائی مشکل صورتحال سے بچا لیا۔
اگر طالبان مذاکرات میں تاخیری حربے استعمال کرتے تو حکومت پر فوجی آپریشن کے بارے میں دباؤ بہت بڑھ جاتا۔ دوسری طرف اگر مذاکرات ایک بار شروع ہو جاتے تو طالبان کے پاس دہشت گردی کا جواز ختم ہو جاتا (جو ان کے مقاصد کے عین برخلاف تھا)۔ مزید یہ کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں فوجی آپریشن ناگزیر ہو جاتا۔ چنانچہ طالبان کے لیے بہترین صورت حال یہی تھی کہ آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے ساتھ ہی آپریشن کے نہ ہو سکنے کی ذمہ داری حکومت پاکستان کے گلے ڈال دی جائے۔
چنانچہ وہی کچھ ہوا جو طالبان کی منشاء تھی۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ حکیم اللہ محسود کو تو کسی بھی وقت مارا جا سکتا تھا۔ تو آخر امریکہ کی طرف اسی وقت کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ یہ سوال انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ امریکہ کے سفیر نے (بقول چوہدری نثار) کہا تھا کہ امریکہ کسی بھی صورت میں حکیم اللہ محسود کو نشاندہی کے بعد نہیں چھوڑے گا۔
تو اصل میں سوال یہ بنتا ہے کہ چوہدری نثار اور امریکی سفیر کے مابین کی گئی حساس ترین نوعیت کی گفتگو (جو آل پارٹیز کانفرنس کے بعد بننے والی مذاکرات کی فضاء کے بارے میں امریکی پالیسی بیان کی حیثیت رکھتی تھی) آخر طالبان تک کیسے پہنچ گئی؟ اس طرح اس وقت کی تازہ ترین ڈرون حملوں سے متعلق امریکی پالیسی سے آگاہی نے طالبان کے مخصوص دھڑے کو حکیم اللہ محسود کی مخبری کے ذریعے ہلاکت اور مذاکرات کے عمل کو سبو تاژ کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔
اس چال سے طالبان ناراض بچے کی طرح ”میں نہیں کھیلتا“ کی رٹ لگاتے ہوئے مذاکراتی عمل سے بحفاظت دور ہو گئے۔ نہ صرف دور ہوئے ہیں بلکہ مذاکرات (جو ابھی شروع بھی نہیں ہوئے تھے) کے خاتمے کی ذمہ داری پاکستان اور امریکہ کے سر تھونپ دی ہے۔ پاکستان حکومت کی اب صورت حال ایسی ہے جیسے ”کھایا پیا کچھ نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے“۔
دوسری طرف خان صاحب بالکل صحیح سیاسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔
وفاقی حکومت سے بڑھ کر امریکہ کے خلاف اور مذاکرات کے حق میں پوزیشن لینے سے انہیں دو فائدے ہوئے ہیں۔ اولاً وہ طالبان کے عتاب سے اپنے صوبے خیبر پختونخواہ کو بچا سکیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو طالبان کو پاکستانی عوام کے سامنے بے نقاب کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو فوجی آپریشن کا جواز مہیا کر دیں گے۔ اسی لیے اگر کے پی کے نے اپنے آپ کو طالبان کے غضب سے محفوظ رکھنا ہے تو انہیں نیٹو سپلائی بند کرنی ہی پڑے گی۔
ویسے بھی وفاق کے ہاتھوں حکومت کا خاتمہ طالبان کے ہاتھوں صوبائی حکومت کی رٹ کے ختم ہونے کی تذلیل سے بہتر ہے۔ دوسرے لفظوں میں طالبان کے ہاتھوں شہید ہونے سے وفاقی حکومت کے ہاتھوں سیاسی شہید ہونا بہتر فیصلہ ہے۔ اب وفاقی حکومت اس دوراہے پر کھڑی ہے کہ ایک طرف کسی بھی طرح فوری مذاکرات کی بحالی اور ان مذاکرات کے منطقی انجام (ناکامی) کے بعد فوجی آپریشن شروع کر دیں۔
اس طرح ان کی سیاسی ساکھ اور عوامی پذیرائی کو کم ترین نقصان کا اندیشہ ہے۔ مگر ساتھ ہی مذاکرات میں دیر اور نیٹو سپلائی کی معطلی کی صورت میں بین الاقوامی پابندیاں اور بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس دوراہے کا دوسرا راستہ فوری فوجی آپریشن ہے۔ مگر اس پر شدید سیاسی نقصان اور منفی عوامی رد عمل کا اندیشہ بھی ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے مولوی فضل اللہ کو امیر بنانے کے پیچھے پاک افواج اور سیاسی قیادت کے درمیان درڑا ڈالنا مقصود نظر آتا ہے جس شخص نے میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کو شہید کیا۔
ان کی شہادت کی کربناک ویڈیو بنائی او جنرل اشفاق پرویز کیانی کو قتل کی دھمکی دی۔ اس شخص کے ساتھ مذاکرات کے لیے پاک فوج کی حمایت حاصل کرنا انتہائی مشکل مرحلہ ہو گا۔ ابھی تک جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے ساتھیوں کی قبر کی مٹی بھی نہیں خشک ہوئی اور حکومت پاکستان ان کے قاتل کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کے لیے ”ترلے“ کرنے لگی ہے۔ اس سے قطع نظر حکومت جو بھی فیصلہ کرتی ہے مگر میری نظر میں طالبان سے مذاکرات کی ابتداء عوامی سیاسی، قانونی اور انتظامی نیز ہر لحاظ سے طالبان کے پاکستان میں سے قطعی خاتمے کی ابتداء ہو گی۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider