Episode 42 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 42 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

غیر مقبول حقائق
ذرائع ابلاغ میں بدقسمتی سے وہی لکھا اور بولا جاتا ہے جو ہمارے عوام کی اکثریت پڑھنا اور سننا چاہتی ہے۔ دوسری طرف ہمارے عوام وہی کچھ پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں جو ان کے پہلے سے قائم شدہ عقائد اور خیالات سے مطابقت رکھتا ہو۔ ان کے لیے دلیل منطق اور حقائق کو ثانوی درجہ حاصل ہوتا ہے اور جذبات اولین درجہ رکھتے ہیں۔ بہت کم لکھنے والے ایسے ہیں جو مقبول عام عوامی تاثر کے خلاف لکھنے کی ہمت کرتے ہیں۔
ان چند خطبی قسم کے قلم کاروں میں سے کچھ محض تنقیہ نفس (Catharsis) کر رہے ہوتے ہیں تو کچھ عوامی رائے تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھنے کے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔ یا پھر شاید منیر نیازی کی سوچ کے مطابق ظالم لوگوں کے شہر میں خود مرنے کا شوق لیے گھومنا جیسا خط بھی ایک وجہ ہے۔

(جاری ہے)

بہر حال ان ”غیر مقبول“ لکھاریوں میں ایک قدر مشترک ہونا لازمی ہے کہ یہ لکھنے والے معاشی طور پر محض انہی تحریروں پر انحصار نہ کرتے ہو ورنہ وہ اس کمرشل دور میں بھوکے مر جائیں گے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ایسے لکھاریوں پر ”لفافہ لکھاری“ ہونے کا الزام آئے روز لگتا رہتا ہے۔ دوسری طرف متوازن دلائل اور حقائق پر مبنی تحریریں پڑھ کر اپنے دائمی نظریات کو تبدیل کرنے والے حضرات ہمارے معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ میرے نزدیک ہر لکھاری کو مقبولیت اور دیگر وجوہات سے قطع نظر حق اور سچ کو اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق تحریر کرنا چاہیے۔
صحافت ایک متبرک پیشہ ہے۔ اسی لیے اگر پیسہ کمانا ہی مقصود ہو تو انسان کو (اگر ممکن ہو تو) پیشہ تبدیل کر لینا چاہیے۔
اسی طرح کسی پر تنقید کرنا اور اس شخص یا قومی ادارے کے ماضی پر ”بے لاگ“ تبصرے کرنا آج کل ہماری پوری قوم کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ کبھی ماضی کی عدالتوں پر یہ کہہ کر انگلیاں اٹھاتے ہیں کہ انہوں نے بھٹو کا ماورائے آئین قتل کیا۔
کبھی انہی اعلیٰ عدالتوں کو اس بات کا طعنہ دیتے ہیں کہ ایو ب خان سے جنرل مشرف تک ہر آمر کے غیر آئینی اقدام کو ہماری عدلیہ نے قانونی تحفظ فراہم کیا۔ کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کود پڑنے پر سابق آرمی چیف پرویز مشرف کی بزدلی پر انگلیاں اٹھتی ہیں تو کبھی افغان جہاد کے دنوں میں مخصوص مذہبی گروہ کی معاونت پر قومی اداروں کو قصور وار ٹھہرا کر تمام جملہ مسائل کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو کوستی ہے اور عوام ہر نئی حکومت پر گزشتہ حکومت کو فوقیت دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی مثالیں ہیں مگر بتانا محض یہ مقصود ہے کہ ہم ماضی میں کھوئی ہوئی ایک ایسی قوم بنتے جا رہے ہیں جو اپنے حال کو برباد کر کے اپنے مستقبل کو قبل از وقت ہی سیاہ کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ انگریزی کہاوت کا قریب ترین مفہوم ہے کہ ماضی اس خواب کی طرح ہوتا ہے جسے بار بار دیکھا تو جا سکتا ہے مگر اسے چھوا نہیں جا سکتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے ماضی کو ایک طرف رکھنا ہو گا۔ ادھر کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں ہے چاہے کوئی کاروباری شخص ہو یا ملازم پیشہ فرد ہماری جمہوری پارلیمنٹ ہو یا کوئی بھی سرکاری یا پرائیویٹ ادارہ سب کے سب ہی اپنی اپنی جگہ پر حسب توفیق بددیانتی کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔
اگر ماضی بھول کر محض موجودہ حالات پر توجہ مبذول کریں تو ہماری افواج اس وقت حالت جنگ میں ہے۔
آزاد میڈیا کے آ جانے کے بعد جتنی تنقید اب طاقت سے طاقتور اداروں پر کی جاتی ہے اس کی مثال ماضی میں ملنا نا ممکن ہے مگر مثبت پہلو یہ ہے کہ پاک فوج میں اب جمہوریت دوستی پروان چڑھ رہی ہے۔ تنقید کو برداشت کیا جانے لگا ہے۔ ہمارے دفاعی اداروں کو چاہیے کہ فوری طور پر ایسے اقدامات کیے جائیں کہ اگر واقعی کچھ شدت پسند عناصر ان کی صفوں میں موجود ہیں تو انہیں نکال باہر کیا جانا چاہیے۔
حالیہ جنرل ثناء اللہ نیازی کی شہادت بھی یہ سوال کھڑا کرتی ہے کہ دہشت گردوں کو اتنے سینئر فوجی افسر کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات کیسے حاصل ہوئیں؟ اور یہاں تک کہ طالبان نے شہادت کے لمحات کی ویڈیو بھی بنا لی!
اسی طرح ہمارے سیاستدانوں خصوصاً حکمران جماعت کے لیڈران کو بھی اب جرأتمندانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔ میں آج تک یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انتخابات میں انتہائی سادہ اکثریت حاصل کرنے کے باوجود بھی آل پارٹیز کانفرنس کروانے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر بنیادی حکومتی امور ہی باہمی مشاورت کی بنیاد پر سر انجام دینے ہیں تو ملک میں انتخابات کے ذریعے عوام کی رائے معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جمہوریت تو نام ہی اختلاف رائے کا ہے۔
اگر اختلاف رائے نہ ہو تو ملک میں اتنی سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ حکومت کو اپنے مینڈیٹ کے بل بوتے پر اپنے تمام فیصلے خود اپنی ہی بنیاد پر کرنے چاہیں۔
ہمارے بہت سے سیاستدان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ شدت پسند عناصر جو ملک میں آگ اور خون کی ہولی کھیلتے ہیں اور آئین پاکستان کو پامال کرتے ہیں دراصل ہمارے ہی لوگ ہیں۔ کچھ سیاستدان خصوصاً عمران خان انہیں کبھی ”ناراض بھائی“ تو کبھی ”بھٹکے ہوئے“ لوگ کہتے ہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ ملک بھر کی جیلوں میں جو ڈاکو، چور اور قاتل اپنی سزائیں کاٹ رہے ہیں وہ امریکی ہیں یا اسرائیلی؟ وہ بھی تو ہمارے ہی لوگ ہیں تو کیوں نہ ان کے ساتھ بھی مذاکرات کر لیے جائیں؟ دراصل آئین و قانون کو جو توڑے وہ نہ اپنا ہے نہ پرایا بلکہ صرف سزا کا مستحق مجرم ہے۔ مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جاتی ہے۔ ان سے مذاکرات نہیں کیے جاتے۔
ہماری مذہبی جماعتوں کو اب رواداری کا درس دینا ہو گا۔ انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ کوئی بھی خاص مسلک باقی مسالک پر طاقت کے بل بوتے پر حکمرانی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کئی مسالک کے مسلمانوں کا گھر ہے۔ کسی بھی مسلک کو برا بھلا کہنا انتہائی غیر مناسب بات ہے۔ کیا اقبال نے اسی لیے پاکستان کا خواب دیکھا تھا؟ کیا قائداعظم نے اسلام کے نام پر یہ ملک اسی لیے بنایا تھا۔
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے لہٰذا ادھر انتخابات کے ذریعے ہی حکومت کا حصول ممکن اور محفوظ ترین راستہ ہے۔ مذہبی معاملات کی تشریح کرتے ہوئے جنم لینے والے اختلافات کا حل محض باہمی اتفاق رائے ہی سے ممکن ہے۔ اس اتفاق رائے کو عملی جامہ صرف جمہوری عمل سے ہی پہنایا جا سکتا ہے۔ اگر ایک مسلک طاقت کے بل بوتے پر اپنی برتری قائم کرنے کی کوشش کرے گا تو دوسرے مسالک بھی اگر اسی روش پر چل پڑتے ہیں تو پاکستان خدانخواستہ قائم نہ رہ سکے گا۔
دس محرم کو راولپنڈی میں ہونے والے اندوہناک واقعے کا مسلک کے تعلق اسے بالاتر ہو کر تجزیہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق جو بھی اور جتنا بھی مجرم ہو اسے قانون کے مطابق قرار واقعی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ ہمارے علماء عام عوام کو بلا امتیاز اس واقعے کے ہر مجرم سے بریت کا اظہار اور ہر مظلوم کو اپنا بھائی تصور کرنا چاہیے۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ مجرمان جن کو تمام تحقیقات اور قانونی کارروائی کے بعد سزائے موت محترم عدالتوں سے دی جا چکی ہے۔ ان کی سزاؤں پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جا رہا؟ اگر حکومت ان گھناؤنے مجرموں کو تختہ دار پر لٹکا چکی ہوتی تو قانون کے خوف کی وجہ سے سانحہ راولپنڈی جیسا واقعہ کبھی پیش نہ آتا۔ وہ حکومت جو ان مستند گھناؤنے مجرموں کو تختہ دار پر نہیں لٹکا پا رہی وہ راولپنڈی جیسے دلخراش واقعات کو دہرائے جانے سے کیسے روک پائے گی؟

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider