Episode 54 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 54 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

فحش نگاری
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک ارب 80 کروڑ جبکہ پاکستان میں ایک کروڑ لوگوں کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے۔ کچھ عرصہ قبل فوکس نیوز (جو امریکہ کا ایک بہت بڑا نشریاتی ادارہ ہے) نے فحش نگاری (Pornography) پر ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق دنیا میں جس ملک کے شہریوں نے سب سے زیادہ Porn سائیٹس تک رسائی حاصل کی وہ پاکستان ہے۔ مزید اس تحقیقی مقابلے میں گوگل سرچ انجن کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ عریاں فلمیں پاکستانی باشندوں نے دیکھیں۔
بین الاقوامی برادری میں پاکستان کی یہ وجہ شہرت بہت افسوس کن ہے۔ اس سنجیدہ مسئلے کا بغور جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے۔ قارئین ایک بالغ مرد کے اندر ایک ہارمون ہوتا ہے جس کو Testosterone کہتے ہیں۔

(جاری ہے)

جس کے ابھرنے سے انسان کے اندر جنسی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اگر اس ہارمون کو ورزش یا جسمانی مشقت کے ذریعے قابو نہ کیا جائے تو اس کی ہارمون سے پیدا ہونے والی جنسی خواہش کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہے۔

جس کی وجہ سے انسان غیر اخلاقی سرگرمیوں کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔ خواتین میں یہ ہارمون انتہائی کم مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ اس لیے انہیں مردوں کی طرح غصہ اور جنسی اضطراب کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
عریاں اور فحش ویڈیوز دیکھنے کی ایک اور وجہ ہمارے سماج اور معاشرے کی بندشیں ہیں۔ یہاں صرف وہ مرد شادی کر سکتا ہے جو معاشی لحاظ سے خوشحال اور خودمختار ہو، ایک عام انسان 13 سال کی عمر میں بالغ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور 18 سال کی عمر میں مکمل بالغ ہو جاتا ہے۔
لیکن وہ لڑکا رشتہ ازدواج تک منسلک ہوتے ہوتے 30 سال کی عمر تک پہنچ جاتا ہے۔ 30 سال اس طرح کہ 22 سال اس کے تعلیم حاصل کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوراً کو اچھی نوکری نہیں ملتی۔ اچھی نوکری کی تلاش میں 4 سے 5 سال لگ جاتے ہیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے ہوتے وہ 30 سال کی عمر کو چھو جاتا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ Testosterone ہارمون مرد کی تیس سا ل کی عمر تک پہنچنے کے بعد بتدریج ہر سال کم ہوتا چلا جاتا ہے۔
چنانچہ مرد کی جوانی کے بہترین سال ضائع یا پھر بے راہ روی کی نذر ہو جاتے ہیں اس لیے وہ تقریباً 15 سے 16 سال جنسی خواہش پوری نہ ہونے کے باعث احساس محرومی کا شکار ہو جاتا ہے اوران غیر اخلاقی سرگرمیوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
معاشرے کی پھیلتی بے راہ روی کے پیچھے ایک اہم وجہ والدین کا بچوں کی پرورش ذمہ داری نہ لیتے ہوئے انہیں کھلی چھوٹ دے دینا ہے۔
آج کے دور میں بچوں کی موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک آسانی رسائیء ہے۔ والدین یہ توجہ نہیں دیتے کہ ان کے بچے ان چیزوں کا مثبت استعمال کر رہے ہیں یا منفی۔ عدم توجہی کے باعث بچے فحش اور غیر اخلاقی سائیٹس تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور اپنے آپ کو ذہنی اور جسمانی طور پر ضائع کر دیتے ہیں جو ان کی اخلاقی پستی کا سبب بنتا ہے۔
کمپیوٹر کے عام ہونے نے نوجوان نسل اور انٹرنیٹ کے درمیان پل کا کردار ادا کیا ہے کیونکہ پہلے تو ہماری نوجوان نسل انٹرنیٹ کیفے یا منی سینما جاتے تھے جبکہ گھر میں ایک ہی کمپیوٹر ہوتا تھا جس کو سارا خاندان مشترکہ طور پر استعمال کرتا تھا لیکن اب وہ لیپ ٹاپ سے بند کمرے میں انٹرنیٹ کے ذریعے ہر سائیٹ کھول سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ اب پورے ملک میں 3G لایا جا رہا ہے جس سے ہر بڑے چھوٹے شہر اور دیہات میں ہر جگہ انٹرنیٹ موبائل سگنل کی طرح بآسانی میسر ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں جس کے پاس بھی موبائل فون ہو گا وہ ہائی سپیڈ انٹرنیٹ بھی استعمال کرے سکے گا جس سے ہماری 65 فیصد نوجوان نسل جو یہی علاقوں میں آباد ہے ان کی کی بھی انٹرنیٹ تک رسائی ممکن ہو جائے گی۔
اسی طرح ہمارے نوجوانوں کا کھیلوں سے دور ہونے کی ایک اہم وجہ ہمارے ملک کا موسم بھی ہے کیونکہ ہمارے موسم میں شدت ہے۔ اگر سردی کا موسم ہے تو شدید سردی پڑے گی اگر گرمی ہے تو شدید گرمی پڑے گی حبس اور لو ہمارے موسم گرما کا حصہ ہیں۔ ایسے موسم میں دیگر ممالک کی طرح ان ڈور کھیلوں کا انعقاد واحد حل ہے جہاں سردیوں میں ہیٹر اور گرمیوں میں ائیرکنڈیشنڈ سپورٹ حال میں موجود ہوں۔
پر افسوس ہمارے ملک میں ایسے سپورٹس کمپلیکس نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر کہیں ہیں بھی تو بجلی کی بندش اور جنریٹر کی عدم دستیابی کی وجہ سے ناقابل استعمال ہیں نتیجتاً ہمارے نوجوان اپنے لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ تک محدود ہوکر رہے گئے ہیں اور وہ اپنی بوریت کا سدباب فحش ویڈیو اور ویب سائٹس سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو کھیل کود اور آرٹ، ثقافت اور دوسری مثبت سرگرمیاں محدود ہوتی جا رہی ہیں ان کی طرف توجہ دینا ہے۔
نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں کی طرف لانا ہو گا۔ ابھی پنجاب حکومت کا یوتھ فیسٹول کا انعقاد ایک اچھا اقدام ہے نوجوانوں کی بہتری کے یے سارا سال مختلف کھیلوں کی سرگرمیاں جاری رہنا چاہیے۔ پورے ملک کی تمام تعلیمی درسگاہوں میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بھی نصاب کا لازمی حصہ ہونا چاہئیں تاکہ نوجوان جسمانی اور ذہنی طور پر صحتمند اور پُرسکون رہ سکے۔
دینی پیرائے میں دیکھا جائے تو ہمارے مذہب میں ہے کہ جب لڑکا یا لڑکی بالغ ہو تو ان کی شادی کر دینی چاہیے۔ خاندان اور معاشرے کو بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی اور اس فرسودہ سماجی بندش (کہ مرد جب اپنے پاؤں پر کھڑا ہو تب وہ نکاح کر سکتا ہے) کو ختم ہونا چاہیے۔ نوجوانوں کی جو شادی 30 سال کی عمر میں جا کر ہوتی ہے وہ 20 سے 22 سال کی عمر میں ہو جانی چاہیے تاکہ نوجوان غیر اخلاقی ویڈیوز دیکھنے کی طرف نہ مائل ہو۔
اس معاملے پر والدین کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ بچوں کے پاس موجود موبائل، لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ کی سہولیات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں وہ ان سہولیات کا منفی استعمال تو نہیں کر رہے۔
قارئین یہ چند پہلو ہیں اگر ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو نوجوان نسل کو جنسی بے راہ روی اور اخلاقی گراوٹ سے بچایا جا سکتا ہے۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider