Episode 41 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 41 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

طالبان کا اصل ہدف
کہا جاتا ہے کہ 1996ء میں کابل پر قبضہ کرنے والے طالبان کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے ٹریننگ اور اسلحہ سمیت ہر قسم کی سپورٹ فراہم کی تھی۔ اس کرم فرمائی کے پیچھے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے مشہور زمانہ "Strategic Depth" کا جنگی نظریہ کار فرما تھا۔ اس نظریے کے مطابق کسی بھی ممکنہ بھارتی جارحیت کے نتیجے میں پاکستانی افواج مغرب میں افغانستان کی طرف چلی جائیں گی اور افغانستان کو اپنا بیس کیمپ بنا کر ہندوستان کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گی۔
اس طرح بھارت پاکستانی افواج کے افغانستان تک پھیلے ہونے کی وجہ سے ان پر مکمل قابو نہیں پا سکے گا اور ہندوستانی افواج کی بے انتہا طویل سپلائی چین پاکستانی افواج کے حملوں کا باآسانی نشانہ بن کر ٹوٹ جائے گی۔

(جاری ہے)

اس طرح پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے پڑوسی ملک افغانستان کو اپنی کالونی بنانے کا خواب دیکھ لیا۔ سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل اس تھیوری کے زبردست حامی سمجھے جاتے ہیں۔

پہلی مرتبہ اس جنگی نظریے کا اظہار 25 اگست 1988ء کو ایک اہم میٹنگ میں ہوا۔ بعد ازاں اس نظریے کو جنگی مشق ”ضرب مومن“ کا حصہ بھی بنایا گیا۔ قارئین کرام! اہم بات یہ ہے کہ 14 اپریل 1988ء میں افغانستان اور پاکستان کے مابین ”جنیوا معاہدہ“ ہوا جس کی رو سے یہ طے پایا کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور کسی بھی قسم کی در اندازی سے باز رہیں گے۔
اسی معاہدہ کے تحت ہی تمام روسی افواج 1989ء تک افغانستان سے نکل گئیں۔ اصولاً تو پاکستان کو اس معاہدہ کی پاسداری کرتے ہوئے پڑوسی ملک میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند ہو جانا چاہیے تھا مگر عمل اس کے برخلاف ہوا۔ جس کی تہہ میں "Steategic Depth" کا نظریہ تھا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پڑوسی ملک افغانستان کو اپنی جنگی حکمت عملی کا حصہ بناتے ہوئے اس کی خود مختاری کو نظر انداز کر دیا گیا۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ نے یہ نہ سوچا کہ پڑوسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداں لت کا رد عمل مستقبل میں پاکستان کے لیے کتنا مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ فروری 1989ء تک تمام روسی فوجوں کے جانے کے بعد افغانستان میں 99 فیصد سے بھی زائد مسلمان ہیں مگر اس کے باوجود مسلم ممالک (بشمول پاکستان) سے مذہبی تنظیمیں نام نہاد جہاد کی غرض سے لوگوں کو افغانستان بھیجتی رہیں۔
1994ء میں مدارس کے طلباء نے افغانستان پر قبضہ کے لیے مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ طالبان کے مرکزی سربراہ ملا عمر پاکستانی مدرسے کے طالبعلم رہ چکے ہیں۔ اسی لڑائی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، عرب ممالک اور القاعدہ نے بھرپور اخلاقی، مالی اور عسکری مدد فراہم کی۔ ان عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بہت سی مذہبی عسکری اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ہمارے ملک کے مذہبی ٹھیکہ دار کی امریکہ اور روس کیخلاف افغانستان میں جنگ کو اس بنیاد پر سینہ ٹھوک کر جہاد کہنے کے پیچھے دلیل امریکا اور روس ”کافر“ ممالک ہونا اور ان کا افغانستان پر قبضہ ’؟”غیر ملکی جارحیت“ گردانتے ہیں۔ تو غور طلب بات یہ ہے کہ فروری 1989 (جب روس افغانستان سے جا چکا تھا) سے لے کر 1996ء (طالبان کے کابل پر قبضے) تک ان پاکستانی اور غیر ملکی عناصر نے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کی امداد کر کے کیا جہاد کیا؟ یا پھر محض فتنہ پیدا کیا؟ اس وقت طالبان سے نبردآزما نہ تو روسی تھے اور نہ ہی امریکی بلکہ مسلمان افغان تھے جنہیں طالبان نے ”غیر ملکی“ قوتوں کی مدد سے اپنی سفاکی کا نشانہ بنایا۔
ان طالبان کی حامی قوتوں اور امریکہ یا روس میں کیا فرق ہوا؟ جو افغانستان میں گھس کر معصوم افغانیوں کے قتال میں برابر کے شریک ہو گئے؟ کیا طالبان مخالف افغان کمانڈر احمد شاہ مسعود روسی تھا یا امریکی؟ وہ عیسائی تھا یا یہودی؟ دراصل وہ روس کیخلاف جہاد کا عظیم ہیرو تھا جو آخری دم تک طالبان سے نبرد آزما رہا۔ تو آج ان مذہبی رہنماؤں سے یہ سوال کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ جو پاکستانی ہمسایہ مسلم ملک افغانستان میں (1989ء میں روس کے جانے کے بعد) گھس کر افغان مسلم بھائیوں کو قتل کرتے رہے کیا وہ شہید کہلانے کے لائق ہیں؟ کیا 1996ء میں طالبان بیرونی امداد کے بغیر آدھے سے زیادہ افغانستان پر اتنی آسانی کے ساتھ قابض ہو سکتے تھے؟ سچ تو یہ ہے کہ بالکل نہیں۔
اگر طالبان بیرونی طاقتوں سے مل کر افغان شمالی اتحاد کو شکست دے کر کابل پر قابض ہو جائیں تو اسے انقلاب یا جہاد کہا جاتا ہے اور دوسری طرف طالبان مخالف شمالی اتحاد کے افغانی بیرونی مدد (نیٹو) کی مدد سے کابل پر قابض ہو جائیں تو وہ غیر قانونی قبضہ کیوں سمجھا جاتا ہے؟ طالبان کا طاقت کے ذریعے افغانستان پر قبضہ جائز تھا تو شمالی اتحاد کا یا موجودہ افغان حکومت کا قبضہ کیوں جائز نہیں؟ طالبان کا غیر ملکیوں کے ہمراہ افغان حکومت اور اس کے غیر ملکی اتحادیوں کے ساتھ لڑنا جہاد اور دوسری طرف افغان حکومت اور اس کے ساتھیوں (جس میں پاکستان، ترکی سمیت اور بھی مسلم ممالک شامل ہیں) کا طالبان (ان کے غیر ملکی ساتھیوں جن میں تاجک، ازبک، عرب اور دیگر شامل ہیں) کیخلاف نبردآزما ہونے کو کس بنیاد پر ناجائز قرار دیا جاتا ہے؟
1996ء میں پاکستان کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے بھی کابل پر قابض طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا۔
عرب بادشاہت کے لیے بہرحال جمہوریت کی نسبت مذہب کے نام پر قائم کردہ آمریت کو اپنے ملک میں رائج بادشاہت سے مماثلت کی بنا پر پسند کرنا ایک منطقی فعل تھا مگر پاکستان جیسے جمہوری ملک کا طالبان حکومت کو تسلیم کرنا یقینا غیر فطری تھا۔ القاعدہ نے طالبان حکومت کو اسامہ بن لادن کے توسط سے معاونت فراہم کی۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، عرب ممالک، القاعدہ اور طالبان کا یہ گھٹ جوڑ بہت کم عرصے میں کابل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ 1996ء میں جو طالبان ہماری مدد سے مسلم افغان بھائیوں کا بڑے پیمانے پر قتال کر کے افغانستان پر قابض ہوئے آج وہی طالبان ہمارے سر قلم کر رہے ہیں۔ کیا یہ مکافات عمل نہیں؟ دور حاضر میں پاکستان کے حالات شدید دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس پر مختلف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا جو بھی موقف ہو مگر میں اسے ہماری طرف سے افغانستان میں مداخلت کا شاخسانہ ہی تصور کر تا ہوں (جو ہم نے افغان جہاد ختم ہونے کے بعد طالبان حکومت کے قیام کے لیے افغانستان میں کی۔
) افغانستان میں قائم حامد کرزئی کی حکومت نے اب جوابی طور پر تحریک طالبان پاکستان کی حمایت اور مدد بالکل اسی انداز میں کرنا شروع کر دی ہے جس طرح ہم افغانستان میں افغان طالبان کی مدد ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ اس کی واضح مثال افغانستان سے حال ہی میں تحریک طالبان پاکستان کے لطیف محسود نامی شدت پسند کی گرفتاری ہے۔ لطیف محسود کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حکیم اللہ محسود کا دست راست تھا اور حکیم اللہ محسود کے انتہائی قابل اعتماد ساتھیوں میں سے تھا۔
کچھ پاکستانی حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ لطیف محسود افغان انٹیلی جنس کے ساتھ مل کر پاکستان کیخلاف کاروائی کی منصوبہ بندی کر رہا تھا اور امریکہ نے اسے گرفتار کر کے سارا منصوبہ مٹی میں ملا دیا دوسری جانب 10 نومبر کو نصیرالدین حقانی (جو افغان طالبان کے اہم کمانڈر تصور کیے جاتے تھے) دن دیہاڑے اسلام آباد کے مضافات میں مبینہ طور پر افغان انٹیلی جنس کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے۔
گویا یہ پاکستان کے لیے واضح پیغام ہو سکتا ہے کہ اگر ہم افغان طالبان کی افغان حکومت کیخلاف مدد کرینگے تو اسی طرح افغان حکومت تحریک طالبان پاکستان کی ہمارے خلاف مدد کرے گی۔ افسوس کی بات ہے ماضی کی غلطیوں سے نہ سیکھتے ہوئے شاید ہماری اسٹیبلشمنٹ کے طاقت ور حلقے ابھی بھی 2014 میں امریکی انخلاء کے بعد ماضی کی طرح ایک بار پھر طالبان کے ذریعے افغانستان میں مداخلت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جواباً افغان حکومت تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے پاکستان میں تباہی اور بربادی کا بازار گرم کر سکتی ہے۔ نتیجتاً دونوں ہمسایہ مسلم ممالک ایک دوسرے کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں اور فائدہ صرف دونوں اطراف کے طالبان کو ہو گا۔ در اصل افغان اور پاکستان طالبان ایک ہی ہیں اور ان کا اصل ہدف پاکستان کے فاٹا کے علاقہ جات اور ان سے متصل افغانستان کے چند صوبوں کو ملا کر ایک نئی طالبان ریاست کا قیام ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت مشترکہ طور پر "Strategic Depth" کے بیرونی دراندازی کے نظریہ کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں اور افغان حکومت کے ساتھ منصوبہ سفارتی تعلقات کا نیا دور ڈیورنڈ لائن کی جگہ مستقل سرحد پر باہمی اتفاق رائے، اس بارڈر پر آہنی باڑ اور دونوں ممالک کی طرف سے در اندازی کے مکمل خاتمے کے لیے اقدامات کی صورت میں شروع کرنا چاہیے بصورت دیگر ایک بار پھر سکوت ڈھاکہ یا اس سے بھی بھیانک صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider