Episode 45 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 45 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

تبدیلی اٹل ہے
تبدیلی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ انسان پیدائش سے موت تک مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے۔ یہ تبدیلی جسمانی اور روحانی دونوں طریقوں سے رونما ہوتی ہے۔ خود سوچیے! آج سے دس سال قبل جو چیزیں آپ کو پسند تھیں آج وہ پسند نہیں ہیں اسی طرح جو چیزیں آج آپ کو پسند ہیں دس سال بعد وہ آپ کی پسند نہیں رہیں گی۔ اسی طرح انسانیت بھی اپنی ابتداء سے آج تک مسلسل ارتقاء کے عمل سے گزر رہی ہے۔
ہم نہ تبدیلی کو روک سکتے ہیں اور نہ ہی تبدیل ہوئے بغیر ترقی کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ اگر ہم خود تبدیلی لانے کی سکت نہیں رکھتے تو حالات کے ساتھ خود ہی تبدیل ہو جانا بہتر حکمت عملی ہے۔ کیونکہ تبدیلی بہر حال قدرت کی فطرت ہے۔ کوئی اسے اچھا سمجھے یا برا مگر تبدیلی آ کر ہی رہتی ہے۔

(جاری ہے)

آج کے دور میں قدامت پسندی کی بہترین مثال طالبان کا طرز عمل اور طرز زندگی ہے۔
مگر یہ بھی تبدیل ہوئے۔ ہمیں وہ وقت تو یاد ہو گا جب بیت اللہ محسود انٹرویو دیا کرتے تھے تو کیمرہ ان کی پشت پر ہوا کرتا تھا۔ مگر ان کے بعد آنے والے حکیم اللہ محسود کی درجنوں کے حساب سے تصاویر اور ویڈو ریکارڈنگز انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ سوات سے اپنے کیرئیر کی ابتداء کرنے والے موجودہ طالبان کمانڈر فضل اللہ بھی کیمرے کے سامنے آنے کو خلاف شریعت گردانتے تھے مگر حال ہی میں ان کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں وہ جمہوریت اور پاک فوج کو کھلم کھلا دھمکیاں دے رہے ہیں۔
طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد تو اکثر ہی کیمروں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں میرے ایک قریبی دوست (جو مشہور سیاستدان بھی ہیں) نے ٹی وی پر آنے کو غیر شرعی قرار دے دیا۔ موصوف کی اس بات نے برصغیر کے اس زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کر دی۔ جب ٹرین پر سفر کرنے، ریڈیو سننے اور تصویر بنوانے کے خلاف فتوے جاری کیے گئے۔ یہ بھی کہا گیا کہ جو شخص ان جدید سہولیات سے استفادہ کرے گا اس کا نکاح باطل ہو جائے گا۔
بے شک آج یہ باتیں مضحکہ خیز لگتی ہیں۔ مگر اس دور میں یہ کافی سنجیدہ ہوا کرتی تھیں۔ چند سال پہلے تک شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر خواتین کی واضح تصاویر کی بجائے ان کے انگوٹھے کے نشان اور نقاب والی تصاویر بھی زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ جبکہ اب سعودی عرب تک نے خواتین حاجیوں کے پاسپورٹ پر بغیر نقاب کے تصویر کی شرط لازمی قرار دی ہوئی ہے۔ غرض تبدیلی آتی ہے چاہے پاسپورٹ پر خواتین کی بغیر حجاب کے تصاویر ہوں یا طالبان کی پریس کانفرنس۔
انفرادی سطح پر انسانوں اور مجموعی طور پر ممالک کی ترقی میں اٹھارویں اور انیسویں صدی کے درمیان آئے صنعتی انقلاب نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ یہ انقلاب زراعت، مواصلات اور دریافت کے میدان میں بہت بڑی تبدیلی کا باعث بنا۔ صنعتی انقلاب کا فائدہ سب سے پہلے برطانیہ نے اٹھایا اور بعد ازاں یہ دیگر یورپی ممالک سے ہوتا ہوا امریکہ تک جا پہنچا۔
جب یورپ اور امریکہ میں صنعتی ترقی ہوئی اور لوگوں کا معیار زندگی بلند ہونا شروع ہوا۔ تب ہی دیگر سماجی رویوں میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ صنعتی انقلاب کے فوراً بعد ہی پورے یورپ اور امریکہ میں تقریباً متوازی طورپر خواتین کے حقوق کی بات کی جائے گی۔ سب سے پہلے انہیں ووٹ کا حق دلوانے کی جدوجہد شروع ہوئی اور آخرکار برطانیہ نے پہلے 1918ء میں 30 سال یا اس سے زائد عمر کی خواتین کو حق رائے دہی دیا۔
بعد ازاں 1928ء میں برطانیہ نے قومی شناختی کارڈ کی حامل تمام خواتین کو ووٹ کا حق دے دیا۔ 18 اگست 1928ء کو امریکہ نے خواتین کو ووٹ کا حق دیدیا اور جرمنی اور سویڈن نے بالترتیب 1918ء اور 1921ء میں صنف نازک کو حق رائے دہی کا اختیار سونپ دیا۔
جدید ترقی یافتہ ریاستوں میں خواتین اور مردوں کے حقوق برابر ہیں۔ پرانے وقتوں میں چونکہ روزگار کا حصول مشقت اور طاقت پر منحصر تھا لہٰذا مرد ہی یہ کام کرتے تھے۔
مگر جدید دور میں روزگار طاقت سے زیادہ ذہنی صلاحیتوں پر منحصر ہونے کی وجہ سے اب خواتین بھی ہر فیلڈ میں مردوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں خواتین نے جہاں سیاست، معیشت اور سماجی حوالوں سے اپنی شناخت بنائی وہیں عسکری میدان میں بھی وہ تیزی سے آگے آ رہی ہیں۔ اب جنگیں نہ گھوڑوں پر لڑی جاتی ہیں اور نہ ہی بھاری بھرکم تلواریں ہاتھ میں اٹھانی پڑتی ہیں۔
تلوار کی نسبت کلاشنکوف کے ذریعے لڑنا نہایت آسان ہے۔ اسی طرح خواتین اب جنگی جہاز بھی اڑاتی ہیں۔ مغرب میں خواتین فوجیوں کی تعداد چاہے زیادہ ہو مگر حال ہی میں شام میں گرد (YPG ARMY) کی خواتین فوجیوں نے القاعدہ اور النصرہ فرنٹ جہادیوں کے شدت پسندوں کی جو درگت بنائی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
اسی ”تبدیلی“ کے نتیجے میں پسند کی شادیوں کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔
پرانے وقتوں میں لوگ اپنے قبیلوں اور خاندانوں میں ہی شادیاں کرتے تھے کیونکہ اس سے یک جہتی پیدا ہوتی تھی۔ اگر کسی دوسرے خاندان یا قبیلے میں شادی کی بھی جاتی تو محض اس مقصد کے تحت کہ کسی بھی آفت کی صورت میں یہ دونوں خاندان یا قبیلے مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ مگر جدید ریاست میں عوام کی حفاظت کی ذمہ داری چونکہ خود ریاست کے پاس ہے لہٰذا اب لوگ خاندانوں اور قبیلوں کے تحفظ سے نکل کر اپنی پسند کی بنیاد پر شادیاں کرنے لگے ہیں۔
انسان کی ترجیحات میں ضروریات، خواہشات کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ حفاظت یا سکیورٹی انسان کی ضرورت ہے۔ اب جب ریاست نے جانوں و مال کے تحفظ کی ذمہ داری کو اپنے ذمے لے لیا ہے۔ تو ”پسند“ کی شادی ہی ترجیح بنتی جا رہی ہے۔ اسی لیے جن معاشروں میں ریاست عام شخص کے جان و مال کو زیادہ تحفظ فراہم کرتی ہے وہاں پسند کی شادی کا رجحان بھی زیادہ پایا جاتاہے۔
ہر معاشرے کا ارتقاء ہوتا ہے۔ اس ارتقاء کی ایک سمت ہوتی ہے۔ اپنے عقائد پر آنکھیں بند کر کے ارتقائی عمل سے خود کو دور رکھنے کی کوشش ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جو معاشرے قدامت پسندی کو خیر آباد کہہ کر جدت کی طرف آئے وہ ترقی کر گئے۔ مغرب میں ایک دور تھا جب چرچ اور بادشاہت کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے عوام ترقی نہیں کر پا رہے تھے۔ سائنسدانوں کو جادوگر ہونے کا الزام لگا کر زندہ جلا دیا جاتا تھا۔
بادشاہ اور چرچ (گرجا گھر) کے خلاف بات کرنے والے کو قتل سمیت دیگر شدید سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ چرچ یا بادشاہ کی مخالفت خدا کی مخالفت گردانی جاتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ جمہوریت نے اس گٹھ جوڑ کو توڑا تو مغرب نے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کیں۔ بادشاہت ہمیشہ مذہب کو ڈھال کے طور پر ہی استعمال کرتی ہے۔ ہمارے برادر اسلامی ملکوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
بادشاہوں نے ہر دور میں اپنے حق میں فتوے لیے۔ مذہب کے نام پر کوئی بھی سیاسی اقدام محض اس لیے کیا گیا تاکہ اپنے اقتدار کو طول دیا جا سکے۔
زمانہ قدیم میں جو اجارہ داری مذہب کو حاصل تھی وہ اب قانون کی بالادستی کو حاصل ہو رہی ہے۔ قانون سے مراد جمہوری عمل کے نتیجے میں وجود میں آنے والے قوانین ہیں نہ کہ بادشاہوں کے شاہی فرمان اور نہ چند مخصوص ملاؤں کے تشریح کردہ قوانین۔
آج کے مہذب جمہوری معاشرے میں قانون سازی کے عمل میں جمہوری اتفاق رائے کو سب سے بڑا رتبہ حاصل ہے۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہر آمریت یا مذہبی اور لسانی شدت پسندی کو آئین و قانون نے ہی شکست دی ہے۔ دنیا کے کئی ممتاز لیڈر خود ماہر قانون تھے اور ہیں۔ امریکی صدر ابراہم لنکن سے لے کر باراک اوبامہ اور قائداعظم سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک تمام تاریخ ساز سیاسی قائدین وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ اسی طرح مہاتما گاندھی اور ہر دلعزیز نیکسن مینڈیلا بھی وکیل ہی تھے۔
یاد رکھیے پاکستان کے مستقبل میں قانون دان ہی وہ طبقہ ہے جو پاکستانی معاشرے میں آمریت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے گا اور ملاؤں کی اجارہ داری کو ختم کرے گا۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider