Episode 53 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 53 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

انکل میں ایسا کیوں ہوں……؟
اس کے سٹیج پر آتے ہی ہر طرف سناٹا چھا گیا تھا۔ بین الاقوامی این جی او کے زیر اہتمام اس پنج ستارہ ہوٹل کے کشادہ ہال میں سانس تک کی آواز نہیں آ رہی تھی۔ اس نے بولنا شروع کیا اور بولتا ہی چلا گیا۔ الفاظ پر گرفت ایسی کہ ہر لفظ سیدھا دل تک جاتا تھا۔ آٹھویں جماعت میں وظیفہ حاصل کر کے اب وہ نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔
انگریزی، اردو، پنجابی اور سرائیکی ہر زبان میں اس کی گفتگو کمال تھی۔ آواز بارعب تھی مگر صحت کا اندازرہ فقط اس کے زرد رنگ اور کمزور جسم سے ہی ہوتا تھا۔ اس کے والدین نہیں تھے مگر وہ ہمیشہ ان کو یاد کرتا تھا۔ دوست نہیں تھے کیونکہ سب اسے ”اچھوت“ سمجھتے تھے۔ کمرہ امتحان میں بھی تنہا تھا اور گلی بازار میں بھی اکیلا۔

(جاری ہے)

اس نے کہا کہ اسے ”ایڈز“ ہے۔

کیا میں اس عمر میں کوئی غیر اخلاقی حرکت کر سکتا ہوں؟“ کیا میں کسی خاتون کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کر سکتا ہوں؟ یہ میرا قصور نہیں ہے کہ مجھے ایڈز ہے۔ 
میرے والدین کا ”تحفہ“ ہے۔ میری والدہ HIV کا شکار تھی۔ پھر میرے والد مبتلا ہوئے۔ جب میں پیدا ہوا تو پیدائشی طور پر مجھے ایڈز ہو گیا۔ میں پڑھنا چاہتا ہوں۔ مجھے ڈاکٹر بن کر HIV کا علاج تلاش کرنا ہے۔
تاکہ اس دنیا میں مجھ جیسا بدقسمت بچہ جنم نہ لے جو اپنے والدین کی کم علمی کی سزا بھگتے۔ وہ بچہ یہ سب کہہ کر دوڑتا ہوا نکلا۔ میں نے دوڑ کر اسے روکنا چاہا تو اس نے اپنے اداس چہرے اور پرنم آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے ایک معصوم سا جملہ کہ دیا ”انکل میں ایسا کیوں ہوں؟“ جہاں پورا ہال خاموشی سے بے بسی کی تصویر بنا رہا وہیں میرے نگاہوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔
دنیا بھر میں HIV سے متاثر ہونے والے 75 فیصد افراد میں یہ وائرس جنسی عمل کے ذریعے پھیلا ہے اورا ب تک سوا دو کروڑ لوگ اس موذی مرض سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں 4 کروڑ 20 لاکھ کے قریب بالغ اور بچے ایڈز کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں خواتین اور مردوں کا تناسب تقریباً برابر ہے۔
میں آج تک یہی سوچتا ہوں کہ آخر اس بچے کا قصور کیا تھا؟ ہمارے معاشرے میں آج تک اس بات کو ہی تسلیم نہیں کیا جا سکا کہ ”ایڈز“ بھی کوئی بیماری ہے اور اس سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر بھی موجود ہیں۔
غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے جو تھوڑی بہت معلومات ہم تک پہنچ پائیں وہ ناکافی ہیں۔ مجموعی طور پر ہم پاکستانی HIV کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں رکھتے۔ HIV دراصل ”انسانی قوت مدافعت میں کمی کا وائرس ہے۔ یہ براہ راست انسان کے مدافعتی نظام پر حملہ کرتا ہے اور ایک عرصے کے بعد HIV جسم کو اس حد تک کمزور کر دیتا ہے کہ معمولی بیماری کے خلاف بھی مدافعت کی سکت نہیں رہتی۔
آخرکار متاثرہ شخص میں بیماری کی علامات پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان علامات کے مجموعے کو ”ایڈز“ کہتے ہیں۔
معاشرتی تناظر میں ہم نے HIV یا ایڈز کو محض غیر قانونی و غیر شرعی جسمانی و جنسی تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری ہی سمجھ لیا ہے۔ ایک عام تاثر ہمارے ہاں یہ ہے کہ غیر ازدواجی جنسی تعلقات کے نتیجے میں ایڈز اس فحش عورت سے مرد کو منتقل ہو جاتا ہے۔
یہ سراسر خود فریبی ہے کیونکہ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ایڈز کا سب سے زیادہ شکار ”ٹرک ڈرائیور“ ہیں۔
اسی طرح اگر پاکستان میں ایڈز کے بارے میں حقائق پر مبنی تجزیہ کیا جائے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 80 سے 90 ہزار افراد ایڈز کا شکار ہیں۔ مگر یہ اعداد و شمار حتمی نہیں کیونکہ اکثریت ایسے کیسز کی ہے جو معاشرتی اور سماجی دباؤ کی وجہ سے ڈاکٹرز کے پاس جانا معیوب گردانتے ہیں۔
پاکستان میں زیادہ تعداد ایسے ایڈز سے متاثرہ مریضوں کی ہے جو انجیکشن یا انتقال خون کی وجہ سے اس موذی مرض کا شکار ہوئے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ان میں 28 ہزار بچے ایسے ہیں جو پیدائش کے وقت ہی ایڈز کا شکار تھے کیونکہ ان کی مائیں زچگی کے وقت HIV کی مریضہ تھیں۔
اسی طرح ایڈز کے علاوہ ایک دوسری مہلک بیماری یرقان یا ہیپاٹائٹس ہے۔ پاکستان میں کل آبادی کا 2.4 فیصد سے 6.5 فیصد حصہ ہیپاٹائٹس کا شکار ہے۔
جبکہ بھارت میں یہ شرح محض 0.9 فید ہے صرف گوجرانوالہ میں تقریباً 26 فیصد آبادی کو ہیپا ٹائٹس ہے جبکہ فیصل آباد میں یہ شرح 20 فیصد سے زیادہ ہے۔ یرقان کا علاج اگر بروقت نہ کیا جائے تو نوبت آپریشن تک آ جاتی ہے اور جگر کا آپریشن خاصا مہنگا ہے جو اکثر عوام کی قوت برداشت سے خاصا دور ہے۔
صحن غربت میں قضاء دیر سے مت آیا کر
خرچ تدفین کا لگ جاتا ہے بیماری پر
زیادہ تر استعمال شدہ سرنج کے دوبارہ استعمال اور حجام سے حجامت بنواتے وقت یہ مرض پھیلتا ہے۔
اسی طرح باہمی جنسی تعلقات کے نتیجے میں بھی ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں انتقال خون کے وقت احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جاتیں یہ بھی ہیپا ٹائٹس کے پھیلاؤ کا موجب ہے۔
دل خون کے آنسو روتا ہے جب کسی عوامی فورم یا نجی محفل میں ہمارے صاحب علم اور دانشور جنسی طور پر پھیلنے والی بیماریوں کا ذکر کرتے ہی چپ سادھ لیتے ہیں۔
مزید ظلم یہ کہ اگر کوئی نوجوان یا طالب علم اس موضوع پر بات کرنا چاہے تو اس کا تمسخر اڑایا جاتا ہے اور ایک خالصتاً علمی عمل ہماری معاشرتی منافقت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دانشور کمال ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر جنسی بے راہ روی کے پرچار کا لیبل لگا کر معاشرتی طور پر اس کا مقاطعہ کر دیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ آج تک اس بات کو تسلیم نہیں کر سکا کہ ہمارے اردگرد جنسی بے راہ روی ایک زمانے سے حقیقت بن چکی ہے۔ اسلامی معاشرہ ہونے کی وجہ سے ہم ہر سطح پر ایسے تعلقات کی سختی سے حوصلہ شکنی تو کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی حقائق سے چشم پوشی ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔ HIV اور ہیپا ٹائٹس بلاشبہ جنسی بے راہ روی کی وجہ سے ایک سے دوسرے فرد کو منتقل ہو سکتے ہیں۔
جنسی تعلقات میں احتیاط کے بارے میں عوام الناس کو آگاہی دینا ہر صاحب علم کو اپنا فرض سمجھنا چاہیے۔ اسی طرح سرکاری سطح پر نکاح سے پہلے HIV اور ہیپاٹائٹس کے ٹیسٹ کروانا دولہا اور دلہن کے لیے لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔ تاکہ کوئی بھی معصوم پاکستانی بچہ کل یہ سوال نہ کرے کہ ”انکل! میں ایسا کیوں ہوں؟“

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider