Episode 52 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 52 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

روحانیت سے عاری معاشرہ
چند دن پہلے رقم الحروف کو ایک روحانی سکالر سے ملنے کا اتفاق ہوا یہ صاحب جامعة الازہر سے فارغ الحتصیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مغربی یونیورسٹی میں تقابلی مذاہب کا مضمون بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی بعید میں کچھ عرصہ مغرب کے مشہور میوزک بینڈ سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ موصوف کا حلیہ کسی بھی روایتی روحانی پیشوا سے بالکل مختلف تھا۔
امریکن راک سٹار کی طرح بڑھی ہوئی زلفیں، کلین شیو چہرہ ساتھ ہی چست جینز اور ٹی شرٹ زیب تن کی ہوئی تھی۔ ہاتھ میں تسبیح اور ماتھے پر محراب ان کے شوق عبادت کی گواہی دے رہے تھے۔ ان دنوں کسی ذاتی کام کے سلسلے میں پاکستان آئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ وقت گزارنے سے مادی چیزوں کی وقعت کم ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔

(جاری ہے)

دلچسپ بات یہ ہے کہ روحانی شخصیت کی موجودگی میں آپ کا مذہب یا عقیدہ کوئی بھی ہو وہ زیادہ واضح اور بھلا محسوس ہونے لگتا ہے۔

یہ بات میں نے جرمنی سے آئے روحانی سکالر کے ساتھ گزرے وقت میں محسوس کی۔
گفتگو کے دوران روحانی سکالر صاحب گویا ہوئے کہ دنیا کی تمام مادیت پرست درسگاہوں میں جو کچھ سکھایا جاتا ہے وہ دراصل دو چیزوں کے گرد گھومتا ہے، عمل اور رد عمل۔ ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس عمل کا کیا رد عمل یا اثر ہو گا۔ میں نے حیران ہو کر کہا کہ محترم ذرا وضاحت کیجئے گا۔
انہوں نے کہا ہمارے تدریسی نظام میں دو اہم حصے ہیں، ایک قدرتی سائنس کا علم اور دوسرا سماجی یا معاشرتی علم۔ مثال کے طور پر آپ قدرتی سائنس کے علم کی شاخ علم طبیعات (فزکس) لیں جس میں کہا جاتا ہے کہ جب پوٹینشیل ڈیفرنس ہو گا تب ہی کرنٹ تار یا کسی چیز سے بہے گا۔ ہم نے اس علم کا عمل سیکھ لیا کہ ہم کیا کریں گے جس کے نتیجے میں کرنٹ دوڑے گا۔ روحانی سکالر صاحب کچھ دیر کے لیے رکے پھر گویا ہوئے کہ انسان اس پر اپنا کنٹرول چاہتا ہے۔
انہوں نے دوسرے علم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ تمام سماجی علوم کو چھا کر دیکھ لیں۔ ان سب میں انسان کے کسی عمل کے جواب میں فطری رد عمل کو دریافت کرنے کے گرد تحقیقات کی جاتی ہے۔ درحقیقت انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ ہر چیز کو تابع کرناچاہتا ہے تاکہ حالات کو اپنی مرضی سے ڈھال سکے۔ وہ لوہے، پانی، انرجی حتیٰ کہ انسانی ذہن کو بھی کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ جدید دنیا کے اندر تعلیم، کنٹرول اور اسی کنٹرول کرنے کے طریقوں پر تحقیق کے گرد گھومتی ہے۔ آج کی جدید علمی درسگاہوں میں انسان کے ذہن کو محض یہی چیزیں سکھائی جا رہی ہیں۔ سکالر صاحب ٹھنڈا سانس لے کر بولے کہ افسوس کن پہلو یہ ہے کہ جس ذہن کو یہ سب کچھ سکھایا جاتا ہے اس پر خود بالکل توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ اس ذہن کو ہمہ قسم کے علوم سکھا کر انتہائی طاقتور تو بنا دیا جاتا ہے لیکن اس طاقتور ذہن کو لگا ڈالنے کے لیے روحانی تعلیم نہیں دی جاتی ہے۔
نتیجتاً وہ منہ زور اور شتر بے مہار کی طرح معاشرے میں فساد اور انتشار کا باعث بنتا ہے۔ یاد رکھنا کہ روحانیت سے عاری معاشرہ کبھی پرسکون نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے ہر مذہب میں روحانیت رچی بسی ہوتی ہے۔ جب مذہب اور روحانیت کو جُدا کر دیا جائے تو مذہب کی تاثیر ختم ہو جاتی ہے۔ روحانی سکالر نے ایک چبھتا ہوا سوال مجھ سے کیا کہ آپ نے 23 سال دنیاوی تعلیم حاصل کی پر روحانیت کی تعلیم کے لے کتنا وقت وقف کیا؟ راقم ان کے سوال پر لاجواب ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ آج کا انسان اسی لیے اضطراب کا شکار ہے کہ وہ اپنی روح پر توجہ نہیں دیتا۔ انسان اس لیے علم سیکھتا ہے کہ وہ ماحول کوا پنے تابع کر سکے تاکہ زندگی پر آسائش ہو جائے۔ ہم اپنے ذہنی سکون اور جسمانی آسائش کے لیے یہ سب علم اکٹھا کرتے ہیں لیکن ہم ان تمام علوم کو اکٹھا کرنے کے باوجود سکون نہیں حاصل کر پاتے اور ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔
مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ قبر تک ہمارے ان ذہنی عارضوں کی تشخیص نہیں ہو پاتی بالخصوص پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں جہاں جسمانی مریضوں سے ہمدردی کی جاتی ہے پر ذہنی مریضوں کو معاشرتی اچھوت بنا دیا جاتا ہے۔ ہمارے اس قسم کے منفی رویے ہمارے معاشرے کی زبوں حالی کا باعث ہیں۔ میں نے جھنجھلا کر کہا تو پھر اس کی وجہ کیا ہے۔
 روحانی سکالر صاحب نے کہا کہ اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ آج ہم نے اپنی روح پر سے توجہ ہٹا لی ہے کیونکہ جب تک ہم روح پر توجہ نہیں دیں گے تب تک تمام علوم کی افادیت بے اثر ہے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا کہ روح کی تربیت کیا ہے۔ روح کی تربیت جو کچھ ہمارے اندر فطری جذبات ہیں ان کو سمجھنے کا علم ہے مثلاً غصہ آئے تو کیا کرنا چاہیے۔ حسد کی صورت میں کیا عمل ہونا چاہیے۔ خوف کی صورت میں کیا کرنا چاہیے اور انسان کے اندر جو نفسیاتی خواہشیں پل رہی ہوتی ہیں ان کو کیسے سدھارنا ہے۔ روحانی سکالر نے ایک دلچسپ پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اصل چیز ہر انسان کے لیے توجہ ہوتی ہے بلکہ توجہ سے بھی اہم چیز ترجیحات اور اس سے بھی اہم چیز آگاہی ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کے بارے میں کتنی واقفیت رکھتے ہیں بلکہ اس سے بھی اہم بات ان تعلیمات تک رسائی ہے جو ہماری ترجیحات کے تعین میں مددگار ثابت ہوں اور ان سب سے اہم چیز اہل علم کا رویہ ہے کیونکہ تمام رسائی ان اہل علم کی رویوں پر منحصر ہے۔
اب گفتگو کافی دلچسپ ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے گفتگو کے دوران روحانی سکالر سے سوال کیا کہ انسان کیا ہے؟ روحانی سکالر نے بڑے مطمئن انداز میں کہا کہ انسان درحقیقت اپنے حالات اور ان حالات میں اس کے لیے گئے فیصلوں کے مجموعے کا حاصل ہے۔ روحانی سکالر نے روح کی تربیت پر توجہ دیتے ہوئے کہا کہ انسان کو اپنی روح کی تعلیم پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
زندگی میں ایسے بے شمار لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جنہوں نے ساری زندگی مادی تعلیم حاصل کرنے پر صرف کر دی لیکن اپنے ذہن پر توجہ نہ دی جہاں پر روح کا بسیرا ہے۔ اسی طرح جو انسان اپنی روح کی دیکھ بھال نہیں کر سکتا وہ کسی بھی دنیاوی معاملے کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔
گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے روحالی سکالر صاحب بولے کہ جتنے بھی علوم اس دنیا میں موجود ہیں ان کو حاصل کرنا اچھی بات ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہماری توجہ روح کی جانب بھی مرکوز رہنی چاہیے۔ ہم اس مادیت پرست دنیا کی تمام آسائشیں حاصل کرنے کے بعد بھی ذہنی سکون اور جسمانی آسائش محسوس نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے ہماری تمام تر توجہ اپنی روح کی تربیت پر ہونی چاہیے۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider