Episode 43 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 43 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

ایران میں نیا انقلاب
میں نے اپنے 11 ستمبر 2013 کو شائع ہوئے ایک کالم بعنوان ”شام میں امریکہ اور ایران کے مشترکہ مفادات“ میں اس بات کا اشارہ کیا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں خصوصاً امریکہ کو اپنے باہمی مفادات کے پیش نظر تعلقات کا ایک نیا دور شروع کر دینا چاہیے۔ اس کالم پر مجھے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ چند سینئر تجزیہ نگاروں سمیت بہت سے لوگوں نے میرے کالم کو ”دیوانے کے خواب“ سے تشبیہہ دی۔
پر وقت نے ایک بار پھر میرے تجزیے اور مشاہدے کو سو فیصد درست ثابت کر دیا۔ پوری دنیا حیرت کی تصویر بنی رہ گئی جب چھ عالمی طاقتوں (بشمول امریکہ) اور ایران کے مابین 24 نومبر کو ایک عبوری معاہدہ طے پا گیا۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین کے لیے یہ بات واقعی باعث حیرت ہے کہ ایران جو امریکہ کو شیطان اعظم قرار دیتا تھا ان دونوں ملکوں کے درمیان اس قسم کا معاہدہ کیسے طے پا گیا؟
تاریخی پیرائے میں دیکھا جائے تو امریکی خفیہ ایجنسی CIA نے شاہ ایران کے ساتھ مل کر انقلاب ایران سے پہلے ایرانی عوام پر بہت مظالم ڈھائے۔

(جاری ہے)

انقلاب ایران کے بعد جب ایران کے انقلابی نوجوانوں نے تہران میں واقع امیرکے سفارت خانے پر قبضہ کر لیا تو اس وقت کے امریکی صدر نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ایران کے تقریباً بارہ ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے۔ پھر ایران پر پابندیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ ایران، عراق جنگ کے دوران ہی امریکہ نے عالمی برادری میں موجود اپنے اثرو رسوخ کی بنیاد پر 1984ء میں ایران پر کسی بھی قسم کا جنگی سازو سامان درآمد کرنے پر پابندی عائد کر دی۔
اکتوبر 1987ء میں امریکی صدر ریگن نے ایران کے ساتھ ہر قسم کی تجارت اور افرادی قوت پر مزید سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ سابق ایرانی صدر ہاشمی رفنجانی کے دور حکومت کے دوران ایران پر پابندیاں مزید سخت ہوئیں۔ سابق صدر بل کلنٹن نے پہلے مارچ 1995 میں ایک ایگزیکٹیکو آرڈر کے ذریعے ایران، امریکہ تیل کی تجارت پر پابندی عائد کی اور بعد ازاں مئی 1995ء میں ایک اور ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ایران کے ساتھ ہر سطح کی تجارت پر پابندی عائد ہوئی۔
2005ء میں احمدی نژاد نے صدر بننے کے بعد ایران کے ایٹمی پروگرام پر تیز رفتاری سے کام کرنا شروع کیا تو پہلے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے 2005 میں ایران پر کڑی پابندیاں عائد کیں اور ان تمام افراد اور کمپنیوں کے اکاؤنٹس منجمد کر دیے جو کسی نہ کسی طور پر ایران کے ایٹمی پروگرام سے منسلک تھے۔ 2006ء میں ایران پر ”حزب اللہ‘ کو 5 کروڑ امریکی ڈالر ’دبینک صادرات“ کے ذریعے مالی معاونت کا الزام لگا تو اس ایرانی بینک پر امریکہ میں کسی بھی قسم کی کاروباری سرگرمی کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
اس کے ساتھ امریکہ نے دیگر یورپی ممالک کو بھی ایران کے کسی بھی قومی بینک سے لین دین نہ کرنے پر آمادہ کر لیا۔
سابق ایرانی صدر احمدی نژاد کے اسرائیلی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے بیان نے ایران کے امیج کوبین الاقوامی سطح پر شدید نقصان پہنچایا۔ احمدی نژاد کا ”نڈر انقلابی ہیرو“ کی طرح کا امیج مسلم دنیا بالخصوص پاکستان میں بہت مقبول ہوا۔
پر موصوف کی جذباتی اور زمینی حقائق کے متصادم خارجہ پالیسیوں نے ایران کو نا صرف بین الاقوامی تنہائی کا شکار کیا بلکہ ملک کو معاشی دیوالیے کے قریب تر پہنچا دیا۔ ایران کی سابقہ خارجہ پاولیسی کے لیے ”شام“ کی جنگ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔ ”شامی“ باغیوں کو اور القاعدہ کو بہت سے امیر عرب ممالک سپورٹ کر رہے ہیں۔ جبکہ شام حکومت کو تنہا ایران سپورٹ کر رہا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ ایران کو معاشی تباہی اور شام میں شکست سے بچنے کے لیے مغرب کے ساتھ حالیہ جوہری معاہدے کے سلسلے میں بہت حد تک لچک کا مظاہرہ کرنا پڑا۔
غور کریں تو یہ تمام پابندیاں جو ماضی میں ایران پر مغرب کی طرف سے عائد کی گئیں کسی ناکردہ گناہ کی سزا معلوم ہوتی ہیں۔ اسی طرح ایران میں پائی جانے والی امریکہ کے لیے شدید نفرت کی ایک وجہ یہی غیر منطقی امریکی اقدامات بھی تھے۔
دراصل اسرائیل اور سعودی عرب کی لابی ہمیشہ سے امریکہ کے کردار کے حوالے سے ایران کے خلاف نا صرف متحرک بلکہ موثر بھی رہی ہے۔ سعودیہ کو ایرانی انقلاب خود سعودیہ میں ”امپورٹ“ ہو جانے کا خطرہ لاحق تھا۔ جبکہ اسرائیل فلسطین کے تناظر میں ایران کی جانب سے اپنے خلاف شدید مخالفت سے خائف رہا۔ گویا اسرائیل سعودیہ عرب اور دیگر عرب ممالک نے مغرب بالخصوص امریکہ کی ایرا ن کے بارے میں خارجہ پالیسی کو ہمیشہ یرغمال بنائے رکھا۔
مزید یہ کہ امریکی میڈیا نے ہمیشہ سے ہی ایران کو ”دشمن اول“ کے طور پر ہی پیش کیا۔ نتیجتاً امریکی عوام ایران سے ہمیشہ متنفر ہی رہے۔ دوسری طرف ایران میں ایران کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ (ملا گروپ) نے امریکہ اور اسرائیل کے نفرت پر مبنی پروپیگنڈے کی بھرپور سیاست کی۔ اس مذہبی قدامت پسند ٹولے نے امریکہ اور اسرائیل سے نفرت کو اپنی سیاست کی بنیاد بنائے رکھا۔
گویا ایرانی عوام کے جذبات اور ان کی ”مسلمانیت“ کو سیڑھی بنا کر ایوان اقتدار پر براجمان رہے۔ اس مغرب کے ساتھ اس عدم تعاون اور امریکہ اسرائیل نفرت کے نظریات نے ایران کے عوام کو بھوک ننگ اور افلاس کے سوا کچھ نہ دیا۔ ایران کے سابقہ صدر احمدی نژاد کا تعلق اسی قدامت پسند مذہبی ٹولے سے تھا۔
24 نومبر 2013ء کا دن ایرانی عوام کے لیے خوش خبری سے کم نہیں تھا۔
ایران اور 6 دیگر عالمی طاقتوں کے مابین 5 روزہ بات چیت کے بعد آخر کار یہ طے پایا گیا کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کر دے گا اور معائنہ کارواں کو روزانہ کی بنیاد پر اپنے جوہری پروگرام کے معائنے کی اجازت بھی فراہم کرے گا۔ اس معاہدے کی اور بھی تفصیلات ہیں مگر خاص بات یہ ہے کہ ایران کو فوری طور پر 7 ارب ڈالر ملیں گے اور ساتھ ہی ایران پر 6 ماہ تک مزید کوئی پابندی بھی عائد نہیں کی جائے گی۔
اب ایران تیل کی درآمد سے مزید 2.4 ارب ڈالر زرمبادلہ بھی کما سکتا ہے۔ ایران کو اب ”غیر فوجی“ جہازوں کے پرزے برآمد کرنے کی اجازت بھی مل گئی ہے۔ غور طلب بات ہے کہ شامی حکومت کو اپنی فضائیہ کی وجہ سے باغیوں کے خلاف سبقت حاصل ہے۔ اس طرح شامی فضائیہ ایران کی مدد سے اپنی فضائیہ کو مزید تقویت دے سکتی ہے۔ دوسری طرف مغربی ممالک بشمول امریکہ نے اپنے قریب ترین اتحادی اسرائیل اور سعودی عرب کی شدید مخالفت کے باوجود اور بین الاقوامی اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ میں امن کی خاطر ایران سے ہاتھ ملا لیا۔
بین الاقوامی طاقتیں اب یہ جان چکی ہیں کہ مذہبی دہشت گردی اور بالخصوص القاعدہ جسے ناسور کے خاتمے کے لیے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا لازمی ہے۔
اب معاشی بحالی کی وجہ سے ایران مشرقی وسطیٰ میں سب سے طاقتور ملک بن کر ابھر سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ شام میں بشارالاسد حکومت کی فتح کے امکانات بھی روشن ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اور زاویے سے دیکھیں تو شام خانہ جنگی کا فائدہ صرف اسرائیل کو ہوا ہے۔
اس خط میں اسرائیل کو سب سے بڑا خطرہ ایران، شام اور لبنان میں موجود حزب اللہ (جس نے 2006ء میں اسرائیل کو پہلی بار شکست دی) کی طرف سے تھا۔ شام جنگ کی وجہ سے شام تقریباً تباہ ہو چکا۔ ایران اپنا ایٹمی پروگرام منجمد کر چکا ہے۔ حزب اللہ کے جنگجو اسرائیلی بارڈر پر اسرائیل کی بجائے شام میں القاعدہ سے نبردآزما ہیں اور مسلسل کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایران کی صورت میں پاکستان کے متبادل کے طور پر ایک بہترین اتحادی مل سکتا ہے۔ افغانستان میں موجود امریکی افواج اور سازو سامان کا ایران کے ذریعے سے خطے سے 2014ء میں انخلاء کا امکان اب رد نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر تو ایک طرف اپنے خطے میں بھی تنہائی کا شکار ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان کے عوام کو ایران سے سبق سیکھتے ہوئے بین الاقوامی تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کی طرح ہمیں ”ملوں“ کی جذباتی تقاریر اور ناقبل عمل اقدامات پسند نظریات سے جان چھڑانی ہو گی۔ جو ہمیں مسلسل مذہبی انتہا پسندی اور معاشی زبوں حالی کی طرف دھکیلے چلے جا رہے ہیں۔
بقول اقبال
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider