Episode 51 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 51 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

خود اختیاری
شریعت اسلامی کے رو سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی خوشنودی کے لیے دین اسلام کی اشاعت و ترویج، سر بلندی و برتری کے لیے اپنی تمام تر جسمانی، لسانی اور دینی جہاد ”کہلاتا ہے جہاد کی ایک قسم“ جہاد بالقتال ہے۔ اس سے صلاحیتوں اور استعداد کو وقف کرنا مراد میدان جنگ میں کافروں اور دین کے دشمنوں کے خلاف اس وقت صف آرا ہونا ہے جب دشمن سے آپ کی جان، مال یا آپ کے ملک کی سرحدیں خطرے میں ہوں سورة البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور تمہیں اس کا شعور نہیں۔
اب سب سے پہلے تو اس بات کا ادراک ہونا ضروری ہے کہ ”جہاد“ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کیا ہے؟ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو ہمارے ملک میں 80 کی دہائی سے جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں متعدد نظریات منظر عام پر آتے ہیں رہے ہیں۔

(جاری ہے)

افغان جنگ کے دنوں سے ہم ”جہاد“ میں مصروف رہے۔ افغان جنگ کے زمانے اور اس کے کچھ عرصے بعد یعنی ماضی قریب میں بھی اکثر دیواروں پر چند مذہبی تنظیموں کی جانب سے خوب صورت ہینڈ رائیٹنگ کے ساتھ جہاد کے بارے میں مفصل مضامین تحریر ہوا کرتے تھے۔

جن میں خصوصاً نوجوان نسل کو ایک مقبوضہ وادی میں جا کر ”کافر فوج“ کے ساتھ جہاد کرنے کی جانب راغب کرنے کے علاوہ دین و دنیا اور آخرت میں اجر عظیم کی لا تعداد پیش گوئیاں تحریر ہوا کرتی تھیں۔ دیواروں پر تحریر الفاظ تو بدلتے حالات اور وقت کے ساتھ مٹ چکے مگر پوری ایک نسل کے اذہان پر ان کے نشان شاید ابھی بھی باقی ہیں۔
ہمارے ہاں نا صرف جہاد کے بارے میں ”من پسند“ تشریحات کی بھرمار رہی ہے۔
بلکہ ہم نے شریعت کی بھی ”من پسند“ تشریحات فرمائی ہوئی ہیں۔ شریعت کی اپنی تشریح کرنے کے بعد اپنی ذات پر اس کا نفاذ کرنے تک تو بات ٹھیک ہے مگر بزور طاقت دوسروں پر اسے مسلط کرنے کی کوشش بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔ اپنے قعائد اور نظریات پر اپنے گردو نواح کے لوگوں کو قائل کرنا انسان کی بنیادی جبلت کے علاوہ اس کا حق بھی ہے۔ بشرطیکہ یہ عمل پر امن دعوت اور عقلی دلائل تک محدود رہے۔
طاقت کے حامل بلکہ بے پناہ طاقت کے حامل چند افراد یا گروہ اس ضمن میں معصوم لوگوں کی جان لینے کو بھی ”جہاد“ سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی اسلام کے بارے میں تشریح کے مطابق انہیں اپنے عقائد جبراً نافذ کرنے کی شکل میں پھیلانے کے لیے طاقت کے استعمال کی اجازت خود اسلام ہی فراہم کرتا ہے اور وہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرتے ہیں۔
ایک دوسرے کے متکبہ فکر کا خیال یہ بھی ہے کہ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کو اسلام کی سر بلندی اور اشاعت کے لیے طاقت کا استعمال ہی مقصود تھا (یا ہے) تو تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو انسانوں کے روپ میں زمین پر اتارنے کی ضرورت کیا تھی؟ اس مکتبہ فکر کا خیال یہ بھی ہے کہ اگر خداوند کریم ”کن فیکون“ سے پوری دنیا تخلیق کر سکتا ہے تو اپنے احکامات کے مانے جانے کے لیے انسانیت کو روز قیامت تک کا وقت کیوں دیا؟ آخر اتنے انبیاء اور اولیاء کرام کے وجود کی وجہ کیا ہے؟ ان کو مختلف معجزات کیوں عطا فرمائے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی لا محدود طاقت کا ذرا سا جلوہ دکھا کر آدم سے آج ہر انسان کو‘ صراط مستقیم پر چلا سکتا ہے۔
اگر یہ سب ہو سکتا ہے (بے شک اللہ ہر شے پر قادر ہے) تو طاقت کا استعمال وہ بھی نفاذ دین حقیقی کے لیے کس حد تک منشاء باری تعالیٰ کے مطابق ہے؟ کیا قلب وہ جاگیر نہیں جسے طاقت سے کبھی بھی تسخیر نہیں کیا جا سکتا؟ کیا دین حق جسم کو فتح کرنے کا درس دیتا ہے یا قلب کو؟ اسلام تو بلاشبہ دین فطرت ہے۔ اسلام ہر انسان کو مذہبی عقائد کے بارے میں خود اختیاری آزمانے کی آزادی فراہم کرتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا بے شک یہ ہے کہ انسان عقائد کے بارے میں اپنے فیصلوں میں آزاد ہو۔ اگر انسان سے خود اختیاری چھین لی جائے تو نہ وہ اسلام میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی اور مذہب میں۔
قریش اور مسلمانوں میں پہلی جنگ، بدر کے مقام پر لڑی گئی۔ کچھ روایتوں میں آتا ہے کہ اس مدنی دور سے قبل جہاد کا حکم نہیں تھا۔ مگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے غزوہ بدر کی اجازت اسی لیے دی کیونکہ مسلمانوں پر ظلم ہوا تھا۔
سورة الحج میں ارشاد ہوتا ہے کہ ”انہیں جنگ کی اجازت دی گئی اس لیے کہ ان پر ظلم ہوا اور اللہ تبارک و تعالیٰ یقیناً ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے عقیدے سے متعلق خود اختیاری کو سلب کرنا بھی یقینا ظلم ہے اور مسلمانوں کی خود اختیاری کی حفاظت میں اگر کوئی لڑتا ہے تو وہی جہاد کرتا ہے۔ میں جس متکبہ فکر کا ذکر پہلے کر چکا ہوں ان کے نزدیک اسلام کے بارے میں اپنی ذاتی تشریح کو عام عوام پر طاقت کے بل بوتے پر مسلط کرنا دراصل عوام کا حق خود اختیاری غصب کرنے کے مترادف ہے اور جس کا جائز حق سلب ہوتا ہے وہ یقینا مظلوم ہی ہوا کرتا ہے اور ظلم کے بدلے ظالم سے لڑنے کو ہی اسلام کی رو سے جہاد بھی کہا جاتا ہے۔
لہٰذا اس متکبہ فکر کے مطابق ہماری سکیورٹی فورسز اس وقت اپنی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ عوام کے حق خود اختیاری کی بھی حفاظت کر رہے ہیں۔ لہٰذا جہاد ہماری افواج کر رہی ہیں۔ ان کے نزدیک یہی جہاد کرتے ہوئے کراچی میں چوہدری اسلم بھی شہید ہوئے اسی طرح گذشتہ برس کوئٹہ میں ڈی آئی جی آپریشن فیاض احمد سنبل بھی شہید ہوئے۔ چوہدری اسلم کی شہادت تو کل کی بات ہے لیکن شائد لوگ کوئٹہ میں شہید محب اللہ کی نماز جنازہ کے دوران اس خود کش حملہ کو بھول گئے ہیں جس میں فیاض سنبل سمیت چالیس دیگر افسران شہید ہوئے تھے۔
ان افسران نے کالعدم تنظیموں کے خلاف اپنی جان کی پروا کیے بغیر بھرپور آپریشن کیے بل آخر یہ لوگ دہشتگردی کا شکار ہوئے۔
موجودہ دہشتگردی کی لہر کو ایک طرف رکھتے ہوئے پاکستان کی مجموعی امن و امان کی صورت حال کا تجزیہ کریں تو اس بات کا تعین کرنا کسی بھی ذی شعور شخص کے لیے مشکل نہیں کہ پاکستان بہت تیزی سے افغانستان، شام، عراق اور لیبیا جیسی صورت حال کی جانب بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
ایک بات تو واضح ہے کہ شدت پسند اپنے نظریات طاقت کے ذریعے پاکستان کے باشعور عوام پر مسلط نہیں کر سکتے۔ زیادہ سے زیادہ وہ پاکستان کو (خدانخواستہ) ذکر بالا ممالک کی طرح تباہ حال کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کی یہ روش ان کو ایک نہ ایک دن پاکستا ن کے 20 کروڑ عوام اور 6 لاکھ فوج کے مد مقابل لا کھڑا کرے گی۔ اس وقت پاکستانیوں کا یا پاکستان کا جو نقصان ہو گا سو ہو گا مگر وہ شدت پسند ارض پاک سے مٹا دیے جائیں گے۔
نا جانے ان شدت پسندوں کے مذہبی رہنما ان کو شدت پسندی ترک کرنے اور پرامن طریقے سے اپنے عقائد کی ترویج کی جانب مائل کیوں نہیں کرتے؟ آخر انہیں زمینی حقائق اور آنے والے مستقبل کی صورت حال سے آشنا کیوں نہیں کرواتے؟ شدت پسندوں کو اپنے پاکستانی مسلمان بھائیوں کے لیے نہ سہی اپنے آپ اور اپنے عقائد کی حفاظت کے لیے اپنی موجودہ روش کے بارے نظر ثانی کرنی چاہیے۔
جس سے شخص کو دنیا کے تمام دلائل قائل نہ کر پائیں اس کی رہنمائی اس کا اپنا ضمیر اور شعور ہی کر سکتے ہیں۔ بشرطیکہ کہ وہ غور کرے سوچے اور اپنے اندر کی آواز پر کان دھرے بقول اقبال #
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا نہ تن
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider